HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تزکیۂ نفس (حصہ دوم)

تدبر قرآن کی شرائط اور حدود

اب ہم ان شرائط اور حدود کی وضاحت کریں گے جو اس غرض کے لیے قرآن مجید پر تدبر کے لیے ضروری ہیں:

۱۔ نیت کی پاکیزگی

قرآن مجید پر تدبر کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی کی نیت پاک ہو۔ مطلب یہ کہ اس کے پیش نظر صرف یہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا منشا جان لے، نہ اپنی خواہشات کے دلائل ڈھونڈنے کے لیے قرآن مجید کھولے اورنہ مقصد یہ ہو کہ وہ اپنے فرقے اور اپنے تعصب کے لیے سہارے تلاش کرے اور نہ اس کی غرض اپنی پسندیدہ فقہی آرا کے مویدات فراہم کرنا ہو۔یہ سب چیزیں نیت کے فساد کی علامت ہیں۔ قرآن مجید اس طرح کے طرز فکر کو فسق قرار دیتا ہے۔ارشاد ہوا ہے:

یُضِلُّ بِہٖکَثِیْرًا وَیَہْدِیْ بِہٖکَثِیْرًا وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ إِلاَّ الْفَاسِقِیْنَ.(البقرہ۲: ۲۶) 
’’اس کے ذریعے سے بہت سے ہدایت پاتے اور بہت سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اور اس سے فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔‘‘

قرآن مجید سے اس غلط طریقے سے استفادے کے شواہد ہماری علمی تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ جب یونانی فلسفے نے یلغار کی، جب فقہی موشگافیوں نے زور پکڑا، جب اخباری ذہن نے غلبہ پایا او رہمارے قریبی زمانے میں، جب مغربی فکر و فلسفہ ایک چیلنج بن کر ابھرا، ہرہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے یہ کوشش کی کہ وہ قرآن کو اپنے مزعومات کا موید دکھائیں۔ خواہ اس کے لیے قرآن کے الفاظ، اس کا دروبست اور سیاق وسباق کتنی ہی بڑی رکاوٹ کیوں نہ ہو۔ قرآن مجید سے صحیح رہنمائی اورقرآن مجید پر تدبر کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا قاری اس طرح کے کسی مقصد کے بغیر قرآن سے صرف قرآن کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے رجوع کرے اور جب اسے قرآن مجید کا نقطۂ نظر معلوم ہو جائے تو کسی تحفظ اور شرط کے بغیر اسے مان لے۔

۲۔اپنی حیثیت کے مطابق معاملہ

قرآن مجید پر تدبر کی دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن مجید پر غور کرنے والا اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق قرآن مجید کے ساتھ معاملہ کرے۔ ہروہ کام جسے انجام دینے کے لیے مخصوص تربیت اور علم و مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے، انسان فطری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ لو گ ہوتے ہیں جو اپنا سفر خود طے کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنھیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً، صحت ہی کا معاملہ لیجیے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اس سے متعلقہ علوم کا مطالعہ کرتے اور علاج و دوا کے فنون سیکھتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو علاج معالجے کے لیے ان سے رجوع کرتے، ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے اور وہ جو کچھ تجویز کرتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس باب میں یہ رویہ اختیار کرنا کوئی بھی درست نہیں سمجھتا کہ ان کی تشخیص اور علاج میں ضروری علم اوراسی فن کے دوسرے ماہرین سے مشورہ کیے بغیر تبدیلی کر دی جائے۔ قرآن مجید کا معاملہ بھی اسی فرق کا متقاضی ہے۔ یہ ایک ادب پارہ ہے۔ اس کی زبان عربی ہے اور عربی بھی وہ ہے، جو آج سے چودہ پندرہ صدیاں پہلے جوار مکہ میں بولی جار ہی تھی۔ پھر اس پر ہزاروں افراد نے اپنی محنتیں صرف کی ہیں۔ اس کے معانی و مطالب کی جستجو کی ہے۔ اس کی شرحیں اور تفسیریں لکھی ہیں۔ اور اس سے اپنے لیے قانون، حکمت اور تزکیہ کے معاملات میں استفادہ کیا ہے۔ لہٰذا، یہاں بھی فطری طور پر افراد دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ وہ لوگ جنھوں نے عربی زبان کا علم حاصل کیا ہو، اس کے ادب میں تنقیدی نظر پیدا کی ہو، جو کچھ پچھلی صدیوں میں قرآن مجید پر کام ہوا ہے، اسے پڑھا ہو۔ ظاہر ہے، اس طرح کے لوگ رہنمائی کا مقام پا لیں گے اور وہ لوگ جنھیں یہ علم، یہ استعداد حاصل نہیں، ان کے پاس پہلے لوگوں سے استفادے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ اس سے ہمار ی مراد یہ نہیں کہ ان لوگوں کی اندھی تقلید کی جائے۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ قرآن مجید پرکلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صلاحیت پیدا کی جائے جو اس کے لیے ہونی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ایسے لوگوں کی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، جو یہ صلاحیت بہم پہنچا چکے ہوں۔ ہر سوال اور ہر اشکال حل کرنے میں ان کے کیے ہوئے کام سے فائدہ اٹھائے۔ عربی نہیں جانتا تو ترجمہ دیکھے۔ مشکل پیش آئے تو تفسیر کا مطالعہ کرے۔ عقدہ پھر بھی حل نہ ہو توعلما سے رجوع کرے۔ بڑی سے بڑی چیز آدمی سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ آدمی کا رویہ طالب علمانہ ہو۔ یہاں ایک اوربات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید کے معاملے میں یہ طریقہ بھی کسی طرح موزوں نہیں کہ آدمی صفر سے آغاز کرے۔ جس طرح یہ ایک حماقت ہوگی کہ سائنس کے میدان میں کوئی شخص اپنی تحقیقات کا آغاز کوپرنیکس اور گلیلیو کے دور کی سطح سے کرے اور ان کاموں کو نظر انداز کر دے جو نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے لوگوں نے بعد میں کیے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کے معاملے میں بھی اس طرح کا طرز عمل ایک واضح حماقت قرار پائے گا۔ بعض لوگ قرآن مجید کے معاملے میں ایک شیطانی فلسفے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید، چونکہ سب کے لیے ہے، لہٰذا اسے ہر آدمی کی رہنمائی براہ راست کرنی چاہیے۔ اس طرز فکر کا حامل آدمی ایک ضدی اور ہٹ دھرم آدمی کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اسے نہ قرآن مجید سے حق ملتا ہے اور نہ کوئی دوسرا ہی اسے راہ راست پر لاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تذکیر و نصیحت کے لیے قرآن مجید ایک سہل ترین کتاب ہے، لیکن علمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ ایک بہت ہی مشکل کتاب ہے۔

اسی اصول کا ایک دوسرا پہلو بھی قرآن مجید کے ہر طالب علم کے سامنے رہنا چاہیے۔ جس طرح علمی استعداد نہ ہو توقرآن مجید پر براہ راست غور گمراہی اور ضلالت پر منتج ہو سکتا ہے، اسی طرح اگر اہلیت ہو اور آدمی تقلید کا مسلک اختیار کرے تو اس سے بدترین جمود پیدا ہو جاتا ا اور علمی فضا ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح متعفن ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں خطرناک ہیں۔ ان دونوں ہی سے گریز کرنا چاہیے۔

۳۔برتر کلام مانا جائے

قرآن مجید پر تدبر کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ اسے ایک برتر کلام مانا جائے او راس کی عظمت کو تسلیم کیا جائے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ پہلے سے ایک رائے قائم کر لی جائے۔ یہ قرآن مجید کے باب میں حقیقی صورت حال کا تقاضا ہے اور اس کا ادراک انتہائی ضروری ہے۔ اس کتاب نے ایک عظیم امت کھڑی کی ہے۔ یہ ایک نئی تہذیب او رنئے تمدن کی تشکیل کا باعث بنی ہے۔ آج بھی کم و بیش ایک ارب کے قریب لوگ اسے خدا کی کتاب مانتے ہیں۔ یہ صدیوں سے قانون، اخلاق، معیشت، معاشرت اورتعلق باللہ کے لیے متعین کیے گئے اصولوں اور ضوابط کی اساس بنی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے، ایسی کتاب کو ایک ناول اور قصے کی حیثیت سے دیکھنابے انصافی ہے اور یہ رویہ قرین عقل نہیں قرار پا سکتا۔ بطور خاص، ایک ایسی کتاب کے بارے میں جس کے الفاظ، خدا کے الفاظ قرار دیے جا رہے ہوں، صدیوں سے انسان جس کی نظیر لانے سے قاصر رہا ہو اور جو ابدی فلاح کی پیام بر ہو۔

۴۔تقاضوں کے مطابق بدلنے کا عزم

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے،جو صرف اس کے لیے رہنما بنتی ہے جو اس کے مطابق بدلنے کا عزم لے کر اسے کھولے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص حقیقت دیکھے، حق پالے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو نہ بدلے، تب بھی جادۂ حق اس کے لیے کھلا رہے۔ جس شخص نے ہدایت پائی، لیکن اس پر عمل پیرانہ ہوا، وہ ہدایت کی اصل روح سے محروم رہتا ہے۔ قرآن مجید کے معاملے میں علم عمل کے لیے اورعمل علم کے لیے رہنما ہے۔ بے عمل عالم کی، اس کتاب کے حوالے سے، کوئی اہمیت ہے اور نہ وہ کسی بھی اعتبار سے عالم کہلانے کا مستحق ہے، بلکہ یہ کتاب ایسے شخص کے لیے حقیقت تک پہنچنے کی راہ میں خودحائل ہو جاتی ہے۔

۵۔تفویض الی اللّٰہ

قرآن مجید کامطالعہ کرتے ہوئے، کسی خاص مسئلے پر غور کرنے میں، جب عقدہ حل نہ ہو، راستہ کھلتا ہوا نظر نہ آئے تو ایک بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالے کر دے۔ وہ اس سے دعا کرے کہ وہ اس کے لیے راستہ کھول دے۔ اس کی سب سے بہترین صورت تہجد کی نماز ہے۔ اس نماز میں اس مقام کی تلاوت کی جائے، جہاں مشکل درپیش ہے۔ اول تو مشکل حل ہو جائے گی اور اگر حل نہ بھی ہوئی تو آدمی اطمینان قلب سے محروم نہیں ہو گا۔ آدمی جب اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دیتا ہے تو شیطان کی دراندازی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ شیطان کے لیے اسے گمراہ کرنے کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شمعیں جل اٹھتی ہیں، تاریکی دور ہو جاتی ہے اور آدمی اطمینان کے ساتھ راستہ تلاش کرلیتا ہے۔

نفس کے دوسرے پہلووں کی طرح عقلی وجود بھی تزکیے کا محتاج ہے۔ ا س کے لیے خدا کی معرفت ضروری ہے۔ خدا کی معرفت کا راستہ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ کا راستہ ہے۔ عقلی وجود کے ان وظائف کے ساتھ کچھ آفات لگی ہوئی ہیں۔ لہٰذا انھیں ان آفات سے بچانے اور راہ راست پر رکھنے کا ذریعہ قرآن مجید پر تدبر ہے۔ قرآن مجید پر تدبر مذکورہ شرائط کے مطابق ہو تو ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ کو صحیح راستہ مل جائے گا، خدا کی معرفت حاصل ہو جائے گی اور عقلی وجود تزکیہ پا لے گا۔

 

روحانی وجود کا تزکیہ

 

حیوانی اور عقلی وجود کی طرح، ہمارے نفس کا روحانی پہلو بھی تزکیے کا محتاج ہے۔ روحانی وجود ہمارے نفس کا وہ پہلو ہے، جسے ہم انسان کی اصل شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے ا س پہلو سے خوب واقف اور اس کا قوی احساس اپنے اندر پاتے ہیں۔ ہمارا وجدان گواہی دیتا ہے کہ یہ پوری طرح ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ جب ہم ’میں‘ کا لفظ بولتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’میں ہوں‘ تو یہ اسی باطنی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ وحی الٰہی سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ نفس کا یہ پہلو اپنا ایک الگ اور واضح تشخص رکھتا ہے اوریہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق کا عمل بھی حیوانی وجود کی تخلیق کے عمل سے مختلف ہے۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کے عمل کا ایک پہلو یہ ہے کہ مادے سے مختلف ہئیتوں کو وجود میں لایا جائے۔ چنانچہ، ہمارے اردگرد موجود، اللہ تعالیٰ کی سینکڑوں تخلیقات اسی طریقۂ تخلیق کے تحت وجود پائی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید نے اس عمل کو ’کن فیکون‘ (ہوجا،تو وہ ہو جاتی ہے) کے الفاظ میں بیان کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو اسے اپنی ہدایت کے مطابق وجودپذیر ہونے کا حکم دیتے ہیں اور وہ چیز عین حکم اور طے شدہ نظام اوقات کے مطابق وجود میں آ جاتی ہے۔جبکہ تخلیق کے دوسرے عمل کے لیے’نفخ‘یعنی پھونک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔پھونک کا یہ عمل کیا ہے؟اس کی وضاحت سیدنا مسیح علیہ السلام کے ایک معجزے سے بخوبی ہو جاتی ہے۔قرآن مجید میں ہے:

أَنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِآیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ أَنِّیْ أَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْْءَۃِ الطَّیْْرِ فَأَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْْرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ.(آل عمران ۳: ۴۹)
’’میں تمھارے پاس، تمھارے رب کی نشانی لے کر آیا ہوں کہ تمھارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں اور پھر اس میں پھونک دیتا ہوں تو وہ اللہ کے اذن سے ایک اُڑتا پرندہ بن جاتی ہے۔‘‘

پھونک کے عمل سے جو چیز مادی وجود میں منتقل کی جاتی ہے،اسے ہم جان اور روح کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا عمل تفصیل سے بیان ہوا ہے اور اس میں بھی روح پھونکنے کا عمل الگ بیان ہوا ہے۔ سورۂ حجر میں ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ. فَإِذَا سَوَّیْْتُہٗوَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗسَاجِدِیْنَ.(۱۵: ۲۸۔۲۹)
’’جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں نے کھنکھناتے گارے سے ایک بشر تخلیق کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چنانچہ، جب میں اسے سنوار لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔‘‘

قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل ،ہر انسان کی پیدایش میں ایک مرحلے کی حیثیت سے اب بھی شامل ہے۔سورۂ سجدہ میں ہے:

وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗمِن سُلَالَۃٍ مِّنْ مَّآءٍمَّہِیْنٍ. ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖوَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْءِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ.(۳۲: ۷۔۹)
’’اس نے انسان کی تخلیق کا آغاز گارے سے کیا۔پھر ایک بے حقیقت پانی سے اس کی نسل کاسلسلہ جاری کیا۔ پھر (دونوں صورتوں میں)نوک پلک سنوارنے کے بعد اپنی روح پھونکی۔اور تمھارے لیے سمع، بصر اور فواد کی صلاحیتیں پیدا کیں،لیکن تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘

قرآن مجید نے اس طرح تخلیق کے دہرے نظام کا ذکر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ انسان کا حیوانی وجود ایک الگ چیز اور اس کا روحانی وجود ایک دوسری چیز ہے۔ ہم، اگرچہ، پھونک کے اس عمل کی حقیقت پوری طرح متعین نہیں کر سکتے، لیکن قرآن مجید صریح ہے کہ ہمارے وجود کا غیر مرئی پہلو ایک روح ربانی ہے، جسے پانے کے بعد ہم شرف انسانیت سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں۔ انسان کا یہ قالب مادی اور غیر مادی، دو وجودوں کا مجموعہ ہے۔ یہ غیر مادی اور روحانی وجود ہے، جسے ہمارے مادی وجود سے نکال لیا جائے تو ہم زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ روح کی جسم سے علیحدگی، ایک محسوس واقعہ ہے۔ جس وقت روح بدن سے الگ ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جسم ایک خاص کیفیت سے گزرتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی ایک مقام پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

فَلَوْلَآ إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ. وَأَنْتُمْ حِیْنَءِذٍ تَنظُرُوْنَ.(الواقعہ ۵۶: ۸۳۔ ۸۴) 
’’(اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی کے محکوم نہیں ہو) تو کیوں نہیں، جب کسی کی جان حلق میں پہنچتی ہے تو تم اس موقعے کو دیکھ رہے ہوتے ہو۔ (مطلب یہ کہ کسی کا بس نہیں چلتا کہ اسے بچا لے۔)‘‘

موت کے اس وقت کے لیے ’نزع‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اوریہ لفظ بھی جسم سے کسی چیز کے نکال لیے جانے ہی کو تعبیر کرتا ہے۔

قرآن مجید نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ روحانی وجود ہے، جس سے یوم الست اللہ تعالیٰ نے عہد توحید لیا تھا۔ سورۂ اعراف میں ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْقَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا.(۷: ۱۷۲)
’’اوریاد کرو، جب نکالا تمھارے رب نے بنی آدم سے ان کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو اور ان کو گواہ ٹھہرایا، خود اُن کے اوپر کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ بولے، کیوں نہیں، (تو ہمارا رب ہے۔) ہم اس کے گواہ ہیں۔‘‘

توحید اور بندگی کی یہ شہادت روحانی وجود کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ حقائق کا ادراک اور ان کا اعتراف اس کی ذات میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ وجود حقیقتوں کا منکر نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ انھیں مسلمات کی حیثیت سے جانتا اور مانتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک پاکیزہ اور خطاؤں سے منزہ وجود ہے۔

یوم الست کے عہد اور حقائق کے ادراک کا ہمارے شعور کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اسے ہم اپنی زندگی کی ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ماں کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جب ایک بچہ اس دنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کے سارے حواس بیدار ہوتے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے اوپر گزرنے والی کیفیات سے آگاہ ہوتا اور اس کااظہار بھی کرتا ہے،لیکن شب و روز کی گردش یہ سب کچھ اس کے شعور سے محو کر دیتی ہے۔ جب یہ بڑا ہوتا ہے تو اپنی ماں کے وجود کو تسلیم کرتا، اس سے وابستہ رہتا اور اپنے اوپر،حقوق و فرائض کے حوالے سے ،عائد ہونے والی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔جس طرح اپنی پیدایش کا واقعہ کسی کو بھی یاد نہیں، لیکن کوئی اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کرتا کہ وہ فلاں ماں کی اولاد ہے۔ اس کے گرد و پیش کی شہادت ہی اس کے لیے کافی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عہدالست کاواقعہ کسی کو بھی یاد نہیں، لیکن اس کی طرف جب بھی بلایا جاتا ہے تو روحانی وجود اس سے گریزاں نہیں ہوتا، بلکہ ایک لپک اور طلب اس کے لیے اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔

ہم نے واضح کیا ہے کہ روحانی وجود ایک پاکیزہ وجود ہے۔یہ مومن قانت ہے اورحقائق کو بغیر پس و پیش کے مان لیتا ہے۔ جب یہ سب کچھ ایک حقیقت ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے تزکیے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سوال کا جواب کچھ تفصیل کا متقاضی ہے۔ درحقیقت، روحانی وجود، اس دنیا میں، ایک مادی قالب میں ظاہر ہوا ہے۔ اس کا اور مادی وجود کا باہمی تعلق، اس قدر اٹوٹ اور گہرا ہے کہ اس کی ضرورتیں، اس کی ضرورتیں بن گئی ہیں۔ پھر یہ ضروریات ہی نہیں، انسان کی خواہشات، جذبات اور تعصبات بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ علو و اقتدار کی خواہش آنکھ کھلتے ہی نمودار ہو جاتی ہے۔ مقام اورمرتبہ پانے کی طلب، یوں محسوس ہوتا ہے، اول روزہی سے اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ جنسی جذبہ بھی ایک سیلاب ہے، جو کسی شخص کو کسی بھی سمت میں بہا کر لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح غصہ، نفرت اور انتقام انسانی کردار اور رویوں کی تشکیل میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں روحانی وجو دکا گھیراؤ کرتی ہیں۔ اس پر ان کا بوجھ پڑتا ہے اور وہ دبنا شروع ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات صورت یہ ہوجاتی ہے کہ آدمی جبلتوں کا غلام اور خواہشات کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ چیزیں، بعض اوقات، روحانی وجود کو اتنا دبا لیتی ہیں کہ اس کے لیے آنکھ کھولنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ انتہا بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ انسان خدا کا انکار کر دیتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات، وہ کردار کے اعتبار سے اتنا گر جاتا ہے کہ اس کی زندگی ایک جانور کی زندگی سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روحانی وجود حوصلہ ہار دیتا ہے اور اس میں مقابلہ کرنے کے لیے دم خم باقی نہیں رہتا۔ اگرچہ یہ سب بہت جلد نہیں ہو جاتا، اس میں بڑی دیر لگتی ہے۔ اس کے پیچھے ایک طویل کشمکش ہوتی ہے۔ ہمارا یہ ملکوتی وجود مقابلہ کرتا ہے اور ضمیر یا نفس ملامت گر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتا رہتا ہے، مگر انسان اپنے اختیار کی آزادی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کی آواز دباتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ منزل آجاتی ہے، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔

عام طور پر، نفس کاروحانی پہلو، اسی کشمکش سے دو چار ہوتا ہے، لیکن، بعض اوقات، معاملہ اس کے بالکل برعکس صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اس صورت میں روحانی وجود، انسانی وجود کے دوسرے پہلووں کو لاحق ضرورتوں، جذبات اور خواہشات کی زنجیریں توڑ دیتا اور بطور خاص حیوانی وجود کے تقاضوں کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں رہبانیت اور اس کی مختلف شکلیں وجود میں آتی ہیں۔ یوگ، ویدانت اور سنیاس، اسی رہبانیت کے مختلف مظاہر ہیں۔ پھر اسی کی کوکھ سے وحدت الوجود کا فلسفہ جنم لیتاہے۔ انسان ذات خدا وندی کا شمہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتا اور اس خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ حیوانی وجود اور اس کے تقاضوں سے نجات حاصل کر کے، حقیقت اعلیٰ سے ہم کنار ہو جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ تصور دین میں اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ قرآن مجید نے پھونک کے عمل سے جس چیز کی وضاحت کی ہے، وہ تخلیق کا عمل ہے۔ اس سے ہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ذات باری تعالیٰ کا کوئی حصہ ہمارے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کی تصریحات کے باوجود، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ فلسفہ، جو ایک عالم گیر گمراہی کی حیثیت رکھتا ہے، دنیا کے دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ اسلام کے جسد فکری میں بھی داخل ہو گیا اور غلط عقائد اور بدعات کے فروغ کا باعث بنا۔ ہمارے ہاں اللہ سے تعلق کے لیے محبت کے بجائے ’عشق حقیقی‘، مرنے والے بزرگ کی برسی کے لیے ’عرس‘ اور اس کی وفات کے لیے ’وصال ‘ کے الفاظ اسی گمراہ کن فلسفے کے نتیجے میں رائج ہوئے ہیں۔ مولانا روم کے یہ اشعار اسی فلسفے کوبیان کرتے ہیں:

 

بشنواز نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
’’بانسری سے سنو، کس طرح ایک حکایت سنا رہی ہے، اور اپنی جدائیوں کا نالہ کھینچ رہی ہے۔‘‘

 

تا مرا از نیستاں ببریدہ اند
در نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
’’کہتی ہے:جب سے مجھے نرکل کے جھنڈسے کاٹا گیا ہے۔ہر مرد و زن میری آواز میں نالہ سنج ہے۔‘‘

 

دین، اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو عبد اور معبود کا تعلق قرار دیتا ہے اور تصوف میں یہ تعلق عاشق اور معشوق کا تعلق ہے۔

ان دونوں صورتوں میں سے، جو صورت بھی پیش آئے، ہمارا یہ روحانی وجود، بہر حال، تزکیے کا محتاج ہے۔ اس پہلو سے بھی کہ وہ ان تقاضوں کو بالکل نظر انداز کر کے اور ان کی بیڑیاں توڑ کر رہبانیت کی بدعت میں مبتلا نہ ہو جائے اور اس پہلو سے بھی کہ مادی وجود کے تقاضے غلبہ پا لیں اور انسان محض جانور بن کر نہ رہ جائے۔

روحانی وجود کے تزکیے کا راستہ صر ف ایک ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ بندے کا اپنے رب سے تعلق، صحیح بنیاد پر، استوار ہو جائے، وہ بنیاد جو قرآن و سنت سے معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہ قرآن و سنت ہی کا بتایا ہوا راستہ ہے جو مادی وجود کی جبلتوں او رروحانی وجود کے تقاضوں، ہر ایک کے لیے صحیح اور سیدھا راستہ ہے۔ یہ بات ایک محکم اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن و سنت نے اس معاملے میں جو بھی حدود و قیود اور طریقے متعین کر دیے ہیں، نہ اس سے ذرہ برابر تجاوز ہونا چاہیے اور نہ کسی طرح کی کمی ہی اس میں روا رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تجویز کیا جانے والا ہر طریقہ اور ہر راستہ نہ صرف یہ کہ غیردین ہے، بلکہ ایک بدترین بدعت ہے۔ خواہ وہ اپنے ظاہر میں کوئی ورد، کوئی وظیفہ اور بظاہر کوئی نیک عمل ہی کیوں نہ ہو۔

اگرچہ تصوف بھی روحانی وجود کے تزکیے کے لیے تعلق باللہ ہی کو راستہ قرار دیتا ہے،لیکن اس میں غلطی یہ ہے کہ وہ بندے اوررب کے تعلق کے لیے،جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں، غلط اساسات متعین کرتا ہے۔ وہ بندے کے روحانی وجود کو شمۂ خداوندی قرار دیتا اور اس کے خدا کے ساتھ وصال کو منزل ٹھیراتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حیوانی اور روحانی، دونوں وجود خدا کی تخلیق ہیں اور عدم سے وجود میں آئے ہیں، لہٰذا خدا اور بندے کا اصل تعلق عبد اور معبود کا تعلق ہے اور آیندہ سطور میں ہم اسی تعلق کی صحیح اساسات کی توضیح کریں گے۔

 

اللہ کے ساتھ تعلق کی بنیادیں

ذکر

عام زندگی میں کسی کے ساتھ تعلق ملاقاتوں اور گفتگووں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، لیکن اگر ملاقا ت ممکن نہ ہو تو یہ تعلق یاد میں ڈھل جاتا ہے۔ ہم، چونکہ، اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کااظہار ’یاد‘، یعنی ’ذکر‘ کی صورت میں ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے۔ اس کا ایک پہلو پروردگار کائنات کی عظمت کا اعتراف ہے۔ یہ اعتراف عظمت ہی ہے، جس کے اظہار کے لیے کلمات حمد زبان پر جاری ہو جاتے ہیں اور اسی کے لیے رکوع و سجود، اعضا و جوارح کی زبان بن جاتے ہیں۔ کائنات کا مشاہدہ، درحقیقت، خدا کی عظمتوں، قدرتوں اور رحمتوں کی وسعت اور گیرائی کا مطالعہ ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی یاد کے اس پہلو کو مزید گہرا اور راسخ بنا دیتی ہے۔

یاد کا دوسرا پہلو ان نعمتوں پر شکر سے متعلق ہے، جو ہمیں زندگی کے شب و روز میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس زاویے سے دیکھیں تو کائنات میں ہمیں خدا کی عظمت اور قدرت کے جو نشان بھی نظر آتے ہیں، وہ اصل میں ہمارے لیے نعمت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا، جوں ہی یہ شعور پیدا ہوتا ہے، ہمارا دل اعتراف عظمت اور اظہار شکر کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے۔

ذکر کاتیسرا پہلو ہمارے سراپا احتیاج ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں صبح و شام مختلف ضرورتیں پیش آتی ہیں اور اگر حقائق پر نظر ہوتو یہ چیز مبرہن ہو جاتی ہے کہ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اللہ کی مدد اور عنایت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم اس سے مانگتے اوراس کے حضور میں درخواست کرتے ہیں۔ اس طرح احتیاج، پھر دعا اور درخواست سے ذکر الہٰی کی تیسری جہت وجود میں آتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اللّٰہ اکبر‘، ’سبحان اللّٰہ‘ اور ’الحمد للّٰہ‘ کے کلمات کو کلمات ذکر قرار دیا ہے۔ یہ کلمات بھی، درحقیقت، شکر اور اعتراف عظمت ہی کی جامع تعبیر ہیں۔ ان کلمات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دین میں زبان سے ذکر کامطلب کسی لفظ یا اسم کابار بار جپنا نہیں ہے۔ یہ ایک واضح تصور اور تجربی احساس ہوتا ہے، جو ایک مکمل بات کی صورت میں زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور آدمی فرط احساس کے تحت اسے بار بار دہراتاہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزو شب کے معمولات میں جو دعائیں سکھائی ہیں، وہ بھی یاد الٰہی کے انھی پہلووں کو بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں یہ دعائیں اللہ تعالیٰ کی مختلف نعمتوں کو پانے کا ذریعہ بنتی ہیں، وہاں دین کے اصل اور باطنی پہلو کی یاد دہانی بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہ دعائیں، چونکہ، ہر موقعے کے لیے ہیں، لہٰذا ان کے التزام سے یاد الٰہی زندگی کے شب و روز کا احاطہ کر لیتی ہے۔ قرآن مجید ایسے ہی مسلمانوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْدًا وَعَلٰی جُنُوْبِہِمْ.(آل عمران ۳: ۱۹۱) 
’’وہ جو اللہ کو کھڑے، بیٹھے اور کروٹ لیتے یاد کرتے ہیں۔‘‘

ذکر ہی کے دوام اور احاطے کے لیے نماز فرض کی گئی ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ طہٰ میں نماز کی یہی غرض بیان کی ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ.(۲۰: ۱۴)
’’میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام کرو۔‘‘

نماز ذکر کی ایک جامع صورت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد کے تمام پہلووں کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اس میں زبان پر حمد، شکر، تسبیح اور دعاؤں کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں اور اعضا و جوارح قیام، رکوع اور سجود کی صورت میں زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی عظمت کے اظہار کا کلمہ ’اللّٰہ اکبر‘ ساری نماز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ نماز کا آغاز اسی تسبیح سے ہوتا ہے۔ پھر تسبیح اور تفویض کے کلمات دہرائے جاتے ہیں۔ سورۂ فاتحہ شکر کے مضمون سے شروع ہوتی اور دعا کے الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔ پھر قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔ قرآن مجید خود ’الذکر‘ ہے۔ یہ پروردگار عالم کی یاد دہانی ہے۔ خدا کی حقیقی یاد اور خدا سے صحیح تعلق اسی پر منحصر ہے۔ رکوع و سجود تسبیح کے کلمات سے عبارت ہیں۔ اور تسبیح حمد و شکر ہی کا ایک سلبی پہلو ہے۔ تشہد کے کلمات اعتراف و اقرار اور اظہار وابستگی کے کلمات ہیں۔ پھر اختتام درود اور دوسری دعاؤں پر ہوتا ہے۔ اس طرح نماز اپنے اندر ذکر اور یاد الٰہی کے سارے پہلووں کو سمو لیتی ہے۔ پھر اس نماز کے لیے اوقات اس طرح متعین کیے گئے ہیں کہ شب و روز میں کائنات کے ہر تغیر پر نماز واجب ہو جاتی ہے۔ دن سرگرمیوں کا مرکز ہے، اس میں بھی نمازیں ہیں۔ نیند موت کی یاد دہانی ہے۔ اس کے آغاز و اختتام پر بھی نماز رکھ دی گئی ہے تاکہ خدا کی یاد زندگی کا پوری طرح احاطہ کرے۔

وفاداری

اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اللہ کے ساتھ تعلق کی دوسری بڑی اساس ہے اور اس کا سب سے بڑا مظہر ’انفاق فی سبیل اللہ‘ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.(آل عمران۳: ۹۲)
’’تم ہرگز وفاداری کے معیار پر پورے نہیں اترو گے، جب تک اس میں سے خرچ نہ کروجو تمھیں نہایت عزیز ہے۔‘‘

تقاضا یہ ہے کہ ذاتی ضروریات کو پورا کر کے باقی جو کچھ ہے، وہ افراد، معاشرے اور قوم و ملت کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔ واضح رہے کہ یہاں ذاتی ضروریات سے ہماری مراد صرف روزمرہ کی گھریلو ضروریات ہی نہیں، کاروبار اور مستقبل میں پیش آنے والی ضروریات بھی اسی میں شامل ہیں۔ خدا کا سچا بندہ وہ ہے، جو اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خدا کے بندوں کے لیے عام کر دے۔ زکوٰۃ کی صورت میں،انفاق فی سبیل اللہ کی کم از کم حد بھی متعین کر دی گئی ہے، جسے ہر مسلمان، اگر وہ صاحب نصاب ہو تو، اپنی ریاست کو ادا کرتا ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ اس کی حیثیت کم از کم مطلوب کی ہے، اعلیٰ اور برتر رویہ وہی ہے، جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔

تقویٰ

اللہ تعالیٰ سے تعلق کی تیسری اساس پرہیز گاری اور حدود آشنائی ہے۔ دین کی ساری شریعت، در حقیقت، اسی غرض سے ہے کہ وہ حدود و قواعد متعین کر دیے جائیں، جنھیں ملحوظ رکھنے کے بعدایک مسلمان پرہیز گار مسلمان بن جائے۔ ایک ماہ کے روزے اسی پرہیز گاری اور حدود آشنائی کی خصوصی تربیت کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید نے روزے کے فرض کرنے کی وجہ یہی بیان کی ہے۔ ارشاد ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ۲: ۱۸۳) 
’’اے ایمان والو، تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح پہلوں پر کیے گئے تھے۔ (اور مقصود یہ ہے کہ) تم ان کے ذریعے سے صاحبِ تقویٰ (پرہیز گار) بن سکو۔‘‘

روزہ معمول سے ہٹ کر کچھ زائد پابندیاں اختیار کرنے کا نام ہے۔ بطن و فرج پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اعضا و جوارح آنکھ، زبان، کانوں اور ہاتھوں پر پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ نفس کی آلودگیاں کمزور پڑ جائیں اور اطاعت، عبادت اور تقویٰ کی طرف رغبت زیادہ ہو۔ روزہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کا مسلسل احساس طاری کیے رکھتا ہے۔ جس طرح وہ خور و نوش سے روزہ دار ہونے کی وجہ سے رکا رہتا ہے، اسی طرح اسے غیر اخلاقی بات او رعمل سے رکے رہنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب روزے دار کو جھگڑا پیش آ جائے تو وہ یہ کہہ کر رک جائے کہ میں روزے سے ہوں۔

رمضان کا آخری عشرہ، اعتکا ف کا عشرہ ہے۔ اعتکاف کرنے والا دنیا سے کٹ کر صرف اللہ کی یاد کے لیے اپنے آپ کو خاص کر لیتا ہے۔ چنانچہ، بعض پابندیاں، جو رمضان میں صرف دن کے ساتھ خاص ہیں، وہ معتکف پر رات کے وقت بھی لگ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین ہمیں دیا ہے، وہ ان حدود کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام ہے، جو اللہ کو پسند ہیں اور روزہ انھی حدود کی پابندی کی تربیت کا ایک خصوصی پروگرام ہے۔

محبت

ہمارے ہاں اللہ کے ساتھ محبت کے لیے، محبت کے بجائے، بالعموم، عشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ دراں حالیکہ، عشق کا لفظ قرآن مجید کے لیے ایک اجنبی لفظ ہے۔ اگرچہ، عشق بھی عربی زبان کا لفظ ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگاؤ کی تعبیر کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں۔ ہمارے ہاں ایک شاعر نے بجا طور پر جذبۂ عشق کو دماغ کا خلل قراردیا ہے۔

اس ضمن میں قرآن مجید نے لفظ محبت اختیار کیا ہے اور تشریح بھی کی ہے کہ اللہ کی محبت سے اس کی کیا مراد ہے۔ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا ذکر ایک محمود اور مطلوب جذبے کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ آمَنُوْٓا أَشَدُّ حُبًّا.(۲: ۱۶۵)
’’ایمان والے سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘

سورۂ آل عمران میں یہ بھی بتا دیا کہ یہ محبت کس طرح ظاہر ہونی چاہیے:

إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ. (۳: ۳۱) 
’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری (رسول اللہ کی) پیروی کرو۔‘‘

سورۂ توبہ میں یہی حقیقت ایک دوسرے اسلوب میں واضح کی گئی ہے:

قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖوَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖفَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ.(۹: ۲۴)
’’اے نبی، ان سے کہہ دیجیے، اگر تمھارے باپ، دادا، تمھاری اولاد، تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں، تمھاری برادری، وہ مال جسے تم نے کمایا ہے، تجارت جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور مکان جو تمھیں پسند ہیں، اگر تمھیں اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہِ جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔‘‘

ان آیات کریمہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ محبت الٰہی، درحقیقت، اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ وابستگی کے تقاضے، ہر حال میں پورے کرنے کانام ہے۔ یہاں تک کہ صورت حال، اگر متقاضی ہو تو بندہ اپنے وطن، گھر، مال و دولت، اولاد اور تجارت کا مفاد بھی اس وابستگی کی خاطر قربان کر دے۔ اور ہر حال میں، اللہ اور اس کے دین کے منشا کو ترجیح دے۔

یہی حقیقت ایک حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔

عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین.(بخاری،کتاب الایمان)
’’حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے باپ، اولاد اور تمام مخلوق سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘

جب ایک بندۂ مومن محض تعمیل ارشاد کرتے ہوئے، دین کے احکام بجا لاتا ہے تو یہ اطاعت ہے اور جب دین کی خاطر ایک جذبہ اور ایک جو ش اس اطاعت کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے تو اسے محبت الٰہی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جو دین کی نصرت، حمایت او رحمیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اورموقع کے لحاظ سے یہ محبت کبھی باہمی نصیحت یا دعوت و انداز میں ڈھلتی اور کبھی جہاد و قتال کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ دین سے ایسی وابستگی رکھنے والے ہی شہادت کے مرتبے کے مستحق بنتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ اگر ضرورت پڑے تو دین کی خاطر جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بشارت دیں کہ ان کے معاملے میں حساب کتاب بہت سہل کر دیا جائے گااور وہ بغیر کسی گہری چھان بین کے جنت میں بھیج دیے جائیں گے۔

ہمارے دین میں حج کی عبادت اس محبت الٰہی کے جذبے ہی کی ایک جامع تعبیر ہے۔ اس میں بندۂ مومن اللہ کے گھر کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے۔ اس کی زبان پر’ لبیک لبیک‘ کے الفاظ ہوتے ہیں، جو ترانۂ حمد اور ترانۂ وابستگی ہے۔ حج ہی وہ واحد عبادت ہے، جس میں طواف کی صورت میں شمع و پروانہ کی حکایت کی یاد تازہ کی جاتی ہے، اور ہر طواف کا آغاز اللہ کے ساتھ کیا ہوا عہد، وفا کرنے کے اعلان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ انھوں نے اپنے رب کے ساتھ وابستگی اور اس کے دین کی نصرت و حمایت میں بے مثال رویہ اختیار کیا۔ قرآن مجید میں ان کا ذکر غیر معمولی اہتمام سے ہوتا ہے۔ حج کے اکثر شعائر انھی کی سنت، یعنی ان کی جد و جہد اور مساعی کے عملی مظاہر ہیں، جنھیں حج کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

دین کے لیے جذبۂ محبت و حمیت کا سب سے بڑا مظہر جہاد ہے۔ منٰی اور مزدلفہ میں قیام اور سفر جہاد ہی کے عمل کی تمثیل بن جاتے ہیں۔ سعی اور رمی جمار، یعنی سنگ باری میں بھی اسی جہاد کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ قربانی اپنی جان قربان کر دینے کا علامتی اظہار اور سر منڈانا غلامی میں دینے کی قدیم روایت ہے اور ان دونوں اعمال پر حج مکمل ہوتا ہے۔ گویا ایثار، انابت اور رجوع جو محبت ہی کے جذبے کی مختلف صورتیں ہیں، اپنے کما ل کو پہنچ جاتی ہیں۔

روحانی تزکیے کا یہ پروگرام ہے، جو انبیا نے ہمیں سکھایا ہے، اسی کو قرآن مجید بیان کرتا ہے۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ ایک مکمل پروگرام ہے۔ اس سے باہر دیکھنے یا اس میں ترمیم و اضافہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے باہر دیکھنا یا نئے طریقے اختیار کرنا، درحقیقت، قرآن و سنت کی تصحیح کی جسارت ہے اور ایسی جسارت روز قیامت نیکی کے بجائے، ظاہر ہے، گناہ ہی شمار ہو گی۔

_______________

B