HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اقتدار کے لیے اہلیت کی شرائط

انتخابات کا عمل موجودہ جمہوری ریاستوں کا ایک ضروری حصہ ہے۔ اس کے ذریعے سے یہ بات معلوم کی جاتی ہے کہ عوام کی زیادہ تائید کس گروہ کو حاصل ہے۔ اس غرض کے لیے ماہرین سیاسیات نے مختلف طریقے تجویز کیے ہیں، تاکہ اس بات کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہی لوگ ایوان اقتدار تک پہنچیں جنھیں حقیقتاً زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ اور وہ لوگ ان اداروں میں نہ آ سکیں جنھیں زیادہ عوامی حمایت تو حاصل نہیں ہے، لیکن، بظاہر، وہ الیکشن جیت گئے ہیں۔

ہمارے دین اسلام میں بھی، ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوامی تائید ایک ضروری شرط ہے۔ سورۂ شوریٰ میں اہل ایمان کی یہ خصوصیت بیان ہوئی ہے کہ’’ان کا نظام ان کے باہمی مشورے سے چلتا ہے‘‘ ۱؂یہ جملہ جن بنیادی اصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں اسی گروہ کو اقتدار ملنا چاہیے جسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ مشورے کی روح کا تقاضا یہی ہے کہ وہ لوگ منتخب قرار دیے جائیں، جن کے حق میں ریاست کے شہریوں کی اکثریت ہو۔ اس مقصد کے لیے انتخابات کے جدید نظاموں میں سے وہ نظام اختیار کر لینا چاہیے، جو اس لحاظ سے سب سے بہتر ہو۔

لیکن ہمارا دین ہمیں، اقتدار کے معاملے میں،صرف یہی ایک معیار نہیں دیتا، بلکہ وہ اس سے زائد شرائط بھی عائد کرتا ہے، جو ہمیں، بہرحال، پیش نظر رکھنی ہیں۔ اگر ہم ان زائد، مگر لازمی شرائط کو پیش نظر نہیں رکھتے تو ایسے لوگ اقتدار میں نہیں آ سکتے، جو اسلام کی رو سے اقتدار میں آنے کا حق رکھتے ہیں۔

ہمارے دین نے ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہی لوگ مجالس مشورہ کے رکن بنیں، جن کے اندر استنباط کی صلاحیت ہو۔ استنباط کا مطلب یہ ہے کہ وہ کار اقتدار کے معاملات کو سمجھنے اور سلجھانے کی صلاحیت سے پوری طرح بہرہ ور ہوں۔ اجتماعی معاملات کو جانچنے، پرکھنے اور صحیح نتائج تک پہنچنے کی اہلیت رکھتے ہوں، اور داخلی اور خارجی ہر محاذ پر اپنی بصیرت کی روشنی میں درست اقدام کر سکتے ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ان افراد کو اس بنیادی صلاحیت کے ساتھ ساتھ متاع کردار بھی حاصل ہو۔ ایک اسلامی معاشر ہ اپنے اندر انھی لوگوں کو ممتاز حیثیت دے سکتا ہے، جو قول و فعل کے اعتبار سے بھی ممتاز ہوں۔ وہ اپنی دیانت، امانت، اللہ سے لگاؤ اور حسن اخلاق میں دوسروں سے نمایاں ہوں۔ قرآن مجید نے سورۂ حجرات میں فیصلہ کن بات کہی ہے: ’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم‘۲؂(اللہ کے نزدیک، سب سے زیادہ محترم وہی ہے، جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔) مطلب یہ کہ اہل اسلام میں اور ایک اسلامی ریاست میں معیار شرف و ذلت کی حیثیت کردار کو حاصل ہونی چاہیے۔ وہ لوگ معزز ہوں اور لوگ انھی کو اپنا قائد بنائیں جو بلند کردار کے حامل ہوں، اور وہ لوگ اراذل میں شمار ہوں، جن کا کردار برا ہے۔ اسی طرح اسلام اس بات کو ایک قدر اور روایت کے طور پر فروغ دینا چاہتا ہے کہ اقتدار کے طالب، اقتدار حاصل نہ کر سکیں۔ اس کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ لوگ اقتدار کے حریص ہوں اور اس کو پانے کے لیے کوشاں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ ہمارے نظام میں وہ شخص اس منصب کے لیے نا اہل ہو جاتا ہے جو اسے مانگے اور اس کا حریص ہو۔ اور یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اگر یہ خواہش کے نتیجے میں دیا گیا تو آدمی اس کی دار پر فنا ہو جائے گا اور اگر بغیر خواہش کے حاصل ہوا تو اللہ کی مدد حاصل ہو گی۔

اگر ہم غور کریں تو ان خصوصیات کے حامل افراد کا موجودہ نظام انتخابات میں جیت جانا تو ایک طرف، شریک ہونا بھی مشکل ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں اصلاحات کی جائیں اور ایسا نظام بنایا جائے جس میں اقتدار کے حریص، متاع کردار سے تہی دامن اور علم و صلاحیت کے اعتبار سے کوتاہ قامت لوگ اقتدار میں نہ آ سکیں۔ موجودہ نظام ہاے انتخابات میں سے متناسب نمائندگی کا نظام، ان مقاصد کو پانے کے لیے، نسبتاً، زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے، بشرطیکہ اس میں ان مقاصد کو پانے کے لیے ضروری اصلاحات کر لی جائیں۔ چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ نظام اختیار کرتے وقت ان شرائط اہلیت کو ضرور پیش نظر رکھا جائے جنھیں اسلام اتنی اہمیت دیتا ہے۔

[۱۹۹۳ء]

_________

۱؎ ۴۲: ۳۸۔

۲؎ ۴۹: ۱۳۔

___________________

B