HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قانون دیت پر ایک تنقید کا جواب

دیت کے بارے میں مدیر ’’اشراق‘‘ کے نقطۂ نظر ۱؂پر مولانا غلام سرور صاحب قادری نے اپنے رسالے ’’البر‘‘ میں تین اقساط پر مشتمل ایک مبسوط تنقید لکھی ہے۔ آیندہ سطور میں، ضمنی اور فرعی مباحث یا تبصروں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہم اس تنقیدکے بنیادی استدلال کے بارے میں اپنے نقطۂ نظرکی وضاحت کریں گے۔

دیت کی حقیقت کیا ہے؟ اس ضمن میں مدیر’’ اشراق ‘‘ کی رائے یہ ہے کہ یہ ایک جرمانہ ہے جو اس شخص پر عائد ہوتا ہے جس نے کسی شخص کی جان یا جسم کو کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ اگرچہ اس باب میں مولانا قادری کی رائے بھی یہی ہے ، لیکن انھیں ان بنیادی مقدمات سے اتفاق نہیں ہو سکا جن پر مدیر ’’اشراق‘‘ کے استدلال کا انحصار ہے۔ مدیر ’’اشراق‘‘ کی رائے میں قرآن و سنت سے دیت کی حقیقت متعین کرنے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ چنانچہ انھوں نے جاہلی ادب کے ذخیرے سے استشہادکر کے یہ بات متعین کی کہ عربوں کا دیت کے بارے میں تصور کیا تھا۔اس کے برعکس مولانا قادری یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن وحدیث ہی سے حقیقت دیت کا تعین ہو جاتا ہے۔

ہمیں افسوس ہے کہ اس معاملے میں مولانا قادری کا قرآن و حدیث سے استنباط بہت کمزور ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں دیت کا حکم آیا ہے، وہاں ’علیہ‘ مقدر ہے اور ’علیہ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’دیت کو مقتول کے وارثوں کے سپرد کرنا قاتل پر دَین ہو گیا اور دین کو عربی میں ’غرامۃ‘’غرم‘ اور ’مغرم ۲؂‘بھی کہتے ہیں ۳؂۔ ‘‘ حرف ’علٰی‘ کے معنی کا تعین کرتے ہوئے وہ ’’نورالانوار‘‘ اور ’’کشف الاسرار‘‘ کے حوالے سے یہ بات ثابت کر دیتے ہیں کہ ’’حرف ’علٰی‘ مالیات میں کسی کے اوپر کسی کے لیے مال کو لازم کرنے کے لیے آتا ہے۔‘‘ ۴؂ 

اس میں شبہ نہیں کہ ’علٰی‘ لزوم ووجوب کے معنی رکھتا ہے، لیکن اس بات کے لیے ’علٰی‘ میں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ یہ لزوم ووجوب، لازماً تاوان ہی کی نوعیت کا ہو۔ دیت خواہ معاشی نقصان کا بدل ہو، خواہ اعضا یا جان کی قیمت یا محض تاوان و جرمانہ ہو، کسی بھی صورت میں اس کے لزوم میں فرق نہیں آتا اور ’علٰی‘ ان میں سے ہر ایک صورت کے لیے یکساں استعمال ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ’علٰی‘ ان تینوں میں سے کسی ایک ہی معنی کو مراد لینے میں کسی طرح بھی مددگار نہیں ہے۔ پھر دیکھیے، قرآن مجید میں کفارے اور فدیے جیسے مالی احکام بھی اسی ’علٰی‘ کے ساتھ بیان ہوئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن. (البقرہ ۲: ۱۸۴)
’’اور جو اس کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔‘‘
فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْناً. (المجادلہ ۵۸: ۴)
’ ’اور جو اس کی طاقت نہ رکھے تو اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘

اس تفصیل سے مولانا قادری کے استدلال کی کمزوری واضح ہے۔ چنانچہ مولانا کا اس بات پر اصرار بے معنی ہے کہ قرآن مجید ہی سے حقیقت دیت کا تعین ہو جاتا ہے اور اس کو جاننے کے لیے ہمیں خارجی ذرائع سے استشہاد کی ضرورت نہیں ہے۔

کچھ یہی حقیقت مولانا قادری کے حدیث سے استنباط کی ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں دو حدیثیں درج کی ہیں۔ ایک حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیت کے ایک معاملے میں فیصلہ مذکور ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ قبیلۂ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ ایک نے دوسری کو پتھر مارا۔ یہ پتھر دوسری عورت کے پیٹ میں لگا، جس کے نتیجے میں اس کے پیٹ کابچہ مر گیا۔ حضور کے سامنے جب مقدمہ آیا تو آپ نے بچے کی دیت کا فیصلہ دیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے مارنے والی عورت کے ولی نے کہا:

یا رسول اللّٰہ، کیف اعزم، من لاشرب ولا اکل، ولا نطق ولا استھل، فمثل ذلک بطل.(بخاری: کتاب الدیات، باب دیۃالجنین)
’’اے رسول اللہ، میں اس کا تاوان کیوں دوں، جس نے کھایا نہ پیا، نہ بولا نہ رویا۔ اس طرح کا معاملہ تو باطل ہوا۔‘‘

دوسری حدیث میں جنگ خندق کے حوالے سے ایک واقعہ روایت ہوا ہے۔ مسلمانوں نے ایک مشرک کو مار ڈالا۔ چنانچہ مشرکین نے اس کی دیت کا مطالبہ کرنے کے لیے قاصد بھیجا۔ آپ نے یہ مطالبہ رد کر دیا۔ زیر نظر مسئلہ سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

فارسلوا رسولا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغرمون الدیۃ بجیفتہ. (مسند احمد بن حنبل: روایت عبداللہ بن عباس)
’’انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مقتول کی دیت کا مطالبہ کرتے ہوئے قاصد بھیجا۔‘‘

مولانا قادری اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ دونوں حدیثوں میں خود رسول اللہ کا کوئی ایسا قول روایت نہیں ہوا جس سے دیت کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہو۔ دوسری حدیث تو صورت واقعہ کا بیان ہے اور اظہار مدعا کے لیے راوی نے الفاظ خود چنے ہیں، البتہ پہلی حدیث میں بظاہر یہی بات سامنے آتی ہے کہ متعلقہ جملہ حضور کے سامنے بولا گیا۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ نے عربوں کے تصور کی تردید یا تغلیط نہیں کی، لیکن یہ بات تو مدیر’’اشراق‘‘ کے اس نقطۂ نظر ہی کو مزید موکد کرتی ہے کہ دیت کی حقیقت کو جاننے کا اصل ذریعہ کلام عرب ہے اور یہ کہ قرآن و حدیث سے دیت کی حقیقت کے تعین میں کوئی مدد نہیں ملتی۔

سورۂ نساء میں لفظ دیت نکرہ استعمال ہوا ہے۔ مدیر ’’اشراق‘‘ کے خیال میں:

’’عربیت کی رو سے متکلم اگروجوب کے حکم میں اس شے کا ذکر جسے واجب ٹھہرایا گیا ہے، اسم نکرہ کی صورت میں کرے گا تو اس کے معنی ہی یہ ہوں گے کہ اس نے ہمیں اس معاملے میں’عرف‘ کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ ۵؂‘‘ 

اس لیے کہ:

’’اسم نکرہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اپنے معنی کی تعیین کے لیے یہ لغت و عرف اور سیاق کلام کی دلالت کے سوا کبھی کسی شے کا محتاج نہیں ہوتا۔ ۶؂‘‘

مولانا قادری کو مدیر ’’اشراق‘‘ کے اس استدلال سے بھی اختلاف ہے۔ وہ اس بات کو درست قرار نہیں دیتے کہ ’’نکرہ‘‘ کے معنی صرف لغت و عرف اور سیاق کلام ہی سے متعین ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ دیت کے حکم کو محتاج توضیح سمجھتے ہیں اور رسول اللہ کی اس باب میں قانون سازی کو اسی بنا پر حتمی قرار دیتے ہیں۔ مزید براں مدیر ’’اشراق‘‘ کے محولہ بالا جملوں سے وہ، غلط طور پر، یہ سمجھے کہ نکرہ کے مفہوم کے تعین کے لیے لغت و عرف اور سیاق کلام میں سے ہر ایک کاتتبع لازماً کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اسے غلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’نکرہ‘‘ صرف اسی صورت میں غور و فکر اور لغت و عرف وغیرہ کا محتاج ہوتا ہے، جب مشترک المعنی ہو، یعنی اسے ایک سے زیادہ معنی کے لیے بولا جاتا ہو۔ لفظ’’دیت‘‘ چونکہ مشترک المعنی نہیں، لہٰذا ہمیں کسی عرف کے تتبع کی احتیاج بھی نہیں ہے۔ یہ لفظ’’بدل نفس‘‘ یعنی اس جرمانے کے معنی میں بالکل واضح ہے جو جان یا جسم کو ضرر پہنچانے والے پر عائد ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ،اس معاملے میں مولانا قادری مدیر ’’اشراق‘‘ کا نقطۂ نظر سمجھنے سے قاصر رہے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ نکرہ اپنے معنی کی تعیین کے لیے لغت و عرف اور سیاق کلام ہی کا محتاج ہے تو اس سے مقصود لغت و عرف اور سیاق کلام سے زائد ذرائع کی نفی ہے اور ان تینوں کے ایک ہی جملے میں آنے سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ ہر نکرہ کا مفہوم، لازماً، ان سب کے تتبع ہی سے متعین ہو گا۔ اگر لفظ مشترک المعنی ہے تو تعیین معنی کے لیے لغت و عرف کے بعد سیاق کلام سے بھی مدد لینا پڑے گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو صرف لغت یا بعض صورتوں میں لغت کے بعد عرف کا تتبع ہی کفایت کر سکتا ہے۔ چنانچہ زیر بحث آیت میں’’دیت‘‘ کے نکرہ آنے سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اس حکم کا منشا وہی ہے جو مخاطب اپنی زبان اور اپنے عرف میں سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن مجیدکو کوئی خاص دیت ہی لازم کرنا ہوتی تو وہ اسے’’ معرف باللام‘‘ لاتا، جیسا کہ قرآن مجید میں’’صلوٰۃ‘‘ کے بجائے ’’الصلوٰۃ‘‘ استعمال کیا گیا ہے، تاکہ یہ حقیقت واضح رہے کہ ایک خاص نماز لازم کی گئی ہے۔

دیت کس کس چیز سے دی جائے، اسے کون ادا کرے اور یہ کس طرح ادا کی جائے؟ مدیر ’’اشراق‘‘ کی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید نے معاملے کے ان سارے پہلووں کو معاشرے کے معروف پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے عرب کے عام رواج کے مطابق قانون سازی کر دی تھی۔ لہٰذا اصل حکم کی رعایت کرتے ہوئے، آج بھی ہر معاشرے میں اس کے معروف کے مطابق، قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ مدیر ’’اشراق‘‘ کی اس رائے کی بنا ’دیۃ مسلمۃ الی اہلہ‘ (سورۂ نسا ء)میں لفظ دیت کے نکرہ آنے اور سورۂ بقرہ کے ’فاتباع بالمعروف‘ (دستور کے مطابق ادائیگی) کے حکم پرہے۔ نکرہ سے استدلال کے ضمن میں مولانا قادری کے اعتراضات کس قدر بے حقیقت تھے، وہ ہم نے واضح کر دیاہے۔ کچھ اسی طرح کے اعتراضات مولانا قادری نے ’فاتباع بالمعروف‘ سے استدلال پر بھی کیے ہیں۔ ان کے خیال میں معروف کے معنی رواج کے نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد’’بھلائی‘‘ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ’’بھلائی‘‘ معروف کے معنی میں آتاہے، لیکن یہاں اس سے مراد رواج ہی ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید میں اس طرح کے اسلوب میں جہاں بھی ’’معروف‘‘ معرف باللام آیا ہے، دستور ہی کے معنی میں ہے۔ مثلاً دیکھیے:

وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗرِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.(البقرہ۲ :۲۳۳) 
’’اور بچے کے باپ کے ذمہ ماؤں کا لباس و خوراک دستور کے مطابق ہے۔‘‘

پھر دیکھیے کہ ’فاتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان‘ کا ٹکڑا بھی اپنے داخلی قرائن سے مدیر ’’اشراق‘‘ ہی کی رائے کا موید ہے۔ اگر اس ٹکڑے کے معطوف اور معطوف الیہ ہم معنی ہوتے، تو احسان، بھی ’’معروف‘‘ کی طرح معرف باللام آتا یا اس کے برعکس ’’معروف‘‘ ’’احسان‘‘ کی طرح نکرہ ہوتا۔ ایک ہی جملے میں یہ فرق بدیہی طور پر معنی کے تغیر پر دلالت کرتاہے۔ ہمارے مفسرین،چونکہ،دونوں جملوں کو ہم معنی لیتے ہیں۔ لہٰذا وہ ان کے مخاطب بھی مختلف ماننے پر مجبور ہیں۔ جبکہ یہ دومختلف ہدایات ہیں جو قانون دیت پر عمل کے حوالے سے قاتل اور اس کے خاندان کو دی گئی ہیں۔

مدیر ’’اشراق‘‘ نے ’فاتباع بالمعروف‘ کا ترجمہ ’’معروف کی پیروی کرے‘‘ کے الفاظ سے کیاہے۔ اس سے بظاہر یہی تاثر ہوتا ہے کہ ’’معروف‘‘ کو مفعول بہ سمجھا گیا ہے۔ درآں حالیکہ اردو زبان میں ’’معروف کے مطابق اتباع‘‘ اور ’’ معروف کا اتباع‘‘ ایک خاص سیاق میں ہم معنی اسالیب ہیں۔ چنانچہ اسی ٹکڑے کا ترجمہ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے ’’دستور کی پیروی کرنا‘‘ کیا ہے۔ لیکن ان کے تفسیری نوٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اسے’ ’مفعول بہ‘‘ نہیں لیتے۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’... وہ قصاص جانی کے بجائے قصاص مالی پر راضی ہو جائیں تو قاتل اور اس کے خاندان کا فرض ہے کہ وہ احسان مندی اور شکر گزاری کے ساتھ معروف کے بموجب دیت ادا کریں۔‘‘ (تدبرقرآن۱/ ۴۳۴)

معلوم ہوتا ہے کہ مولانا قادری تنقید کی رو میں تنقید کرتے چلے گئے۔ اگر وہ اردو ترجمے کے اسلوب پر تامل کر لیتے تو کم از کم اس تنقید کی زحمت سے بچ جاتے۔

مولانا قادری دیت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قانون سازی کو حتمی قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ ہمارا دین مکمل ہے، سارے کا سارا الہامی ہے اور حضور نے جو کچھ فرمایا وہ قیامت تک کے لیے واجب الاتباع ہے۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر درست ہیں، لیکن جب قرآن مجید نے دیت کا قانون معاشرے کے عرف پر منحصر کیا ہے تو حضور کی اس باب میں قانون سازی اسی معنی میں لی جائے گی۔قادری صاحب اگر قرآن مجید کے دیت کو عرف پرمنحصر کرنے کی حکمت پر غور کریں گے تو وہ اسے ہی ہر معاشرے کے لیے قابل عمل ضابطہ قرار دیں گے۔ اس لیے کہ جرمانے کی سزا میں مال کی مقدار اور نوعیت میں معاشروں کے معروضی حالات اور معاشی مرتبے میں تغیرو تبدل کے باعث ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے۔چنانچہ عالم الغیب سے اس طرح کے کسی معاملے میں کسی جامدقانون کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

[۱۹۹۲ء]

_________

۱؂دیت کے بارے میں استاد محترم کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے دیکھیے، ’’حدود و تعزیرات‘‘۔

۲؂یہ تینوں لفظ جرمانہ، تاوان یا چٹی کے معنی میں آتے ہیں۔

۳؂’’البر‘‘ جنوری ۱۹۹۱، ۳۳۔

۴؂ایضاً، ۳۲۔

۵؂دیت کے بارے میں استاد محترم کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے دیکھیے، ’’حدود و تعزیرات‘‘۔

۶؂ایضاً۔

___________________

 

B