خالق کائنات نے اپنی ہر مخلوق کو جہاں اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے اظہار کا جذبہ دیا ہے، وہاں اسے اپنی ذات کے تحفظ کا شعور بھی بخشا ہے۔ پہلی چیز اسے عمل پر ابھارتی ہے، وہ اقدام کرتا ہے، آگے بڑھتا ہے اور اس طرح اس منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے جو نظام فطرت نے اس کے لیے متعین کر رکھی ہے۔ دوسری چیز اسے روکتی ہے، وہ گریز کرتا ہے، توقف اور تامل سے کام لیتا ہے اور یہ چیز اسے حادثوں سے بچاتی اور نقصان اور خطروں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح وہ صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھتا ہے۔
اگر ہم اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات پر نگاہ ڈالیں تو ستارے اور سیارے ایک متعین نظام میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فطرت نے انھیں ایک سفر پر روانہ کر دیا ہے۔ وہ اپنی منزل کی طرف بھاگے چلے جارہے ہیں۔ بظاہر، یہ بے روک ٹوک محو سفر ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ بگٹٹ نہیں ہیں۔ ایک مخفی ہاتھ ہے جو ان کو بے راہ ہونے سے روکے ہوئے ہے اور انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ کائنات کے اس نظام میں کوئی خرابی یا اس کا رواں کے سفر میں کوئی رکاوٹ کھڑی کریں۔ اس حقیقت کو اس طرح بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں فطرت کی دی ہوئی رہنمائی سے سرموانحراف نہیں کرتیں۔ جو کام اور جو طریقہ ان کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے، وہ اس پر بے چون وچرا عمل پیرا ہیں۔ چنانچہ، یہی تعبیر قرآن مجید نے اختیار کی ہے۔ اس کے نزدیک، سورج کی معین مدار پر گردش خداے علیم و عزیز کی منصوبہ بندی ہے۔ چاند اسی کی ٹھہرائی ہوئی منزلیں طے کرتا ہے کہ ایک وقت پر کھجور کی سوکھی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، سورج اور چاند پوری طرح اپنی راہ سفر اور اوقات کار کے پابند ہیں۔ سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو پا لے اور نہ رات کے لیے ممکن ہے کہ وہ دن پر سبقت لے جائے۔غرض یہ کہ ہر شے کے لیے ایک الگ دائرۂ کار ہے جس میں وہ اپنا کام انجام دے رہی ہے۔ (یٰسین ۳۶: ۳۸۔۴۰) سمندر میں کھارے اور میٹھے پانی کے دریابہتے ہیں۔ یہ دونوں دریا ساتھ ساتھ،ملتے ہوئے چلتے ہیں، لیکن ان کا پانی آپس میں مل نہیں سکتا۔قرآن مجید کے الفاظ میں ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے اور یہ اس پردے کو نہیں پھاڑتے۔ (الرحمن ۵۵: ۱۹۔۲۰)
ہمارے ماحول میں موجود جان دار بھی اپنے عمل سے یہی بات ظاہر کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ درندے، پرندے، چوپائے اور خشکی اور تری کے دوسرے جانور، کس طرح اپنی زندگیاں ایک مخصوص طریقے پر بسر کرتے ہیں۔ ہر نوع اپنی جبلت کی رہنمائی کے تحت پروان چڑھتی اور اس سے کبھی انحراف نہیں کرتی۔ہم انسان بھی اپنی فطرت میں ذات کی حفاظت اور ظہور و اقدام کے دونوں جذبے رکھتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ آسمان کے ستارے اور سیارے ہوں یا دوسرے جان دار، وہ ترک و اختیار کی صلاحیت نہیں رکھتے،جبکہ انسان اس کے باوجود کہ اپنے خیر اور اپنے شراور اپنے نیک وبد اور اپنے نفع وضرر سے خوب خوب واقف ہے، چاہتا ہے تو خیر اختیار کرتا ہے اورچاہتا ہے توشر اپنا لیتا ہے۔ اس کی مرضی پر ہے کہ وہ نیک بنے اور اس کی مرضی پر ہے کہ وہ بدی کی راہ چلے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے ساتھ ایک ہی معاملہ کیا ہے، انھیں پیدا کیا، انھیں سجایا اور سنوارا، ان کے لیے زندگی بسر کرنے کی راہ متعین کی اور پھر اس کی ہدایت بھی بخشی۔ (الاعلیٰ ۸۷: ۱۔۳) جن کو ترک و اختیار کی صلاحیت حاصل نہیں، وہ اپنے پروردگار کی ہدایت پر بے چون و چرا عمل پیرا ہیں اور انسان کے لیے ان میں مثال ہے کہ وہ بھی اپنے پروردگار کی رہنمائی سے سرمو انحراف نہ کرے۔ جب سورج اور چاند ایک حساب اور ایک قاعدے پر گردش کر رہے ہیں، شجر و حجر اپنے پروردگار کے حضور سر بسجود ہیں، آسمان اسی کی ٹھہرائی ہوئی بلندی پر قائم ہے اور ایک اعتدال اور ایک توازن ہر جگہ موجود ہے تو پھر انسان کے لیے بھی موزوں یہی ہے کہ وہ اس نظام کے ساز سے اپنی فطرت کے ساز کو ہم آہنگ کر لے اور اس میں کجی اور ٹیڑھ پیدا نہ کرے۔ (الرحمن ۵۵ :۵۔۸)
یہ سورج اور چاند کی قاعدے پر حرکت، شجر وحجر کا خدا کے حضور سجدہ و نیاز، یہ جانداروں کا اپنی جبلت پر ٹھیک ٹھیک عمل، یہ، درحقیقت اپنے راستے پر نقصان اور بدی سے اپنا تحفظ کرتے ہوئے چلنا ہے۔ یہ ان کا تقویٰ ہے اور اگر انسان اپنی فطرت میں موجود خدا کی عطا کی ہوئی رہنمائی اور پھر خدا کے پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت پر چلتا ہے تو یہ اس کا تقویٰ ہے۔ خدا کی دی ہوئی فطرت اور اس کی دی ہوئی ہدایت، یعنی شریعت الٰہی کوئی متضاد چیزیں نہیں ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ شریعت کوئی ایسا تقاضا نہیں کرتی، جو انسانی فطرت کے موافق نہ ہو اور نہ کسی ایسی چیز کے صالح اظہار سے روکتی ہے، جس کا رجحان، جذبہ اور داعیہ انسانی فطرت میں موجود ہے۔
دوسری مخلوقات، جس جذبۂ تحفظ کے ساتھ راہ صواب سے نہیں ہٹ پاتیں، اس کا تعلق جسم وجان سے ہے، لیکن انسان کا جذبۂ تحفظ صرف اس کے جسم وجان ہی سے متعلق نہیں ہے۔ ان کا تحفظ تو وہ ہر حال میں کرتا ہے۔ اس سے آگے، اس کے اس جذبے کا تعلق، اس کی اپنی شخصیت کے تحفظ سے بھی ہے۔ اور اس کا مسئلہ صرف دنیوی زندگی میں نقصان اور برائی سے بچنا نہیں، بلکہ آخرت کی ناکامی کا خطرہ اس سے بھی بڑا ہے، جس سے اسے اپنا تحفظ کرنا ہے۔ شریعت یا دین میں، درحقیقت، اسی کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ جذبۂ تحفظ یا تقویٰ اپنا ایک متعین ہدف رکھتا ہے۔ اور وہ ہدف، خدا کی گرفت سے تحفظ اور آخرت کی ناکامی و نامرادی سے بچنے کا ہدف ہے۔ یہ ایک روش ہے، جسے انسان کواپنانا چاہیے۔ اور یہ دل کی وہ حالت ہے، جو بندۂ مومن سے مطلوب ہے۔
قرآن مجیدمیں لفظ’تقویٰ‘اپنی مختلف صورتوں میں، بیسوں جگہ پر استعمال ہوا ہے۔ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ چار معانی کا حامل ہے۔اردو میں ہم یہ معانی بچاؤ،ڈر،خوف خدا اور پرہیز گاری کے الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے آخری مفہوم پہلے تین مفاہیم کا جامع ہے۔ یعنی جب گنا ہوں سے بچنا، آخرت کے عذاب سے ڈرنا، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف تقویٰ کے مفہوم میں جمع ہو جاتے ہیں، تو وہ جامع مفہوم وجود میں آتا ہے، جس کے لیے ہم نے پرہیز گاری کی تعبیر اختیار کی ہے اور یہ تقویٰ کے اس تصور کی اساس ہے، جو ہمارے دین میں مطلوب ہے۔
قران مجید نے تقویٰ کے لیے کوئی الگ اوراد و وظائف بیان نہیں کیے، بلکہ دین پر اس کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے عمل کرنا ہی اس کے نزدیک تقویٰ ہے۔مثال کے طور پر حج،ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔عبادت اور رجو ع الی اللہ کا پہلو، اس میں بہت نمایاں ہے۔ اس کا حکم قرآن مجید میں بیان ہوا تو ہدایت فرمائی کہ جب حج کے مہینوں میں حج کا ارادہ کر لو تو شہوت کی باتوں سے گریز کرو،فسق و فجور اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہو، نیکی کے کام کرو تو اللہ ان سے باخبر ہے، اسی کو زاد راہ بناؤ، اس لیے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ (البقرہ ۲:۱۹۷) گویا، حج ادا کرتے ہوئے اپنے نفس کو شہوات سے، زبان کو گالی اور بدگوئی سے، ہاتھ پاؤں کو جنگ و جدال سے بچانا اور بھلائی کے کاموں میں لگے رہنا ہی وہ طرز عمل ہے، جسے قرآن مجید یہاں تقویٰ قراردیتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دیتا ہے کہ اگر کوئی حاجی سفر میں اور دوران حج میں فریضہ ادا کرتے ہوئے، اپنے ساتھ یہ سامان سفر نہیں رکھتا تو بہت ممکن ہے کہ وہ کسی موقع پر اپنے سارے عمل ہی کو غارت کر بیٹھے۔
عدل، ایک اسلامی قدر ہے۔ بندۂ مومن سے ہر آن اور ہر معاملے میں، یہی مطلوب ہے کہ وہ عدل کا دامن تھامے رکھے۔ یہاں تک کہ دشمن کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی اسے راہ عدل سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اس سطح پرعدل کی پاس داری بھی تقویٰ ہے۔ چنانچہ، دیکھیے، قرآن مجید میں عدل کا یہ معیار اور اس پر عمل ’اقرب للتقویٰ‘ (المائدہ ۵:۸) قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق و فرائض، حلال و حرام اور معیشت و معاشرت میں واضح حدود متعین کی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کو ’عدوان‘ یعنی سرکشی قرار دیا اور ان کی پاس داری اور زندگی کے شب و روز میں، خوف خدا کے ساتھ، معاملات انجام دینے کو تقویٰ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بات اس آیت میں بہت صراحت سے بیان ہوئی ہے، جس میں عدوان اور تقویٰ کے الفاظ تقابل کے اسلوب میں آئے ہیں:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.(المائدہ ۵ :۲)
’’اور تم نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو اور گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرو۔‘‘
یہی بات مسجد ضرار کے ساتھ مسجد نبوی کے تقابل سے واضح ہوتی ہے۔مدینہ میں کچھ لوگوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے، کفرکو تقویت دینے، اہل ایمان کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ان لوگوں کو ایک اڈا فراہم کرنے کی غرض سے ایک مسجدبنائی جو دین کے خلاف برسر پیکار ہو گئے تھے۔جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی تو یہ لوگ وضاحتیں پیش کرنے لگے کہ ہم بھلائی ہی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی اس حیثیت کو واضح کرتے ہوئے حضور کو اس میں نماز پڑھانے سے منع کر دیا اور کہا کہ وہ مسجد جس کی بنیاد اول روز ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، اسی کا حق ہے کہ تم اس میں نماز کے لیے قیام کرو۔ (التوبہ ۹ :۱۰۷۔۱۰۸)گویا، دین کے ساتھ وابستگی میں خلوص، اہل دین کے ساتھ خیرخواہی اور دین کے فروغ و استحکام کا جذبہ، یہ سب تقویٰ کے مظاہر ہیں۔
حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ نے، صرف اپنی جاہلانہ حمیت کے باعث،مسلمانوں کوکعبہ میں حاضری کے لیے راستہ نہ دیا اور بہت ہی توہین آمیز اور اشتعال انگیز رویہ اختیارکیا۔اس وقت مسلمان ایک مضبوط گروہ کی حیثیت رکھتے تھے۔اگر وہ جواب دینا چاہتے تو انھیں اس کی پوری قوت حاصل تھی، لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت، اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور دین کے ساتھ اپنی وابستگی پر قائم رہے اور اس کا اظہار’ میں راضی ہوں اللہ تعالیٰ کی آقائی سے،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت اور ایک دین کی حیثیت میں اسلام سے‘ کے خوب صورت الفاظ میں کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس اظہار ایمان و اعتماد کو قرآن مجید میں کلمۂ تقویٰ سے تعبیر کیا ہے ۔ (فتح ۴۸ :۳۶)
سورۂ بقرہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہود کے جرائم بیان ہوئے ہیں۔ان میں ہاروت و ماروت کے آنے اور اس ضمن میں یہود کی فتنہ پسندی اور ایسے اعمال سیکھنے کی طرف رغبت کا ذکر ہوا ہے، جن کے ذریعے سے وہ خاندانوں میں منافرت ڈال سکیں یا اس طرح کے دوسرے منفی فوائد حاصل کر سکتے ہوں۔ا س سلسلۂ بیان کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے:
وَلَوْ أَنَّہُمْ آمَنُوْا واتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہ خَیْْرٌ. (البقرہ۲ :۱۰۳)
’’ اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کا ثواب ان کے لیے کہیں بہتر تھا۔‘‘
یہاں تقویٰ ان سفلی اعمال سے گریز کے لیے آیا ہے،جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔قرآن مجید میں،عام طو پر،ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر ہوتاہے، لیکن اس آیت میں ایمان کے ساتھ تقویٰ کا ذکر ہوا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ اختیار کرنا یا تقویٰ کی روش اپنانا، ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں۔
قرآن مجید، حدود الٰہی کے قائم رکھنے اور ان پر قائم رہنے کے لیے، اسلامی سزاؤں کا نفاذ ضروری قرار دیتا ہے۔ مطلب یہ کہ یہ سزائیں صرف امن وامان کے قیام اور عدل و انصاف کے نفاذ ہی کا ذریعہ نہیں، بلکہ ان سے افراد کے تزکیہ اور تربیت میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن مجید نے قصاص کا قانون بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ، جہاں یہ فرمایا کہ قصاص کے ذریعے سے تم اجتماعی زندگی کے تحفظ کا سامان کرو گے، وہاں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اس قانون کے نفاذ کا یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ تم حدود الٰہی کی پاس داری، یعنی تقویٰ کی روش پر چلنے والے بن جاؤ۔ (البقرہ ۲: ۱۷۹)
روزہ، ایک اہم عبادت ہے۔یہ انسان کی تربیت کرتا ہے کہ وہ اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو پانا سیکھ لے۔ اور یہی تربیت، اسے زندگی کے مختلف مراحل میں، حدود الٰہی کی حفاظت اور اللہ کی شریعت پر عمل کرنے میں، مدد دے سکے۔ قرآن مجید میں روزے کا یہی مقصد ’لعلکم تتقون‘ ’تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ (البقرہ ۲: ۱۸۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اقتدار حاصل ہو گیا توانھیں کفار مکہ کی زیادتیوں کا جواب برابر کی سطح پر دینے کی ہدایت کی گئی۔لیکن اس میں یہ شرط بھی رکھ دی کہ وہ تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔(البقرہ ۲ :۱۹۴)یہ بات واضح ہے کہ بدلہ لینے میں تقویٰ سے مراد اس کے سوا او ر کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے حق سے تجاوز نہ کیا جائے اور کارروائی اسی حد تک محدود رہے، جس حد تک، فریق مخالف کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے۔
سورۂ مائدہ میں حکم دیا گیا ہے کہ ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ، جو خدا نے تمھارے لیے جائز کی ہیں اور نہ اس کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرو، اس لیے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ حلال و طیب چیزوں کو برتو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کا تقویٰ اختیار کرو، جس پر تمھاراایمان ہے۔ (۵: ۷۔۸۸) ان آیات سے، واضح طور پر، شریعت کے حلال اور حرام اور ممنوع اور جائز امور میں شریعت کی پوری پوری اتباع، تقویٰ قرار پاتی ہے۔ یہی حقیقت، ان آیات سے بھی سامنے آتی ہے، جن میں طلاق کا قانون اور مطلقہ کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بھی اس قانون پر عمل اور مطلوبہ حقوق پورے پورے ادا کرنے کے لیے، تقویٰ ہی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے ان چند مقامات کے مطالعے سے یہ بات ایک متعین حقیقت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے کہ اپنی زندگی خدا اور رسول کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق بسر کرنا،دین کے احکام پر عمل کرنے میں پورے آداب کا خیال رکھنا، معیشت و معاشرت میں شریعت کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرنا اور دین سے خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ وابستہ رہنا، غرض یہ کہ تمام تقاضوں کے ساتھ مسلمان بن جانا، اسی کا نام تقویٰ ہے۔
اس سے پہلے، ہمارے پیش نظر قرآن مجید کے وہ مقامات رہے، جن میں دین و شریعت کے مختلف احکام بیان کرتے ہوئے، صفت تقویٰ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ آیندہ سطور میں ہم ان آیات کو بنیاد بنائیں گے، جن میں اہل تقویٰ کی صفات بیان ہوئی ہیں، تاکہ قرآن مجید کا مدعا پوری طرح واضح ہو جائے۔
سورۂ بقرہ میں یہودیوں کے ایک رجحان کاذکر کرتے ہوئے جو، سرتاسر، ظاہر پرستی پر مبنی تھا،سچی خداپرستی،حقیقی نیکی اور وفاکیشی کی وضاحت کی گئی ہے۔یہود یہ سمجھتے تھے کہ عبادت میں کسی خاص رخ یا سمت کو اختیار کرنا بڑی اہمیت کی چیز ہے۔یہاں تک کہ دین،انبیا اور پروردگار کے ساتھ بندے کی تمام تر وفاداری اسی پر منحصر ہے۔ قرآن مجیدنے واضح کیا کہ مشرق یا مغرب کی سمتوں میں دین داری نہیں۔ خدا کے مخلص بندے تو وہ ہیں جو اللہ پر حقیقی ایمان کی نعمت سے مالا مال، آخرت میں سچا یقین رکھتے اور فرشتوں، کتابوں اور نبیوں کو صدق دل سے مانتے ہیں۔ انھیں بھی مال و دولت اگرچہ عزیز تو ہوتی ہے، مگر یہ لوگ، اس کے باوجود، اپنے عزیزوں یا رشتے داروں، یتیموں، بے آسرا لوگوں، مسافروں او رسائلوں کی مدد کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ قرآن مجید کے نزدیک، اس معاملے میں، وہ لوگ خاص مقام رکھتے ہیں جو مالی مشکلات، جسمانی تکالیف اور جنگ و جدال جیسی صورتوں میں دین پر استقامت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ یہ عقائد و اعمال، یہ سیرت و کردار اور یہ عزم و استقامت، وہ اعلیٰ محاسن ہیں، جن سے ایک بندۂ مومن کی تصویر کے خد وخال نمایاں ہوتے ہیں۔ (البقرہ ۲ :۱۷۷)
سورۂ آل عمران میں، اہل تقویٰ کی چند دوسری خصوصیات بیان ہوئی ہیں ۔اوپر سورۂ بقرہ کے پیش نظر حصے میں اہل تقویٰ کے وہ محاسن بیان ہوئے جو ذاتی زندگی سے متعلق ہیں۔جبکہ سورۂ آل عمران میں ان خوبیوں کا ذکر ہوا ہے، جو معاشرے کے ساتھ بندۂ مومن کے دینی تعلق کے حوالے سے سامنے آتی ہیں۔مطلب یہ کہ اہل تقویٰ نہ صرف یہ کہ اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ وہ اپنے ماحول میں بھلائی کے کاموں کی ہدایت دیتے، برے اعمال سے روکتے اور اچھے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ (۳: ۱۱۴۔۱۱۵) اسی سورہ میں اہل ایمان سے فرمایا: اپنے رب کی بخشش اور وہ جنت پانے کی کوشش کرو، جس کی وسعت اس زمین اور ان آسمانوں کے برابر ہے اور جو صرف اہل تقویٰ کو حاصل ہو گی، وہ اہل تقویٰ جو اچھے اور برے، ہر طرح کے حالات میں، خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے، اپنے غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں۔ (۳: ۱۳۳۔۱۳۴) سورۂ قصص میں فرمایا: آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے ہے، جو زمین میں تکبر اور فساد کے چاہنے والے نہیں ہیں۔ اور یہ اہل تقویٰ کا انجام ہے۔ (۲۸: ۳۸) سورۂ ذاریات میں فرمایا: جنت کے باغ اور چشمے اہل تقویٰ کے لیے ہیں۔ یہ ان میں اپنے رب کی بخششوں سے لطف اندوز ہوں گے، اس لیے کہ یہ خوب کار تھے، راتوں کوکم ہی سوتے، صبح دم استغفار کرنے والے اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق متعین تھا۔ (۵۱: ۱۵۔۱۹)
دیکھ لیجیے، یہاں بھی وہی دین اور اسی کے مختلف پہلو ہیں جن پر عمل اور جس کے تقاضے، کماحقہ، پورے کرنے والے، قرآن مجید کے نزدیک اہل تقویٰ ہیں۔ کچھ خاص ورد اور وظیفے، رہن سہن میں ایک طرح کی مسکینی و بے چارگی، لباس میں بے توجہی اور طعام میں بے رغبتی یا پھر تجرد اور گوشہ نشینی کی زندگی، ان میں سے کوئی چیز بھی یہاں بیان نہیں ہوئی۔ گویا، یہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے دین اور تصور تقویٰ میں کسی درجے میں بھی مطلوب نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر بڑی خوبی کے ساتھ اس کی وضاحت فرمائی کہ دین پر عمل کرنے میں صحیح رویہ کیا ہے اور دینی زندگی کس طرز عمل کا نام ہے۔ہمارے دین میں کچھ چیزیں حرام اور کچھ چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں۔باقی کے معاملے میں صراحت کا طریقہ اختیار نہیں کیاگیا۔چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی متعین ہے اور ان کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں،جن کے بارے میں ہر آدمی یقین کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا۔لہٰذا، جس کے بارے میں شبہ ہو کہ یہ چیز حرام ہو سکتی ہے، اس سے بچو۔ یہ طریقہ اختیار کرنے والااپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیتا ہے اور شبہات کا ارتکاب کرنے والاایک لحاظ سے حرام کامرتکب ہو جاتا ہے، اس لیے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کی چراگاہ کے کنارے کنارے اپنے گلے کوچرانے لگے۔ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اس کا گلہ دوسرے کی چراگاہ کی حد میں داخل ہو جائے گا۔ یاد رکھو، ہر بادشاہ کی ایک اپنی چراگاہ ہوتی ہے، یاد رکھو، اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔ (مسلم، کتاب المساقاۃ) چراگاہ کی اس تمثیل سے آپ نے وہ حد متعین کر دی، جو ہمارے دین میں مطلوب ہے اور جسے قرآن مجید نے تقویٰ کے لفظ میں بیان کیا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک صاحب تقویٰ صرف محرمات ہی سے نہیں بچتا، وہ ان چیزوں سے بھی گریز کرتا ہے جو، اگرچہ، بصراحت تو ممنوع قرار نہیں دی گئیں، لیکن اسے ان پر عمل کرناٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
ایک صحابی، وابصہ بن معبدان رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ نیکی اور گناہ کی حقیقت کیا ہے؟آپ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:اپنے دل سے پوچھو، اپنے نفس سے سوال کرواور آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔پھر فرمایا:نیکی وہ ہے جس پر تمھارے دل کو اطمینان اور تمھارے نفس کو طمانیت حاصل ہو۔اور گناہ وہ ہے جس پر تمھارے نفس میں خلش اور سینے میں الجھن محسوس ہو، اگرچہ لوگوں نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا ہو۔آپ نے اپنی اس گفتگو میں بھی اسی حقیقت کو واضح کیاہے، جواوپر والی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔چنانچہ،حضور کے ایک دوسرے ارشاد کے مطابق، دراصل،سچائی طمانیت بخشتی اور جھوٹ تردد میں ڈالتا ہے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامہ) اس وجہ سے، ایک بندۂ مومن، اس باب میں، اس قدر حساس ہو جاتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے، جن میں، بظاہر، کوئی حرج نظر نہیں آتا، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس چیز کا ارتکاب کہیں اسے معصیت کی طرف نہ لے جائے۔
غایت احتیاط کے تقاضے اوروسوسوں کا شکار ہونا دو مختلف رویے ہیں۔ احتیاط کا دامن، اس توازن کے ساتھ تھامنا چاہیے کہ آدمی رہبانیت کی راہ نہ اختیار کر لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا کہ مجھے بعض کھانے الجھن میں ڈالتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نصاریٰ کے کھانوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔ (ترمذی، کتاب السیر) بہر حال، آپ نے جواب میں فرمایا: تمھارے دل میں اس طرح کا کوئی خلجان نہیں ہونا چاہیے، جس کی نصرانیت (رہبانیت) کے ساتھ مشابہت ہو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمہ) وہ متوازن راستہ جس پر ایک صاحب تقویٰ کو چلنا چاہیے، وہ یہی ہے کہ وہ معصیت سے بچے اور اس طرح بچے کہ ان چیزوں کو بھی چھوڑ دے، جن کے بارے میں اس کا گمان ہو کہ انھیں اختیار کرنا غلط ہو گا۔ لیکن وسوسوں اور وہموں سے بھی بچے، اس لیے کہ احتیاط کے ساتھ جب وسوسہ مل جاتا ہے تورہبانیت وجود میں آجاتی ہے۔ جس طرح دین میں یہ پسندیدہ نہیں کہ آدمی حدود الٰہی کے معاملے میں غیر محتاط ہو، اسی طرح یہ بھی مطلوب نہیں کہ وہ راہبانہ رنگ اختیار کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غایت احتیاط کی تعلیم دی ہے، وہاں اس بات کی بھی پوری طرح تردید کی ہے کہ آدمی زندگی کے تقاضوں سے گریزاں ہو۔ایک صحابی، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے آپ سے خصی ہونے کی اجازت چاہی۔آپ نے بہت سخت جواب دیا۔فرمایا:وہ ہم میں سے نہیں جس نے خصی کیایا خصی ہوا۔میری امت میں اس کی جگہ پر روزے ہیں۔اس پر انھوں نے سیاحت، یعنی اللہ کی طلب میں نکل جانے کی اجازت طلب کی۔آپ نے فرمایا: میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔انھوں نے ترک دنیا کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ مسجد میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنا، میری امت کے لیے ترک دنیا ہے۔ (مسند احمد ۲/ ۱۷۳) دیکھ لیجیے، آپ نے کس خوبی کے ساتھ دین کا یہ پہلو نمایاں کیا ہے کہ قرآن وسنت میں دیے گئے احکام اورانھی کے تقاضے پورے کرنے سے نیکی اور تقویٰ کا وہ معیار حاصل ہو جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ایک دفعہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ تم دن میں روزے رکھتے اور رات کو قیام کرتے ہو۔انھوں نے کہا کہ حضور معاملہ یہی ہے۔ آپ نے فرمایا: یوں نہ کرو۔ کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو۔ رات کو نماز تہجد پڑھو، لیکن سوؤ بھی، اس لیے کہ تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم) اس طرح، آپ نے اس رویے کی تردید کی کہ کوئی مسلمان زہد وعبادت کی طرف اس طرح راغب ہو جائے کہ اس کے نتیجے میں عام زندگی کے تقاضے مجروح ہو جائیں۔
بعض لوگوں کے نزدیک، یہ بات تقویٰ کے منافی ہے کہ وہ رخصت کے طریقے پر عمل کریں یا مباحات سے فائدہ اٹھائیں۔مشکل راستہ اختیار کرنا ہی ان کی رائے میں شان تقویٰ کا تقاضا ہوتا ہے۔ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا،لیکن بعد میں لوگوں کو اس میں رخصت دے دی۔بعض لوگوں نے اس بات سے گریز کیا کہ وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے خطاب فرمایا۔ حمد وثنا کے بعد کہا: بعض لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس کام سے احتراز کرتے ہیں، جیسے میں کرتا ہوں۔ بخدا، میں ان سے زیادہ خدا کو جانتا اور ان سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الادب) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، بالعموم، یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے: اپنے اوپر سختی مت کرو کہ اللہ بھی تم پر سختی کرنے لگے۔ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی۔ یہ انھی کی یادگار یں ہیں، جو کلیساؤں اورگرجوں میں موجود ہیں۔ اس پر آپ نے یہ آیت بھی پڑھی: ’ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم‘ (الحدید۵۷: ۲۷) ’’یہ رہبانیت ان کی خود ساختہ ہے۔ ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا تھا۔‘‘ اصل میں، نہ مباحات سے فائدہ اٹھانے میں اور نہ رخصتوں پر عمل کرنے میں بے پروائی ہونی چاہیے، اور نہ یہ صورت پیدا ہو جانی چاہیے کہ آدمی مباحات سے احتراز کرنے لگے اور رخصت پر عمل کرنے کو معمولی سمجھنے لگے۔ پہلی چیز آدمی کو اس خطرے سے دوچار کر دیتی ہے کہ وہ معصیت میں مبتلا ہو اور اس سے گناہ کا ارتکاب ہو جائے۔ اور دوسری چیز، درحقیقت، دین کے ساتھ زور آزمائی ہے اور اس کا نتیجہ صرف یہی نکل سکتا ہے کہ آدمی پچھڑ جائے اور اس کی کمر ٹوٹ جائے۔ ازواج مطہرات علیھن السلام کے پاس کچھ لوگ، آپ کی عبادت کا حال پوچھنے کے لیے آئے۔ جب انھیں بتایا گیا تو ان کا تاثر کچھ ایسا تھا کہ گویا حضور کچھ زیادہ عبادت نہیں کرتے۔ اور پھر یہ خیال ظاہر کیا کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقابلہ، ان کے تو اگلے اور پچھلے تمام گنا ہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ ایک نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ میں آیندہ رات بھر عبادت کیا کروں گا۔ دوسرا بولا: میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کروں گااور کبھی کسی خاتون کو بیاہ کر نہ لاؤں گا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تم لوگ ہو جو اس طرح کے ارادے باندھ رہے تھے۔ بخدا، میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اورتم سے زیادہ اس کا متقی بندہ ہوں۔ لیکن، روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا؛(رات کو)نماز پڑھتا ہوں،لیکن سوتا بھی ہوں؛اور شادی بھی کرتا ہوں تو جس نے میرا طریقہ چھوڑاوہ میری امت میں شامل نہیں۔(بخاری، کتاب النکاح) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اسی طرح آپ سے بنی اسرائیل کے دو لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا۔ ان میں سے ایک عالم دین تھا۔ فرض نماز پڑھتا، وعظ و ارشاد کے لیے بیٹھ جاتا اور لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا تھا اور دوسرا دن میں روزے رکھتا اوررات کو نماز پڑھتا تھا،آپ بتایے کہ ان میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: جس طرح تمھارے کسی ادنیٰ آدمی پر مجھے فضیلت حاصل ہے، وہی فضیلت اس آدمی کو جو فرض نماز پڑھ کر بھلائی کی تعلیم دیتا ہے، دوسرے پر حاصل ہے۔ آپ نے ہر موقع پر یہی حقیقت بیان کی کہ دینی زندگی یا دوسرے الفاظ میں تقویٰ کا تقاضا اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی دینی اور دنیوی ذمہ داریاں ایک توازن کے ساتھ ادا کرلے۔ کبھی آپ نے انفرادی اور معاشرتی حقوق و فرائض کی نشان دہی کی اور عبادت کے ساتھ ان کی پاس داری کو بھی ضروری قرار دیا اور کبھی دوسری دینی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کر کے ان کی اہمیت کو واضح کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رات کی ایک گھڑی میں علم کا مذاکرہ تمام رات کی عبادت سے بہتر ہے۔ (سنن دارمی، مقدمہ) اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ دو ٹولیاں جمی ہوئی تھیں۔ آپ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں، لیکن ایک دوسری سے افضل ہے۔ یہ عبادت میں مصروف ہیں، اپنے پروردگار کو یاد کرتے، اس کی طلب میں لگے ہوئے ہیں اور یہ دوسرے دین کا علم سیکھنے میں مصروف ہیں اور انھیں جو اس سے واقف نہیں،
سکھا رہے ہیں۔ آپ نے انھیں افضل قرار دیا۔ یہ کہہ کروہیں بیٹھ گئے کہ میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (دارمی، مقدمہ) مطلب یہ کہ دینی زندگی صرف زہد و عبادت ہی کا نام نہیں، دین سیکھنے اور سکھانے کا کام، اس سے زیادہ افضل اور وقیع ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی عبادت اور ذکر الٰہی میں سرگرمی اور دوسرے شخص کے حرام سے اجتناب اور مشتبہات سے گریز کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا: پرہیزگاری سے تقابل نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامہ) گویا، حضور کے نزدیک، زندگی کے شب و روز میں حرام و حلال میں امتیاز اور احتیاط کو عبادت میں اشتغال سے زیادہ اہمیت حاصل ہے (ترمذی، کتاب صفۃ القیامہ)۔ ایک شخص نے آپ کے سامنے بیان کیا کہ ایک بی بی بہت عبادت گزار ہے۔ اس کے روزے، نماز اور خیرات کی بڑی دھوم ہے، لیکن وہ پڑوسیوں کے ساتھ بدزبانی کرتی ہے۔ حضور نے فرمایا: جہنم میں پڑے گی۔ اس نے کہا: حضور، فلاں نماز، روزے اور صدقات میں تو کم ہے، لیکن ہمسایوں کے ساتھ بد زبانی نہیں کرتی۔ آپ نے فرمایا: جنت میں داخل ہو گی۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامہ) غرض یہ کہ اخلاق حسنہ کو، خدا کے ہاں، اتنی اہمیت حاصل ہے کہ وہ عبادت کی کمی کو بھی پورا کر دیں گے، لیکن بداخلاقی اتنی قبیح چیز ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت بھی پلڑے کوجھکا نہ سکے گی۔
در حقیقت، تقویٰ میں اصل شے جس کا اہتمام مطلوب ہے، وہ زندگی کو دین کے سانچے میں ڈھال لینا ہے۔ کوئی شخص کتنی ہی عبادتیں کرے، اس وقت تک تقویٰ کا مقام حاصل نہیں کرسکتا جب تک حلال وحرام میں امتیاز اور حقوق و فرائض کے ادا کرنے میں دین کی دی ہوئی ہدایات پر بھی، اسی سرگرمی سے عمل نہیں کرتا، جس سرگرمی کے ساتھ وہ عبادات میں مشغول رہتاہے۔ہاتھ میں لٹکتی ہوئی تسبیح، ٹخنوں سے اونچا ازار، لمبی ڈاڑھی۔ ترشے ہوئے لب، صورت کی مسکینی، لب ولہجے کی عاجزی، قیام وقعود میں اظہار خشیت و نمایش تقویٰ، یہ سب بے معنی ہیں، اگر باقی زندگی حدود الٰہی کے احترام میں نہیں گزرتی۔
ایک شخص، اگر اپنے گھر کے ایک کونے میں چراغ رکھ دے، یہ توضرور ہے کہ وہ کونا بہت روشن نظر آئے گا، لیکن اس کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ باقی گھر کم روشن اور بعض کونے بالکل تاریک ہوں گے۔ لیکن اگر یہی چراغ گھر کی مرکزی جگہ پررکھ دیا جائے تو جو کچھ بھی روشنی ہو گی وہ سارے گھر کو منور کردے گی۔ تقویٰ کا چراغ دل میں رکھنے کی چیز ہے، اسے دل کے طاق سے اتار کر جسم کے کسی گوشے میں رکھ دینا، ظاہر ہے کہ منفی نتائج ہی پیدا کرے گا۔ اسی حقیقت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے ’التقویٰ ھٰھنا‘ (تقویٰ یہاں ہے) کے الفاظ بار بار دہرا کر واضح کیا ہے۔
یہی تقویٰ ہے، جو قدموں کو جادۂ حق پر گامزن رکھتا؛جو دل کو غلط نہیں سوچنے دیتا؛جو آنکھوں کو وہی دیکھنے دیتا ہے جو دیکھنا درست ہے؛ کانوں کو وہی سننے دیتا ہے جو سننا درست ہے ؛زبان کو وہی بولنے دیتا ہے جو بولنا درست ہے؛ جو ہاتھوں کو باندھتا اور پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے کہ غلط سمت میں اٹھنے اور چلنے سے بچ جائیں اوربطن و فرج پر پہرے بٹھا دیتا ہے کہ کسی حرام چیز کو حلال نہ کر لیں۔
قرآن مجید نے اسی تقویٰ کے لیے ایک جگہ لباس کی تعبیر اختیار کی ہے۔لباس، سردی اور گرمی سے بچاتا اور زیب و زینت اور جمال بخشتا ہے۔اسی طرح تقویٰ برائیوں سے بچاتا اور انسانی شخصیت کو وقار اور نکھار عطا کرتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں تمھیں اللہ کے تقویٰ کی تلقین کرتاہوں، اس لیے کہ یہ تمھارے سارے معاملات کو چمک اور روشنی بخشتا ہے۔ (مسند احمد ۲/ ۳۲۵) یہی وہ تقویٰ ہے جو انسان کی جلوت اور خلوت میں نمایاں ہونا چاہیے۔ آپ کا ارشاد ہے: ’’میں تمھیں جلوت اور خلوت میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔‘‘ (مسند احمد ۵/ ۱۸۱)
انبیا علیہم السلام، جب اپنے زمانے کی فسق و فجور سے بھری ہوئی دنیا پر نظر ڈالتے اور انسان کی خدا سے بغاوت و سرکشی اور شہوات نفس کی پیروی میں آزاد روی پر غور کرتے ہیں تو ان پر خدا کی رہنمائی میں یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کے اسباب تین ہیں:
پہلا یہ کہ خدا اور اس کی صفات کے بارے میں تصورات غلط ہوگئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آخرت کی زندگی کے بارے میں یا تو کوئی واضح تصور موجود نہیں اور اگر ہے تو اس میں بہت کچھ غلط کی آمیزش ہے۔
تیسرا یہ کہ شریعت کا علم یا تو مٹ گیا ہے یا اس کی صورت اور احکام میں بہت کچھ تبدیلیاں کر دی گئی ہیں ،جس کے نتیجے میں شریعت کی شکل وہیئت بدل کر رہ گئی ہے۔
چنانچہ انبیا ان تینوں خرابیوں کی اصلاح پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور ساری سعی انھی کی درستی اور انھی کی تجدید میں صرف کرتے ہیں۔ ان کا یہ اصلاح فکر و عمل کا کام جس رفتار سے موثر ہوتا ہے، اسی رفتار سے معاشرے میں تقویٰ فروغ پاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اپنے پیچھے متقیوں کا ایک ایسا گروہ چھوڑ جاتے ہیں، جو مدتوں تقویٰ کی حرارت لوگوں میں باقی رکھتا ہے۔
قرآن مجید نے بیش تر انبیا کی دعوت اور ان کے احوال کا ذکر کیا ہے۔اس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرات انبیا علیہم السلام کشت دل میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کے صحیح شعور کی آب یاری کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی مالک، ایک ہی پروردگار، ایک ہی آقااور ایک ہی خالق ہے۔ اسی کی تدبیر امور سے یہ کارخانۂ ہستی رواں دواں ہے۔ وہ سراپا عدل ہستی ہے۔ وہی سزا وار پرستش ہے۔ اسی کا حق ہے کہ اس کے لیے سرنیازجھکایا جائے۔ یہ صرف وہی ذات ہے کہ انسان اس کے حضور اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دے۔اطاعت صرف اسی کی ہونی چاہیے۔ وہ جیسا کہے، ویسا کیاجائے۔ جس سے روک دے، اس سے رک جانا چاہیے۔ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں، کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلوں میں کوئی تبدیلی کر سکے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، کرتا ہے۔ صرف اسی کی رضا اورا سی کی خوشنودی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ ساری نمازیں، ساری قربانیاں، بلکہ جینا اور مرناسب اسی کے لیے خاص ہونا چاہیے۔ سارے آداب، ساری نذریں، ساری دعائیں اور مناجاتیں اسی کے دربار میں پیش کی جائیں۔ معلوم رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ لطیف و خبیر ہے۔ و ہ ڈھکے اور کھلے سے واقف ہے۔ وہ خلوت وجلوت سے آگاہ ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپانی ممکن نہیں، وہ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات بھی جانتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے شریعت اتاری ہے، جو زندگی کے شب و روز میں ہر ہر مرحلے کے لیے قاعدے اور ضابطے دیتی ہے۔ اور اسی کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی شریعت دے اور یہ وہی ہے جس کی دی ہوئی شریعت پر بے چون وچرا عمل ہونا چاہیے۔
انبیا، ذات خدا وندی کے بارے میں یہ ساری چیزیں بار بار واضح کرتے ہیں، تاکہ انسان جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کیا ہیں اور ان کے تقاضے کیا ہیں۔اسی طرح وہ عقیدۂ آخرت کی تعلیم دیتے ہیں۔اس کے بارے میں پیدا ہونے والے غلط عقائد کی تردید کرتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے، جب ساری نوع انسانی یکجا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گی۔ہر انسان کی زندگی کا ریکارڈ،جو ایک رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے، اسے دے دیا جائے گا۔ایک ایک آدمی کے اعمال جانچے جائیں گے۔چنانچہ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق گزاری ہو گی، اسے جنت میں جگہ دی جائے گی اور جس کی زندگی اس کے برعکس ہو گی، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں پائے گا۔ وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہاں کوئی بے انصافی ہو گی یا سفارش اور رشوت سے فیصلے کو تبدیل یا نرم کرایا جا سکے گا۔ وہ واضح کر دیتے ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا پارسا اور نبی اور رسول بھی وہاں اس پوزیشن میں نہیں ہو گا کہ اپنے کسی دوست او رکسی ساتھی کی ایسی سفارش کرسکے جو حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دے۔ یہ صرف ہر فرد کا اپنا عمل ہے، جو اس کی زندگی بنائے گا اور یہ صرف اس کے اپنے کرتوت ہیں، جن کے نتیجے میں، وہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرے گا۔ اور عذاب کی ایسی زندگی سے دو چار ہو گا جس سے موت بہتر ہے اور موت قریب بھی نہیں آئے گی۔
عقیدے اور فکر کی تطہیر کے ساتھ ساتھ، وہ لوگوں کو صحیح شریعت سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتیں اور حلتیں کیا ہیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ پروردگار کا سکھایا ہوا عبادت کا طریقہ کیا ہے۔ گھر میں، خاندان میں، محلے میں، شہر میں، ملک اور معاشرے میں، غرض زندگی کے ہر معاملے سے متعلق یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسے کس طرح انجام دیا جائے۔ ذاتی کاروبار ہو یا ملک کی معیشت کا نظام، خاندان کے مسائل ہوں یا ریاست کا انتظام، تزکیۂ نفس پیش نظر ہو یا تطہیر معاشرہ ساری انسانی زندگی کو ذات باری کے تابع فرمان بنا دیتے ہیں۔
جب یہ تینوں چیزیں صحیح بنیادوں پر استوار ہو جاتی ہیں، تو انفرادی اور اجتمادعی زندگی تقویٰ سے آراستہ ہو جاتی ہے۔ انسان اس جادۂ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے جو پرورد گار کا دیا ہوا ہے، جوابدی فلاح کا ضامن ہے۔ یہی تقویٰ ہے جس کی دعوت تمام انبیا کی دعوت ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی قوم سے کہا:
إِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنِ. (الشعراء ۲۶ :۱۰۷۔۱۰۸)
’’میں تمھارے لیے رسولِ امین ہوں، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
[۱۹۹۴ء]
________________