صاحب سیرت و کردار علما کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ ہمارا یہ زمانہ تو بطور خاص رجال خیر و صلاح کے قحط کا زمانہ ہے۔ خالد مسعود صاحب مرحوم ان چند افراد میں سے ایک تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دین کا علم بھی دیا تھا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
وہ قرآن کے عالم تھے۔ وہ حدیث کے عالم تھے۔ ان کی اسلامی تاریخ پر اچھی نظر تھی۔ ان موضاعات پر ان کا وقیع علمی کام کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن اس جلالت علمی کے باوجود ان کی شخصیت انتہائی سادہ تھی۔ کوئی طنطنہ اور طمطراق یا علم کا زعم، اس طرح کی کسی چیز کی پر چھائیں بھی ان کی شخصیت پر نظر نہیں آتی تھیں۔ ہاں ان کے لیے فخر کی بات اور ان کا سرمایۂ حیات ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے۔
بلاشبہ، وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے لائق شاگرد تھے۔ انھوں نے ان سے علوم اسلامی کی تحصیل کی اور پھر ساری عمر ان کے افکار کی خدمت میں صرف کردی۔ روزی کمانے کے جھنجھٹ کے بعد ان کی ساری سرگرمیوں کا محور و مرکز مولانا امین احسن اصلاحی تھے۔ استاد کی شخصیت میں گم ایسے شاگرد دنیا نے کم ہی دیکھے ہوں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس کی شہرت اور ناموری سے کرتے ہیں۔ ایسے گوشہ گیر جو علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہوں، زمانے کی نگاہ میں نہیں آتے۔ سچی عظمت کیا ہے کہ آدمی خدا کا سچا بندہ ہو اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متصف ہو۔ خالد مسعود ہر اعتبار سے ایسے ہی عظیم لوگوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھے۔
مرحوم کا علمی کام اور ان کی دینی خدمات ان کے خیر کو جاری رکھیں گی۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ان کے حسنات کو قبول فرمائے۔ ان کی کمزوریوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ انھیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے۔ جیسا ان کا چہرہ دنیا میں روشن و تاباں تھا، ایسا ہی آخرت میں روشن و تاباں رہے۔
[۲۰۰۳ء[
___________________