HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جماعت اسلامی کے تجربات

تقسیم ہند سے بہت پہلے مولانا مودودی مرحوم نے برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مساعی کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔انگریز چلے گئے۔ ہندوستان کے نقشے میں تبدیلی ہوئی۔مسلمانوں کا ایک الگ ملک وجود میں آگیا۔سیدمودودی مرحوم نے اس نئے ملک میں اسلامی انقلاب کے نصب العین کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ 

تقسیم سے پہلے، ان کا طریقۂ کار وہی تھا ،جو ہمیشہ سے اس امت کے صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ لوگوں کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کرنا، ان کے اخلاق و کردار کی تعمیر کا اہتمام کرنا اور ملک و ملت کے حوالے سے انھیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا، یہی چیزیں ان کی شب و روز کی مساعی کا محور رہیں۔ یہ ایک طویل راستہ تھا۔ لیکن انھیں اصرار تھا کہ پائدار انقلاب کے لیے یہی راستہ موزوں ہے۔ اس راستے سے گریز اور اسلامی انقلاب کے لیے کسی مختصر راستے (Short Cut)کی تلاش ان کے نزدیک، اصل مقصود کے طالب کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی ان کی رائے میں تبدیلی آ گئی۔ اگر وہ پہلے طریق پر قائم رہتے تو آج اس ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ہم آج دیانت، امانت اور اخلاص کے جس قحط سے دوچار ہیں، اس سے بڑی حد تک محفوظ ہوتے۔ ہماری سیاسی قیادت جس طرح خالص دین پر پوری طرح عمل کرنے سے گریزاں ہے اور دین کی اجتماعی زندگی سے متعلق جس طرح عدم اعتماد میں مبتلا ہے، اس کا بڑی حد تک تدارک ہو چکا ہوتا اور بالکل ممکن ہے کہ آج جو لیڈر جماعت اسلامی کا ہدف طعن بنے ہوئے ہیں، وہ جماعت ہی کی دی ہوئی رہنمائی میں دین پر عمل پیرا ہوتے اور اس ملک کا عام آدمی دین کی برکات سے بہرہ یاب ہوتا۔ 

بہر حال، مولانا کی رائے تبدیل ہوئی۔ انھوں نے حکومت حاصل کرکے، اس کے ذریعے سے انقلاب حال کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ اس کے لیے انھوں نے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا اور اس طرح ایک خالص دعوتی تنظیم نے سیاسی جماعت کا روپ اختیار کرنا شروع کر دیا۔

یہ ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ اس نے ہمارے سیاسی ماحول کو ایک نئی جہت دی۔ جماعت اسلامی مخصوص مذہبی نظریات کی حامل ایک تنظیم تھی۔ ملک میں موجود دینی گروہوں نے محسوس کیا کہ اگر جماعت کا مقابلہ سیاسی میدان میں نہ کیاگیاتو انھیں مذہب کے میدان میں بھی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بیش تر دینی گروہوں نے سیاسی جماعتوں کا چولا پہن لیا اور اس طرح نہ صرف جماعت کی منزل دور ہو گئی،بلکہ علما کی وہ صلاحیتیں جو اصلاح و دعوت میں صرف ہونی چاہییں تھیں، سیاست کی حریفانہ کشاکش میں استعمال ہونے لگیں۔ 

مولانا مودودی مرحوم کو اپنے نقطۂ نظر کی صحت پر اس قدر یقین تھا کہ انھوں نے اپنے بہت سے قابل قدر ساتھیوں سے محرومی بھی گوارا کر لی۔ لیکن ان کی رائے غلط تھی۔ چنانچہ وہ اور ان کی جماعت بہترین صلاحیتوں اور غیر معمولی محنت کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعت اور اس کی قیادت پے در پے ناکامی کے باوجود اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں ہوئی اور اس نے خالص دعوت کی طرف واپس جانے کے بجائے سیاسی کامیابی ہی کے حصول کے لیے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ مختلف حکومتوں کے خاتمے کے لیے اس نے سیاسی اور انتخابی اتحادوں میں شرکت کی۔ اس تدبیر سے جزوی یا عارضی کامیابی تو حاصل ہوئی،لیکن اصل غرض جس کے لیے یہ راستہ اختیار کیا گیا تھا، اس کی طرف کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

پچھلے چند برسوں میں ہمارے ہاں پے در پے انتخابات ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخاب کے سوا تین انتخابات میں جماعت اسلامی نے بھر پور شرکت کی ہے۔ اس عرصے میں جماعت اسلامی کے موجودہ امیر، محترم قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامی فرنٹ بنا کر ایک نیا تجربہ بھی کیا اور یہ تجربہ بھی کوئی نتائج پیدا کرنے سے قاصر رہا ہے۔ حالیہ انتخابی عمل سے، اگرچہ، ایک پہلو سے جماعت اسلامی باہر رہی ہے۔مگر ایک پہلو سے وہ پوری طرح فعال تھی اور وہ یہ کہ ووٹر ووٹ نہ دے اور اس طرح وہ جماعت اسلامی کی ہم نوائی کرے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے ہی کی طرح جماعت اسلامی کے خلاف نکلا اور ووٹ ڈالنے والے ووٹر نے بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے۔

یہ تمام ناکامیاں اس بات کی متقاضی رہی ہیں اور آج بھی ہیں کہ جماعت اسلامی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ اپنی غلطیوں کو متعین کرے اور ان کی تلافی کے اقدامات کرے۔ اگر اس نے یہ کام نہیں کیا تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنی منزل کے پانے میں ناکام رہے گی۔بلکہ پچھلی نصف صدی میں بطور خاص آغاز کار میں اس نے جو کچھ کمایا ہے، اس سے بھی بالآخر محروم ہو جائے گی۔

غلطی جاننے کے لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک میں اپنے کردار کا تعین صحیح اصول کی روشنی میں کرے۔ اجتماعی زندگی میں کوئی گروہ تین جہتوں میں کام کر سکتا ہے۔ ایک جہت خدمت خلق کی ہے۔تعلیم، صحت اور مظلوموں کی مدد، غرض کئی سمتوں میں اس کام کو منظم کیا جا سکتا ہے اور اگر قوم کی تعمیر پیش نظر ہو تو یہ ایک بڑا کام ہے۔ دوسری جہت اصلاح و دعوت کی ہے۔ معاشرے کی سطح پر اس کام کے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام دین کے جید علما کریں۔ عام آدمی دامے، قدمے، سخنے ان کا معاون ہو یہ کام اپنی حقیقت کے اعتبار سے لوگوں کو دین کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کرنا اور انھیں ان کے مطابق اپنے کردار کی تعمیر کا ماحول میسر کرنا ہے۔ علما کا یہ کام قومی تعمیر کے کاموں میں ایک غیر معمولی کام ہے۔ قرآن مجید پر تدبر کی نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امت کے علما پر اسے ایک مستقل ذمہ داری کے طور پر لازم کیا ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ ہے کہ امت کے انحرافات کا سد باب ہوتا رہے اور آیندہ نسلوں تک دین کے ابلاغ اور ان میں دینی کردار کی تعمیر کا عمل تا قیامت جاری رہے۔ تیسری جہت سیاسی قیادت کی جہت ہے۔ یہ کام ان لوگوں کا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ قائدانہ صلاحیتیں دے کر پیدا کرتا ہے۔ دین کے داعی اور بحر علم و تحقیق کے شناور اس کام کے لیے موزوں نہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے سیاسی قائدین کی رہنمائی کا منصب عطا کیا ہے اور انھیں اپنی یہی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قومی تعمیر کے پہلو سے صحیح سیاسی قیادت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے کہ کسی قوم کی ترقی اور غلبہ انھی کے دست کارساز پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں اپنی قوم کی زمام اقتدار ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی قوم اور ملک کی اجتماعی قوتوں کو مجتمع کر سکتے اور انھیں ایک متعین ہدف کے حصول میں لگا سکتے ہیں۔ 

جماعت اسلامی نے یہ تینوں کام کیے ہیں۔ ان میں سے ہر میدان میں اس کی خدمات موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے یہ تینوں کام کرتے رہنا چاہیے یا ان میں سے کسی ایک یا کسی دو کا انتخاب کر لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ ہم جماعت اسلامی کو کوئی ترجیح قائم کرنے کا مشورہ دیں، فیصلے کے لیے ضروری بنیادوں کو متعین کر دینا چاہتے ہیں،تاکہ جو کچھ بھی فیصلہ کیا جائے، وہ گہرے شعور و ادراک کے ساتھ کیا جائے۔ 

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فرد ہی نہیں تنظیم بھی بنیادی حیثیت سے ایک ہی کام انجام دے سکتی ہے۔ دو یا دو سے زیادہ کام بیک وقت اگر جمع کر لیے جائیں تو ان میں سے کسی کا حق ادا نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نتائج بھی حاصل نہیں ہوتے جن کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں کاموں میں سے ہر ایک کام کے لیے خاص نوعیت کی شخصیات درکار ہیں۔ مثلاً خدمت خلق کے کام کے لیے کسی عبد الستار ایدھی، مدر ٹریسا یا سر سید کی ضرورت ہے۔دعوت اور اصلاح کے کام کے لیے کسی غزالی، سرہندی یا الیاس کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سیاسی قیادت کے لیے کسی جناح، بھٹو یا نواز شریف کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ جب اپنے میدان میں کام کرتے ہیں تو ایک تاریخ رقم کرتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے میدان سے باہر نکلنا چاہیں تو کسی بھی موثر کردار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات ایک عامی بھی جان لے سکتا ہے کہ کسی جناح کے لیے ممکن نہیں کہ وہ مولانا الیاس کا کام بھی اپنے کام میں شامل کر لے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے بنیادی طور پر ایک کام کا انتخاب کرے اور اس میں اپنے افراد کار کی صلاحیتوں اور افتاد طبع کو بطور خاص پیش نظر رکھے۔

جماعت اسلامی کی تاریخ سے واضح ہے کہ خدمت خلق کا کام، انھوں نے ہمیشہ ضمنی طور پر کیا ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں زیادہ رد و کد کی ضرورت نہیں۔البتہ دعوتی اور سیاسی کام کو ان کے ہاں کم و بیش یکساں اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی سیاسی کام ہی، بالعموم، غالب رہتا ہے۔ 

سابقہ طویل تجربے اور حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں یہ بات بے خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ جماعت ان میں سے کسی کا بھی حق ادا نہیں کر سکی۔ دعوت میں ان کی جو کچھ بھی کار کردگی ہے۔ وہ مولانا مودودی مرحوم کی مساعی جمیلہ کی مرہون منت ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ باوجود سعی کے وہ کسی سیاسی رہنما کی حیثیت سے نہیں، ایک عالم دین ہی کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے، جب کوئی مورخ ان کی مساعی کا جائزہ لے گا، اسلامی افکار کی ترویج ہی کو ان کے اصل کارنامے کی حیثیت سے بیان کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاح و دعوت کا کام اور گہرا علم دین لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جماعت اسلامی اگر دعوتی کام کا انتخاب کرتی ہے تو اسے جائزہ لینا چاہیے کہ آیا اس کی صفوں میں دین کے جید علما موجود ہیں اور اگر موجود ہیں تو کیا ان کے نظام میں اس کی گنجایش ہے کہ انھیں قیادت کا مقام حاصل ہو۔ جماعت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنھیں عام کارکن ہونا چاہیے، انھیں مولانا مودودی کی نیابت حاصل ہے۔ دعوت کے کام کو صحیح اور موثر خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس صورت حال کی اصلاح کی جائے۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ دعوت اور سیاست میں واضح منافات موجود ہے۔ سیاست حریفانہ کشاکش کا نام ہے۔ لہٰذا دعوت میں جسے جیتنا پیش نظر ہو، سیاست میں اسی کی شکست ہدف ہوتی ہے۔ اور یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ ایک تنظیم ایک ہی فرد کے بارے میں بیک وقت دو متضاد رویے اختیار نہیں کر سکتی۔ چنانچہ دعوت کو اختیار کرنے کے بعد، جماعت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہو اور اپنے آپ کو اجتماعی اور انفرادی اصلاح میں صرف داعیانہ سرگرمیوں تک محدود کرلے۔ 

جماعت اسلامی کے لیے دوسرا انتخاب سیاست کا ہے۔ اگر جماعت یہ فیصلہ کرتی ہے تواس صورت میں بھی اسے اپنے نظام میں تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس پہلو سے جماعت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص مذہبی نظریات کے باعث عامۃ الناس کی حمایت حاصل نہیں کر سکتی۔ جبکہ سیاست کے حوالے سے دیکھیں تو معاملہ صرف دین کے اجتماعی احکام سے متعلق ہے۔ اور ان کے نفاذ میں تمام گروہ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اور اگر کچھ اختلافات ہیں تو انھیں دور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ چنانچہ جماعت اگر لوگوں کے دین کی اصلاح کرنا چاہتی ہے تو پورے دین کی دعوت دے اور صرف دعوت تک محدود رہے۔ اور اگر سیاست پیش نظر ہے تو دین کے اجتماعی احکام کی روشنی میں سیاسی منشور ترتیب دیا جائے اور صرف اسی کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جائے۔ جماعت کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے نظام میں خالص سیاسی قیادت کے فروغ پانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جماعت کو اپنے نظام میں موجود ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا، جو اسے سیاسی جماعت نہیں بننے دییتں۔ 

اس تمام دراز نفسی سے واضح ہے کہ جماعت کی ناکامی کا مسئلہ کسی وقتی تدبیر سے حل نہیں ہو سکتا۔ ناکامی کا اصل سبب اس کی بنیاد میں مضمر ہے اور اس سے نجات کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ 

[۱۹۹۷ء[

___________________

B