HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایک موت

گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کے بھائی، میر مرتضیٰ بھٹو پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے۔ مرحوم کے ساتھ مسلح محافظ تھے۔ وہ مرحوم کو بچاتے ہوئے خود بھی راہی ملک عدم ہو گئے۔ بھٹو خاندان کے لیے یہ ایک غیر معمولی سانحہ ہے۔

موت ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ یہ جب آتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے لوٹا نہیں سکتی ۔ اسے ہر ایک کے لیے آنا ہے۔ اس کی گرفت سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ اسے بھولا رہتا ہے۔ وہ اس دنیا پر اتنا ریجھ جاتا ہے کہ اسے موت کا ذکر بھی ناگوار لگتا ہے۔

مرتضیٰ بھٹو ایک ’’بڑے ‘‘ خاندان کے فرد تھے۔ ان کے سامنے کرنے کے کاموں کی ایک دنیا تھی۔ برسوں پہلے جب ان کے باپ سے اقتدار چھنا تو انھوں نے وہ سب کچھ کر ڈالا، جو ان کے بس میں تھا۔

مرحوم کی موت اپنے اندر بہت سے سبق رکھتی ہے۔ ہروہ آدمی جس کے پیش نظر کچھ مقاصد ہیں، اسے معلوم رہنا چاہیے کہ موت کا ایک دن معین ہے، خداے برتر کے فیصلے ہر آن نافذ ہو رہے ہیں۔ ہم، ہمارا ماحول اور ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے حادثات، ہر چیز پرورد گار کی نگاہ میں ہے۔ لہٰذا ہمارا ہر فیصلہ اور ہمارا ہر اقدام اس حقیقت کو مان کر ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تدبیر بھی کریں اور عاجزی کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ہم سعی و جہد کے لیے نکلیں، لیکن یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ انجام کار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم سے کچھ چھنے تو اپنی اصلاح کریں اور اللہ کے فیصلے پر صدق دل سے راضی رہیں۔ اس لیے کہ صرف اسی کی حکمت بالغہ جانتی ہے کہ کیا ہونا چاہیے اور کب ہونا چاہیے۔ ہماری کوتاہ نگاہیں، ان مصالح کا احاطہ نہیں کر سکتیں، جو اس علیم و خبیر کے پیش نظر رہتے ہیں۔ 

اس سانحے میں ایک ’’بڑا آدمی‘‘ قتل ہوا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کا بھائی اور سابق وزیر اعظم کا بیٹا۔ لہٰذا قاتلوں کو پکڑنے اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔ یہ چیز ہمارے نظام انصاف کی بے انصافی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہر روز اخبار اس طرح کی ہلاکت کی خبر لاتا ہے۔ مرنے والے کے خاندان کے لیے، یہ بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا مرتضیٰ اپنے خاندان کے لیے۔ لیکن اس کے خاندان کی آہ و فغاں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مرتضیٰ کی موت مکافات عمل ہے۔ اگر حکومتیں بے نواؤں کی پشت پناہی کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جا بجا چلنے والی گولیاں چلتی رہیں اور خود انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیں۔

اس طرح کے سانحے پیش آتے ہیں۔ کچھ دن ہل چل رہتی ہے۔ لوگ زبان حال سے غالب کا مصرع ’لیتے نہیں ہیں دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو‘ پڑھتے ہیں اور زندگی پھر پرانی ڈگر پر آجاتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے حالات سدھریں۔ ہمیں اللہ کی رحمتیں حاصل ہوں۔ ہم وہ پائیں جو اللہ کے بندے پاتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا کا وعدہ صرف ان کے ساتھ ہے، جو اس کے دین پربے کم و کاست عمل کرتے ہیں۔لا ینال عھدی الظّٰلمین.۱؂

[۱۹۹۶ء[

_________

 

۱؂’’میرا عہد ظالموں کے لیے نہیں ہے۔‘‘(البقرہ ۲: ۱۲۴)

___________________

B