HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سیاست کے اسلامی اصول

اہل پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اجتماعی زندگی بھی اپنی انفرادی زندگی کی طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں، اس لیے کہ اسلام ہمیں صرف انفرادی زندگی ہی سے متعلق احکام نہیں دیتا، بلکہ وہ ہم پر، ہماری اجتماعی زندگی کے حوالے سے بھی، متعین فرائض عائد کرتاہے، چنانچہ پاکستان کے معرض وجودمیں آنے کے بعد، اس خطے کے مسلمان، دین کی ان تعلیمات پر عمل کرنے کے بھی مکلف ہیں، جو اجتماعی زندگی سے متعلق ہیں، اس لیے کہ پاکستان کی صورت میں انفرادی زندگی ہی کی طرح انھیں اپنی اجتماعی زندگی بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کا پورا موقع حاصل ہو گیا ہے۔ چنانچہ، جس طرح وہ اپنی انفرادی زندگی میں اسلامی تعلیمات سے گریز کر کے گناہ گار ہوتے ہیں، اسی طرح اب وہ اپنی اجتماعی زندگی میں بھی دینی احکام سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اجتماعی زندگی سے متعلق دینی احکام پر عمل کی ذمہ داری ہر فرد پر اس کی استعداد، استطاعت اور حیثیت کے مطابق ہی عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ، جنھیں پاکستان میں کارفرمائی کا منصب حاصل ہے، یہ ذمہ داری، اصلاً، انھی پر عائد ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کے کار فرما طبقات، کبھی تو اپنی بے ہمتی اور عدم واقفیت کی وجہ سے اور کبھی فقدان ارادہ کی وجہ سے، عملاً یہ ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ لہٰذا علماے دین جہاں عامۃ الناس کو دین پر عمل کی یاد دہانی کرتے ہیں، وہاں ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے ان با اثر طبقات کو بھی ان کا فرض یاد دلاتے رہیں۔ اسی طرح وہ لوگ، جو سیاسی کام کا ذوق و صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دین کی ان تعلیمات سے آگاہی حاصل کریں اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے اس طرز حکومت کے احیا کی سعی کریں، جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ باقی رہے عامتہ الناس تو ان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ ایسے علما اور ان سیاسی رہنماؤں کے ساتھ، حتی المقدور تعاون کریں۔

 

اسلامی ریاست

ہمارے اس دور کے سامنے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور فرد کے باہمی تعلق کی حدود و قیود واضح کر دی جائیں، تاکہ انسان کے لیے یہ ممکن ہو سکے کہ وہ معاشرتی، معاشی اور مذہبی ظلم و جبر سے نجات پا لے۔ دوسرے الفاظ میں، ضرورت یہ ہے کہ ’’معاہدۂ عمرانی‘‘ کی دفعات متعین ہو جائیں، تاکہ عدل اجتماعی، انسانی حریت اور رفاہ عامہ کی منزل پانے کی راہ باز ہو سکے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی تشکیل کا ضابطہ، حکمرانوں کے اختیارات اور ان کی ذمہ داریاں، شہریوں کے حقوق وفرائض او رریاست کے داخلی اور خارجی مقاصد طے کر دیے جائیں۔ قرآن مجیداور سنت نبوی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین نے ان سب پہلووں سے ہماری پوری طرح رہنمائی کی ہے۔ آیندہ سطور میں ہم دین کی انھی تعلیمات کی توضیح کریں گے۔

 

بنیادی ضابطہ

قرآن و سنت کے مطالعے سے جو چیز ایک بنیادی حقیقت کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے گی، وہ یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی حکومت، دراصل، قانون خداوندی کی پابند ہوتی اور اس میں حقیقی مرجع اطاعت کا مقام صرف پروردگار کائنات اور نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے جب حکمران کے لیے حق اطاعت بیان کیا، تو وہیں یہ بات بھی واضح فرما ٰدی کہ ہر حال میں اور بے چون وچرا، اطاعت صرف قرآن وسنت کے ساتھ خاص ہے، ارشاد خداوندی ہے:

’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی، جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر تمھارے درمیان، اگر کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔‘‘ (النساء ۴: ۵۹)

دیکھ لیجیے، قرآن مجید کی اس آیۂ کریمہ سے تین باتیں بصراحت سامنے آتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ، رسول اکرم اور صاحب امر، یعنی حکمران، ان تینوں کی اطاعت ضروری ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تنازع اور اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں۔ اور تیسری یہ کہ حکمران کے ساتھ تنازع اور اختلاف کی صورت پیش آ سکتی ہے، مگر اس میں بھی فیصلہ کن حیثیت اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔

اس اصول پر، کسی ریاست کا قیام ہی وہ امتیازی خصوصیت ہے، جو ایک عام ریاست کو اسلامی ریاست بنا دیتی ہے، اور اس اصول کی رو سے یہ ضروری ہو جاتاہے کہ ایک اسلامی ریاست میں، معاملہ قانون کی تدوین کا ہو یانظام کی تشکیل کا، قرآن و سنت سے کبھی انحراف نہ کیا جائے۔ چنانچہ، دیکھیے، قرآن مجید نے بڑی صراحت کے ساتھ، اس نوع کے انحراف کو کفر قرار دیا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:

’’اور جو اس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، جسے اللہ نے نازل کیا ہے، وہی کافر ہیں۔‘‘(۵: ۴۴) 

قرآن مجید کی اس تصریح کے بعد، اس معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ مسلمانوں سے اجتماعی سطح پر کیا روش مطلوب ہے اور وہ کیا چیز ہے، جسے، اگر وہ نظر انداز کردیں تو نعمت ایمان سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔

 

ریاست کا مقصد وجود

ریاست کا وجودانسان کی معاشرت پسندی کا فطری نتیجہ ہے۔ امن و امان، دفاع اور اجتماعی خوش حالی، ہر معاشرے کی بنیادی ضروریات ہیں اور یہ بنیادی ضروریات ایک اجتماعی نظام اپنائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں، چنانچہ ریاست اور اس کے ان لوازم کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے، قرآن مجید نے اسلامی ریاست پر ان سے زائد کچھ خاص ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں، سورۂ حج میں ہے:

’’(یہ اہل ایمان وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو اس سر زمین میں اقتدار بخشیں گے، تو نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کاحکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘(۲۲: ۴۱) 

یہ آیۂ کریمہ اسلامی ریاست کے خصوصی اہداف بیان کرتی ہے۔ چنانچہ اس کی رو سے یہ ضروری ہے کہ اسلامی ریاست میں نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام اجتماعی بنیادوں پر ہو اور معاشرے میں بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کے استیصال کے اقدامات کیے جائیں۔ اسی طرح، جب اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں اسلامی نظام حکومت کی اساسات بیان کیں، تو پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ :

’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو عدل کے ساتھ کرو۔ نہایت عمدہ بات ہے یہ، جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے بے شک، اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (۴: ۵۸)

اس ہدایت سے قرآن مجید یہ واضح کر دیتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں حقوق و فرائض کے ادا کرنے میں ’’امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو‘‘ کا اصول ملحوظ رکھا جائے گااور نزاعات کو نمٹانے میں’’ فیصلہ عدل کے ساتھ کرو‘‘ کے حکم کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہو گی۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ قرآن مجید نے، تمام مسلمانوں پر، ایک امت کی حیثیت سے، شہادت حق، یعنی ساری دنیا کو دین کا پیغام اس طرح پہنچانے کی ذمہ داری عائد کی ہے کہ تمام عالم انسانی اس دین کا مجسم صورت میں مشاہدہ کر لے۔ وہ دیکھ لے کہ جس دین کو مسلمان مانتے ہیں وہ کیسے انسان پیدا کرتا، کیسا معاشرہ وجود میں لاتا اور انسانیت کو کیسا نظام اجتماعی عطا کرتا ہے، سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’تم بہترین امت ہو،جو لوگوں (پر دین کی شہادت)کے لیے برپاکی گئی ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر، فی الواقع، ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (۳: ۱۱۰)

امت مسلمہ یہ ذمہ داری، بتمام و کمال، صرف ایک سیاسی نظام (ریاست ہاے متحدہ اسلامیہ) میں بندھ جانے کے بعد ہی ادا کر سکتی ہے۔ گویا، ایک اسلامی ریاست نہ صرف اپنے داخل میں دین کو قائم رکھنے کی ذمہ دارہے، بلکہ اسے اپنے خارج میں بھی پروردگار کائنات کے دین کی علم بردار کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

 

دائرۂ اطاعت

ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اسلامی ریاست کے مسلمان شہریوں پر غیر مشروط طور پر صرف اللہ تعالیٰ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت فرض ہے۔ اگرچہ صاحبان امر کی اطاعت بھی لازم ہے، لیکن حکمران ہر گز یہ حق نہیں رکھتے کہ کسی ایسے معاملے میں اطاعت کا مطالبہ کریں، جس میں قرآن و سنت کے احکام کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے، آپ کا ارشاد ہے:

’’خالق کی نافرمانی میں کوئی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت تو صرف اچھے کاموں میں ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام) 

احادیث سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اگر کسی وقت حکمران صریح کفر کا راستہ اختیار کر لیں تو نہ صرف یہ کہ اطاعت لازم نہیں رہتی، بلکہ اہل ایمان کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ صاحب امر کی اطاعت سے انکار کر دیں اور اگر ممکن ہو تو اسے اس منصب سے معزول کر دینے کی جدوجہد کریں، عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان سے جھگڑا بس اس وقت کر سکتے ہو، جب تم کوئی کھلا کفر ان کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمھارے پاس اللہ کی حجت موجود ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ) 

اسی بات کو آپ نے ایک دوسرے اسلوب میں بھی واضح فرمایا ہے۔ ام سلمہ سے روایت ہے :

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلد ہی کچھ دوسرے لوگ تمھارے حکمران ہوں گے، یہ حکمران اچھے کام بھی کریں گے اور برے کام بھی۔ چنانچہ جس نے (برے کام کو) برا سمجھا وہ بری ٹھہرا اور جس نے اسے (علی الاعلان) منکر قرار دیا، وہ سلامتی کی راہ چلا۔ مگر (ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے) جو اس پر راضی رہے اور اس کی پیروی کی۔ لوگوں نے پوچھا؟ کیا ہم ان کے خلاف قتال نہ کریں تو آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں (اس وقت تک نہیں)۔‘‘ (مسلم، باب وجوب الانکار علی الامراء)

ان احادیث سے حکمرانوں کی اطاعت، ان کی اصلاح اور ان کی معزولی، ان تینوں صورتوں کے لیے، الگ الگ دائرۂ عمل متعین ہو جاتا ہے، یعنی حکمرانوں کی اس وقت تک اطاعت کی جائے گی، جب تک وہ راہ حق پر قائم رہیں۔ خلاف حق امور میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی اور اس وقت تک اصلاح کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی، جب تک نوبت ارتکاب کفر تک نہیں جا پہنچتی۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں آپ نے ترک نماز کو آخری حد قرار دیا ہے، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمران کے باب میں بھی نماز ہی کو کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل کی حیثیت حاصل ہے، اور یہی ایک صورت ہے جس میں ان حکمرانوں کو ان کے منصب سے ہٹا دینے کی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔۱؂ 

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ دین میں، اصلاً، یہی مطلوب ہے کہ حتی الامکان، حکمرانوں کی اطاعت اور نظم وضبط کی پاس داری کی جائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سنو اور اطاعت کرو،اگرچہ تمھارے اوپر ایک چھوٹے سر والے حبشی غلام کو امیر بنا دیا جائے، جب تک وہ کتاب اللہ کے مطابق چلتا رہے۔‘‘(بخاری، کتاب الاحکام) 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ نے یہی ہدایت ایک دوسرے اسلوب میں کی ہے، آپ کا ارشاد ہے:

’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے حکمران کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی۔ اسی طرح، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے حکمران کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ (بخاری،کتاب الاحکام)

 

حکومت کی تشکیل

اسلام کے سیاسی قوانین کے مطابق صرف وہی حکومت باضابطہ ہے جو ریاست کے مسلمان شہریوں کے مشورے سے قائم ہوئی ہو۔قرآن مجید نے اسلامی نظام ریاست کے اس بنیادی اصول کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے،سورۂ شوریٰ میں ہے:

’’(مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے۔‘‘ (۴۲: ۳۸)

یہ آیت ۲؂ریاست کے سارے معاملات، حکمرانوں کا انتخاب، ان کی معزولی، داخلی اورخارجی حکمت عملی، ہر نوعیت کی قانون سازی اور انھی معاملات کے لیے دین کے منشا کی تعیین و تشریح، غرض تمام اجتماعی امور انجام دینے کے لیے بنیادی اصول متعین کر دیتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت کے اسلوب سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہیں اور اس میں کسی بھی شخص کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں، اسی طرح،اگر سب لوگ کسی ایک بات پر متفق نہ ہو سکیں تو اس حکم کا ایک بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہو گی۔

مشورے کے اصول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو بھی اسی کو اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ سورۂ آل عمران میں ہے:

’’تو ان سے درگزر کرو، ان کے لیے مغفرت چاہو اور ان سے معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔‘‘ (۳: ۱۵۹)

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی میں کام کر رہے تھے اور اسی کے دین کو دنیا تک، بے کم و کاست، پہنچا دینے پر مامور تھے، اس کے باوجود پسندیہی کیا گیا کہ اجتماعی معاملات صحابہ کے مشورے ہی سے انجام دیے جائیں، البتہ آپ اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے اجتماعی یا اکثریتی رائے کے پابندنہیں تھے۔ آپ نے دین کا یہ منشا پوری شان کے ساتھ پورا کیا۔ چنانچہ، دیکھیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

’’میں نے رسول اللہ سے زیادہ کسی شخص کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘(ترمذی،کتاب الجہاد) 

یہ اصول نہ صرف یہ کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری طرح کار فرما نظر آتا ہے، بلکہ خلفاے راشدین نے بھی اس روایت کو قائم رکھا۔ چنانچہ آج بھی ہم تاریخ میں اس دور کی مجالس مشورہ اور ان میں کیے گئے اختلاف و اتفاق کی روداد پڑھ سکتے ہیں۔

 

اصحاب مشورہ

قرآن مجید کی یہ آیۂ کریمہ جہاں اسلامی نظام ریاست کا بنیادی اصول دیتی ہے، وہیں اس بات کی طرف اشارہ بھی کر دیتی ہے کہ یہ مشورہ کن لوگوں سے کیا جائے گا۔یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ ان کا نظام مشورے پر چلتا ہے، بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ ان کا نظام ان کے باہمی مشورے پر چلتا ہے۔ چنانچہ ان کے باہمی مشورے کے الفاظ کا تقاضا یہی ہے کہ یہ مشورہ صرف اہل ایمان سے کیا جائے اور اہل ایمان کے زمرے میں صرف وہی لوگ شمار ہوں گے، جو سورۂ توبہ میں بیان کی گئی شرائط پوری کرتے ہیں، ارشاد خداوندی ہے:

’’پس اگروہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، تو یہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔‘‘ (۹: ۱۱) 

یہ آیت مسلمان کی حیثیت سے اسلامی ریاست کا شہری بننے کے لیے لازمی شرائط بیان کرتی ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ تائب ہو جائیں یعنی اسلامی تعلیمات سے روکشی اور اسلام کی مخالفت کا رویہ چھوڑ دیں،اسلامی عقائد و اعمال اختیار کر لیں اور اسلامی نظام اور قانون کی اطاعت قبول کر لیں۔دوسری شرط یہ ہے کہ نماز کا اہتمام کرنے لگیں اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ حکومت کو زکوٰۃ ادا کرنے لگیں۔جو شخص یہ تینوں شرطیں پوری کرتا ہے، اسے اسلامی ریاست کی کامل شہریت حاصل ہو جاتی ہے، بلکہ قرآن مجید کی تعبیر’’دینی بھائی‘‘ سیاسی اور اجتماعی معاملات و حقوق میں اسلام کا برابری اور مساوات کا تصور بڑی خوبی کے ساتھ واضح کرتی ہے۔

 

مجلس شوریٰ

ہر معاملے میں سارے اہل ایمان سے مشورہ لینا، عملاً، ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ تمام طبقات کے نمائندہ افراد سے مشورہ لیا جائے۔اس متبادل حل کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زندگی میں اختیار کیا،بخاری میں ہے:

’’مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپ نے فرمایا: میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی، پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو، تاکہ وہ تمھاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔‘‘ (کتاب الاحکام)

یہی وجہ ہے کہ آپ کے بعد خلفاے راشدین نے بھی اسی قاعدے کے مطابق مجالس شوریٰ کے اجلاس بلائے۔ قاضی ابو یوسف نے عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مجلس شوریٰ کے انعقاد کا حال لکھا ہے:

’’لوگوں نے کہا: تو پھر آپ باقاعدہ مشورہ کیجیے، اس پر آپ نے مہاجرین اولین سے مشورہ کیا تو ان کی رایوں میں بھی اختلاف تھا، عبدالرحمٰن بن عوف کی رائے تھی کہ ان لوگو ں کے حقوق انھی میں تقسیم کردینے چاہییں، اور عثمان، علی، طلحہ اور ابن عمر رضوان اللہ علیہم، عمر رضی اللہ عنہ سے متفق تھے، پھر آپ نے انصار میں سے دس افراد کو بلایا: پانچ اوس کے اکابر و اشراف میں سے اور پانچ خزرج کے اکابر و اشراف میں سے۔‘‘ (کتاب الخراج، فصل فی الفئی و الخراج)

 

حکمران پارٹی

یہ بات محتاج بیان نہیں کہ ہر معاشرہ ایک بڑی وحدت ہونے کے ساتھ ساتھ، اندرونی طور پر، چند گروہوں ۳؂میں تقسیم ہوتا ہے۔اور یہ گروہ، بالعموم، ملک کے سیاسی معاملات میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور عام طور پر انھی میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے،چنانچہ سیاسی نظام کی تشکیل میں اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے کہ ملک کی زمام اقتدار کس گروہ کے ہاتھ میں دی جائے گی۔ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سوال کا جواب،متعین طور پر، ہمارے سامنے آتا ہے۔

آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین کا انتخاب ایک اہم ترین مسئلہ تھا۔اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں اس کی طرف توجہ دی اور قرآن میں بیان کردہ ’امرھم شوریٰ بینھم‘ کے اصول کی روشنی میں یہ طے کر دیا کہ آیندہ کس گروہ کو اقتدار میں آنا ہے،معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ہمارا یہ اقتدار قریش میں رہے گا۔اس معاملے میں جو بھی ا ن کی مخالفت کرے گا،اسے اللہ اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔جب تک کہ وہ (یعنی قریش) دین پر قائم رہیں۔‘‘ (بخاری،کتاب الاحکام)

اپنے اس فیصلے کی وجہ آپ نے یہ بیان کی:

’’لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں،عرب کے مومن ان کے مومنوں کے پیرو ہیں اور ان کے کافران کے کافروں کے۔‘‘ (مسلم،کتاب الامارہ)

قریش کے حق میں،جیسا کہ روایات سے واضح ہے،اس فیصلے کا سبب یہ تھا کہ انھیں پورے عرب میں مضبوط سیاسی عصبیت اور اکثریت کی سیاسی حمایت حاصل تھی۔سیاسی عوامل پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اکثریت کی سیاسی حمایت کے بغیر کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں کی جا سکتی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہم سیاسی اصول کو نگاہ میں رکھتے ہوئے جب عرب کے حالات کا جائزہ لیا تو آپ نے یہ جان لیا کہ اقتدار کے معاملے میں قریش ہی کو عرب میں اکثریت کی تائیدحاصل ہے،چنانچہ آپ نے واضح الفاظ میں قریش کو نامزد کر دیا،تاکہ آپ کے بعدانتقال اقتدار کامرحلہ بغیر کسی نزاع کے گزرجائے۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس وقت مسلمانوں میں قریش (مہاجرین)اور اوس و خزرج(انصار)دین کے ساتھ وابستگی،دینی خدمات اور دین کے لیے ایثار و قربانی کے لحاظ سے، کم و بیش،برابر سرابر کی حیثیت رکھتے تھے،لہٰذا،فطری طور پر،یہ سوال پیدا ہوتا تھاکہ آپ کے بعد اسلامی ریاست پر حکومت کا حق کس گروہ کو حاصل ہوگا۔چنانچہ،ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے بعد ثقیفہ بنی ساعدہ میں یہی سوال سامنے آیا اور آپ ہی کا کیا ہوا فیصلہ امن و امان کے ساتھ آپ کے جانشین کے انتخاب کا ذریعہ بنا۔آپ کی طرف سے یہ اقدام اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس زمانے میں اکثریتی گروہ کے تعین کے لیے عوامی رائے معلوم کرنے کی نہ کوئی تدبیر تھی اور نہ ایسی سہولتیں موجود تھیں کہ کوئی طریقہ اختیار کیا جاتا۔

 

اصحاب حکومت کے اوصاف

 

قرآن مجید اور احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کار حکومت کے ذمہ دار،خواہ ان کی حیثیت مرکزی حکمران کی ہو،خواہ وہ کہیں عامل ہوں اور خواہ وہ مجلس شوریٰ کے ممبر ہوں،انھیں چند متعین اوصاف کا حامل ہونا چاہیے۔ سورۂ نساء میں ان کی ایک بنیادی خصوصیت بیان ہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور جب امن یا خطرے کا کوئی معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو اسے پھیلا دیتے ہیں۔اور اگر وہ اس کو رسول او راپنے اولی الامر کے سامنے پیش کرتے تو جو لوگ ان میں استنباط کی صلاحیت رکھنے والے ہیں،وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔‘‘ (۴: ۸۳)

اس آیۂ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب حکومت کا اجتماعی معاملات کو سمجھنے، صورت حال کا تجزیہ کرنے اور صحیح نتائج تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونا،ایک بنیادی وصف ہے۔یہ تو وہ خصوصیت ہے جس کے بغیر کار حکومت بطریق احسن انجام ہی نہیں پا سکتا،لیکن،اس کے ساتھ، یہ بھی ضروری ہے کہ یہ لوگ متاع کردار بھی رکھتے ہوں۔ایک اسلامی معاشرے میں وہی لوگ رہنما اور حکمران ہو سکتے ہیں، جو نیکی اور اخلاق میں دوسروں سے فائق تر ہوں، جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و شرف کا مقام اہل تقویٰ کو حاصل ہے تو اللہ کے بندوں کے ہا ں بھی امارت و قیادت انھی کو حاصل ہونی چاہیے، دیکھیے، قرآن مجید میں ہے ’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم‘ (اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محترم وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے)۔ یہ آیۂ کریمہ واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشرے میں بنیادی قدر کی حیثیت سے کس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں ،ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت ایک دوسرے اسلوب میں واضح فرمائی۔آپ کا ارشاد ہے:

’’جب اخلاق و کردار کے لحاظ سے بہترین لوگ تمھارے حکمران ہوں، تمھارے دولت مند سخی ہوں اور تمھارا نظام مشورے پر مبنی ہو تو زمین کی پیٹھ تمھارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے اور جب بدترین لوگ تمھارے حکمران ہوں، تمھارے دولت مند بخیل ہوں اور تمھارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں توزمین کا پیٹ تمھارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔‘‘(ترمذی،ابواب الفتن) 

علاوہ ازیں،ان عہدوں کے حریص بھی اسلامی ریاست کے ان مناصب کے لیے نااہل قرار پاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’خدا کی قسم، ہم کسی ایسے شخص کو اس نظام میں کوئی عہدہ نہ دیں گے،جو اسے مانگے اور اس کا حریص ہو۔‘‘(مسلم،کتاب الامارۃ)

عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے آپ نے اس کی وجہ بھی بیان کی:

’’عبدالرحمن،امارت کے طالب نہ بنو۔اگر یہ خواہش کے نتیجے میں دی گئی تو تم اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر خواہش کے حاصل ہوئی تو اللہ کی طرف تمھاری مددکی جائے گی۔‘‘(مسلم، کتاب الامارۃ) 

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جسے اسلامی حکومت کا سربراہ بننا ہو، اسے ا ن کے علاوہ بعض دوسری خصوصیات کا بھی حامل ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے لیے حضرت طالوت کے انتخاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے تمھاری سربراہی کے لیے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور بدن میں بڑی کشایش دی ہے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۲۴۷)

یہ آیت بیان کرتی ہے کہ اس شخصیت کو دوسروں سے زیادہ وجیہ، دوسروں سے زیادہ صاحب وقار اور علم ودانش میں سب سے ممتاز ہونا چاہیے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ افراد جو مردانہ عزم و حزم سے محروم ہوتے اور جن کی شخصیت میں کر گزرنے کے بجائے سہ جانے، غلبے کے بجائے مغلوب ہونے، متاثر کرنے کے بجائے متاثر ہونے کا پہلو نمایاں ہوتا ہے،وہ اسلامی ریاست کی سربراہی کے لیے، کسی طرح بھی، موزوں نہیں ہو سکتے،دراں حالیکہ، یہی وہ خصوصیات ہیں جو ایک عورت کو ماں،بہن اور بیوی کی حیثیت میں ایک انتہائی موزوں شخصیت بنا دیتی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے، ایک سربراہ مملکت میں یہی خصوصیات، اسے اس منصب کے لیے انتہائی ناموزوں بنادیں گی۔ ۴؂ 

 

منصب اقتدار کے لیے ضوابط

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں منصب اقتدار پر فائز ہونے کے بعد،جس سنت کی بنیاد ڈالی اور آپ کے بعد خلفاے راشدین نے جس طرح اس کو قائم رکھا اور بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جیسے اس کا احیا کیا،اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اسے اصحاب اقتدار کے لیے ایک خلافت علی منہاج النبوہ کی علامات کی حیثیت حاصل ہے۔آپ کی اس سنت سے تین ضوابط سامنے آتے ہیں:

ا۔ سربراہ مملکت،سربراہ حکومت اور علاقائی حکمرانوں کا رہن سہن عام آدمی کے برابر ہو گا اور یہ چیز انھیں، ہر حال میں، اختیار کرنا ہو گی، خواہ ان کے ذاتی حالات کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضوان اللہ عنہم نے، تاریخ گواہ ہے کہ فقر کی یہ زندگی اپنے ارادے سے اختیار فرمائی اور اس وقت بھی اسی پر قائم رہے،جب روم و ایران کے خزانے ان کے قدموں کی ٹھوکر پر تھے۔

ب۔ ان کے لیے، کسی حال میں بھی، جائز نہیں کہ ان کے اور عامۃ الناس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو،ضروری ہے کہ ان کے دروازے ریاست کے شہریوں کے لیے اس طرح کھلے رہیں کہ ریاست کا کوئی بھی شہری ہر وقت،کسی مشکل کے بغیر، ان سے مل سکے۔

ج۔ نماز جمعہ مرکزی دارالحکومت میں حکمران کی اقتدا میں ادا کی جائے گی اور اسی طرح علاقائی حکمران، اپنے اپنے علاقوں میں، جمعے کی نماز کی امامت کرائیں گے، یہی وہ ضابطہ ہے جو ایوان اقتدار کو مسجد سے متعلق کرتا اور دین و دنیا کی دوئی کا ریاست کی سطح پر بھی خاتمہ کر دیتا ہے۔

 

شہریوں کے حقوق

اوپر اصحاب مشورہ کی بحث کے ضمن میں، ہم یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی ریاست کی مکمل شہریت صرف انھی افراد کو حاصل ہوتی ہے ،جو خلاف دین اعمال و عقائدکو چھوڑدیں، نماز کا اہتمام کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں۔شہریت کی یہ شرائط سورۂ توبہ کی جس آیت میں بیان ہوئی ہیں، وہی آیت شہریوں کے حقوق بھی بیان کرتی ہے۔یہ آیت اس سورہ میں دو مرتبہ آئی ہے۔ایک مرتبہ اس آیت کا اختتام ’تو ان کی راہ چھوڑ دو‘ اور دوسری مرتبہ’تو یہ تمھارے بھائی ہیں ‘ کے جملے پر ہوا ہے، قرآن مجید نے اپنے اعجاز بلاغت سے ان دو مختصر جملوں سے شہریوں کے تمام تر حقوق کا احاطہ کر لیا ہے، بلکہ یہ آیت اسلامی ریاست کے شہریوں کو وہ حقوق بھی دیتی ہے، موجودہ دور کی جدید ترین ریاست جن کا ابھی تصور بھی نہیں کر سکی۔

سورۂ توبہ کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ:

۱۔اسلامی حکومت دین کے عقائد و اعمال کی خلاف ورزی پر اپنے ان شہریوں کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکتی ہے۔

’اگروہ توبہ کر لیں... تو ان کی راہ چھوڑ دو‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں جو چیزیں ممنوع ہیں، ان کے ارتکاب پر اسلامی حکومت ریاست کے مسلمان شہریوں کو پکڑ سکتی اور انھیں ان کے جرم کی سزا دے سکتی ہے۔اسی طرح اپنے شہریوں کو دوسروں کے جان و مال ،عزت و آبرو اور انھیں حاصل شہری حقوق کے خلاف اقدام سے روک سکتی اور اس نوع کے اقدام پر سزا دے سکتی ہے اور ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں اس طرح کے جرائم کا سدباب ہو سکے۔

۲۔اسلامی حکومت اپنے مسلمان شہریوں کو نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ، قانونی طور پر، کسی چیز پر عمل کا پابند نہیں کر سکتی۔

’... اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگ جائیں تو ا ن کی راہ چھوڑ دو‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر ان دو کے علاوہ جبری طور پر کوئی عمل لازم قرار دے دے۔ یہاں تک کہ وہ دین کے دوسرے فرائض بھی قانون کی طاقت سے ادا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

یہ اصول آزادی رائے، آزادی فکر، آزادی اظہار اور آزادی عمل کا پروانہ ہے۔اس سے زندگی کے ہر میدان میں تجارت، خرید وفروخت، صنعت و حرفت اور ذاتی امور میں کامل آزادی اختیار و عمل حاصل ہو جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادی کا ایک ایسا نوشتہ ہے، جسے جاری کرنے کا فخر صرف انبیا اور ان کے متبعین کو حاصل ہے۔ اور کسی دوسرے فکر کے حاملین کے ہاں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہاں تک کہ موجودہ جمہوریت بھی اس باب میں ابھی اسلام سے بہت پیچھے ہے۔

۳۔جو افراد ان شرائط کو پورا کرتے ہیں، شہری حقوق کے حوالے سے، وہ سب برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے، کوئی امتیازی حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔ ’تو وہ تمھارے بھائی ہیں‘ سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان ارباب اقتدار ہوں یا عامۃ الناس، ان کا باہمی رشتہ بھائیوں کا رشتہ ہے۔قانونی حقوق کی نسبت سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے، اور نہ اسلام میں کسی تفریق و امتیاز کی کوئی گنجایش ہے۔

 

غیر مسلموں کے حقوق

غیر مسلم کسی اسلامی ریاست کے شہری دو ہی اعتبار سے ہو سکتے ہیں:ایک یہ کہ انھوں نے کسی معاہدے کی بنا پر اسلامی ریاست کا حصہ بننا قبول کر لیا ہو اور دوسرے یہ کہ اسلامی فوج بزور بازو ان کا علاقہ فتح کر کے، اسے اسلامی ریاست میں شامل کردے۔پہلی صورت میں یہ معاہد ہیں اور ان کے حقوق اس معاہدے میں جو کچھ طے ہو جائیں گے، وہ انھیں بے کم و کاست حاصل رہیں گے، مسلمان، اس معاملے میں، قرآن و سنت کی ہدایات کی رو سے پابند ہیں کہ وہ عہد معاہدے سے سرمو انحراف نہ کریں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور عہد کو پورا کرو، اس لیے کہ عہد کے بارے میں، لاریب، قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۴)

خاص، ان کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’خبر دار!جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے گا یا اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لے گا،ا س کے خلاف قیامت کے دن میں خود استغاثہ کروں گا۔‘‘ (ابوداؤد، کتاب الجہاد)

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں، اگر کوئی ریاست کسی معاہدے کے تحت غیر مسلموں کو ایسے حقوق بھی دے دے جو صرف مسلمانوں کو حاصل ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں تقسیم کے معاہدے کے تحت بہت سے حقوق رکھتی ہیں۔

مفتوح علاقوں کے غیر مسلم، جنھیں ذمی کہتے ہیں، اگر جزیہ دے کر اسلامی حکومت کی اطاعت اختیار کر لیں، تو انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے جو عدل و انصاف کا تقاضا ہیں۔ عدل و انصاف کی پاسداری مسلمانوں سے، ہر حال میں، مطلوب ہے، خواہ معاملہ دشمن ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔عدل کرو۔ یہی تقویٰ کے قریب تر ہے۔‘‘ (المائدہ ۵: ۸)

اور ذمی تو اسلامی ریاست کی اطاعت قبول کر چکے ہیں، ان کے ساتھ تو بدرجۂ اتم عدل و انصاف ہی کا معاملہ ہونا چاہیے۔ ان کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت اس طرح کی جائے گی کہ نہ اسلامی حکومت کے اہل کار اس معاملے میں خود کوئی تجاوز کریں، نہ کسی دوسرے شہری کو کرنے دیں۔ ان پر جزیہ تو عائد ہو گا،لیکن اس کی مقدار اتنی ہرگز نہ ہو گی کہ ان کے لیے اسے ادا کرنا مشکل ہو جائے۔علاوہ ازیں، یہ جزیہ صرف ان سے لیا جائے گا جوجنگ و قتال کی اہلیت رکھتے ہیں اور بچے، عورتیں ذہنی اور جسمانی لحاظ سے معذور، دنیا سے بے تعلق راہب اور درویش اور معاشی جدوجہد سے الگ بوڑھے اور بیمار جزیہ ادا نہیں کریں گے۔ بنیادی ضرورتوں کے ضمن میں، ان میں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ان کے عقیدہ و مذہب میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جائے گی اور ان کی عبادت گاہیں قائم رہیں گی۔ وہ اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے میں آزاد ہوں گے اور شخصی معاملات میں انھیں ریاست کے قانون سے استثنا بھی دیا جائے گا۔اسی طرح انھیں اجازت ہو گی کہ وہ اپنا مذہبی نقطۂ نظر، مناسب طریقے سے، دوسروں کے سامنے رکھ سکیں۔

[۱۹۹۳ء]

_________

۱؂موجودہ زمانے میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے قانونی راستے متعین کر دیے گئے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس نوعیت کی جد و جہد قانون کے دائرے ہی میں کی جائے۔ لیکن، اگر یہ راستہ نہ ہو تو مسلح جد و جہد کا راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرائط پوری کر دی جائیں جو اس طرح کے اقدام کے لیے شریعت میں بیان ہوئی ہیں۔

۲؂اس آیت پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے، جاوید صاحب کی کتاب ’’ قانون سیاست‘‘۔

۳؂یہ گروہ بندی، اگر محض امتیاز و تعارف کے لیے ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اسے فطرت کے منشا کی حیثیت سے بیان کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے:

’’اے لوگو، ہم نے تمھیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے، تاکہ یہ چیز تمھارے باہمی تعارف کا ذریعہ بنے، ( واضح رہے کہ ) اللہ کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (حجرات ۴۹: ۱۳) 

لیکن اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ یہ چیز معیار حق و باطل بن جائے اور اسی کی بنیاد پر شرف و ذلت کے فیصلے ہونے لگیں۔

۴؂عورت کے لیے موزوں نہیں کہ وہ حکمران بنے۔ اسلام جیسی معاشرت وجود میں لاتا ہے، اس میں ایسے حالات پیش آنے کا امکان بہت کم ہے کہ عورت سیاست کے میدان میں اترے۔ لیکن، بسا اوقات، سیاسی صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ عورت کو اقتدار کی مسند پر بیٹھنا پڑے۔ لہٰذا اسلام میں اسے قطعی حرام قرار نہیں دیا گیا۔

___________________

B