غیبت، دین کی رو سے ایک بڑا گناہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاشرے میں افراد کے باہمی روابط میں تلخیوں کے در آنے کا ایک بڑا سبب ہے۔باہمی اعتماد اور محبت کے تعلقات، بالعموم، اسی کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں۔اگر کسی سبب سے دو افراد ایک دوسرے سے ناراض ہوں تو اکثر غیبت ہی وہ چیز ہے جو ان کے مل بیٹھنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔انھی تباہ کاریوں کے باعث قرآن مجید اس کی شناعت ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوْہُ.(الحجرات۴۹: ۱۲)
’’اور نہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اس چیز کو تم نے ناگوار جانا۔‘‘
یعنی غیبت اسی طرح کا ایک کریہہ عمل ہے جس طرح کا کریہہ عمل بھائی کا گوشت کھانا ہے، جبکہ وہ مر چکا ہو اور بھائی، بھائی کی نعش ادھیڑنا شروع کر دے۔ نعش ایک بے بس وجود ہے جو اس ظالم کو روکنے سے قطعی قاصر ہے۔کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کی برائی بیان کرنا صورت واقعہ کے اعتبار سے، حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح کا عمل بن جاتا ہے۔اس لیے کہ اس کے پاس نہ اپنے دفاع کا موقع ہے اور نہ وہ اپنی صفائی ہی پیش کر سکتا ہے اور اس لیے کہ اس کے خلاف جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ اس سے بالکل بے خبر ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی غیبت کے بعض اہم پہلووں کی وضاحت ہوتی ہے:
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:اتدرون ما الغیبۃ؟ قالوا: اللّٰہ ورسولہ اعلم. قال: ذکرک اخاک بما یکرہ. قیل: أفرایت اِن کان فی أخی ما أقول. قال: اِن کان فیہ ما تقول فقدِ اغتبتہ وإن لم یکن فیہ فقد بھتہ.(مسلم: کتاب البر، باب حرمۃ الغیبہ)
’’ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے کہ اس کو برا محسوس ہو۔ عرض کیا گیا کہ حضور کا کیا خیال ہے، اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو۔ فرمایا: اگر اس میں وہ برائی موجود ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تُو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں جس کا تُو نے ذکر کیاہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘
اس روایت میں منقول مکالمے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی گفتگو کرنا، جو اسے، اگر وہ موجود ہوتا تو ناگوار گزرتی، غیبت کے دائرے میں آتی ہے۔ اگرچہ گفتگو کے ناگوار ہونے کی وجوہ تو اور بھی ہو سکتی ہیں، لیکن، چونکہ زیادہ تر اس طرح کی گفتگووں میں عیوب ہی بیان کیے جاتے ہیں، اسی لیے ایک شخص نے حضور سے پوچھا: اگر وہ برائی واقعتہً اس میں موجود ہو تب بھی؟ چنانچہ آپ نے جواب میں وضاحت فرمادی کہ وہ برائی واقعتہً اس میں موجود ہو تو وہ غیبت ہوگی، ورنہ بہتان۔ اگر اس گفتگو سے سامنے آنے والی شرائط و قیود کو حتمی مان لیا جائے تو بعض ایسی صورتیں بھی غیبت قرار پاتی ہیں جن میں اس طرح کی گفتگو نہ صرف یہ کہ کرنا پڑتی ہے، بلکہ بعض اوقات دین ہی کی رو سے ضروری قرار پاتی ہے۔ عدالت میں گواہی، ظلم کے خلاف فریاد، کسی شخص کو کسی کے بارے میں مشورہ دینا یا اسے اس کے شر سے بچانے کے لیے نصیحت کرنا اور تحقیق روایت کے سلسلے میں تنقید رجال کا فن و غیرہ ایسی ہی صورتیں ہیں۔ اس تناقض کو دور کرنے کے لیے علما نے دو راستے اختیار کیے ہیں۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ غیبت کو دو حصوں: غیبت محرمہ اور غیبت مباحہ میں تقسیم کر دیا جائے۔ غیبت محرمہ میں وہ معاملات لیے جائیں جن میں گفتگو تذلیل و تحقیر اور فساد وعناد جیسے محرکات کے تحت کی جاتی ہے اور غیبت مباحہ ان معاملات سے متعلق سمجھی جائے جن میں، دین اور اخلاق ہر اعتبار سے، اس طرح کی گفتگو ناگزیر ہو جاتی ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ غیبت کی ایسی جامع و مانع تعریف کر دی جائے کہ مباح غیبت والی صورتیں اس کے دائرے میں نہ آتی ہوں۔ اگرچہ اصل مقصددونوں ہی سے حاصل ہو جاتا ہے، لیکن یہ دوسرا راستہ پہلے راستہ کے مقابلے میں زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے اور اس میں غیبت پر لفظ غیبت کا اطلاق عرف لغت کے مطابق ہوا ہے۔ جبکہ ’’غیبت مباحہ‘‘ کی اصطلاح میں یہ اپنے معروف معنی سے ہٹ کر محض بطور مجاز استعمال ہوتا ہے۔
بہرحال، اس صورت میں، غیبت کا اطلاق کسی شخص کے بارے میں کی گئی صرف اس گفتگو پر ہو گا جس میں اس کی برائیاں بیان کی گئی ہوں اور اس سے مقصود اس کی تذلیل و تحقیر ہو اور گفتگو کرنے والے کی خواہش یہ ہو کہ یہ گفتگو متعلقہ فرد سے مخفی رہے۔ اخفا کی شرط خود لفظ ’’غیبت‘‘ کا تقاضا ہے اور تذلیل و تحقیر کی نیت اور برائیوں کے بیان کرنے کی شرائط اس لیے لگائی گئی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کی ممانعت انھی وجوہ سے آئی ہے۔ اس ضمن میں فساد و عناد، تمسخر اور اس جیسے دوسرے منفی محرکات کا ذکر اس وجہ سے غلط ہے کہ یہ چیزیں اپنی علیحدہ حیثیت میں جرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں الگ الگ ذکر کر کے ان سے روکا گیا ہے۔
[۱۹۹۳ء]
___________________