HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ہمارے رہنما

ہمارے رہنما اعلیٰ خصائص سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انتشار کا شکار ہیں۔ ہمارے مابین فرقہ بازی اور قومیت پرستی کے رجحانا ت فروغ پا رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کا احیا تو دور کی بات ہے ہم روزمرہ کی زندگی کے لیے مطلوب اخلاقیات سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی قوم کی قیادت اس کی عمومی حالت ہی کی آئینہ دار ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس، یہ بات بھی درست ہے کہ کسی قوم کو اس کی قیادت ہی زوال اور انحطاط کے مراحل سے نکالتی اور ترقی اور عظمت کی منازل سے ہم کنار کرتی ہے۔

ہمارے ملک میں بھی ہر معاشرے کی طرح مذہبی اسکالر، دانش ور، اساتذہ اور سیاسی رہنما موجود ہیں۔ یہی لوگ معاشرے کی ناؤ کے ناخدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کوتاہ بین ہوں، ان کی زبانیں منافرت اور عداوت کی بولی بولتی ہوں اور ان کے سینے سوز و اضطراب سے تہی دامن ہوں تو قوم کی فلاح کی امیدیں معدوم ہو جاتی ہیں۔

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سیادت کے منصب پر فائز کیا ہے، انھیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ صرف اسی صورت میں امید کی جا سکتی ہے کہ وہ قوم کو قعر مذلت سے نکالنے کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔

انھیں چاہیے کہ وہ بلند نگاہ ہوں۔ بلند نگاہی سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ محض اپنی اغراض کے بندے نہ ہوں۔ چھوٹے چھوٹے مفادات ان کی منزل نہ بنیں۔ ذرا ذرا سی باتیں انھیں جادۂ صواب سے منحرف نہ کر دیتی ہوں۔ ایسا نہ ہوتا ہو کہ وہ راہ میں آنے والے خار سے اس طرح الجھیں کہ اپنی منزل ہی کھوٹی کر لیں۔ وہ راہ شوق پر نکلے ہیں تو اسے قدم قدم یادگار بنانے کا دم داعیہ رکھتے ہوں۔ کھڑے ہونے کی ضرورت پڑے تو کوہ گراں محسوس ہوں۔ اور اگر اقدام کا مرحلہ در پیش ہو تو انھیں اپنی جان کی بھی پروا نہ ہو۔

انھیں چاہیے کہ وہ دل نواز ہوں۔ دل نوازی ایک برتاؤ ہے۔ دل نوازی عمدہ اخلاق کا سرعنوان ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ملنے والوں کے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔ ایسی محبت کہ وہ آپ سے محبت کرنے لگیں۔ غلطیوں پر عفو و در گزر سے کام لیں۔ کوتاہیوں پر ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھانے والے بن جائیں۔ اختلاف رائے کو کھلے دل سے قبول کریں۔ یہ دل نوازیاں صرف اپنوں ہی کے ساتھ خاص نہ ہوں، پرائے بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کے مستحق ٹھہریں۔ یہاں تک کہ دشمن بھی آپ کے عمدہ برتاؤ کی گواہی دے۔

انھیں چاہیے کہ وہ دل مضطرب کے ساتھ جئیں۔ انھوں نے سوز نفس کی نعمت پائی ہو۔ یہ دل مضطرب اور سوز و نفس کیا ہے؟ یہ اپنے آغاز میں حق اور سچائی کے لیے تڑپ ہے اور اپنے انجام میں اس کی خاطر اپنی جان گھلاتے رہنا ہے۔ یہ معاشرت کے پہلو سے دیکھیں تو دوسروں کے لیے جینا ہے۔ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ بنا لینا ہے۔

وہ شخص جسے اصلاح احوال کا جذبہ بے چین رکھتا ہو، وہ جس کی زبان سے لفظ محبت بن کر نکلیں، وہ جس نے اعلیٰ مقاصد کو اپنی منزل بنا لیا ہو، وہ لاریب اقبال کا میرکارواں ہے:

 

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

 

[۱۹۹۷ء[

___________________

B