ہم ایک صاحب علم صوفی کی مجلس میں بیٹھے تھے ۔ ان سے اہل تصوف کے نقطۂ نظر کی صحت و عدم صحت پر بات ہو رہی تھی۔ یہ بات چیت اس علمی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی کہ تصوف کو دین سے الگ قرار دینا درست ہے یا نہیں ۔ محترم صوفی صاحب اس نکتے کے حق میں دلائل دے رہے تھے کہ تصوف کا عملی پہلو خود ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ہمیں اس بات پر اصرار تھا کہ کسی اہم دینی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے قرآن و سنت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے ۔
اس گفتگو کو ایک اور صاحب بھی سن رہے تھے ۔ صوفی صاحب کسی ضرورت سے اٹھ کر گئے تو وہ ہمیں نصیحت کرنے کا موقع پا کر فرمانے لگے : ’’مجھے بھی اہل تصوف پر اسی نوعیت کے اعتراضات تھے۔ میں بھی یہ اعتراضات پیش کرتا رہا ہوں اور کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہوں ۔ ایک دوست سے بات کرتے ہوئے میں نے اس بات کو پا لیا کہ اہل تصوف سے علمی بحثیں کرنے کا حاصل کچھ نہیں ۔ ان سے دینی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد لینی چاہیے اور صوفی یہ مدد بخوبی کر سکتے ہیں ۔‘‘ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی فرمایا :’’یہ مدد لینے میں اگر کہیں کہیں اپنے دینی فہم سے کسی حد تک صرف نظر بھی کرنا پڑے تو ایک بڑے مقصد کو پانے کے لیے یہ بھی کر لینا چاہیے۔‘‘
میں سوچتا ہوں: دین ایک وحدت ہے ۔ اساسات سے لے کر فروع تک ہر چیز ایک رشتے میں پروئی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی معاملات کو قیاس و استنباط پر چھوڑ دیا گیا ہے ، لیکن کسی قیاس اور کسی استنباط کی صحت کو جانچنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ یہ دین کے کلیات اور ان کلیات پر مبنی اجزا سے پوری طرح ہم آہنگ ہو ں۔
میں دین کا ایک طالب علم ہوں اور میں نے دین کو ایسا ہی پایا ہے ۔ یہ صرف میرا نقطۂ نظر ہی نہیں ہے ، پچھلی پندرہ صدیوں میں اس دین کے پیش کرنے والے تمام علما اسے اسی طرح پیش کرتے آرہے ہیں ۔ گویا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ماننے میں کسی کو تامل تو کیا ہو، سب اسی کے داعی اور مدعی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس دین کو اختیار کرنے والا اپنے آپ کو اس بات پر مجبور کیوں پاتا ہے کہ وہ اپنی دینی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ’’کہیں کہیں‘‘ اپنے دینی فہم سے صرف نظر کرے ۔ اگردین کے ایک وحدت ہونے کی بات درست ہے تو پھر معاملے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کا فہم درست نہ ہو اور دوسرے یہ کہ دینی زندگی بہتر بنانے کا طریقہ غلط ہو ۔ معاملہ کچھ بھی ہو، جہاں غلطی ہے، اصلاح اسی کی ہونی چاہیے ۔ فائدہ دین کے معاملے میں کسی غلطی کو گوارا کرنے کے لیے دلیل نہیں ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے دینی گروہوں کی طرف سے یہ فائدہ ہی بنیادی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔یہ بات بڑے اصرار سے کہی جاتی ہے کہ آپ ہمارے طریقے کو اختیار کرلیں ۔ جب آپ اس کے فوائد کا تجربہ کر لیں گے ، خود ہی اس مسلک کی صحت کے قائل ہو جائیں گے۔
ہمیں حیرت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت کے ۲۳برسوں میں پہلے قریش مکہ اور پھر یہود و نصاریٰ کے ساتھ دین کے ہر ہر پہلو پر گفتگو جاری رہی،لیکن کسی بھی موقع پر فائدے کی یہ دلیل پیش نہیں کی گئی ۔ ہر ہر اعتراض کے جواب میں استدلال ہی کے طریقے کو اختیار کیا گیا ۔
دین ایک وحدت ہے ۔ مزید یہ کہ تزکیۂ نفس کا پورا نصاب ہے ۔ اس کے حوالے سے وہی چیز قابل قبول ہے ، جو اس کے ساتھ ہر لحاظ سے ہم آہنگ ہو۔
[۲۰۰۲ء[
___________________