ذرائع ابلاغ کی ترقی نے دوریوں کو سمیٹ دیا ہے۔ علم و خبر کی ترسیل میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ افکار و آرا کی ترویج اور ابلاغ کے لیے دائرۂ عمل وسیع تر ہو گیا۔ صاحبان علم و ہنر کے تعارف اور اثر پذیری میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ ان پہلووں سے دیکھیں تو یہ ترقی ایک خیر و برکت کی چیز ہے۔ لیکن ان ذرائع کے سوء استعمال نے کچھ نئے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ یہ خیر کے علم بردار بنیں تو ان کے ذریعے سے ملک و قوم کی ترقی کا بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اگر شر کے نقیب بن جائیں تو ان کے ہاتھوں بربادی اور نقمت بھی آ سکتی ہے۔
اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم، ہمہ جہت زوال کا شکار ہیں۔ اقدار تلپٹ ہو گئی ہیں۔ مفاد پرستی کا غلبہ ہے۔ سفلی جذبات اور نفسانی محرکات کو انگیخت کرنے والے ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پسے ہوئے اور مظلوم طبقات بے چین ہی نہیں، منفی نفسیات میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ خاندان باہمی الفت اور اعتماد سے محروم ہو رہے ہیں۔ نئی نسل ناراض نسل ہے، وہ شکایت کے لہجے میں بولتی اور شکایت ہی کے انداز میں عمل کرتی ہے۔ دولت، اقتدار اور شہرت منزل بن گئے ہیں۔ عزت ان سے وابستہ ہو گئی ہے۔ علم و ہنر اور بر و تقویٰ، باعث شرف نہیں رہے۔ جس کے پاس دولت اور اقتدار ہے، وہ ’’بڑا آدمی‘‘ ہے، خواہ وہ خدا اور معاشرے کا مجرم ہو اور جس کا اثاثہ محض شرافت، دیانت اور وطن پرستی ہے، وہ ہیچ اور فرومایہ ہے، خواہ دین داری اور نیک روی میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔
لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ مذہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے علم برداروں کو امن و آشتی اور حب و الفت کا پیام بر ہونا چاہیے تھا، ان کی زبانوں پر دشنام اور ان کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ ہے۔ عفو و درگزر اور رواداری تو ایک طرف، وہ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
صورت حال اتنی گمبھیر ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ اس کی درستی کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
انھوں نے عورت کے حسن و جمال کو جنس تجارت بنا لیا ہے۔ ان کے ہاں اس کی پذیرائی کم ہی علوم وفنون اور شعر و تخلیق کے حوالے سے ہوتی ہے۔ بالعموم، اس کا کام عشوہ ترازی اور غمزہ و ادا سے لوگوں کے لیے جذب و کشش اور تفریح کا سامان بننا ہے۔
عشق و محبت کے مضامین کتابوں تک محدود نہیں رہے، شب و روز کا موضوع بن گئے ہیں۔ وہ باتیں جو ایک خاص عمر میں پہنچ کر دسترس میں آتی تھیں، انھوں نے اب لوری کی جگہ لے لی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ رشتے جن کی اساس ہی حیا پر رکھی گئی ہے، آہستہ آہستہ اس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن غرض رشتوں کا تقدس اب زمانۂ ماضی کی چیز ہے۔
اخبارات و رسائل کا مطالعہ کریں، ریڈیو سنیں یا ٹی وی دیکھیں۔ معلوم ہوتا ہے دنیا کے اہم ترین لوگ کھلاڑی اور اداکار ہیں۔ اصحاب علم و فن، ارباب شعر و ادب اور رجال تحقیق کو کسی معاشرے میں جو مقام حاصل ہونا چاہیے، وہ انھیں حاصل ہے۔ اس کا یا کلپ نے انھیں نو نہالوں کا آئیڈیل بنا دیا ہے۔ یہ اور ان کی کامیابیاں اس طرح پر کشش بنا دی گئی ہیں کہ اب نوجوانوں سے علوم و فنون کی طرف رغبت کی توقع کرنا مشکل ہے۔
خبر کی ترسیل اور صحت مفادات سے وابستہ ہے۔ سیاسی واقعات اور جرائم کی خبروں کو سنسنی خیز طریقے سے شائع کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ٹی وی اور فلم نے عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول کے لیے تحریک چلا رکھی ہے۔ مجرمانہ سرگرمیاں اور مجرموں کی دیدہ دلیریاں پردۂ سکرین کی زینت بنا دی گئی ہیں۔ معاشرے کی تصویر کشی کے دانش ورانہ تصور کے تحت جو کچھ دکھایا جاتا ہے، اس سے ان کی بیخ کنی ہونے کے بجائے ان کی تربیت کا کام ہو رہا ہے۔
یہ تصویر حال ہے۔ اس کی سنگینی بڑی شدت سے تقاضا کرتی ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ اصلاح احوال کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف یہ کہ اپنا اصل کام انجام دیں، بلکہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں ہونے کی وجہ سے اپنی زائد ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہوں۔ ان کا اصل کام یہ ہے کہ یہ صرف انھی حقائق کی ترسیل اور ابلاغ کا ذریعہ بنیں، جو فی الواقع حقائق ہوں اور ان کا بیان کرنا انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کے منافی نہ ہو۔ رائے عامہ کی تربیت کا کا م ایسے اسلوب میں کریں کہ ان کے اندر مثبت سوچ اور مثبت جذبات پیدا ہوں۔
یہ ایسے علوم و فنون کے سکھانے کا کام سرانجام دیں جو لوگوں کے لیے مفید ہوں۔ اور اس سے ان کی روز مرہ کی زندگی کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ اب بھی اخبارات اور بطورخاص ریڈیو اور ٹی وی سے ایک حد تک یہ کام لیا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں نہ نشان منزل متعین ہے اور نہ طریق کار میں ہم آہنگی اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جائے۔
معاشرے میں کچھ لوگ اپنی تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت کے باعث ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ ذرائع ان کی قدر شناسی کریں۔ ان کی مہارت اور صلاحیت سے معاشرے کو روشناس کرائیں۔ ان کے کام او رتخلیقات کے موثر طریقے سے معاشرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بلکہ نئی نسل میں انھی کاموں میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور یہ دونوں پہلو انتہائی اہم ہیں۔ قدر ناشناسی کے باعث پہلا طبقہ سکڑتا جا رہا ہے اور نئی نسل صحیح معنی میں تعمیری کام میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں ہے۔
اسلام کے ساتھ وابستگی ان ذرائع کے کام میں دو مزید چیزوں کا اضافہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ یہ لوگوں میں صحیح ایمان پیدا کرنے کے لیے ایمانیات سے متعلق قرآن و سنت سے ماخوذ استدلال کو پیش کریں اور اس کی بار بار تذکیر کریں تاکہ یہ چیزیں قلوب و اذہان میں راسخ ہوں اور کوئی شیطانی فکر و فلسفہ انھیں ریب و تردد میں مبتلا نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ ان ایمانیات کے مطابق لوگوں میں صحیح عمل کی آبیاری کا کام کریں ۔ صحیح عمل کی اصل بنیاد لا ریب، آخرت کا اجر ہے۔ لیکن معاشرے کی تعمیر اور امن و راستی بھی اسی میں مضمر ہے۔ دین پر عمل پیرا ہونے کی دعوت، اس اعتبار سے دیکھیں تو دہرے نتائج کی حامل ہے۔ ایک نتیجہ اس دنیا سے متعلق ہے اور دوسرا دوسری دنیا سے اور ہم دونوں کی بہتری کے محتاج ہیں۔
یہ ان ذرائع کا بنیادی کردار ہے۔ ہم نے اس کردار کی اساسات بالاجمال بیان کر دی ہیں۔ ہماری زبوں حالی کے باعث ضروری ہے کہ ان ذرائع کے ارباب بست و کشاد درج ذیل امور کو خاص طور پر پیش نظر رکھیں:
۱۔ لوگوں میں دینی بیداری پیدا کی جائے۔ اس کا انحصار صحیح دینی تعلیمات کے فروغ اور اعلیٰ کردار کی پذیرائی پر ہے۔ جب تک یہ کام خاص شعور اور تن دہی کے ساتھ نہیں کیا جائے گا، سوسائٹی پر اس کے اثرات نمایاں نہیں ہوں گے۔ اصلاً یہ جید علما کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے علماے کرام میں سے بہت کم لوگ ذرائع ابلاغ کی موجودہ ترقی سے کماحقہ کام لے رہے ہیں۔ چنانچہ دونوں طرف سے اس کوتاہی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران، صاحب کردار جید علما کو دین کی توضیح و تعلیم کے لیے مواقع دیں اور علما ان مواقع کو استعمال کریں اور لوگوں کی دینی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔
۲۔ ہمارے اس زمانے میں حقوق کے شعور کا بہت چرچا ہے۔ لاریب، استحصالی قوتوں کے استیصال کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا ایک منفی نتیجہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ لوگ اپنا فرض ادا کیے بغیر حقوق کے طلب گار بنتے جا رہے ہیں۔ جبکہ صحیح صورت حال یہ ہونی چاہیے کہ ہر طبقہ اپنے فرائض ادا کرے۔ اس کے نتیجے میں خود بخود حق دار کو اس کا حق مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس مہم میں ہر اس شخص کو مخاطب بن جانا چاہیے جو اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے ۔ شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بیوی اپنے فرائض ادا کرے۔ آجر اپنے منصب کے تقاضے پورے کرے اور اجیر اپنا کام سر انجام دے۔ حاکم اپنے کام میں کوتاہی نہ کرے اور محکوم اپنے عمل میں کمی نہ کرے۔ غرض یہ کہ معاشرے کے ہر ہر فرد کو اس کی جگہ پر ذمہ داری کا شعور ہو۔ گویا بتانے کی بات یہ نہیں ہے کہ تمھارا یہ حق ہے اور تم اسے حاصل کرو، بلکہ بتانے کی بات یہ ہے کہ تمھارا یہ کام ہے اور تمھیں اسے پورا کرنا چاہیے۔
۳۔ ہمارے معاشرے میں صحیح معاشرتی رویے کا فقدان ہے۔ دو انسانوں کے مابین معاملہ پیش آتا ہے تو اس میں ناخوش گواری کی صورتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک تلخی دوسری تلخیوں کو جنم دیتی اور ایک خرابی مزید خرابیوں کا باعث بن جاتی ہے۔ عفو و در گزر اور اعلیٰ ظرفی کا رویہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ انتقام لینے اور بدلہ چکانے کی روش عام ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح میں فلم اور ٹی وی ڈراما بہت موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمارا کہانی نویس اور ڈرامہ نگار صرف معاشرے کی تصویرکشی پر انحصار نہ کرے، بلکہ ایسے کردار بھی روشناس کرائے جو ہرطرح کے حالات میں اعلیٰ اخلاقی رویے پر قائم رہتے ہیں اور اس طرح نہ صرف یہ کہ نیک نام رہتے، بلکہ بالآخر مصائب اور مشکلات سے بھی نکل جاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے سامنے روزمرہ کی زندگی کے معاملات سے نمٹنے کی صحیح مثالیں آئیں گی اور وہ اپنے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اقدار کا انحطاط، مفاد پرستی کا غلبہ، سفلی جذبات کا فروغ، خاندانی جھگڑے اور زیادتی کے نتیجے میں منفی نفسیات کا ظہور، اس طرح کے تمام مسائل کا اصل حل صحیح رویوں کی تربیت ہے اور یہ کام فلم اور ٹی وی کا کہانی نویس نہایت آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے۔
۴۔ عورت بھی مردوں کی طرح متنوع صلاحیتوں سے نوازی گئی ہے۔ اگر وہ اپنی ماں اور بیوی کی حیثیت کے تقاضوں اور اسلامی آداب کو مجروح کیے بغیر کسی علم یا فن میں اپنی صلاحیت کو آزماتی اور اس کا اظہار کرتی ہے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں، بلکہ اس کی مناسب حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے یہ ذرائع ابلاغ اس بے چاری کی اس پہلو سے کم ہی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کار پردازان اس میں مردوں کے لیے موجود کشش ہی کو اس کی اصل متاع مانتے اور صرف اسی پہلو سے اس کے قدر دان ہیں۔ کاروبار کی ترقی کے نقطۂ نظر سے شاید اس کی کچھ اہمیت ہو۔ لیکن انسانی اخلاق اور عورت کی عزت نفس کے حوالے سے یہ ایک سنگین جرم ہے۔ پھر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی اس کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔ مزید براں یہ صرف عورت ہی کے خلاف جرم نہیں، معاشرے کا اخلاق بگاڑنے کا جرم بھی ہے۔ بے حیائی کے فروغ سے ایک طرف ناپسندیدہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور دوسری طرف تعمیری کاموں کی طرف لگاؤ میں کمی آجاتی ہے۔ یہ چیز دو طرفہ زوال کا باعث بنتی ہے۔ معاشرہ اخلاقی کہتری کا شکار بھی ہوتا ہے اورمادی ترقی کا سفر بھی رک جاتا ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔ عورت کے معاملے میں ذرائع ابلاغ کا موجودہ رویہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔
ہم اور ہمارا معاشرہ نقمت و زحمت کے جس دور سے گزر رہے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے ہمہ جہت اصلاحی عمل کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں ذرائع ابلاغ کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسی نسبت سے ان کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ ایک طرف خودان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اور دوسری طرف حکومت کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ ان کے اثرات کے بارے میں حساس رہے اور ان میں رونما ہونے والی خرابیوں کے سد باب کے لیے موزوں اقدامات کرے۔
[۱۹۹۷ء[
___________________