نفس انسانی کے چاروں پہلووں میں سے سب سے نمایاں پہلو، انسان کا اخلاقی وجود ہے۔ اسی پہلو سے ایک انسان اپنے معاشرے میں تعلقات کے مختلف دوائر سے متعلق ہوتا ہے، لہٰذا اس کی اصلاح کی اہمیت باقی پہلووں کے مقابلے میں قدرے زائد ہو جاتی ہے۔
اخلاقی وجود میں کار فرما محرکات چار ہیں۔ محرکات سے ہماری مراد وہ چار چیزیں ہیں جو انسان کو مختلف کام کرنے پر ابھارتی ہیں یا وہ چار عوامل ہیں، جن کے باعث ایک انسان اپنے علاوہ دوسرے انسانوں سے متعلق یا ان پر اثر انداز ہونے پر مجبور ہے اور اس کے نتیجے میں دوسرے انسانوں کو اس کے رویے طرز معاملہ اور قماش سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ محرکات درج ذیل ہیں:
۱۔بنیادی ضروریات
۲۔خواہشات
۳۔شہوات
۴۔جذبات
انسان کی بنیادی ضروریات کو اخلاقی وجود کا پہلا محرک قرار دیا جا سکتا ہے اور ان ضروریات کو بنیادی قرار دیا جاتا ہے، جن کے بغیر زندگی گزارنا کسی بھی انسان کے لیے نا ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً، خود زندگی ہی کی بقا کے لیے خوراک کی ضرورت ہے۔ جسم کو ڈھانپنے کے لیے اور اسے موسمی شدائد سے بچانے کے لیے لباس کی ضرورت ہے اور اسی طرح شب و روز گزارنے کے لیے چھت کی ضرورت ہے۔ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں، جن کے لیے انسان سرگرداں رہتا ہے۔ انسان ان کا محتاج ہے اور وہ ہر حال میں انھیں دستیاب کرنے کی سعی کرتا ہے۔
اخلاقی وجود کے دوسرے محرک کو ہم خواہشات کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں۔ خواہشات، درحقیقت، بنیادی ضروریات ہی میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتی ہیں۔ جب کسی بنیادی ضرورت کے ساتھ خواہش کا پہلو جمع ہوتا ہے تو یہ ضرورت متنوع اور رنگا رنگ روپ بھرنے لگتی ہے۔ خوراک کی ضرورت، مثلاً جب ذائقے ہی کی ایک خواہش کے ساتھ عمل کرتی ہے تو مختلف قسم کے کھانے، رنگ برنگ مشروبات اور نوع بنوع مٹھائیاں اختراع ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ملک اور معاشرے کے اس باب میں اتنے تنوعات ہیں کہ شاید احاطہ کرنا ممکن نہ ہو۔لباس اور چھت کی ضرورت، مثلاً، جب برتری اور امتیاز ہی کی خواہش کے ساتھ بروئے کار آتی ہے تو تراش خراش کی مختلف نوعیتیں وجود میں آتیں اور ملبوسات کے ہزاروں ڈھنگ ایجاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح گھر محض چھت اور چار دیواروں ہی کا نام نہیں رہتا، کوٹھیاں، محلات اور حویلیاں وجود میں آتی ہیں۔ بلکہ معاملہ اہرام مصر او رتاج محل جیسی عمارتوں کی تخلیق تک جا پہنچتا ہے۔ یہ بڑی بڑی مسجدیں، یہ عالی شان مقابر اور یہ مہیب فصیلوں والے قلعے انسان کی برتری کی خواہش ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں۔
تیسرے محرک کی حیثیت شہوات کو حاصل ہے۔ جنس کا یہ جذبہ صرف صنفی تعلق تک محدود نہیں ہے۔ اس کے اثرات ادب، شاعری، موسیقی، مصوری، سنگ تراشی، ظروف سازی اور تعمیرات میں ظاہر ہوتے ہیں او رفنون لطیفہ کی تاریخ میں ہر جگہ نمایاں طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی جغرافی یا نظریاتی وحدت کی تہذیب اور اس کے تمدن کی تشکیل میں اس کا کردار ہمیشہ ہی انتہائی اہم رہا ہے اور اس کا سب سے اہم اور مثبت کردار تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ یہ جذبہ بقاے نسل انسانی کا ضامن ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہونے والے جرائم میں بھی اسے ایک بڑے اور اہم محرک کی حیثیت حاصل ہے۔
اخلاقی وجود کا چوتھا محرک انسان کے جذبات ہیں۔ نفرت، محبت، غیرت، انتقام، حیا اور خلوص وغیرہ افعال قلب، جنھیں ہم جذبات کے نام سے موسوم کرتے ہیں، انسان کی اصل شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے سے انسان اپنے وجود کا اظہار کرتاہے۔ انسان، درحقیقت، جس پہلو سے انسان کہلاتا ہے، اس میں ان جذبات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں انسان نے جتنے بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں، ان میں ان جذبات کا کردار پوری طرح شامل رہا ہے۔ لیکن ان جذبات کے ساتھ ایک مشکل بھی لاحق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ بارہا حدود سے متجاوز ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ انھیں باگیں ڈالنی پڑتی ہیں۔ اگر انھیں قابو میں نہ رکھا جائے توانسان اتنا بھی گر سکتا ہے کہ قرآن مجید کے اس ارشاد کا مصداق بن جائے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ. ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ.(التین ۹۵: ۴۔۵)
’’لاریب، ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا اورپھر اسے بد ترین جگہ پر اتار دیا۔‘‘
اخلاقی وجود کے تزکیے کی ضرورت نفس انسانی کے باقی پہلووں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی تعمیر او راس میں حسن و خوبی، یعنی اعلیٰ اقدار قائم رکھنے میں اخلاقی وجود کا کردار بڑا اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس انسانی کا اخلاقی پہلو اگر مزکیّٰ ہو تو دنیا خوب صورت انسانوں کی ’’جنت‘‘ میں تبدیل ہو جائے۔ او راگر صورت حال اس کے برعکس ہوتو یہ ایک ’’جہنم‘‘ ہے جس میں خود انسان ہی انسان کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اسلام نے اخلاقی وجود کے تزکیے کے لیے دو جہتی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ایک جہت میں تمام بشری عیوب سے پاک اور سارے اخلاقی معیاروں پر پورا اترنے والا آئیڈیل مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ آئیڈیل بھی کوئی خیالی وجود نہیں، بلکہ ایک انسان، ایک عظیم الشان شخصیت کو آئیڈیل قرار دیا گیا ہے، جسے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ آپ کو اپنے معاشرے اور اپنی جد و جہدکے دوران میں ہر طرح کے حالات پیش آئے، لیکن آپ نے ایک شان دار اور دل پذیر شخصیت کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ آپ ایک انسان تھے، اس کے باوجود آپ نے بے عیب رویے اور غیر معمولی کردار کا مظاہرہ کیا۔ یہ آپ کی عظمت ہی کی دلیل ہے کہ کسی سلیم الفطرت آدمی کے لیے کسی بھی موقعے پر آپ کی طرف سے کسی کمزوری کی نشان دہی ممکن نہیں۔
دوسری جہت سے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود جس جس دائرے میں، اپنا اظہار کرتا ہے، اس سے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں او راس طرح زیغ و انحراف کے تما م راستے مسدود کر دیے ہیں۔ یہ ہدایات زندگی کے جن دائروں سے متعلق ہیں، ان کی وضاحت سے پہلے، ہم یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ ہونے کے بارے میں چند ضروری تصریحات کریں گے۔
اس سے قبل ہم نے نفس انسانی کے دوسرے پہلووں کے تزکیے کے ابواب میں قرآن وسنت کی تعلیمات ہی کا ذکر کیا ہے اور ان ابواب میں کہیں بھی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہیں دیا۔ درحقیقت، ان پہلووں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک واجب الاطاعت شارع اور ایک واجب الاتباع ہادی کی ہے۔ آپ نے لوگوں کونہ صرف دینی تعلیمات سے آگا ہ کیا اور شریعت کے احکام دیے، بلکہ سب سے بڑھ کر خود دین پر عمل بھی کیا۔ چنانچہ آپ نے جو دین پیش کیا، اس پر عمل کرنے میں آپ کے طریقے کو دین کے دوسرے ماخذ، سنت کی حیثیت حاصل ہے۔ اور اس طرح قرآن اور سنت، دونوں مل کر دین کے فرائض اور آداب و نوافل کا تعین کرتے ہیں اور بطور خاص سنت ہمارے لیے عمل متواتر کی حیثیت سے شرائع او رعبادت کے عملی پہلووں سے آگاہی کے لیے محکم اساس فراہم کرتی ہے۔
اخلاقی پہلو کے تزکیے کے حوالے سے، دراصل، کسی خاص طریقے یا عملی صورت کے تعین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے اس باب میں آپ کا رویہ اور طرز عمل ہمارے لیے مثال اور نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ باقی ابواب میں تزکیے کے لیے ہمیں جو اعمال بجا لانے کے لیے کہا گیا ہے، ان کا طریقہ جاننے کے لیے ہم سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جبکہ اخلاقی پہلو میں آپ کی سیرت، ہمارے لیے زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آنے والے معاملات کے لیے عظیم الشان کردار کے خدو خال نمایاں کرتی ہے اور آپ کی زندگی کا یہی پہلو تزکیۂ اخلاق میں ہمارے لیے نمونے اور مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ جس آیۂ کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ زندگی کو ہمارے لیے اسوہ قرار دیا گیا ہے، اس سے پہلے جنگ احزاب میں پیش آنے والے شدید ترین حالات کا ذکر ہوا ہے اور پھر بعض لوگوں کی بزدلی اور کم ہمتی کا ذکر کر کے، ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.(الاحزاب ۳۳: ۲۱)
’’لاریب، تمھارے لیے اللہ کے رسول کے طریقے میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
اس طرح ان بزدلوں کو غیرت دلائی کہ تمھارے اندر ہی محاذ پر خدا کا رسول بھی موجود تھا۔ اور تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس نے کس عزم و ہمت کے ساتھ تمام خطرات کا مقابلہ کیا۔ تم نے اس بہترین نمونے کی پیروی نہ کی اور بزدل اور ڈرپوک بنے رہے۔ اس آیت کے سیاق کی دلالت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ درحقیقت، وہ چیز جسے اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے، وہ آپ کا کردار، آپ کی سیرت اور آپ کا طریق کار اور رویہ ہے۔
ہمارے ہاں، اس باب میں بھی، دین کے دوسرے معاملات کی طرح، بہت کچھ تجاوز ہوا ہے۔ بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت نبوت کو اپنے لیے اسوہ بناتے، بعض آپ کے تمدن اور طرزبود و باش کو اسوہ قرار دیتے اور بعض لوگ آپ کے مقصد رسالت کو اپنے لیے اسوہ ٹھہراتے ہیں۔
جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت نبوت کو اسوہ قرار دیتے ہیں، ان کا نقطۂ نظر، درحقیقت، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انبیا کے تعلق کی نوعیت کوئی نا قابل حصول شے نہیں۔ یہ تعلق کوئی بھی آدمی استوار کر سکتا ہے۔ مثلاً، ان کے نزدیک، اللہ تعالیٰ سے مکالمہ، فرشتوں سے ملاقات اور غیب کی خبریں جان لینا اب بھی ہر شخص کے لیے ممکن ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، چونکہ، قرآن مجید نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے، لہٰذا اس سے یہ نتیجہ آپ سے آپ نکل آتا ہے کہ آپ کو حاصل یہ خصوصیات بھی قابل حصول ہونی چاہییں۔
ان کے نزدیک،اس کی شرط یہ ہے کہ آدمی عبادت و ریاضت کے ذریعے سے اپنا نفس الہام والقا، فرشتوں سے ملاقات اور مکالمۂ الٰہی کے قابل بنا لے۔ بڑے بڑے صوفیہ، مثلاً ابن عربی، غزالی، ابوطالب مکی، مجدد الف ثانی، شاہ اسمٰعیل شہید بڑی صراحت کے ساتھ یہ نقطۂ نظربیان کرتے ہیں اوراپنے بارے میں بھی مدعی ہیں کہ انھیں یہ خصائص حاصل ہیں۔ تصوف کی کتابوں، مثلاً ’’قوت القلوب‘‘، ’’المنقذ من الضلال‘‘، ’’مکتوبات‘‘ (مصنفہ مجدد الف ثانی) اور ’’عبقات‘‘ میں اس کی تفصیل پڑھی جا سکتی ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کی تشریح بھی یہ طبقہ ایک خاص طرح سے کرتا ہے۔ ان کے نزدیک، کمالات نبوت کا حصول تو اب بھی ممکن ہے، لیکن منصب نبوت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اور ختم نبوت کا مطلب، در حقیقت، صرف یہ ہے کہ اب کسی نئی شریعت کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ شریعت اسلام ہی اب قیامت تک کے لیے اہل ایمان کے لیے الہٰی شریعت ہے، البتہ کمالات نبوت کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جو شخص بھی اپنے آپ کو ان کے قابل بنا لے گا، اسے یہ حاصل ہو جائیں گے۔ چنانچہ مجدد الف ثانی نے ’حکیم‘ اور شاہ اسمٰعیل شہید نے ’ولایت علیا‘ کے جو اوصاف بیان کیے ہیں، ان سے صوفیہ کے ان عقائد کی پوری تفصیل سامنے آجاتی ہے۔ صریح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ لوگ وہیں سے پاتے ہیں، جہاں سے انبیا پاتے ہیں او ریہ دنیا میں محض نظم قائم رکھنے کے لیے اپنے وقت کے پیغمبر کی اتباع کرتے ہیں۔ لیکن یہ سارے دعاوی قطعی طور پر بے بنیاد ہیں، اس لیے کہ نہ صر ف یہ کہ قرآن و سنت ان کی تائیدنہیں کرتے، بلکہ جو کچھ قرآن و سنت میں دین بیان ہوا ہے، وہ ان مزعومات کی بالکلیہ تردید کر دیتا ہے۔ ہمارے صوفیہ کی یہی غلطی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس زمانے میں ایک شخص نے ان دعاوی ہی پر اکتفا نہیں کی، بلکہ ظلی نبوت کا دعویٰ بھی کر ڈالا۔ اس نے محسوس کیا کہ ان ساری چیزوں (کمالات نبوت) کا حصول ممکن ہے تو پھر دعویٰ نبوت میں کیا حرج ہے، جبکہ میں کوئی نئی شریعت نہیں دے رہا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے ختم نبوت کے اعلان کی خود تشریح کر دی ہے۔ اس تشریح کے بعد صوفیہ کا تعمیر کردہ یہ محل اپنی بنیاد ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
ان ابا ھریرۃ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحۃ.(بخاری: کتاب التعبیر، باب المبشرات)
’’ابو ہریرہ کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبوت اور اس کے علائق میں سے سوائے بشارت کے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صحابہ نے پوچھا: بشارتوں سے کیا مراد ہے۔ آپ نے جواب میں وضاحت کی: اچھے خواب۔‘‘
دوسری طرف قرآن مجید میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ نبوت کوئی کسب سے حاصل کرنے کی چیز نہیں ہے کہ آدمی کچھ اعمال و وظائف انجام دے، کچھ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے اور ان کے نتیجے میں اسے حاصل کر لے۔ یہ سر تا سر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ کسی شخص کو منصب نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ خود وہ شخص اس سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اس کی نبوت سے پہلے کی زندگی اس طرح کی کسی سعی سے بالکل خالی ہوتی ہے کہ اسے اس منصب کا خواہش مند اور اس کے لیے سعی و جہد کرنے والا سمجھا جائے اور یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ اس کی محنتوں اور مجاہدوں کے نتیجے میں اسے حاصل ہوا ہے۔ اس شخص کے لیے تو یہ ایک خبر ہوتی ہے کہ اسے منصب نبوت پر سرفراز کر دیا گیا ہے اور اسے اب کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں، جو اس منصب کا تقاضا ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمدن کو نمونہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنے، کھانے پینے، لباس اور بودوباش کی بھی وہی دینی حیثیت ہے جو دوسرے دینی معاملات میں سنت کو حاصل ہے۔ ہمارے نزدیک، جس طرح حیثیت نبوت کو اسوہ بنانا غلط ہے، بالکل اسی طرح آپ کے تمدن کو اسوہ قرار دینا بھی غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی امت نے اپنے اجتماعی وجود میں بھی اسے یہ حیثیت کبھی نہیں دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ایک خاص طریقے اور خاص سامان تعمیر سے بنائی گئی تھی۔ اس مثال کوکہیں بھی دینی حیثیت سے نہیں دہرایا گیا۔ اس زمانے میں جنگ بھی مخصوص ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی اور اسے کسی وقت بھی لازم نہیں سمجھا گیاکہ وہی ہتھیار استعمال کیے جائیں اور آج بھی امریکہ کی توپوں کا مقابلہ تیغ و سناں سے کیا جائے۔ ہمارے نزدیک، یہی معاملہ آپ کے لباس، طرز بود و باش اور طعام کا ہے۔
دنیا مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، رسوم و رواج اور طور اطوار کامجموعہ ہے۔ اس اختلاف اور رنگارنگی کی وجہ جغرافی اور موسمی حالات کا تفاوت اور ضروریات کی بو قلمونی ہے۔ وہ دین جسے عالم گیر دین کی حیثیت حاصل ہو، اس طرح کے معاملات میں کسی ایسی تحدید و تقیید کا علم بردار نہیں ہو سکتا، جو دین کو ایک خطے، ایک تہذیب اور ایک ثقافت میں مقید کر دینے کے مترادف ہو، دراں حالیکہ اس کے بالکل برعکس، حقیقت یہ ہے کہ اسلام تہذیب و تمدن میں تغیر و تبدل کی فطری رفتار پر بھی کوئی قدغن عائد نہیں کرتا۔
درحقیقت ا س باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی اصل نوعیت سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ ان معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے زمانے کے شرفا کا طریقہ ہی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ، مسلمان پر جو چیز لازم ہوتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے وطن اور معاشرے کے شرفا کا طرز بود و باش ہی اختیار کرے۔
کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کو اپنے لیے اسوہ قرار دے لیا ہے۔ ان کے نزدیک، وہ انقلاب جو دور نبوی علیہ السلام میں برپا ہوا، اس میں پیش آنے والے مراحل ہر اسلامی انقلابی جد وجہد کا ماخذ ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت میں دعوت کا عرصہ، ہجرت کا مرحلہ، اقتدار کا حصول اور غلبے کی تکمیل کے جو مراحل پیش آئے تھے، وہی اب ہر اس دعوت کے مراحل ہیں جو اسی مقصد کو سامنے رکھ کرمنظم کی گئی ہو۔دراں حالیکہ ا س بارے میں نبی اور رسول کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ۴اصل صورت یہ ہے کہ نبی کے مخاطبین کے ساتھ ایک، اور رسول کے مخاطبین کے ساتھ دوسرے طریقے سے معاملہ کیا جاتا ہے۔نبی محض دعوت دیتا ہے اور اس کی دعوت کی کامیابی، یعنی دعوت کا معاشرے میں عمومی غلبہ یا نا کامی، دونوں میں سے کوئی بھی صورت پیش آ سکتی ہے۔یہاں تک کہ قوم اپنے نبی کی جان بھی لے سکتی ہے،جبکہ رسول زمین پر اللہ کی عدالت بن کرآتا ہے۔اس کی قوم،اگر اس کی دعوت قبول کرلے تو دنیا و آخرت، دونوں کی رسوائی سے بچ جاتی ہے اور اگر قبول نہ کرے تو تباہ کردی جاتی ہے۔ یہی اصول ہے، جسے قرآن مجید نے ’لاغلبن انا و رسلی‘، ’’لازم ہے کہ میں او رمیرے رسول غالب آئیں‘‘کے الفاظ میں واضح کیا ہے۔یہ غلبہ بھی،لازماً اقتدار کی صورت میں حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہوئی ہے کہ مخاطب قوم کے اقل قلیل کے سوا،من حیث المجموع پوری قوم نے رسول کا انکار کر دیا۔چنانچہ اتمام حجت کے بعد،جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، رسول اور اس کے ساتھیوں کے سوا پوری قوم طوفان،آندھی،سیلاب جیسی آفات سے نیست و نابود کر دی گئی ہے۔
دوسری صورت میں،اگر دعوت کو فروغ حاصل ہوا ہے تو اسے ہر رسول کی تاریخ میں مختلف مراحل پیش آئے ہیں۔اس تفاوت کا اندازہ حضرت موسیٰ ،حضرت یونس علیہما السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کے مطالعے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ہر رسول کو جو بھی احوال پیش آتے ہیں، یہ کسی متعین لائحۂ عمل کے مراحل نہیں ہوتے۔وہ ہرنیا اقدام سرتاسر اللہ کے فیصلوں اور رہنمائی میں کرتے ہیں۔مثلاً،ہم دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے میں کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل نہیں ہوئی،لیکن وہ اس وقت تک انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود، مکہ ہی میں دعوت کا کام کرتے رہے، جب تک انھیں ہجرت کی اجازت نہیں ملی۔ آپ کی دعوت مدینے میں پہنچتی ہے اور مکے کے بالکل بر عکس،مختصر سے عرصے میں اوس و خزرج کے لیڈروں سمیت،یثرب اس دعوت کے آگے سرافگندہ ہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے میں ایک حکمران کی حیثیت سے آنے کی دعوت ملتی ہے۔ پھر بدر میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی مددنازل ہوتی ہے اور قریش کے قریباً تمام سردار مارے جاتے ہیں۔ یہ ایک الہٰی منصوبہ تھا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے کہ ابو لہب جنگ میں شریک نہیں ہوا،لیکن یہ غیر حاضری بھی اسے موت سے نہ بچا سکی۔ اسے عدسے کی بیماری نے آلیااور قریش کے شکست خوردہ لشکر کی واپسی سے پہلے، انتہائی بے چارگی کی موت اس طرح مر گیا کہ اسے دفن کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہ تھا۔ قرآن مجید جنگ بدر کو اس عذاب الہٰی کی ایک قسط قرار دیتا ہے، جو رسولوں کے مکذبین پر نازل ہوتا رہا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: یہ معاملہ، درحقیقت، ’یعذبھم اللّٰہ بایدیکم‘ (اللہ ان پر تمھارے ہاتھوں عذاب نازل کرے گا)، کی عملی تعبیر تھا۔ یہاں تک کہ ۹ہجری کے سال ،حج اکبر کے موقع پر محرم کے آخر تک کی مہلت دے کر یہ اعلان کردیا گیا کہ اس کے بعد کوئی مشرک زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔عذاب کی اس آخری قسط کا اعلان سورۂ توبہ میں کیا گیا۔اسی وجہ سے کہ یہ عذاب کی سورہ ہے، اس پر’بسم اللہ‘ نہیں لکھی جاتی، اس لیے کہ بسم اللہ کا کلمہ، فی الحقیقت، اللہ کی رحمت شامل حال کرنے کی دعا کا کلمہ ہے۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی قوم کے ساتھ گزرنے والے تمام مراحل اول تا آخر، الٰہی منصوبہ تھے۔ اگر آپ کی دعوت مکہ میں وہی قبولیت پالیتی، جو اسے مدینہ میں حاصل ہوئی تھی تو آپ کی دعوت و اقتدار کی تاریخ موجودہ تاریخ سے بالکل مختلف ہوتی۔ دوسرے رسولوں کے حالات کے مطالعے سے بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے۔ کہیں دعوت ہی کے مرحلے میں داستان تمام ہو گئی۔ کہیں ہجرت تو ہوئی، لیکن کوئی خلافت قائم نہ ہو سکی اور کہیں پوری کی پوری قوم ایمان لے آئی، نہ ہجرت ہوئی اورنہ جہاد ہوا۔ اس تفصیل سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی بھی داعی کے لیے رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مراحل کو اسوہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لیے اسوہ ہے،لیکن اس کا دائرہ،اصلاً،ہمارے اخلاقی وجود تک محدود ہے۔دین و شریعت کے دوسرے دائروں میں ،جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں،آپ کا مقام ایک واجب الاتباع ہادی اور واجب الاتباع شارع کا ہے۔ وہاں ان کا کرنا،ان کا کہنا اور ان کا روکنا ہمارے لیے شریعت قرار پاتا ہے اور اخلاقی دائرے میں ان کی شخصیت ہمارے سامنے ایک آئیڈیل رکھتی ہے۔یہ آئیڈیل حاصل کرنے کی سعی ہمیں اس بات کا مستحق بنا دیتی ہے کہ ہمیں خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا امتی قراردیا جائے۔
تمہید میں ہم نے انسان کے اخلاقی وجود کے چار محرکات کا ذکر کیا ہے، ان کے حوالے سے آپ ایک غیر معمولی طور پر متوازن شخصیت کے مالک تھے۔بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں آپ غیر متزلزل اعتدال پر قائم رہے،خواہشات پر ہمیشہ پورا قابو رکھا،شہوات کے معاملے میں کبھی راہ توازن سے نہ ہٹے اور جذبات کے اظہار میں بھی انھیں اپنی شخصیت پر مکمل قدرت حاصل تھی۔ غرض انسان کے اخلاقی وجود کے چاروں محرک کس طرح انسانی شخصیت میں،فی الحقیقت،کارفرما ہونے چاہییں،یہ چیز سیرت اطہر کی صورت میں ہمارے سامنے پور ی طرح متعین ہوجاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں حیات دنیوی کے تمام دور دیکھے۔مکے میں آپ ایک شہری کی حیثیت سے، چالیس سال ایک بیٹے،ایک شوہر،ایک باپ،ایک رشتے دار،ایک محلے دار اور ایک تاجر کی حیثیت سے غیر معمولی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر آپ کو منصب رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اور آپ ایک داعی کی حیثیت سے تیرہ سال کا عرصہ بسر کرتے ہیں اور داعیان حق کے لیے شان دار اسوہ قائم کرتے ہیں۔ انھی داعیانہ مساعی کے نتیجے میں آپ کو مدینے میں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے اور ایک حکمران، ایک قاضی، ایک کمان دار، ایک مجاہد اور ایک سیاسی رہنما جیسی مختلف حیثیتیں بھی آپ کی ذات میں جمع ہو جاتی ہیں اور یہاں بھی آپ اسی اعلیٰ معیار پر قائم رہتے ہیں۔ اور ان سارے پہلووں کے پیچھے یہ عظیم حقیقت بھی پوری طرح کار فرمارہی کہ آپ خدا کے بندے تھے۔چنانچہ آپ جس طرح خدا پر بھروسا رکھتے، جس طرح اس پر توکل کرتے اور جس طرح اس کی رضا کے طالب رہتے تھے،اس میں بھی خدا کے ساتھ تعلق کے حوالے سے آپ کا اسوہ ہمارے لیے بصیرت کا بہت کچھ سامان رکھتا ہے۔یہ آپ کی اخلاقی عظمتیں تھیں اور آپ کی زندگی کا یہی پہلو ہے،جسے قرآن مجید نے اخلاقی وجود کے لیے اسوہ قرار دیا ہے اور جس کی پیروی ہر مسلمان کے لیے اخلاقی وجود کے تزکیے کی راہ کھول دیتی ہے۔
ہم نے اس باب کے آغاز میںیہ بیان کیا تھا کہ دین نے اخلاقی وجود کے تزکیے کے لیے دوجہتی طریقہ اختیار کیا ہے۔ اوپر کی سطور میں ہم نے ایک جہت کی توضیح کی ہے اور سعی کی ہے کہ اس سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیں۔اگر محض اظہار مدعا مقصود ہو تو یہ جہت صرف چند الفاظ کی محتاج ہے کہ اخلاقی وجود کے تزکیے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک آئیڈیل ہے، لیکن غور کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ جہت اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتی ہے۔ آیندہ سطور میں ہم دوسری جہت کی وضاحت کریں گے۔اس میں قرآن و سنت یا شریعت اسلامی کا وہ پہلو زیر بحث آئے گا،جو اخلاقی وجود کے تزکیے سے متعلق ہے۔
انسان اپنے خارج سے اپنے اخلاقی وجود کے حوالے سے متعلق ہوتا ہے۔ہم اس خارج کو بآسانی پانچ دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔پہلا دائرہ آدمی کا گھر ہے۔دوسرا اس سے بڑادائرہ آدمی کا محلہ ہے۔پھر ایک دائرہ وہ حلقہ ہے،جہاں وہ اپنی معاشی جد وجہد کے حوالے سے متعلق ہوتا ہے۔چوتھا دائرہ معاشرے کا دائرہ ہے، جس کے ایک فرد کی حیثیت سے یہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اور پانچواں دائرہ ریاست کا دائرہ ہے، جس میں اسے شہری کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر دائرہ اپنے اندر وہ عوامل رکھتا ہے، جو آدمی کے رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں یا اسے خاص رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مرد و زن کا باہمی ربط،معیشت کی جد وجہد،پاس پڑوس کی ذمہ داریاں، اعزہ و اقربا کے حقوق، شہریت کے فرائض اور ریاست کا بگاڑ، غرض کئی چیزیں سامنے آتی ہیں، جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آدمی مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔
اسلام کے نزدیک،انسانی سماج کی تعمیر تین اصولوں پر ہوئی ہے۔یہ اصول اس معاملے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔انھیں ہم انسانی سماج کی اساسات بھی قرار دے سکتے ہیں:
۱۔ وحدت آدم
۲۔اشتراک رحم
۳۔وحدت الہٰ
وحدت آدم سے مراد یہ ہے کہ آدم کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا گیا ہے۔عورت اورمرد شرف انسانیت میں برابر ہیں،یعنی انھیں یکساں صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں۔عقل،شعور،معرفت اور مسؤلیت کے معاملے میں ایک کو دوسرے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں۔فرق کی نوعیت وہی ہے،جو ایک مرداور عورت میں فطرت نے خلقی طور پر رکھا ہے۔
اشتراک رحم کا مطلب یہ ہے کہ تمام نوع انسانی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہے۔ اس میں قبیلوں، برادریوں اور قوموں کے اعتبار سے آج جو فرق پیدا ہوگیا ہے، یہ محض تعارف کا ذریعہ ہے۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی مشرقی کو کسی مغربی پر کوئی فضیلت نہیں۔
وحدت الہٰ سے مراد یہ ہے کہ اس کائنات کا مالک،آقا،پروردگار ،خالق اور حاکم ایک ہی ہستی ہے، وہی سب کا معبود ہے، باقی جو کچھ بھی ہے، اسے اس کی مخلوق کی حیثیت حاصل ہے۔ کوئی ذات امور کائنات میں اسباب سے ماورا تصرف کی اہلیت نہیں رکھتی اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس معاملے میں اپنا شریک بنایا ہے۔
اس طرح اسلام ہر انسان کو یہ شعور بخشتا ہے کہ وہ ایک ہی معبود کا بندہ،ایک ہی نوع کا فرد اور ایک ہی باپ اورایک ہی ماں کی اولاد ہے۔
اس بنیادی اصول کی وضاحت کے بعد،اب ہم ان دائروں سے متعلق شریعت کے احکام کا اجمالی ذکر کریں گے جن کی توضیح ہم نے،اس دوسری جہت کے حوالے سے،اوپر کی ہے۔
گھر ایک صالح تمدن میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک گھر اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کوئی مرد کسی عورت کو بیوی کی حیثیت سے اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ، درحقیقت، ایک خاندان کے وجود میں لانے کا پہلا قدم ہے۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے۔ اس سے شہوات ایک دائرے میں محدود ہو جاتی ہیں او راس طرح ایک صالح معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک ضروری اکائی وجود میں آجاتی ہے۔ یہی پہلو ہے، جس کی حفاظت کے لیے قرآن مجید نے محرمات، یعنی ان عورتوں کی ایک جامع فہرست دی ہے، جنھیں بیوی نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ محرمات ہی کاتصور ہے، جو گھر کے اندر ماں باپ اور اولاد، بہنوں اور بھائیوں اور بعض دوسرے نسبی اور سسرالی رشتوں میں پاکیزہ تعلق کی اساس بنتا ہے۔ ہمارا دین اس معاملے میں اس قدر حساس ہے کہ وہ اس عورت کے حوالے سے بھی محرمات کی ایک نوع وجود میں لاتا ہے، جس کا دودھ پی کر ایک بچہ پلا بڑھا ہو۔ اس طرح وہ پاکیزہ ماحول وجود میں آتا ہے، جو اسلامی گھر اوراسلامی معاشرے کی شان ہے۔
گھر ہی کے حوالے سے ایک دوسرا اہم نکتہ گھر کے نظم سے متعلق ہے۔ خاندان معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہے۔ چنانچہ اس کا نظم، اگر اختلال کا شکار ہو تو معاشرے کا نظم اختلال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نظم کی یہ اہمیت ریاست میں نظام کی ضرورت سے بآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔ ہر معاشرہ اپنے وجود کی خارجی دشمنوں اورداخلی انتشار سے حفاظت ہی کے لیے ایک ریاست کی صورت اختیار کرتا ہے اوراپنے میں سے ایک فرد کواپنا حکمران مان لیتااور اس کے ساتھ اس کے احکام کی اطاعت اور فرماں برداری کا عہد باندھتا ہے۔ حالانکہ یہ فرد اس کے علاوہ کوئی خصوصیت نہیں رکھتا کہ اسے معاشرے نے یہ حیثیت دی ہے۔ جس ضرورت کے تحت معاشرہ طوق اطاعت پہننے پرمجبور ہوا ہے،وہی ضرورت گھر میں بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ کوئی فرد گھر کے سربراہ کی حیثیت سے معاملات چلائے۔ جس طرح معاشرے میں سربراہی کے لیے کسی فرد کے انتخاب کی بنیاد اس کی اس منصب کے لیے موزونیت ہے، اسی طرح گھر میں سربراہ خاندان کی حیثیت، ہمارے دین نے مرد کو اسی وجہ سے دی ہے۔ اور جہاں مرد کو خصوصی مقام دیا ہے، وہاں اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں۔ اس پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ اپنے گھر کامحافظ اور کفیل بنے اور اہل خانہ کو روزآخر عذاب سے بچانے کے لیے سب سے زیادہ فکر مند ہو۔ قرآن مجید میں پہلی حقیقت کو ’الرجال قوامون علی النساء‘، ’مرد عورتوں پر نگران ہیں‘ اور دوسری حقیقت کو ’قوا انفسکم و اھلیکم نارا‘، ’اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کوآگ سے بچاؤ‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اہل جنت کے ایک قول سے بھی، جو قرآن مجید میں بیان ہواہے، اہل ایمان کے کردار کے اس دوسرے پہلو پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ سورۂ طور میں ہے: ’انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین‘، ’اس سے پہلے، ہم اپنے گھر والوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔‘ (۵۲: ۲۶)
دوسری طرف بیویوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار بن کر رہیں، ان کے رازوں کی امین بنیں اور سرکشی اور سرتابی کا رویہ اختیار نہ کریں تاکہ خاندان کی وحدت مستحکم ہو اور وہ تخلیقی عمل جو بچے کو جنم دینے اور اس کی پرورش و تربیت تک پھیلا ہوا ہے، ایک محفوظ و مصؤن ماحول میں ہو۔ جہاں شوہر سربراہ خاندان کی حیثیت رکھتا ہے،اسی طرح عورت کو گھر کی ملکہ کا مقام حاصل ہے۔عورت کا قنوت اور مرد کی قوامیت گھر کی اس اکائی کی روح ہیں۔اس اکائی کا نظام اگر صحیح خطوط پر استوار ہو تو معاشرہ اور اس کے بعد تمام عالم کا نظام صحیح نہج پر آجاتا ہے۔
خاندان کی اس بنیادی اکائی کا آغاز ایک میاں اور ایک بیوی کے سنجوگ سے ہوتا ہے۔پھر بچوں کی آمد اس گھر کی ہیئت میں بنیادی تبدیلی لاتی ہے۔ اب میاں بیوی محض زوجین نہیں رہے، بلکہ ماں اور باپ بھی بن گئے ہیں۔ باپ کی حیثیت سے مرد کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا اور ماں کی حیثیت سے بیوی پر بھی کچھ زائد ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔
بچوں کی پرورش، ان کی تربیت اور ان کی تعلیم اور پھر ان کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے مراحل آتے اور گزر جاتے ہیں۔اولاد بڑی ہو جاتی ہے۔والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ایک دوربچوں پر ایسا گزرا تھا،جس میں انھیں والدہ اور والد کی شفقتوں اور محبتوں کی ضرورت تھی اور اب والدین اس دور میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں انھیں بچوں کی طرف سے نگہداشت، محبت اور خدمت کی ضرورت ہے۔اگر والدین میں بچوں کو پالنے کا جذبہ ختم ہو جائے تو ان کی زندگی ختم ہو سکتی ہے،اسی طرح اگربچے بوڑھے والدین کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیں تو ان کے لیے دربدرکی ٹھوکریں اور بے چارگی کی موت کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ خاندان کی یہ بنیادی اکائی یہ ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے۔ قرآن مجید نے اس معاملے میں اولاد کو خصوصی حکم دیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَآ أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآ أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً. وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳۔۲۴)
’’اللہ نے حتمی طور پر کہہ دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں، بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تف نہ کہو اور نہ جھڑکی دو اور اچھے طریقے سے بات کرو۔ شفقت کے بازو، ان کے لیے پھیلائے رکھو اور دعا کرو کہ اے رب، ان پر رحمت فرما، اسی طرح جیسے انھوں نے مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘
قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر، بالعموم، توحید اور عبادت میں شرک سے اجتناب کے مضمون کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حق کے بعد، دین میں سب سے بڑاحق والدین کا ہے۔
قرآن مجید کے وہ ارشادات بھی گھر کے دائرے ہی سے متعلق ہیں،جن میں رشتہ داروں اور عزیزوں سے حسن معاملہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ صلۂ رحمی کی تعبیر، وہ سارے تقاضے کماحقہ واضح کردیتی ہے،جو رشتے داروں کے حقوق سے متعلق دین میں ہم سے مطلوب ہیں۔
گھر کے ماحول کی پاکیزگی اور عفت مآبی کی حفاظت کے لیے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے آنے جانے سے متعلق بھی قرآن مجید نے تفصیلی احکام دیے ہیں۔ مثلاً، یہ حکم دیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہوا جائے اور بطور خاص یہ ہدایت دی ہے کہ اگر اجازت نہ ملے تو بغیر دل کی تنگی کے واپس چلے جانا چاہیے۔ یہ ہدایت اگر ملحوظ رکھی جائے تو وہ بہت سی شکایتیں اور تلخیاں پیدا ہی نہ ہوں، جو اس طرح کے معاملات میں ہمارے گھروں میں عام پیش آتی رہتی ہیں۔ اجازت مل جانے کے بعد، گھر میں داخل ہونے کے آداب بتائے ہیں۔ مردوں اور عورتوں سے کہا ہے کہ وہ غض بصر سے کام لیں۔ یعنی خود کو بدنگاہی سے بچائیں۔ ’غض بصر‘ سے مراد نگاہوں کو جھکا کر رکھنا ہے اور ان الفاظ سے قرآن مجید نے شرم و حیا کی پاس داری کو تعبیر کیا ہے۔ اصلاً، مقصود یہ ہے کہ عورت مرد کو اور مرد عورت کو بے باکی اور بے حیائی سے نہ دیکھے۔ باہم گفتگو کرتے ہوئے جو نظر پڑ جاتی ہے، اس سے ہی روک دینا، یہاں مقصود نہیں ہے۔ پھر عورتوں اور مردوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے لباس درست رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور بطور خاص عورتوں کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی زینتوں کا اظہار نہ کریں یعنی اپنی سروں کی اوڑھنیاں سینوں پر بھی ڈال کر رکھیں۔
گھر کے بعد، ہم سایوں یعنی محلے کا دائرہ ہے۔ اس باب میں بھی دین نے خصوصی ہدایات دی ہیں۔ قرآن مجید نے ہم سایگی کی تمام صورتیں بیان کر کے، ان کے حقوق واضح کیے ہیں۔ دین کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑوسی مقدم تر ہے، جو عزیز رشتہ دار بھی ہے اور دوسرے درجے پر وہ پڑوسی آتے ہیں، جو عزیز رشتہ دار نہیں ہیں۔ ہم سایہ صرف وہی نہیں، جس کا گھر ہمارے گھر کے قریب ہے، بلکہ وہ بھی ہم سایہ ہے، جس کے ساتھ ہم منڈی بازار میں یا دفتر کارخانے میں مل بیٹھ کر کام کرتے یا سفر وغیرہ میں کچھ عرصے کے لیے ہم نشست ہوتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے ہم سایے کے حقوق کے بارے میں بہت تلقین کی گئی، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ اسے وراثت میں شریک کر دیا جائے گا۔ ایک عورت کے بارے میں آپ سے سوال کیا گیا کہ وہ نفل نماز کا بہت اہتمام رکھتی ہے، لیکن اس کے پڑوسی اس سے بہت تنگ ہیں۔ آپ نے فرمایا: جہنم میں جائے گی۔
تیسرا دائرہ کسب معاش کا دائرہ ہے۔ دین نے اس میں وہ تمام چیزیں ممنوع قرار دے دی ہیں، جو اپنے اندر کوئی فساد رکھتی ہیں۔ شریعت کی حلال و حرام کی ان تمام پابندیوں کی بنیاد اخلاق و عقیدے کی صلاح و فساد پر رکھی گئی ہے۔ پھر جائز چیزوں میں بھی اسراف و تبذیر کو ممنوع ٹھہرا دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز سوسائٹی کی اقدار برباد کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں روپے اور دولت کو سوسائٹی میں عزت اور قدر و منزلت کے تعین میں بنیادی محرک کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہر اس چیز کی تجارت بھی ممنوع ہے، جس کا کھانا اور پینا ممنوع ہے تاکہ معاشرے میں خبائث کے فروغ کی ہر راہ بند کر دی جائے۔ عام ضرورت کی چیزیں اس غرض سے ذخیرہ نہیں کی جا سکتیں کہ انھیں روک کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عام ضرورت کی چیز چالیس دن تک روکے رکھے اوراس کے بعد اسے خیرات بھی کردے تو یہ خیرات قبول نہیں کی جائے گی۔ ’’اکل اموال بالباطل‘‘ کا ہرطریقہ نا جائز ہے۔ اس کی ایک لمبی فہرست ہے۔ غبن، خیانت، چوری، دھوکا، ملاوٹ وغیرہ قسم کے تمام اعمال اسی ضمن میں گناہ قرار دیے گئے ہیں۔ دھوکے اور نقصان کے امکانات کو روکنے کے لیے بھی خاص ہدایات فرمائی ہیں۔ مثلاً یہ کہ عیب بتا کر چیز بیچی جائے، بڑھا چڑھا کر خوبیاں بیان نہ کی جائیں۔ منڈی کے رجحان میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اورمنڈی میں مال پہنچنے سے پہلے بھاؤ تاؤ نہ کیا جائے وغیرہ اسی سلسلے کی ہدایات ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص بازار میں بہت ہی سستے داموں کھجور بیچ رہا تھا۔ حضرت عمر کو معلوم ہوا تو بازار پہنچے۔ اس شخص نے بتایا کہ مجھے کھجوروں کا ایک ٹوکرا تحفے میں ملا تھا۔ میں نے حسب ضرورت رکھ لیں اور باقی بیچ رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا: بازار کے بھاؤ بیچو، ورنہ اٹھا کر گھر لے جاؤ۔ مقصودیہ تھاکہ مارکیٹ میں جو لوگ کاروباری طریقے سے کھجور حاصل کر کے بیچ رہے ہیں، انھیں نقصان نہ ہو۔ گداگری ممنوع قرار دے دی گئی، اس لیے کہ یہ سفلہ پن ہے اور شرف انسانی کے خلاف ہے۔ دل کی وسعت اور عالی ظرفی کے پیش نظران چیزوں کی بیع وشرا پسند نہیں کی گئی، جو ویسے ہی اٹھا کر دے دینی چاہییں۔ عام حالات میں ناپسندیدہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں اور قرض دینے کے لیے مالی ضمانت یعنی رہن کا مطالبہ کریں۔ مالی معاملات کرتے وقت تحریر کر لینے اور گواہ ٹھہرانے کی بطور خاص ہدایت کی ہے تاکہ جھگڑے او رنقصان سے بچا جا سکے۔ نماز اور بطور خاص جمعے کی نماز کے وقت خریدو فروخت ممنوع قرار دے دی گئی ہے، اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ جائے، اس کے بعد دنیا کے دھندوں میں مشغول رہنا، کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
چوتھا دائرہ انسان کا اپنے معاشرے سے تعلق کا دائرہ ہے۔ ہر مسلمان اپنے ماحول اور اپنے معاشرے میں اپنی حیثیت کے مطابق اصلاح کا ذمہ دار ہے۔ ایک انسان کا قریبی ماحول ہے، جس میں اسے کچھ لوگوں پر تفوق ہوتا ہے او راس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ برائی کے روکنے کے لیے عملی اقدا م کرے۔ باپ کے مقام پر، شوہر کی حیثیت میں، مالک و افسر کے منصب پر اور حکمرانی کی مسند پر، غرض کسی شخص کو جو کچھ اختیار حاصل ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے برائی کے خاتمے کی سعی کرے، لیکن جہاں اسے یہ حیثیت حاصل نہیں، وہاں اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کی بات کہے اور اس سے آگے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ معاشرے کی سطح پر اصلاح و انذار کی اصل ذمہ داری علما پر عائد ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی عالم دین اگر اپنا یہ فرض پورا کررہا ہو تو عام آدمی کے لیے ضروری ہے کہ جس قدر بھی اس کے لیے ممکن ہو اس کے ساتھ تعاون کرے۔
انسان کے معاشرتی وجود ہی کے حوالے سے نصیحت فرمائی کہ مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح منتشر بھیڑ کی صورت میں نہ رہیں۔ وہ اگر کسی ایسے ملک میں ہیں، جہاں غیر مسلموں کو اقتدار حاصل ہے، تب بھی ان کی اپنی ایک تنظیم ہونی چاہیے، جو ان کے اجتماعی وجود کی نمائندہ ہو اور ان کے سیاسی مفادات کی حفاظت کرے۔ اور اگر وہ کسی ایسے دیار میں ہوں، جہاں وہ اپنی حکومت بنا سکتے ہوں تو وہ اپنی ریاست تشکیل دیں، یعنی اپنے اندر باقاعدہ حکومت قائم کریں۔ التزام جماعت (اپنی ریاست کے ساتھ وابستگی) کاحکم ہر اس مسلمان کے لیے ہے، جو کسی اسلامی ریاست کا شہری ہے۔ چنانچہ اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کا وفادار اور خیرخواہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کا مطیع اور قانون پسند شہری ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ تفرقے اور اختلال کی ہر نوعیت، ہمارے دین میں غیر مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص نظم اجتماعی سے بالشت برابر بھی انحراف کرے گا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اس طرح ہمارے دین نے ریاست کے ساتھ وفاداری، اطاعت امیر اور قانون پسندی کو ایک نئی حیثیت دے دی ہے۔ دوسروں کے لیے، جو چیز محض قانون کا احترام ہے، ایک مسلمان کے لیے وہی چیز دین و ایمان کا تقاضا ہے۔
حکمران اور شہری کے باہمی تعلق کی وہ اساس جس کا ذکر ہم نے اوپرکی سطور میں کیا ہے، معمول کے حالات کے لیے ہے۔ لیکن، جب حکمران بگڑ جائیں تو ان کی اصلاح کی ذمہ داری شہریوں پر عائد ہو جاتی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں کلمۂ حق کہیں اور اس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور کسی ظالم کا جور، انھیں اس سے روکنے میں کامیاب نہ ہو۔ ظاہر ہے، ہر آدمی کے لیے اس جد و جہد کے لیے یکساں موثر مواقع نہیں ہوتے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بھر پور تعاون کرے جوآگے بڑھ کر اصلاح احوال کے لیے کوشاں ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، ایک بدو نے جس طرح حضرت عمر کا قمیص کے کپڑے پر احتساب کر ڈالا تھا، یہی جذبہ حکمرانوں کی اصلاح کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضروری ہے۔
ریاست کے حوالے سے تیسری ذمہ داری، اسلامی ریاست کے دفاع اور اس کے وجود کے دینی مقاصد کے لیے جہاد و قتال کا فریضہ ہے۔ جونہی ریاست اپنے دفاع کے لیے یا دنیا سے غیرالٰہی نظاموں کے خاتمے کے لیے جہاد کا اعلان کرے، ۵مسلمانوں کے لیے اپنے جان و مال کے ساتھ اس میں حصہ ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔
اخلاقی وجود کے تزکیے کے لیے یہ طریقۂ کار ہے جو دین نے اختیار کیا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے سامنے ایک ایسی شخصیت ایک اعلیٰ او رکامل نمونے کی حیثیت سے رکھ دی ہے، جس کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خراج تحسین یہ ہے کہ: ’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنِ‘ (آپ کے اخلاق عین قرآن تھے)۔ اور جو خود قرآن مجید کے الفاظ میں: ’اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمِ‘(لاریب، تم بڑے اعلیٰ اخلاق پر قائم ہو) کا مصداق تھی۔ اور دوسری طرف، معاشرے کی ان ساری جہتوں کے حوالے سے تفصیلی احکامات دیے ہیں، جہاں انسان کا اخلاقی وجود روبہ عمل ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور تزکیے کا بھی غیر معمولی اہتمام کر دیا ہے، جسے انسانی سماج، معاشرے اور قوموں کی تعمیر میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔
[۱۹۹۴ء[
_________
۴تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایے،’’ نبوت اور سالت‘‘ جاوید احمد غامدی۔
۵جہاد کے معاملے میں استاد محترم کی یہ رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، استاد محترم کی کتاب ’’قانون جہاد‘‘۔
___________________