HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

علما اور سیاست

مسلمان کی سیاست یہ ہے کہ وہ اپنی اجتماعیت کو دین کے تابع کرنے کی سعی کرے اور حکمران اگر ’الٰہی قانون‘ سے منحرف ہوں تو ان کی اصلاح کے لیے حتی الوسع کوشش کرے۔ علماے دین پر بھی، اصلاً، اتنی سیاست، بہر حال واجب ہے۔ کوئی عالم دین، اجتماعی زندگی میں ہونے والی معصیتوں سے ، اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ اور اگر اس کی زندگی میں ایسی معصیتیں ہوئیں اور اس نے ان کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی نہیں کی تو یہ کوتاہی اللہ کے ہاں قابل مواخذہ ہے۔

ارض وطن کے علما بالعموم، دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک گروہ ان علما پر مشتمل ہے، جن کی اسلامی نظام زندگی کے احیا کی سعی و جہد صرف نماز جمعہ میں دعا تک محدود ہے۔ اور دوسرے گروہ میں وہ علما شامل ہیں، جو حریف اقتدار بن کر میدان میں کھڑے ہیں۔ دونوں ہی رویے قابل اصلاح ہیں۔ پہلے گروہ کے علما معصیت میں مبتلا ہیں، اس لیے کہ دین حق کی سرفرازی کے لیے عملی جدوجہد یا اس سے تعاون سے اعراض، بہرحال غلط ہے۔ ادھر دوسرے گروہ کے علما کے بارے میں یہ خیال عام ہو گیا کہ مولوی محض اقتدار کا طالب ہے۔ بلکہ اس سعی میں انھوں نے بہت کچھ کھویا بھی ہے، مثلاً عورت اگر اقتدار کی طالب ہوئی ہے اور وہ سیاسی مقاصد میں ان کی حلیف ہے تو انھوں نے’’کتاب الحیل‘‘ سے اس کے لیے گنجایش نکال لی۔ اور جہاں عورت نے ان کی خواہشات کے خلاف اقتدار سنبھالا تو پھر دین کا جھنڈا لے کر اس کی مخالفت میں کمر کس لی۔

حد یہ ہے کہ حکمران اگر ان کے دباؤ سے دین کی طرف راغب ہو سکتا تھا تو ان کی خود اقتدار حاصل کرنے کی سعی اس عمل کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔

ہمارے نزدیک، علماے سلف کا طریقہ ہی ٹھیک تھا۔ وہ لوگ کبھی اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن احقاق حق کے لیے انھوں نے کبھی اپنی جان کی پروا بھی نہیں کی۔ حکمرانوں کے ظلم و تشدد اور علما کے ثبات قدم کی داستانیں تاریخ کے ورق ورق پر رقم ہیں۔

درحقیقت، علما کے شایان شان یہ ہے کہ وہ اقتدار کے رہنما ہوں۔ اقتدار ہمیشہ ان کے دروازے پر نیاز مندانہ حاضر ہو۔ وہ سیاست دانوں کی صفوں میں نہیں، بلکہ سیاست دان ان کی اقتدا میں کھڑے ہوں۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کی آواز ہوں۔ دین کے علم نے ان کو لوگوں کی رہنمائی کا منصب عطا کیا ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے اس منصب کی پاس داری کریں۔ وہ داعی ہیں اور ان کی دعوت کا مخاطب جس طرح عام آدمی ہے، ویسے ہی حکمران بھی ہیں۔

آج بھی علماے دین اگر حکمرانوں سے صحیح اسلامی نظام کا مطالبہ کریں اور عام آدمی میں اس نظام کا شعور پیدا کر دیں تو حکمران وہ نظام نافذ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بصورت دیگر اقتدار ان ہاتھوں میں منتقل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی، جو یہ نظام نافذ کر سکتے ہیں۔

[۱۹۹۱ء[

___________________

 

B