HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

صبر

صبر کے دو پہلو ہیں ۔ ایک پہلو یہ کہ آدمی اپنی بات پر قائم رہے اور دوسرا یہ کہ کسی موقف کے اختیار کرنے پر مشکلات پیش آئیں تو غلط رویہ اختیار نہ کرے۔ 

عام زندگی میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ احباب و اقربا اس پر صبر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی مرادیہ ہوتی ہے کہ رونے دھونے اور دل چھوٹا کرنے کے بجائے اس مشکل کو حوصلے سے برداشت کر لو ۔

دین کی تعلیمات میں بھی صبر کی ہدایت شامل ہے ۔ اس ہدایت کا تعلق عام زندگی کی مشکلات سے بھی ہے اور ان مشکلات سے بھی جو راہ حق کے اختیار کرنے میں پیش آتی ہیں ۔ عام زندگی کی مشکلات ، مثلًا بیماری ، مالی نقصان یا رزق کی کمی اور گھریلو یا خاندانی مسائل میں بھی صبر کرنا چاہیے ۔ یہاں صبر کا اطلاق خدا پر توکل ، صرف آخرت کی کامیابی اور خدا کی رضا کے لیے صحیح رویہ اختیار کرنے پر ہوتا ہے ۔ زبان پر حرف شکایت لانا ، تقدیر کے خلاف احتجاج کرنا ، بظاہر جو لوگ سبب بنے ہوئے ہیں ان پر غصہ کھانا اور اسی نوعیت کے دوسرے ردعمل صبر کے منافی ہیں ۔ شکایت سے بلند ہو جانا ، تقدیر کے خیر و شر پر ایمان رکھنا اور اپنی کوتاہی کی تلافی کرنا اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دینا صبر کا صحیح اظہار ہے ۔

دینی زندگی اختیار کرنے پر بھی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ یہ مشکلات وہ مخالفت بھی ہے ،جو آدمی کو ماحول کی طرف سے پیش آتی ہے اور قدرت کی طرف سے پیش آنے والے حالات بھی ہیں جو آدمی کے قول ایمان کی گہرائی اور استحکام کے متعین کرنے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں ۔ اب اگر آدمی مخالفت سے گھبرا جائے اور مخالفین کے ساتھ بنا کر رکھنے کے لیے دین پر عمل میں کمی کی طرف راغب ہو جائے یا اللہ کی طرف سے آنے والی کسی آزمایش پر حوصلہ چھوڑ دے اور اس آزمایش سے نکلنے کے لیے دین یا دین کے کسی جز کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے تو یہ چیز صبر نہیں ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی حق پر ڈٹ جائے ۔ ماحول کی مخالفت ہو یا قدرت کی آزمایش، ہر حال میں اپنے رب کی بات کو پکڑ کر رکھے ۔

گویا صبر دل کے عزم ، حوصلے کی بلندی ، قدم کی مضبوطی اور منفی ردعمل سے گریز کا نام ہے ۔

[۲۰۰۰ء[

___________________

 

B