HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تزکیۂ نفس (حصہ اول)

 

[جاوید احمد صاحب غامدی کے سلسلۂ محاضرات سے ماخوذ]

 

حیوانی وجود کا تزکیہ

تزکیۂ نفس، قرآن مجید کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ عام مسلمان کے لیے بھی یہ کوئی اجنبی اصطلاح نہیں۔ہمارے ہاں وعظ و نصیحت کی مجالس اور دینی کتب و رسائل میں اس کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ، دین سے معمولی دل چسپی رکھنے والا مسلمان بھی اس سے نا آگاہ نہیں رہ سکتا۔

عام خیال یہ ہے کہ یہ ایک خاص نوعیت کا عمل ہے، جس کے ذریعے سے باطن کی اصلاح ہوتی ہے۔ اگرچہ، اسے فکر و عمل کی اصلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے، لیکن، عام طور پر، اس کا اطلاق ان خاص اعمال پر کیا جاتا ہے، جنھیں اختیار کر کے ایک صوفی سلوک کی مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی راہ سلوک ہے، جس کے لیے ہمارے ہاں ’طریقت‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ بالعموم، تزکیۂ نفس کے لیے کسی شیخ یا پیر کی رہنمائی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ یہ شیخ اس کام کے لیے کچھ ورد اور وظیفے اور کچھ چلے اور مراقبے تجویز کرتا اور ان کی تکمیل کے مختلف مراحل میں اپنے مرید کی رہنمائی کرتا ہے۔ جب مرید یہ تمام مراحل طے کر لیتا ہے تو اسے بعض خصائص حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس کے قلب پر انوار و تجلیات نازل ہوتے، اس کے لیے مکاشفات کا باب کھلتا، اس کی زبان پر حق جاری ہوتا، اس کا دل دنیوی علائق سے بالکل پاک ہو جاتا اور دین کے ساتھ وابستگی میں اس کی یکسوئی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ کوئی شیطانی وسوسہ اور کوئی دنیوی کشش اسے اپنی طرف راغب نہیں کر سکتی۔

تزکیۂ نفس کے بارے میں عام تصور یہی ہے،لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو اس تصور کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی،دراں حالیکہ تزکیۂ نفس دین کا بنیادی موضوع اور قرآن مجید کی اہم اصطلاح ہے۔ اس کے باوجود، اصل کی جگہ ایک بالکل غلط تصور نے لے لی اور اس کے حوالے سے وہ چیزیں رائج ہو گئیں، جن کی قرآن و سنت میں کوئی بنیاد نہیں۔ گویا، قرآن مجید میں جو بات بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے، اسی کے لیے قرآن مجید سے رجوع نہیں کیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ قرآن مجید کی سب سے زیادہ مظلوم اصطلاح نظر آتی ہے، جبکہ صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اس میں ایسی کوئی کمی نہیں، جسے پورا کرنے کے لیے ہمیں کسی دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس ہو۔ عبادات ہوں یا انسانوں کے ساتھ تعلق کا معاملہ، انفرادی اور باطنی اصلاح پیش نظر ہو یا معاشرے اور ریاست کی تعمیر و تطہیر، دین اسلام میں، انسان کے لیے، پوری رہنمائی موجود ہے۔ یہی حقیقت ہے ،جسے قرآن مجید نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کار رسالت کی تکمیل پر ایک واضح اعلان کی صورت میں بیان کر دیا تھا:

اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا.(المائدہ ۵: ۳) 
’’آج میں نے تمھارے لیے، تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘

اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے تھا کہ ہم رہنمائی کے لیے صرف قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے اور اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرتے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اسلام ہی بطور دین ہمارے لیے پسند ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت پوری طرح مکمل ہے اور اس میں اب کسی ترمیم و اضافے کی کوئی گنجایش نہیں۔ چنانچہ، یہی حقیقت خود قرآن مجید نے بھی واضح کی ہے او رحک و اضافے کی ہر کاوش کو مذموم ٹھہرایا ہے، ارشاد ہے:

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْْرَ الْإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ.(آل عمران ۳: ۸۵)
’’اور جس نے اسلام کے سوا کسی دوسری چیز کو دین بنانا چاہا تو اس کا یہ عمل ہرگز قبول نہیں ہو گا۔ اور یہ شخص یومِ آخر گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘

لیکن اس کے برعکس جس دین کے بارے میں قرآن مجید نے یہ کہا تھا کہ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ‘ (آل عمران ۳: ۱۹) ’’دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘ ہم نے اسے بطور خاص، تزکیۂ نفس کے معاملے میں کافی نہ سمجھا، دوسری وادیوں میں اترتے چلے گئے اور اس طرح دین کی اصل روح اور صحیح توازن سے محروم ہو گئے۔

بہر حال، ہمارا یہ دین دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔پہلی چیز فلسفہ و حکمت اور دوسری قانون و شریعت ہے۔ اور ان دونوں کا مقصودتزکیۂ نفس کا حصول ہے۔

فلسفہ و حکمت کا تعلق ان مباحث سے ہے جن میں انسان کی حقیقت، اس کے مقام اور اس کے مقصد وجود کی توضیح اور جبر و قدر،خیر و شر اور تقدیر و سنن الٰہی کی تفصیل کی جاتی ہے۔ قانون و شریعت کا تعلق ان حدود و قیود سے ہے، جو زندگی کے عام معاملات پر عائد کی گئی ہیں اور ان قواعد سے ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے ساتھ تعلق کے حوالے سے متعین کیے گئے ہیں۔فلسفہ و حکمت کے حقائق کی تعلیم ہو یا قانون و شریعت کے حدود و قواعد کی تلقین،ان دونوں سے مقصود نفس انسانی کا تزکیہ ہے۔اورجیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں، دین کا اصل مقصود یہی ہے۔ یہی بات ان آیات سے بھی واضح ہوتی ہے، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرض منصبی بیان ہوا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ آیَاتِہٖوَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’وہی ذات ہے، جس نے امیوں میں انھی کے ایک شخص کو رسول کی حیثیت سے مبعوث کیا۔ یہ رسول انھیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور اس طرح ان کا تزکیہ کرتا اور انھیں قانون و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

اس آیۂ کریمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ذمہ داری تلاوت آیات بتائی گئی ہے جس کے ذریعے سے آپ نے تزکیۂ نفوس اور قانون و حکمت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس آیت میں تعلیم قانون و حکمت سے پہلے تزکیۂ نفس کا ذکر ہوا ہے، جبکہ سورۂ بقرہ میں مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دعا میں تزکیۂ نفس کا ذکر تعلیم قانون و حکمت کے بعد ہوا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تزکیۂ نفوس کا ذریعہ کتاب و حکمت کی تعلیم ہے یا یہ کہ کتاب و حکمت کی تعلیم سے مقصود، درحقیقت، تزکیۂ نفس ہی ہے۔ دعا کے الفاظ ہیں:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنْتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹) 
’’اے ہمارے پروردگار ،ان کے اندر انھی میں سے ایک رسول بھیج،جو انھیں تیری آیات پڑھ کر سنائے،قانون و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔بے شک، تو زبردست ہے،حکمت والا ہے۔‘‘

قرآن مجید کی حیثیت ایک منذر کی ہے۔ وہ انسانوں کو یہ بتاتا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور اس سے مالک کائنات کا مقصود اپنے بندوں کی آزمایش ہے۔ وہ خبر دار کرتا ہے کہ اس زندگی کا انجام روز قیامت پر ہو گا۔ تمام لوگ اپنے خالق اور مالک کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ چنانچہ، وہ نفوس مزکیٰ، جنھوں نے اپنے نفس میں برائیوں کو دبا لیا اور نیکیوں کو غالب کر لیا، وہ جنت کے مستحق ہوں گے اور جن کا معاملہ اس کے برعکس ہو گا، وہ نا کام و نامراد ٹھہریں گے:

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا. وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا.(الشمس ۹۱: ۷۔۱۰)
’’اور گواہ ہے نفس اور جس طرح اسے سنوارا۔ پھر اس میں نافرمانی اور پرہیز گاری کے داعیات رکھ دیے۔ وہ کامیاب ٹھہرا جس نے اسے پاک کر لیا اور وہ نامراد ہواجس نے اسے آلودہ کیا۔‘‘

قرآن مجید کے نزدیک انسان کا اصل مسئلہ آخرت کی تیاری ہے۔ آخرت، جہاں برے لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور اچھے لوگ جنت کی نعمتیں پائیں گے۔ وہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ توقف اور تامل سے کام لیں، غور و فکر کریں اور یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ جنت پانے کا راستہ کیا ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جنت اسی کا مقدر بنے گی، جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور اسے برائیوں سے پاک کر لیا، اس لیے کہ جنت نفوس مزکیٰ کا ٹھکانا ہے۔

تزکیے کا یہ عمل، اسی دنیا تک محدود نہیں ہے۔ ہم جب اپنے نفوس کا تزکیہ کر کے قیامت کے روز اٹھیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ہمارا تزکیہ کریں گے۔ اسی طرح ہمارے کام میں جو نقائص رہ جائیں گے، ان کا ازالہ ہو جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید رحمت اورمہربانی ہو گی جو وہ اپنے بندوں پر فرمائے گا۔ اور وہ لوگ جو برائیوں سے اپنا دامن آلودہ کر لیں گے، ان کے بارے میں قرآن مجید میں فرما دیا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نہ ان سے بات کریں گے، نہ ان کی طرف نظر عنایت کی جائے گی اور نہ وہ ان کا تزکیہ ہی کریں گے۔ ارشاد ہے:

أُولٰٓءِکَ لاَ خَلاَقَ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلاَ یَنْظُرُ إِلَیْْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلاَ یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ.(آل عمران۳: ۷۷) 
’’یہ ہیں وہ لوگ جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ اللہ ان سے بات کریں گے اور نہ ان کی طرف قیامت کے روز دیکھیں گے اورنہ ان کا تزکیہ ہی کریں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘

تزکیہ، جیسا کہ واضح ہے، عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ دو مفہوموں پر مشتمل ہے۔ ایک پہلو سے اس کا مطلب کسی شے کو پاک اور صاف ستھرا کرنا ہے، اور دوسرے پہلو سے یہ پروان چڑھانے اور نشو و نما دینے کے مفہوم کا حامل ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب کوئی کھیت اگانا مقصود ہو تو پہلے جھاڑ جھنکاڑ صاف کر کے زمین تیار کی جاتی ہے۔ پھر بیج بویا جاتا ہے۔ تب نگہداشت کا عمل شروع ہوتا ہے، نلائی کی جاتی ہے، ضرورت کے مطابق پانی دیا جاتا اور، وقتاً فوقتاً، جڑی بوٹیاں تلف کی جاتی ہیں تاکہ کھیت پوری طرح برگ وبار لائے۔ غرض کہ اگر ایک اعتبار سے یہ ایک منفی عمل ہے تو دوسرے پہلو سے ایک مثبت عمل۔ کسی شے کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں اسے آلایشوں سے پاک کیا جائے اور اس کی خرابیاں اور نقائص دور کیے جائیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نمود، نشوونما اور فروغ کے لیے ضروری چیزیں اور ساز گار ماحول پیدا کیا جائے۔ یہ دو جہتی عمل ہے، جسے ہم تزکیہ کے لفظ میں ادا کرتے ہیں۔ یہی عمل، جب نفس انسانی پر کیا جاتا ہے تو اسے ہم تزکیۂ نفس کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے ’قد افلح من زکٰھا‘ اور ’قد خاب من دسٰھا‘ کے جملوں میں اسی کا ذکر کیا ہے اور اس منزل کی نشان دہی کر دی ہے، جس کو پانا فلاح اخروی کے لیے ضروری ہے۔

ہمارے نفس میں ہر دم خیر وشر کی کشمکش برپا ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک ہمیں زندگی کے ہر ہر مرحلے میں خیر و صلاح اور شر وفساد میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے معاملات ہوں یا کاروبار اور منڈی کا لین دین، دفتری امور ہوں یا باہمی روابط کے عام تقاضے، ہر صورت میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ نیکی کی راہ اختیار کی جائے یا بدی کی۔ زندگی کی یہی کشمکش ہے، جہاں دین چاہتا ہے کہ مسلمان کے نفس میں نیکی کا داعیہ اور جذبہ قوی تر اور برائی کا رجحان اور اس کی طرف میلان کمزور ہو جائے۔ برائی مغلوب اور نیکی کی حیثیت ایک غالب قوت کی ہو، یہاں تک کہ خیر و شر کی اس کشمکش میں شر شکست کھا جائے اور خیر کو فتح حاصل ہو۔

قرآن مجید ہمیںیہ بھی بتاتا ہے کہ تزکیۂ نفس کے اس عمل کا نقطۂ کمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک نفس مزکیٰ کی آخری منزل نفس مطمئنہ ہے اور نفس مطمئنہ’راضیۃ مرضیۃ‘ کی بادشاہی ہے۔ ارشاد ہے: 

یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ. ارْجِعِیْٓ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ. (الفجر ۸۹: ۲۷۔۳۰) 
’’اے نفس مطمئن، اپنے رب کی طرف آؤ۔ اس طرح کہ تو اپنے رب سے راضی اور تیرا رب تجھ سے راضی۔ میرے بندوں میں شامل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ۔‘‘

وہ لوگ، جن کے قدم تنگی اور فراخی، ہر طرح کے حالات میں جادۂ حق سے نہیں ہٹتے، انھیں جب کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے شکر کا امتحان سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ شکر گزار بندوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ عبدیت اور بندوں کے ساتھ حسن سلوک کے تعلق پر قائم رہیں، مشکل آتی ہے تو اسے صبر و استقامت کا امتحان سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جان کی بازی لگا کر بھی اس امتحان سے سرخ رو ہو کر نکلیں، جن کا دل عسر ویسر اور نرمی و سختی، ہر طرح کے حالات میں، اپنے رب سے راضی اور مطمئن رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ روز محشر انھیں نفس مطمئنہ کے خطاب سے نوازیں گے۔ وہ جو اپنے رب سے راضی تھے، انھیں خدا کی رضا کی نوید سنائی جائے گی، انھیں خدا کے بندوں میں شامل کیا جائے گا اور ان کو جنت میں جگہ دی جائے گی۔ اس طرح یہاں کے نفوس مطمئنہ اور یہاں کے راضی برضا، جنت کے اطمینان اور خدا کی رضا جیسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔ غرض کہ تزکیۂ نفس کا عمل جب اپنے نقطۂ کمال کو پہنچتا ہے تو بندۂ مومن دنیا میں نفس مطمئنہ کی منزل پا لیتا اور آخرت میں وہ بادشاہی اس کا نصیب بن جاتی، جسے قرآن مجید نے ’راضیۃ مرضیۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔

تزکیۂ نفس اپنے ابتدائی مراحل میں ایک سادہ عمل ہے۔ اس کا آغاز اسی لمحے ہو جاتا ہے، جب انسان برائیوں کی راہ چھوڑ کر نیکیوں کا راستہ اختیار کرلیتا ہے، جس طرح ایک عمارت کا آغاز بالکل سادہ طریقے پر ایک ڈھانچے کی تعمیر سے ہو جاتا ہے۔ڈھانچے کی تعمیر کایہ مرحلہ جہاں قدرے آسان ہوتا ہے،وہاں تکمیل کے مراحل بھی سرعت کے ساتھ طے کرتا ہے، لیکن دوسرا مرحلہ جو آرایش و تزیین کا مرحلہ ہے، اس کے مقابلے میں بہت محنت طلب اور طویل مرحلہ ہوتا ہے۔اس میں ایک ایک گوشے اور ایک ایک جز کی تکمیل پر، الگ الگ توجہ دینی پڑتی ہے۔یہ کام جس قدر خوب صورت اور معیاری ہو، محنت، توجہ، توقف اور تامل کی بھی اسی قدر ضرورت پڑتی ہے۔ نفس انسانی کی تعمیر میں بھی یہ مرحلہ اتنا ہی نازک اور لطیف ہوتا ہے۔ اس میں اسی طرح دقیقہ رسی اور باریک بینی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بندۂ مومن چن چن کر اپنے دامن سے کوتاہیاں اور خامیاں دور کرتااور ان کی جگہ محاسن اورمکارم سجاتا ہے۔اس کا ذوق اس معاملے میں اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ ذرا سی لغزش بھی اسے کھٹکتی ہے۔وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے دامن پر پڑنے والی شکن بھی دور کر دے اور چھوٹی سے چھوٹی غلطی اور کوتاہی بھی اس سے سرزد نہ ہو۔ اس اعتبار سے یہ عمل ایک آرٹسٹ کا عمل ہے۔ وہ اپنافن پارہ مکمل کرتے ہوئے ایک ایک خط،ایک ایک زاویے اور ہر ہر قوس کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔اور اس عمل میں بسا اوقات گھنٹوں صرف کر دیتا ہے: 

 

برائے پاکی شعرے شب بروز آرد ۱؂

 

تزکیے کا یہ عمل، جس چیز پر وارد ہوتا ہے، وہ ہمارا نفس ہے۔ جس چیز پر لفظ ’نفس‘ کا اطلاق ہوتا ہے، وہ کوئی ایسی چیز نہیں، جسے آنکھوں سے دیکھا اور ہاتھوں سے چھوا جا سکے۔ نفس انسانی کائنات کے اسرار میں سے ایک سر ہے۔ جس طرح ہماری عقل ہماری نگاہوں کی رسائی اور ہاتھوں کی پہنچ سے باہر ہے، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ صرف اس کے کمالات ہیں، جن کا ظہور ہمارے مشاہدے میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے نفس کے لباس، اثرات، اس کے اعمال اور صفات کا مشاہدہ تو کرتے ہیں، لیکن خود نفس ہمارے حواس کی گرفت سے باہر ہے، گویا نفس انسانی بھی عقل کی طرح جتنا مشہود ہے، اتنا ہی غائب ہے۔ 

انسانی وجودہمارے سامنے چار صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔پہلی صورت، جسے ہم دیکھ اور چھو سکتے ہیں،ہمارا یہ حیوانی وجود ہے۔درحقیقت،ہمارے نفس کے لیے یہ حیوانی وجود بمنزلۂ لباس ہے یا یہ کہ نفس انسانی کو دنیا میں ظہور کے لیے اس مادی وجودکی صورت دی گئی ہے۔ ہماری زندگی میں نفس اور ہمارا یہ حیوانی وجود ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری صورت عقلی وجود کی ہے۔ عقلی وجود سے مراد انسان میں موجود ادراک کی صلاحیت ہے۔ حواس اور وجدان کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرنا اور ان سے نتائج نکالنا، ہمارے عقلی وجود کا وظیفہ ہے۔ ہمارے نفس کا یہی پہلو ہے، جس کی وجہ سے ہم وحی کے مخاطب بننے کے اہل ہوئے۔ اور یہی چیز ہے جو ہماری تہذیبی، تمدنی، سائنسی اور ثقافتی کامیابیوں کے حصول کا باعث بنی ہے۔ نفس کی تیسری صورت اس کاروحانی وجود ہے۔ یہ ایک یزدانی شے ہے۔ ہمارے نفس کا یہی پہلو ہے، جسے ہم ضمیر اور نفس لوامہ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور چوتھی صورت ہمارا اخلاقی وجود ہے۔ اس کی بنیادیں ہمارے وجدان، ضروریات، جذبات اور شہوات میں رکھی گئی ہیں اور اس کا اظہار خاندان، معاشرے اور ریاست کے ساتھ ہمارے تعلق میں ہوتا ہے۔

نفس کے یہ چاروں پہلو قرآن کا موضوع ہیں۔ تزکیۂ نفس کے اصول نفس کی ان چاروں صورتوں پر محیط ہیں۔ جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، قرآن مجید اور سنت کا اصل مقصود تزکیۂ نفس ہے، لہٰذا اس میں جو کچھ حکمت کی حیثیت سے ہے وہ بھی او رجو کچھ قانون کی حیثیت سے وہ بھی، تزکیۂ نفس ہی کے پیش نظر ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ آپ نے صحابۂ کرام کے تزکیے کے لیے نفس کے ان سارے پہلووں کو بیک وقت پیش نظر رکھا۔ ہمارے ہاں صوفیہ نے، اگرچہ تزکیۂ نفس کو اپنا موضوع بنایا، لیکن اس توازن کو برقرار نہ رکھ سکے، جو دین میں مطلوب ہے او رجس کی سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔

 

حیوانی وجود کا تزکیہ

تزکیۂ نفس کے بارے میں ان بنیادی مباحث کی تفصیل کے بعد پہلے ہم ان اصول و مبادی کی توضیح کریں گے جو نفس کے حیوانی وجود کے تزکیے سے متعلق ہیں۔ نفس انسانی کی یہ صورت، یعنی حیوانی وجود ایک مشہود چیز، یعنی ایک مادی وجود ہے۔ علوم کی تاریخ میں یہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ سائنس اور طب بھی اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بھی اسے ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ تہذیب جدید نے اس کی تزیین و آرایش کو اپنی مساعی کا ہدف بنایا، یہاں تک کہ معاملہ پلاسٹک سرجری جیسے فنون کے کمالات تک پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح مذہب کا موضوع بھی یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ صوفی جب اسے مٹانے کی بات کرتا ہے تو درحقیقت، حیوانی وجود ہی کو موضوع بناتا ہے۔ عیسائی راہب جب یہ کہتا ہے کہ جسم کو صاف رکھنا اور نہانادھونا تقویٰ کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو اس کے پیش نظر بھی نفس کا یہی پہلو ہوتا ہے۔ ایک عیسائی راہب کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بارہ سال تک نہیں نہایا تھا۔ اسی طرح ہندو، بدھ اور دوسرے مذہبی گروہوں میں بھی یہ کسی نہ کسی پہلو سے زیر بحث آتا اور اس کے بارے میں قواعد و ضوابط دیے جاتے ہیں۔ اسلام نے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے نفس انسانی کے دوسرے پہلووں کے ساتھ ساتھ اس کے تزکیے کے لیے بھی متعین اصول دیے ہیں۔

انسان کا حیوانی وجود، اپنی بقا کے لیے، خوراک کی احتیاج رکھتا ہے۔ اس کی یہ خوراک اس کے وجود کے لیے صرف توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بنتی، اس کے نفس پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ثبوت کے لیے زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں، مختلف مذہبی گروہوں، تہذیبوں او رمعاشروں پر ان کی خوراک کے اثرات کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خدا کے پیغمبر اس معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے ماننے والوں کو چار طرح کی چیزیں کھانے سے روک دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انھیں وہ چار بنیادی اصول بتا دیتے ہیں، جن کی روشنی میں وہ یہ طے کر سکیں کہ انھیں کیا کھانا چاہیے اورکیانہیں کھانا چاہیے۔

اس باب میں پہلا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں ہرگز نہ کھائی جائیں، جن کے بارے میں انسان اپنی طبیعت میں کراہت محسوس کرتا ہے۔ اس باب کی سب سے نمایاں چیز مردار ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اسی کا ذکربطور عنوان کیا ہے۔ اسی اصول پر بول و براز اور اسی نوع کی دوسری چیزیں حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت میں غلاظت اور آلایش سے جو فطری کراہت رکھی ہے، مطلوب یہ ہے کہ وہ زندہ و بیدار رہے۔ لہٰذا اس نوع کی تمام چیزیں حرام قرار دے دی گئیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے اندر فسق و فجور اور تعدی و عدوان کا رجحان رکھتا ہے، یہاں تک کہ درندگی پر اتر آتا ہے۔ کسی بے گناہ کومار ڈالنا او ر کسی کی عزت برباد کر دینا، اسی رجحان کی قبیح ترین صورتیں ہیں۔ خون پینا اسی رجحان کی علامت ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے دم مسفوح (بہتا ہوا خون) حرام قرار دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصول کے تحت درندوں اور چنگال والے پرندوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ انسانی محاسن نمایاں اور غالب رہیں اور درندگی جیسی خوف ناک خو اور خصلت انسان کے اندر پیدا نہ ہو۔

تیسرے اصول سے وہ چیزیں حرام ہوتی ہیں جو کسی اخلاقی برائی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہوں۔ سؤر کا گوشت اسی اصول کے تحت حرام ہے۔ جنسی آوارگی اس جانور کی سرشت ہے۔ چنانچہ وہ قومیں جو سؤر کا گوشت کھاتی ہیں، دیکھا گیا ہے کہ ان کے ہاں یہ مرض عام ہے۔ اسی ضمن میں، شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں آتی ہیں، لہٰذا انھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے۔

چوتھی چیز عقیدے کی نجاست ہے۔ یہ نجاست جس شے کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے، اسے حرام بنا دیتی ہے۔ قرآن مجید نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور، اسی اصول کے تحت حرام کیے ہیں۔ پھر اسی اصول کی توسیع میں اسے بھی حرام ٹھہرایا، جو کسی خاص استھان سے منسوب کردیا جائے، مثلاً مندروں میں کی جانے والی قربانی۔ ایک حلال چیز جو اوپر بیان کیے گئے تینوں اصولوں کے تحت تو حرام نہیں، صرف اس لیے حرام ہو جاتی ہے کہ اسے جس نام کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے تھا، اس کے بجائے کسی دوسرے نام کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ مال اور وہ دولت بھی حرام ہو جاتی ہے، جسے باطل طریقے سے حاصل کیا گیا ہو۔ اصل شے میں تو خرابی نہیں، لیکن ہمارے عمل کی نجاست اس میں شامل ہو گئی ہے، لہٰذا اس کا کھانا یا استعمال کرنا، اب جائزنہیں رہا۔۲؂

جس طرح خوراک ہمارے حیوانی وجود کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح جنسی جذبے کی تسکین بھی اسی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے حیوانی وجود کے تزکیے کے لیے بیوی کے ساتھ جائز تعلق بھی، طہارت کا ایک خاص تصور اور احساس پیدا کرنے کے لیے کچھ شرائط کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے ایام حیض میں بیوی سے مقاربت روک دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک وہ نہا دھو کر پاک نہ ہو جائے، یہ تعلق قائم نہ کیا جائے۔ زن وشو کے اس تعلق میں نجاست کا احساس ایک طبعی چیز ہے۔ اسی لیے اس کے بعد غسل ضروری قرار دے دیا ہے تاکہ طہارت کا احساس زندہ وبیدار رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس باب میں یہاں تک ہدایت فرمائی ہے کہ مقاربت کے بعد کسی بھی کام، حتیٰ کہ سونے سے پہلے بھی اگر نہانا ممکن نہ ہو توکم از کم وضو کر لینا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہتمام کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ اپنے رب کے حضور بلا لیا جائے اور وہ پاک صاف نہ ہو۔۳؂چنانچہ حالت جنابت میں عبادت ممنوع ہے، کیونکہ بندۂ مومن طہارت کے بارے میں غیر معمولی طور پر حساس ہوتا ہے۔ نماز کے لیے وضو لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں دین نے نجاست اور طہارت کے مابین ایک لطیف حد فاصل قائم کی ہے۔ جسم سے محض ہوا کا اخراج بھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتاکہ وہ نماز کے لیے کھڑا ہو۔ وہی غسل جو جنابت کی صورت میں طہارت کا ذریعہ تھا اسے ایک عبادت کی حیثیت دے دی اور جمعے کی نماز کے لیے اس کے اہتمام کی خاص طورپر تلقین کی۔ صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کو کیا اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ اس مکالمے سے ہوتا ہے جو حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے مابین ایک جمعے کے اجتماع پر ہوا۔ حضرت عمر خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عثمان مسجد میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر نے ان جیسے جلیل القدر آدمی کا نماز میں تاخیر سے آنا پسند نہیں کیا اور ان سے اس کی وجہ پوچھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مدینے سے باہر رقبے پر گئے ہوئے تھے کہ تاخیر ہو گئی اور بتایاکہ میں بس گھر سے وضو کر کے آگیا ہوں، کہیں رکا نہیں۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا: تو آپ نہائے بھی نہیں اور محض وضو کر کے آگئے ہیں؟ مطلب یہ کہ جمعے کی نماز کے لیے غسل کرنا ان کے نزدیک، اس قدر اہم تھا کہ انھیں توقع نہ تھی کہ حضرت عثمان نہائے بغیر مسجد میں آجائیں گے۔ نوزائیدہ بچے کو نہلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا آغاز طہارت کے ساتھ کرے۔ مردے کو بھی اسی لیے نہلاتے ہیں کہ اس کا بدن پاک صاف ہو اور پاک صاف لباس ہی میں اسے خدا کے سپرد کیا جائے۔ کسی غیر مسلم کا اسلام قبول کرنے کے بعد نہانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے تاکہ اہل اسلام میں شامل ہونے کے لیے نہانا اور پاک صاف ہونا اسے طہارت کے خاص احساس سے سرشار کر دے۔ دین نے مختلف مواقع پر غسل اور وضو کے اہتمام کی اس طرح تعلیم دی ہے کہ طہارت، پاکیزگی اورصفائی نے حیوانی وجود کے شب و روز کا احاطہ کر لیا ہے۔

وہ پانچ چیزیں بھی اسی حیوانی وجود کے تزکیے سے متعلق ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت قرار دیا ہے۔ناخن کاٹنا،لبیں تراشنا،بغلوں اور زیرناف کے بال صاف کرنا اور ختنہ کرانا ایسی چیزیں ہیں جنھیں نبیوں کی امتوں میں شعائر کا مقام حاصل ہے،ان کی اہمیت کا انداز ہ کرنا ہو تو سکھ مذہب کے پیروکاروں کودیکھا جا سکتا ہے۔بالوں کے معاملے ہی میں جو صورت ان کے ہاں پیدا ہو جاتی ہے، اسے دیکھ کر آدمی پکار اٹھتا ہے کہ یہ پیغمبر ہی ہیں جو انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتے اور اسے ایک متوازن راہ پر قائم رکھ سکتے ہیں۔

ہمارا یہ حیوانی وجود لباس کا محتاج ہے۔شرم و حیا کے پہلو سے جسم کے کچھ اعضا چھپائے جاتے ہیں۔چنانچہ،لباس کے معاملے میں، دین نے پہلی چیز جسے ضروری قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ لباس شرم گاہ کو چھپانے والا ہو تاکہ حفظ فروج کے معاملے میں آدمی غیر محتاط نہ ہو۔پھر یہ تلقین کی کہ لباس کو سادہ اور باوقار ہونا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں یہ سنت قائم کی کہ ہمیشہ اپنے معاشرے کے شرفا کا لباس پہنا اور اسی طرح یہ سکھایا کہ یہی چیز ہر معاشرے کے مسلمانوں سے مطلوب ہے۔ رنگوں کے معاملے میں بھی دین ایک خاص ذوق پیدا کرتا ہے۔مردوں کے لیے سفید رنگ زیادہ پسندیدہ ہے۔ اگرچہ، دوسرے رنگ بھی وسعت کے پیش نظر ممنوع نہیں ہیں، مگر بہت شوخ سرخ اور زرد رنگ بھی بہر حال، پسندیدہ نہیں۔

حیوانی وجود کے تزکیے کے یہ اصول ہیں، جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے متعین کیا ہے۔ ہم مسلمان، بالعموم، ان کا لحاظ کرتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ہم ان کی صحیح اہمیت محسوس نہ کریں۔ اگر ہم دنیا کے وسیع کینوس پر نگاہ ڈالیں تو یہاں سکھ، ہندو، بدھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ ان کی اس باب میں بے اعتدالیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جب ہم اسلام کے ان اصولوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی قدر ومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

عقلی وجود کا تزکیہ

 

انسان کے لیے سب سے زیادہ باعث شرف چیز اس کی عقل ہے۔ یہ فطرت کی ایک غیر معمولی نعمت ہے، جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔ انسان کو جو چیزیں دوسرے جان داروں سے ممتاز کرتی ہیں، انھی میں سے ایک یہ عقل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی تندرست ہے، صحیح الاعضا ہے، رعنا جوان ہے، اس میں کوئی کمی نہیں، لیکن اس کی عقل مفلوج ہو جائے تو ہم اسے پاگل ٹھہرا دیتے ہیں۔ وہ شکل و صورت سے تو ایک انسان ہی ہوتا ہے، مگر بسا اوقات، اس کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ آج نظر آنے والی انسان کی تہذیبی، تمدنی اور سائنسی ترقی اسی عقل کی منت کش ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں مادی علوم کی کرشمہ سازیاں اور انسانی علوم کی دریافتیں اسی عقل کی عنایات ہیں۔ یہی عقل ہے جس کے بل پر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ کائنات کا یہ عقدہ سلجھالے گا۔ اور اپنے تمام مسائل خود ہی حل کر لے گا۔

یہ عقل، بلاشبہ، ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ آفات بھی لگی ہوئی ہیں۔ یہ شہوات کے پیچھے اندھی ہو جاتی، رغبات اسے لبھا لیتیں، جذبات اس پر غالب آجاتے اور تعصبات اسے معطل کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے ہی وجود سے رشوت لے لیتی اور اپنے ہی بنائے ہوئے دام میں پھنس جاتی ہے۔ بسا اوقات، اس پر تساہل طاری ہو جاتااور انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پربھی کسل مندی کا شکار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کا تزکیہ ہو، اسے ان آلودگیوں سے پاک کیا جائے اور اس کے سامنے ایک برتر مقصد رکھا جائے تاکہ یہ اپنا عمل صحیح رخ پر انجام دے اور صحیح نتائج تک پہنچے۔

عقلی وجود کے تزکیے کاراستہ کیاہے؟ عقل ان آفات سے کیسے نجات پا سکتی ہے؟ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے اور عقل سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ اس کا راستہ صرف ایک ہے۔اوروہ یہ ہے کہ عقل اپنے سامنے موجود سوالات کا صحیح جواب پا لے۔اس دنیا کے بارے میں،اس کائنات کے بارے میں اور خود اس کے اپنے بارے میں جو بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کا جواب اسے مل جائے۔ وہ جان لے کہ اس کا اپنا منبع کیا ہے، وہ کہاں سے آئی ہے، اسے کیا حیثیت حاصل ہے، اس کا مقصود کیا ہے، یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟

ان سارے عقدوں کی شاہ کلیدپروردگار کائنات کی معرفت اور اس کی صفات کا صحیح شعور ہے۔جب عقل اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت پا لیتی ہے تو مسائل کے اندھیرے چھٹ جاتے اور اوہام کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں۔چنانچہ وہ راستہ کھل جاتا ہے،جس پر چل کر عقل تزکیے کی منازل طے کر لیتی ہے۔

پروردگار کی معرفت کیا ہے؟ ہمارے ہاں، اس کے بارے میں دو نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطۂ نظر کا تعلق اہل تصوف سے ہے اور دوسرا نقطۂ نظر وہ ہے، جس کا ماخذ قرآن مجید کی نصوص ہیں۔ اہل تصو ف کے نزدیک، یہ ایک ابتدائی سی بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان صفات کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کرلیں۔ان کے نزدیک اصل منتہیٰ جسے پانا چاہیے، وہ ذات الٰہی کی معرفت ہے۔ اور یہ معرفت بھی اس طرح حاصل ہونی چاہیے کہ قلب ذات الٰہی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ اور نفس انسانی ذات الٰہی سے ہم کنار ہو جائے اور اسے ذات کے لحاظ سے پا لے۔ جبکہ دوسری طرف قرآن مجید کے نزدیک، ذات باری تعالیٰ کا براہ راست علم اور مشاہدہ ممکن نہیں۔دنیا میں سب سے بڑی ہستی پیغمبر کی ہستی ہوتی ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ذات باری تعالیٰ کے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو انھیں جواب ملا کہ تم اس کا تحمل نہیں کر سکتے۔ پھر ذات نہیں، بلکہ صفات ہی کی ایک تجلی نے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے بطل جلیل ہوش وحواس کھو بیٹھے اور اپنی قامت پر کھڑے نہ رہ سکے۔ اس دنیامیں یہ اصول نہیں ہے کہ انسان جو کچھ چاہے، اسے دے دیا جائے۔قاعدہ یہ ہے کہ انسان جس چیز کا تحمل نہیں رکھتا،وہ اسے نہیں دی جاتی ۔اور اگر وہ اس کے درپے ہو جائے،تب بھی یہ اسے مل تونہیں جاتی،البتہ کبھی کبھار الٹا نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔مثال کے طورپر،ہماری آنکھیں یہ طاقت نہیں رکھتیں کہ وہ سورج کا براہ راست مشاہدہ کر سکیں، لہٰذاجو بھی اس کی سعی کرے گا، اس کے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ سورج کا مطالعہ کر لے، البتہ اپنی آنکھیں ضرور خیرہ کرلے سکتا ہے۔

قرآن مجید کے نزدیک وہ معرفت،جوعقل کے تزکیے کا ذریعہ بنتی ہے،اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہے۔مطلب یہ کہ یہ ایقان حاصل ہو کہ اس کائنات کے پیچھے فرماں روا کی حیثیت سے ذات باری تعالیٰ موجود ہے۔پھر یہ بات مکمل تفصیل کے ساتھ جانی جائے کہ اس کی صفات کیا ہیں؟ وہ رحیم ہے،رحمان ہے،خالق ہے،مالک و آقا ہے،پروردگار ہے،ہادی و رہنما ہے،کائنات پر اسی کی حکومت ہے۔غرض ،پروردگار کی جو صفات بھی ہمارے سامنے ظہور کرتی ہیں،ہمیں ان کا کامل ادراک حاصل ہو ۔یہ چیز بھی پروردگار کائنات کی معرفت ہی کا حصہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہو جائے۔پروردگار کے ساتھ ہمارا آقا اور بندے اور عبد اور معبود کا تعلق ہے۔ چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تعلق کیسے نباہا جائے تاکہ اس کے نتیجے میں ہمارا آقا اور ہمارا معبود ہم سے راضی ہوجائے،ہمیں اس کی خوشنودی اور تقرب حاصل ہو اور ہم اس کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوں ۔اسی طرح معرفت الہٰی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں افراد اور اقوام کے ساتھ کیسے معاملہ کر رہے ہیں۔وہ کیا ضابطہ ہے جو انسانوں کی زندگیوں میں انفرادی حیثیت سے کار فرما ہے اور وہ کیا قاعدہ ہے جو نوع بشر کی اقوام و ملل میں جاری و ساری ہے۔ اقوام و افراد کے معاملے میں جاری قانون مکافات سے آگاہی اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ فرد پر قوم اثر انداز ہوتی اورقوم پر افراد کے اعمال اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اس قانون کا علم حاصل کرے تاکہ اس کی روشنی میں اپنالائحۂ عمل طے کر سکے۔ اور آخری چیز جسے،اس باب میں،اپنے علم میں لے آنا ضروری ہے، وہ اس حیات دنیوی کا مقصد ہے ۔کیا یہ زندگی ہی سب کچھ ہے یا معاملہ اس سے آگے بھی جائے گا۔کیا اس دنیا میں انسان جو کچھ پا لیتا ہے او ریہاں جو کچھ کر لیتا ہے،اسی پر معاملہ ختم ہو جائے گا یا اس کے نتائج و عواقب بھی سامنے آئیں گے اور اسے اپنے کیے کا بدلہ بھی ملے گا؟

پرورد گار کائنات کی معرفت کے مختلف پہلووں کے اجمالی ذکر کے بعد، اب ہمارے پیش نظر یہ سوال ہے کہ اس معرفت کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ صوفیہ کے ہاں، چونکہ، اللہ تعالیٰ کو باعتبار ذات پا لینا ہی اصل منزل ہے، لہٰذا ان کے نزدیک، اس کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ وہ کشف، الہام، ریاضت، مجاہدے اور مراقبے کو اس کے ذرائع میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں انسان کایہ خاکی وجود تقرب کی راہ کی اصل رکاوٹ ہے، لہٰذا ان کی تمام سعی وجہد کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ وہ اس حیوانی وجود سے چھٹکارا اور نجات پا لیں تاکہ اصل انسان جو ذات باری ہی کا ایک شمہ ہے، اپنے مقصود کو پا لے۔ وہ اس قابل ہوجائے کہ حقیقت کا مشاہدہ عیاناً کر سکے، بلکہ وہ اس سے آگے اس حقیقت کو جان لے کہ حق اصل میں وہ خود ہے۔ ان کے نزدیک، اس سفر معرفت میں کیا حاصل ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک غزالی کی تصنیف ’المنقذ من الضلال‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہد ہ کرتے، ان کی آوازیں سنتے اور ان سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔‘‘

قرآن مجید میں پروردگار کی معرفت کا مفہوم، جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، یہ نہیں ہے۔ چنانچہ، اس کے نزدیک، اس کا راستہ بھی وہ نہیں، جسے صوفیہ بیان کرتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے۔ قرآن مجید اس کا راستہ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ قرار دیتا ہے۔ یہ تینوں قرآن مجید کی اصطلاحات ہیں او ران کا ایک واضح مفہوم قرآن مجید کے مطالعے سے سامنے آتا ہے۔

’تعقل‘ یہ ہے کہ تعصبات کے بجائے عقل کو فیصلہ کن حیثیت دی جائے۔ آدمی تعصبات، جذبات اور رغبات کا شکار ہونے کے بجائے عقل کے فیصلے کو برتری دے، ان دلائل کی بنیاد پر ردوقبول کا فیصلہ کرے، جن سے عقل مطمئن ہوتی ہے اورکسی خواہش اور تعصب کو اس فیصلے تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہ ہونے دے۔ قرآن مجید میں توحید کے دلائل زیر بحث ہوں یا آخرت کا معاملہ، حقائق پر غور کی دعوت دینے کے لیے، بالعموم، ’افلا تعقلون‘ کے الفاظ آتے ہیں اور اس سے قرآن مجید کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اپنے تعصبات اور خواہشات سے بلندہو کر ان دلائل و مباحث کا جائزہ لو۔

’تفکر‘یہ ہے کہ آدمی انفس و آفاق پر غور کرے۔ انفس سے مراد خود انسان کا اپنا وجود اور اس کاباطن ہے، اس کا وجدان اور اس کی فہم و ادراک کی صلاحیت ہے اور یہ وصف ہے کہ وہ تجزیہ کرسکتا اور نتائج نکال لیتا ہے۔ آفاق کا اطلاق ہماری دنیا اور ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات پر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ انفس و آفاق پر غور کرنے کا ایک طریقہ وہ ہے جسے سائنس دانوں نے اختیار کیا ہے، لیکن ان کی سعی’کیا ہے؟‘ کا جواب پانے تک محدود ہے، جبکہ ’تفکر‘ کا تعلق ’کیوں ہے؟‘ اور ’کہاں سے ہے؟‘ جیسے سوالات سے ہے۔ ظاہر ہے، یہ سائنسی طریقۂ غور سے آگے کی منزل ہے۔ اس کے نتائج اور ہیں اور اس کے نتائج اور ہیں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ انفس و آفاق کے مختلف مظاہر پر اسی طریقے سے غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن یہ چاہتا ہے کہ اس غور و فکر کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے، اسے ایک جرات مند آدمی کی طرح قبول کرلیا جائے اور اس کے جوتقاضے بھی سامنے آتے ہیں، انھیں استقلال کے ساتھ پورا کیا جائے۔

’تذکر‘ سے قرآن مجید کی مراد ان بدیہات کی یاد تازہ کرنا ہے، جنھیں ہم ’تعقل و تفکر‘ کے ذریعے سے سمجھ لیتے ہیں۔جب ان سے انحراف کا امکان پیدا ہو یا یہ ذہن سے محو ہونے لگیں تو آدمی متنبہ ہو جائے اور یاد دہانی حاصل کرلے۔قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا وہ واقعہ اس تذکر کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے، جب انھیں زلیخانے لبھانے کی کوشش کی اور گناہ پر آمادہ کرنے کے لیے سب داؤ آزما ڈالے۔ اس موقع پر، انھیں جس چیز نے اس آلودگی سے بچایا، وہ اللہ تعالیٰ کی ایک برہان تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖوَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ أَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ.(یوسف ۱۲: ۲۴)
’’وہ ان کے درپے پہلے ہی تھی، وہ بھی اس کی طرف راغب ہو جاتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔‘‘

یہ برہان، درحقیقت، وہ نور یزدانی ہے، جو، اگرچہ، ہر انسان کو ودیعت کیا گیا ہے، لیکن اس طرح کی آزمایش کے موقع پر یہ کام انھی کے آتا ہے جو اس کی قدر کرتے رہے ہوں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے ایسے ہی پارسا اور پاکیزہ نفس بندے تھے۔ انھوں نے زلیخا کی خواہش کے باوجود اپنے مالک کے پیچھے خیانت سے صاف انکار کر دیا۔ زلیخا نے اپنی سی سعی کر کے بچ نکلنے کے تمام راستے مسدود کر دیے۔ امکان پیدا ہو گیا کہ حضرت یوسف اس کے جال میں آ جائیں، لیکن ان کے اندر موجود نور یزدانی چمکا، تاریکیاں کافور ہو گئیں اور وہ برائی سے بچ گئے۔ یہ، دراصل، اس سعی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام تھا، جو انھوں نے اپنا دامن پاک رکھنے کے لیے کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جولوگ اپنے آپ کو عام حالات میں برائیوں سے بچاتے رہتے ہیں، جب وہ ایسے حالات میں گھر جائیں کہ بظاہر بچنا مشکل نظر آتا ہو تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتے اور انھیں برائی سے بچا لیتے ہیں۔

’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ عقلی وجود کے گراں قدر وظائف ہیں۔ یہ تینوں، بلاشبہ، نہایت بیش دولت ہیں، لیکن ان کے ساتھ کچھ آفات بھی لگی ہوئی ہیں۔ ’تعقل‘ کے لیے، بسا اوقات، ممکن نہیں رہتا کہ وہ جذبات، تعصبات اور رغبات سے پیچھا چھڑا لے۔ ’تفکر‘ مظاہر فطرت کے مادی پہلو کا اسیر ہو جاتا ہے، جیسا کہ اس سائنسی دور میں یہ چیز بہت غالب آ گئی ہے۔ اور ’تذکر‘ میں، بعض اوقات، شیطان کا الہام شامل ہو جاتا اور اس کی وسوسہ اندازیاں غلبہ پا لیتی ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا طریقہ دریافت ہو جس کے ذریعے سے ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ ان آفات سے محفوظ ہو جائیں اوراپنا کام صحیح نہج پر انجام دیں۔ قرآن مجید کے نزدیک، اس کا راستہ خود قرآن مجید پر تدبر ہے۔ معاملات پر غور میں ’تعقل‘، صحیفۂ کائنات پر ’تفکر‘ اور وجدان میں ودیعت بدیہات سے ’تذکر‘ صرف ایک ہی صورت میں ان آفات سے محفوظ رہ سکتے ہیں، جب یہ سارا عمل قرآن مجید پر تدبر کی روشنی میں ہو۔ اس باب میں قرآن مجید کی حیثیت ایک رہنما اور ایک حاکم کی ہے۔ جس طرح عقل کے بغیر ایک انسان پاگل ہو جاتا ہے، اسی طرح وحی یعنی قرآن مجید کی رہنمائی کے بغیر عقل باؤلی ہو جاتی ہے۔ قرآن مجیدصحیفۂ حق ہے۔ اس زمین پر اسے تنہاہدایت ربانی کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ کائنات کے پروردگار کا کلام ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے عجائب کبھی ختم ہونے والے نہیں۔ جس طرح اس کی حکومت سب پر قائم ہے۔ شافعی و مالک پر، اشعری و ماتریدی پر اور بخاری و مسلم پر، اسی طرح اس کا حکم عقل، فکر اور ذکر پر بھی چلتا ہے۔

مختصر یہ کہ عقل جہاں ایک عظیم نعمت ہے، وہاں اس کے ساتھ آفات بھی لگی ہوئی ہیں۔ اس کے تزکیے کے لیے خدا کی سچی معرفت ضروری ہے اور اس معرفت کاراستہ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ ہے۔ ’تعقل‘، ’تفکر‘ اور ’تذکر‘ کو بے راہ ہونے سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں تدبر کیا جائے، یعنی عقل اپنے یہ وظائف قرآن مجید کی روشنی میں انجام دے۔ تزکیۂ نفس کا راستہ بھی قرآن مجید سے معلوم کیا جائے۔ اس کے لیے جو کچھ بھی اعمال کیے جائیں، ان کی بنیاد قرآن مجید پر ہونی چاہیے۔ قرآن مجید کے بغیر اور قرآن مجید کی رہنمائی میں تعقل، تفکر اور تذکر، تینوں میں غیرمعمولی فرق واقع ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کی رہنمائی میں تعقل کی برکات کا مشاہدہ کرنا ہو تو ہمارے علما کی عزیمت، یقین اور اعتماد کی ایک جھلک تاریخ کے اوراق میں دیکھ لیں۔ قرآن مجید کے بغیر تعقل میں جو انتشار، بے جہتی اور عجز و درماندگی پائی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو فلسفے کی بھول بھلیاں پر ایک نظر ڈال لیں۔ قرآن مجید ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ہاتھ پکڑتا اور منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کی رہنمائی ایک استاد کی رہنمائی ہے۔ یہ اس قابل بناتا ہے کہ انسان صحیح نتائج پر پہنچ سکے اور ان چیزوں پر متنبہ کر دیتا ہے، جن میں ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہو۔

_________

 

۱؂ایک شعر کی تہذیب میں ( بسا اوقات) رات گزر جاتی اور دن چڑھ آتا ہے۔

۲؂اس باب میں استاد محترم کی رائے تبدیل ہو گئی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، ’’میزان‘‘ کا مضمون ’’خور و نوش‘‘۔

۳؂حدیثوں کے مطالعے اور قرآن مجید کے فحویٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ نیند موت ہی کی ایک تعبیر ہے اور یہ بعید نہیں کہ آدمی نیند کی حالت ہی میں خدا کے حضور بلا لیا جائے۔

__________________

B