HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اقبال کے ایک جواب پر تبصرہ

قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری کے بارے میں استدلال کرنے میں اس کا انداز منطقیوں جیسا نہیں ہے،بلکہ وہ اسے ایک بدیہی حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے اور بار بار توجہ دلاتا ہے کہ تمھارے ارد گرد کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے وجودکی گواہی دے رہا ہے۔ کہیں وہ نفس انسانی سے اور کہیں کائنات کے تجزیے سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ایک ہستی موجود ہے، جس کی تخلیقی قوت کارفرما ہوئی ہے اور یہ سب کچھ وجود میں آ گیا ہے۔خود انسان کا وجود، قواعد و ضوابط میں بندھی ہوئی یہ کائنات،سامان زیست کی فراوانی،اور بطور خاص انسان کے لیے اس سب کا نافع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کار خانۂ ہستی کو بنانے والا بہت دانا،بہت بااختیار اور بڑا شفیق و مہربان ہے۔ ایک لا محدود قدرت ہے،جس نے جو کچھ چاہا ہے،کر ڈالا ہے، اور جو کچھ بنا دیا ہے، وہ اس کے دیے ہوئے ضابطے پر بے چون و چرا کاربند ہے۔ایک بے کراں رحمت ہے، جو ظاہر ہوئی ہے اور اس نے زندگی کو بحیثیت مجموعی نعمت بنا دیا ہے۔گوشہ گوشہ اس کی رحمت سے معمور نظر آتا ہے۔ نظام پرورش کا کمال ہے کہ ہر جان دار کے پلنے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے انتہائی ساز گار ماحول بنایا گیا ہے۔ایک حیرت انگیز حکمت ہے کہ دن اور رات،سردی وگرمی، بلندی وپستی،غرض رنگارنگی اور ندرت کے مظاہر بھی ہیں اور باہم دگر متضاد عوامل بھی،لیکن کامل ہم آہنگی کے ساتھ یہ احساس دلاتے ہیں کہ ایک عظیم مدبر کی حکمت اس کارخانۂ قدرت میں پوری طرح کار فرما ہے،اور یقیناً کوئی عظیم مقصد اس کے پیش نظر ہے۔

یہی وہ حقیقت ہے، جسے قرآن مجید نمایاں کرتا ہے اور اس طرح وہ وجود باری کو ایک ایسی حقیقت کے طو پر پیش کرتا ہے،جس سے بڑی حقیقت کوئی اور نہیں ہے۔ مثلاً، دیکھیے، ابتدائی سورۂ بقرہ ہی میں ہے:

وَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَأَحْیَا بِہِ الاَْ رْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.(۲: ۱۶۳۔ ۱۶۴) 
’’تمھارا اللہ ایک ہی اللہ ہے، اس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ وہ سراپا رحمت ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔ بے شک ان آسمانوں اور اس زمین کے بنانے میں اور رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے لیے نفع کی چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس کے ذریعے سے اس نے زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ کیا اور جس سے اس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے اور ہواؤں کے پھرنے میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنائے گئے ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے، اس کائنات کا بغور مشاہدہ اور عقلی تجزیہ یہ واضح کر دیتا ہے اور قرآن کے مطالعے سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس کائنات میں ایک صاحب ارادہ و اختیار ہستی کار فرما ہے۔ اور وہ ہستی نہایت ذی فہم، بڑی حکمت والی، غیر معمولی قدرت رکھنے والی اور بے پناہ اختیار کی حامل ہے۔ اس کائنات کی یہی توجیہ ہے جوہر اس سوال کا جواب دیتی ہے، جو اس کائنات کو دیکھنے والے ایک ذی فہم انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور دوسری کوئی توجیہ ایسی نہیں ہے، جو انسانی عقل کو مطمئن کر سکے۔ جب حقیقت یہ ہے تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس جواب کو ہم بہت محل نظر جانتے ہیں، جو وجود باری تعالیٰ کے بارے میں ایک سائل کو انھوں نے دیا۔ اس عبارت سے، جسے ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں، علامہ علیہ الرحمۃ کا استدلال اس سے بہت مختلف ہے، جسے قرآن مجید نے اختیار کیا ہے:

’’میرے والد بزرگوار فقیر سید نجم الدین نے یہ واقعہ سنایا کہ علامہ مرحوم کی قیام گاہ پر چند احباب کی موجودگی میں ایک ملاقاتی یکایک یہ سوال کربیٹھا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ عالم بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں۔ کیا آپ خدا کی ہستی اور باری تعالیٰ کے وجود کو فلسفیانہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں؟ علامہ نے اس کے جواب میں ’’نہیں‘‘ کہا۔
ملاقاتی نے اس پر دریافت کیا جب یہ بات ہے تو پھرآپ کے نزدیک خدا کی حقیقت قابل تسلیم کیوں کر ہوئی؟ علامہ نے فرمایا: یقیناًخدا کی ہستی ناقابل انکار حقیقت ہے، اس کے لیے مجھے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کے وجود پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے، جن کے متعلق ان کے دشمن بھی کہتے تھے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، جب فرمایا ہے کہ خدا مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے تو خدا کی ہستی یقیناً ہے۔‘‘ (روز گار فقیر ۲/ ۱۳، فقیر سید وحید الدین)

[۱۹۹۳ء]

___________________

B