HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

معیشت کی بدحالی

پاکستان معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ یہ بات کہتے اور سنتے ہوئے کئی سال بیت گئے ہیں۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اس صورت حال کو درست کر دے گی۔ لیکن وقت گزرتا جا رہا ہے اور صورت حال میں کوئی تبدیلی آ کر نہیں دیتی۔ دور حاضر سودی نظام معیشت کا دور ہے۔ پوری دنیا قرض کی معیشت پر انحصار کیے ہوئے ہے۔ پاکستان بھی اسی اصول معیشت پر عمل پیرا ہے۔ چنانچہ اب پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض ہے۔

ہمارا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ خسارہ سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پچھلے قرضے اور سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ یہ قرض بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ اس کے لیے امیر ملکوں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑتا ہے۔ وہ خیرات کی طرح قرض دیتے اور ہماری پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ہر ذی ہوش پاکستانی یہ سوال کرتا ہے کہ اس عذاب کا باعث کیا ہے اور اس سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ دانش وروں سے پوچھیے، نکتہ وروں سے بات کیجیے، ہر بزرجمہر اس کا الگ سبب بتاتا اور الگ ہی حل تجویز کرتا ہے۔

کسی کے نزدیک ہم نے صنعت کو ترقی نہیں دی اور کسی کے خیال میں ہم نے اپنی زراعت کو آگے نہیں بڑھایا۔ کسی کو اس کے پیچھے ہماری دفاعی پالیسی کار فرمانظر آتی ہے اور کسی کے گمان میں یہ سب کچھ ہماری خارجہ پالیسی کا کیا دھرا ہے۔ ایک زمانے میں بہت سے لوگوں کو اس کا حال کمیونزم میں دکھائی دیتا رہا اور اب ہر سو سرمایہ داری نظام کا طوطی بول رہا ہے۔ ہر آدمی حکمرانوں کا مسرفانہ طرز عمل دیکھتا ہے تو وہ انھیں برا بھلا کہہ کر اپنا جی جلاتا اور خاموش ہو جاتا ہے۔ اہل مذہب بھی اس معاملے میں خاموش نہیں۔ انھیں اس کا سبب مذہب سے گریز و فرار میں نظر آتا ہے اور اگر ان سے نظام معیشت کی اصلاح کا طریق کار پوچھیے تو کچھ سرمایہ دارانہ طرز معیشت اسلامی اصلاحات میں پیش کر دیتے ہیں اور کچھ کمیونزم سے ملتا جلتا نظام تجویز کرتے اور اسے اسلام کی تعلیمات سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔

ہم مسلمان ایک ایسی امت ہیں جسے یہود و نصاریٰ کے بعد ’شہادت علی الناس‘ کی ذمہ داری پر فائز کیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے اجتماعی وجود میں دین کے گواہ بن جائیں۔یہ گواہی اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب مسلمانوں کا اندرونی نظام دین اسلام کی تعلیمات کا آئینہ دار ہو۔ اس کے افراد بحیثیت مجموعی انتہائی اعلیٰ کردار کا نمونہ ہوں۔غرض یہ کہ وہ قرآن کے الفاظ میں’ ’خیر امت‘‘ اور’’امت وسط‘‘ بن جائیں اور اس طرح وہ دنیا کے سامنے اپنے دین کے گواہ بن جائیں۔

ہم بحیثیت امت اپنی اس ذمہ داری کو یکسر بھولے ہوئے ہیں۔ جسد ملی کو کاٹ کر بیسیوں ریاستیں بنا دی گئی ہیں۔ ہر ریاست کے سربرآوردہ لوگ بالعموم، وہی ہیں جن کا ماخذ علم مغرب ہے۔ وہ مذہب کو ایک انفرادی وظیفہ سمجھتے اور ریاست کے لیے جدید مغربی نظام ہی کوموزوں خیال کرتے ہیں۔ یہ لیڈر شپ کہیں سے ناگہاں نازل نہیں ہوئی۔ یہ اسلامی ملکوں کے عوامی رویوں کی آئینہ دار ہے۔ مذہبی رہنما ان ملکوں میں غیر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور بالعموم ان کی ذمہ داریاں مذہبی رسوم ادا کرنے تک محدود ہیں۔ رہن سہن، کاروبار، تقریبات، ہر جگہ غیر اسلامی طور طریقے رائج ہیں۔ یہاں تک کہ نماز روزے کا اہتمام کرنے والے لوگ بھی دین و دنیا کی اس تقسیم پر راضی ہیں۔

اب دیکھیے، قرآن مجید کے نزدیک مسلم امتوں کی نکبت کا سبب ان کا اپنے داخل اور خارج میں خدا کی عائد کردہ ذمہ داریوں سے گریز ہے۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو کہا تھا:

’’اپنے رب سے معافی مانگ لو۔ بے شک وہ بڑا معاف کر دینے والا ہے۔ ( اس کے نتیجے میں) وہ تم پر چھاجوں مینہ برسائے گا، اورمال و اولاد سے تم کو برکت دے گا اور تمھارے لیے باغ اگائے گا اور تمھارے لیے نہریں بہا دے گا۔‘‘ (نوح ۷۱: ۱۰۔ ۱۲)

ان آیات میں جو وعد ہ کیا گیا ہے، اس کی تفصیلات کا تعلق حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے معیار خوش حالی سے ہے۔ لیکن یہ وعدہ ہمارے لیے بھی ہے اور اگر ہم بحیثیت قوم توبہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرتے ہیں تو ہماری خوش حالی کی ضمانت ہماری ضروریات کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ تورات میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے:

’’اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات جاں فشانی سے مان کر، اس کے سب حکموں پر جو آج کے دن میں تم کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے، تو خداوند تیرا خدا، دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی تو مبارک ہو گا۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیدا وار اور تیرے چوپایوں کے بچے یعنی گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے مبارک ہوں گے اور تو اندر آتے وقت مبارک ہو گا اور باہر جاتے وقت مبارک ہو گا۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں گے تیرے روبرو شکست دلائے گا۔ وہ تیرے مقابلے کو تو ایک ہی راستہ سے آئیں گے پر سات سات راستوں سے ہو کر تیرے آگے سے بھاگیں گے۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ لگائے گا، برکت کا حکم دے گا۔ اور خداوند تیرا خدا اس ملک میں جسے وہ تجھ کو دیتا ہے تجھ کو برکت بخشے گا۔ اگر تو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو مانے اور اس کی راہوں پر چلے تو خدا وند اس قسم کے مطابق، جو اس نے تجھ سے کھائی، تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا اور دنیا کی سب قومیں، یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی... خدا آسمان کو جو اس کا اچھا خزانہ ہے تیرے لیے کھول دے گا کہ تیرے ملک میں وقت پر مینہ برسائے اور وہ تیرے سب کاموں میں، جن میں تو ہاتھ لگائے گا، برکت دے گا اور تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دُم نہیں بلکہ سر ٹھہرائے گا اور تو پست نہیں،بلکہ سرفراز ہی رہے گا، بشرطیکہ تو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو جو میں تجھ کو آج کے دن دیتا ہوں، سنے اور احتیاط سے ان پر عمل کرے۔‘‘ (استثنا ۲۸: ۱۔۱۴) 

ہماری اس تفصیل سے واضح ہے کہ اہل مذہب کی بات درست ہے۔ لیکن اس معنی میں نہیں کہ اسلامی تعزیرات نافذ کر دی جائیں، بلکہ اس معنی میں کہ ہم من حیث القوم اپنے سابقہ رویے پرتوبہ کریں اور دل و جان سے پورے دین کو زندگی کے ہر ہر گوشے کے لیے اختیار کر لیں۔ ۱؂

[۱۹۹۷ء[

_________

 

۱؂یہ قانون اولاد ابراہیم کے ساتھ خاص ہے۔ ہم نے ملت ابراہیمی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارا نصیب انھی کے ساتھ وابستہ ہے۔

___________________

B