HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مولانا امین احسن اصلاحی

مولانا امین احسن اصلاحی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ماہ تمام ساٹھ ستر سال تک ضو فشاں رہا اور اپنی تابانیوں سے جویان حق کے لیے سامان ہدایت کرتا رہا۔

اس امت کے علمی سفر نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی فقہ اسلامی کی تدوین کا غلغلہ بلند ہوا اورکبھی فرزندان توحید اپنے پیغمبر کی باتیں جمع کرنے کی مہم میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ جب فکر وفلسفہ کی یلغار ہوتی ہے تو امت کے ارباب علم اس محاذ پر سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید ان سب ادوار میں ان سب تحریکوں کا پشتی بان رہا ہے۔ ہر زمانے میں اس کے معلمین پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس کی تعلیمات کے سمجھنے اور سمجھانے کا عمل جاری رہا ہے۔ لیکن پچھلے سو سال میں اسلامیان ہند نے خدمت قرآن کی جو طرح ڈالی ہے، اس کی نظیر ملت اسلامیہ کے کسی دور میں نظر نہیں آتی۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے بیسویں صدی کے آغاز میں اس امت کو جس اسلوب میں قرآن مجید کی طرف بلانے اور اس کی حکمتوں اور معارف سے فیض یاب ہونے کا آوازہ بلند کیا تھا، اسے بے خوف تردید انحطاط کی ان صدیوں میں تنہا آواز قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے بعد یہ مولانا امین احسن اصلاحی ہیں جنھوں نے اس حدی خوانی کی لے کو آگے بڑھایا۔ بلکہ اگر اقبال کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو محمل کو گراں دیکھتے ہوئے اسے تیز تر کر دیا۔ ان کی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ ان کی اسی سعی کا ایک زندہ ثبوت ہے۔

کارتجدید میں مولانا اصلاحی کا مقام کیا ہے۔ اس کا کماحقہ ادراک ابھی بہت مشکل ہے۔ مولانا اور ان کے استاد اس امت کے نئے علمی جنم کے نقطۂ آغاز پر کھڑے ہیں۔ اس لیے ابھی یہ بات شاید ایک مبالغہ محسوس ہو کہ وہ انھی رجال امت کی صف کے آدمی ہیں، جنھیں یہ امت امام کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

مولانا مرحوم اپنے کام کی عظمت اور غیر معمولی اثرات سے بے خبرنہیں تھے۔ لیکن اس نے ان کی شخصیت میں کوئی عجب پیدا نہیں کیا وہ جیسے سادہ اور سعادت مند اپنے استاد کے سامنے نظر آتے ہیں، اتنے ہی سادہ وہ حق کے سامنے اپنی آخری زندگی میں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے’’ تفاسیر فراہی‘‘ کے آغاز میں اپنے استاد کے حالات زندگی پر ایک مختصر مضمون بھی شامل کیا تھا۔ اس میں انھوں نے اپنی اور اپنے استاد کی بعض علمی گفتگوؤں کا ذکر بھی کیا ہے۔ ایک گفتگو ازار کے ٹخنوں سے اوپر رکھنے سے متعلق بھی تھی ۔اس گفتگوکے آخر میں وہ اپنے استاد سے اپنے پائنچے کٹواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی طبیعت کی سادگی اور حق کے آگے سرفگندگی کی اسی کیفیت کا میں نے خود بھی تجربہ کیا ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے۔ ہم نے ان سے سوال کیا کہ آدمی پہننے کے لیے زیادہ سے زیادہ کتنے کپڑے رکھ سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں مولانا شریعت و فقہ کے عالم کی مسند سے صرف علمی جواب نہیں دیتے۔ خدا کے ایک سچے بندے کی حیثیت سے ان کی زبان سے ایک مختلف جواب صادر ہوتا ہے۔ کہنے لگے، بھئی سچی بات یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ خود میرے پاس بہت سے جوڑے کپڑے اور جوتے موجود ہیں۔آپ کو تو معلوم ہے میں خود تو کماتا نہیں ہوں۔ میرے بچے میرے لیے کپڑے بنواتے رہتے ہیں اور اس طرح میرے پاس میری ضرورت سے زیادہ کپڑے موجود ہیں۔ ان کی اس گفتگو میں جو سادگی، دینی زندگی کا جوشعور اور حق گوئی کی جو جرأت نظر آتی ہے، وہ کسی مصنوعی آدمی میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔

ان کی دروس قرآن و حدیث کی نشستیں بھی ان کی اسی طبیعت کی وجہ سے ایک خاص شان رکھتی تھیں۔ علم و معرفت کا چشمہ جاری ہے۔ایک ایک لفظ سے جہان معنی آباد ہو رہا ہے۔ قرآن مجید کے عقدے کھل رہے ہیں اور حدیث کی مشکلات حل ہو رہی ہیں۔ لیکن متکلم کسی زعم میں مبتلا نظر نہیں آتا ہے۔ علم کی گہرائی درشتی اور سختی میں نہیں بدلی ہے۔ سوال کرنے والوں کا واسطہ، ماتھے کی شکنوں سے نہیں، خندہ لب اور کشادہ جبیں سے پڑتا ہے۔ علمی نکات پر لطف جملوں کے جلو میں آتے ہیں۔ عقدے حل کرنے والا کوئی جناتی زبان نہیں بولتا،روز مرہ کی زبان میں حرف مدعا کا ابلاغ کر دیتا ہے۔

مولانا کی یہی فطری سادگی ان کی دلکش شخصیت کا سبب تھی۔ وہ اپنے مخاطب کو رعب سے مرعوب نہیں کرتے تھے۔ ان کی بے ساختہ اور بے تکلف گفتگو دل سے صادر ہوتی اور دل میں جگہ بناتی جاتی تھی۔

مولانا امین احسن اصلاحی وفات پا گئے۔ ان کا جسد فانی سپرد خاک کر دیا گیا۔ یہ خبر ایک اندوہ ناک خبر ہے، لیکن وہ خوش نصیب تھے۔ ان کی مساعی کے اثرات قیامت تک جاری رہیں گے۔انھوں نے گراں بہا میراث ہی نہیں چھوڑی،اپنے پیچھے اس میراث کے اہل، وارث بھی چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات کو دنیا میں شرف قبولیت بخشا ہے۔ ہم دست بدعا ہیں کہ اسی طرح انھیں آخرت میں بھی اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہو۔

[۱۹۹۸ء[

___________________

B