کسی نے پوچھا: اخلاقی اقدار کی بنیاد کیا ہے۔ دانش وروں نے جواب دیا: اخلاقی اقدار کی بنیاد سماجی ڈھانچے پر ہے اور سماجی ڈھانچے کے بہت سے عناصر طرز معیشت سے براہ راست متعلق ہوتے ہیں۔ اپنی بات کی تفصیل کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ چوری ایک جرم ہے۔ لیکن اس کا تصور اس وقت سامنے آیا، جب چیزوں کو ذاتی ملکیت کی حیثیت حاصل ہوئی۔ عورت کے حقوق جاگیردارانہ معاشرے میں اور ہیں اور موجودہ صنعتی معاشرے میں اور۔ بہت سی اخلاقی اقدار مفادات کے تحفظ کے لیے رائج کی گئیں۔ مثلاً وفاداری اور نمک حلالی کی اقدار کو رائج کر کے نوابوں، جاگیرداروں اور بادشاہوں نے اپنی رعایا کو اپنے استحصالی نظام میں جکڑے رکھا۔ اس تجزیے سے وہ ایک دل چسپ نتیجہ بھی نکالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر معیشت کے نظام کو نئے خطوط پر استوار کر دیا جائے تو چند ہی برسوں میں بہت سی اقدار دم توڑ دیں گی اور انسانی ضمیر نئے پیمانوں سے اپنا فریضۂ ملامت انجام دے گا۔ان کی سب سے زیادہ دل چسپی عورت کی آزادی سے ہے۔ ان کے نزدیک اگر مرد اور عورت کو کمائی کے یکساں مواقع میسر ہوں تو عورت مرد کے چنگل سے نکل جائے گی۔ بیوی کا روایتی تصور ختم ہو جائے گا اور مرد و عورت کے حقوق و اختیارات بالکل یکساں ہو جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کے بارے میں یہ نقطۂ نظر بڑا سطحی ہے۔ یہ اہل مذہب کی اس رائے کو باطل کرنے کی کوشش ہے کہ اخلاقی اقدار ایک مستقل حیثیت رکھتی ہیں۔ اہل مذہب کا استدلال یہ ہے کہ ان اقدار کا ماخذ وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یہ فطرت ہمیشہ سے ایک ہے اور ایک ہی رہے گی۔ بعض برے عوامل اور حالات اسے غیر موثر یا معطل ضرور کرد یتے ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کی اپنی کوئی اصل صورت نہیں ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
اس معاملے میں غلطی لگنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اخلاقی اقدار کے پیچھے کارفرما اصولوں اور ان کی عملی صورتوں کو ایک ہی سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ مثلاً، دیکھیے، مہمان نوازی ہر معاشرے کی قدر ہے۔ لیکن اس کے اظہار کے طریقے ہر ماحول میں مختلف ہیں۔ مہمان کا دروازے میں آ کر استقبال کیا جائے یا نہیں، اس سے مصافحہ ہو گا یا معانقہ، کھانا پر تکلف ہو گا یا سادہ، کھانا کھلاتے ہوئے اصرار کیا جائے گا یا محض پیش کر دینا ہی کافی ہے۔ رخصت کرتے ہوئے دروازے تک رخصت کیا جائے گا یا نشست ہی سے، یہ سب امور مختلف ہو سکتے ہیں۔ کہیں ایک امر کو مہمان نوازی کا تقاضا سمجھا جائے گا او رکہیں دوسرے کو، لیکن ان سب اعمال کے پیچھے کارفرما ایک ہی قدر یعنی مہمان نوازی ہے۔
اگر تمام معاشرتی اقدار کو کسی ایک لڑی میں پرونا چاہیں تو وہ خیر خواہی ہے۔ اسی خیر خواہی کے مظاہر عدل، محبت، سخاوت، مساوات، آزادی کے الفاظ کا روپ دھارتے ہیں۔ یہ مظاہر بھی ایک حد تک ہر معاشرے میں یکساں ہیں، لیکن ان کے اطلاق کی صورتیں مختلف ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز اس دھوکے کا باعث بنتی ہے کہ اقدار ایک تغیر پذیر معاشرتی معاملہ ہے۔
تمام اخلاقی اقدار میں اصل اصول کی حیثیت ایک دوسرے کی خیر خواہی کو حاصل ہے۔ یہی حقیقت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الدین النصیحۃ‘ کے لافانی الفاظ میں بیان کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ ا س خیر خواہی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ انسان کی اپنی ذات سے لے کر معاشرے، حکومت یہاں تک کہ دین اور خدا کے لیے بھی مطلوب ہے۔
[۲۰۰۲ء[
___________________