HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

مطالعۂ سیرت

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ،بالعموم،دو جہتوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک جہت مطالعہ میں، قاری، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام اور کارناموں کا مطالعہ کرتا ہے اور ان کی عظمت کے اعتراف اور خراج تحسین کے کلمات زبان پر لاتا ہے۔ اس جہت کو پسند کرنے والے لوگوں کو آپ کی مدینہ کی زندگی، جنگی کارنامے، طرز حکومت اور اس طرح کے دوسرے معاملات زیادہ قابل توجہ معلوم ہوتے ہیں او راس میں وہ لوگ ہی زیادہ دل چسپی لیتے ہیں جو انقلاب اسلامی کے لیے کوشاں ہیں اوراس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے مثالیں او رلائحۂ عمل برآمد کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جہت مطالعہ میں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کما لات کے غیر معمولی پہلو میں زیادہ دل چسپی لی جاتی ہے۔واقعۂ معراج،اسرار نبوت اور دوسرے خلاف عموم واقعات، جیسے معجزات کا صدور، اس طرح کے لوگوں کی دل چسپی کا موضوع قرار پاتے ہیں۔اور وہ معجزانہ واقعات کے مطالعے میں اس طرح دل چسپی لیتے ہیں کہ بدرجۂ آخر خود بھی ایسی ہی غیر معمولی صلاحیت حاصل کر لینے کے خواہاں ہو جاتے ہیں یا اس بات کو شخصی برتری کی علامت جاننے لگتے ہیں۔

قرآن مجید نے ان دونوں پہلووں کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تیسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے،جس کا مطالعہ،سیرت میں،اصلاً پیش نظر ہونا چاہیے۔اور وہ پہلونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کردار کا پہلو ہے۔

پہلی جہت، جس میں آپ کی زندگی کے مشن کے مراحل بیان ہوتے ہیں، اس کا بہت سا حصہ صرف منصب رسالت کے ساتھ خاص ہے اور دوسری جہت، کلیتہً، انبیا ورسل کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ جس طرح پہلی جہت کے حوالے سے جو حقوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے، ہمیں حاصل نہیں ہو سکتے اور نہ وہ خصوصیات ہی ہمارے اندر پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح دوسری جہت میں انبیا ورسل کی خصوصیات بھی کسی آدمی کا نصیب نہیں ہیں۔ لیکن یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ امت مسلمہ کی عظیم اکثریت انھی پہلووں کو اپنا مطمح نظر بنائے ہوئے ہے۔ جبکہ آپ کی سیرت کا وہ پہلو، جسے قرآن مجید اسوۂ حسنہ قرار دیتا ہے اور جسے اپنانے اور اختیار کرنے او رجس کی اتباع کی قرآن مجید تلقین کرتا ہے، مسلمانوں کی توجہ اس کی طرف کم ہی جاتی ہے۔

منصب رسالت کے مطالعے سے ہمیں اللہ کے رسولوں کے باب میں قانون الٰہی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ان کی نبوت کے فیضان سے ہمیں خدا کی مر ضیات کا علم حاصل ہوتا ہے او ران کی سیرت ہمارے لیے جادۂ حیات کے مراحل میں مشعل راہ بنتی ہے۔

رسولوں اور نبیوں کی یہ خصوصیت کہ انھیں خدا اور فرشتوں کے ساتھ خصوصی تعلق ہوتا ہے ختم نبوت کے بعد اس کے امکانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ پھر قرآن و حدیث اس تصور سے خالی ہیں کہ کسی شخص کی نیکی،اس کا خدا کی طرف لگاؤ،عبادت اور ذکر و تسبیح میں غیر معمولی اشتغال کسی شخص کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ اسے خدا کی طرف سے الہام ہو،فرشتوں سے اس کی ملاقات ہونے لگے یا اس کے وجود سے غیر معمولی واقعات ظاہر ہونے لگیں۔یہاں تک کہ انبیا ورسل کے انتخاب کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید اس بات کی قطعی نفی کرتا ہے کہ یہ منصب کسی فردکی کسی کاوش یا محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی، مدینے میں سرداران شہر نے دعوت قبول کر لی اور صرف مسلمان ہی نہیں ہوئے، بلکہ مدینے کو پہلی اسلامی ریاست بنا دینے پر تیار ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پہلا حکمران تسلیم کر لیا۔پھر اس ریاست میں جو انقلاب برپا ہوا تھا،اسے پورے عرب تک پھیلانے کے لیے، اس ریاست کے شہریوں نے اپنے جان ومال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ اللہ کی خصوصی نصرت شامل حال رہی اور پورا جزیرہ نماے عرب اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کے زیر نگوں آ گیا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا س حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ اسلامی افواج عرب کی سرحدوں سے آگے نکلنے کے لیے تیار تھیں۔ یہ درحقیقت ایک الٰہی منصوبہ تھا۔ اس کا تعلق کسی تدبیر سے نہیں تھا۔

رسول اللہ صادق اور امین تھے۔رسول اللہ حددرجہ سخی تھے۔رسول اللہ دین کے لیے غیر معمولی حمیت رکھتے تھے۔رسول اللہ دوسروں کی مدد کرنے والے اور ان کے لیے ایثارکرنے میں سب سے آگے تھے۔دین پر استقامت اورحق کے لیے ثابت قدمی میں آپ نے کبھی بال برابر بھی انحراف نہیں کیا۔اپنے مدعوئین کے ساتھ نرم روی، خیر خواہی اور دل کی کشادگی میں کوئی آپ کا ہم سر نہ تھا۔ عفو و درگزر اور عیب پوشی آپ کے کردار کا ایک مستقل حصہ تھی۔ بیویوں سے معاملہ کیا تو دل داری اور انصاف کے سارے تقاضے پورے کر دیے۔حکمران بنے تو انصاف، برابری اور حسن معاملہ کی اقدار پر حرف نہ آنے دیا۔میدان جنگ میں اترے تو استقامت، بہادری اور صبر کے لحاظ سے بے مثال نظیریں قائم کر دیں۔ باپ کی حیثیت سے دیکھیے تو شفقت،سرپرستی اور تربیت جیسی تمام ذمہ داریاں بتمام و کمال پوری کر دیں۔ اللہ کی عبادت کرتے تو خشوع و انابت، توجہ الی اللہ آپ کا سراپا ہو جاتیں۔ دین پر عمل کرنے میں ہمیشہ سبقت کے مقام پر رہے اور کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ آپ دوسرے درجے پر رہے ہوں۔ یہی، دراصل، اسوۂ رسول ہے، اوریہی وہ پہلو ہے جسے قرآن مجید واجب الاتباع قرار دیتا ہے۔

[۱۹۹۵ء[

___________________

B