HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

پیمانہ

روز مرہ کی زندگی میں ہمیں قسم قسم کے معاملات پیش آتے ہیں ۔ گھریلو زندگی اور گھر کے باہر کے معاملات میں ہر طبیعت اور ہر مزاج کے لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے ، دوسروں کے لیے وجہ شکایت بنتا ہے ۔ کسی کو ہم سے تیمار داری نہ کرنے کی شکایت ہوتی ہے ۔ کسی کو ضرورت کے وقت تعاون نہ کرنے کی ۔ کسی کو کسی موقع پر ہم سے خفت اٹھانی پڑی ہے اور کسی کو ہم نے بد زبانی سے مجروح کیا ہے۔ 

یہ غلطیوں کی ایک نوعیت ہے ۔ اس سے آگے شکایات کی ایک اور دنیا بھی ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ شکایات ہم سے وابستہ توقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ۔ کہیں ہم صحیح بیٹے ثابت نہیں ہو سکے ، کہیں صحیح والد ۔ کسی استاد کو شکایت ہے کہ ہم اچھے شاگرد نہیں اور ہم میں سے کوئی اگر استاد ہے تو اس کے بعض شاگر د شکایت کرتے ہیں کہ ہم اچھے استاد نہیں اگر کسی کا ماتحتوں سے واسطہ ہے تو بعض ماتحت اس سے شاکی ہیں اور اگر کوئی ماتحت ہے تو اس کا باس اسے اچھا نہیں گردانتا ۔چھوٹے بھائی بڑے بھائی کو اچھا سرپرست قرار نہیں دیتے اور بڑا بھائی چھوٹوں کا رویہ درست ماننے میں متامل ہے۔ غرض یہ کہ ہمیں جو حیثیت حاصل ہے ، اس حیثیت میں ہم سے کچھ توقعات وابستہ ہیں اورجس کے نزدیک ہم توقعات پر پورے نہیں اترے، وہ ہم سے شاکی نظر آتا ہے ۔

شکایت کی ایک سطح اس سے بھی بلند ہے ۔ اس کا سامنا ہم اس وقت کرتے ہیں، جب لوگ ہمیں بہتر صلاحیت کا حامل یا زیادہ سمجھ دارخیال کرتے ہیں ۔ یہ معاملہ ہمیں اس وقت بھی پیش آتا ہے، جب ہم نظریاتی یا مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ اب ہم لوگوں کی نظر میں ایک بڑے آدمی ہیں ۔’’بڑا آدمی‘‘ایک پیمانہ ہے ۔ ہمارے ہر ہر عمل کو اس پیمانے پر ناپا جا رہا ہے ۔ جہاں جہاں لوگوں کو ہمارے ہاں کوتاہی نظر آتی ہے، وہ ہم پرتنقید کرتے ہیں ۔

تنقید کی یہ یورش ہماری زندگی کو تلخ بنادیتی ہے ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ اب ذرا اس کا دوسرا رخ دیکھیے ۔یعنی ہم اس تنقید کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔ہم تنہائی میں بیٹھیں تو اس تنقید کا کیا جواب ہمارے ذہن میں آتا ہے ۔ لوگ تنقید کر رہے ہوں تو ہم اس کا کیا جواب دیتے ہیں ۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے جب ہمیں کوئی تنقید درست لگتی ہے۔ بالعموم ہم اپنے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی جواز رکھتے اور اسے پیش کر دیتے ہیں ۔ کبھی ہم اس کا جواز متعلقہ افراد کے رویے سے دیتے اور کبھی درپیش حالات سے اس کی گنجایش نکال لیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک جواز ہم اپنے ضعف یعنی بحیثیت انسان اپنی محدودیت سے پیش کرتے ہیں ۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنی محدودیت کا اعتراف لوگوں کے سامنے کریں ۔ لوگوں کے سامنے تو ہم تمام ذمہ داری دوسروں ہی پر ڈالتے ہیں۔ لیکن تنہائی میں جب سائل اور مسؤل ہم خود ہی ہوتے ہیں تو یہ اعتراف ہمارے لیے بڑے اطمینان کا سامان بنتا ہے۔

اس سارے تجزیے اور جواب سے ہمیں سب سے ایک شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ہم محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہمارا عذر قبول نہیں کیا۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ بعض تقاضے غیر حقیقی ہیں ۔ اگر لوگوں کا تقاضا حقیقی ہوتا تو انھیں ہم سے کوئی شکایت نہ ہوتی ۔ غرض یہ کہ تنقید اور شکایات کا جواب دینے کے بعد ہم لوگوں کے رویے اور آرا میں تبدیلی کی توقع کرتے ہیں ، لیکن اکثر یہ توقع پوری نہیں ہوتی ۔ اس سے ہم اور دکھی ہو جاتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی تنقید اور شکایت کے جواب میں اپنے مخاطب کو یہی رویہ دیتے ہیں؟کیا ہم اس کے ضعف کالحاظ کرتے اور اس کے عذر مان لیتے ہیں؟کیا ہمارے لینے اور دینے کے باٹ الگ الگ نہیں ہیں ؟کیا پیمانہ ایک نہیں ہونا چاہیے؟ دیکھیے، پیغمبر کا فرمان ہے :

’’(ایمان یہ ہے کہ ) تو لوگوں کے لیے وہی پسندکرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لیے ناپسند کرے وہی لوگوں کے لیے نا پسند کرے ۔‘‘ (مسنداحمد ، عن معاذ بن جبل) 

[۲۰۰۲ء[

___________________

 

B