HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

انسانی زندگی اور حسن تعلق

انسانی زندگی باہمی روابط سے عبارت ہے۔یہ روابط خاندان اور محلے کی سطح پر، معاشی جدوجہد کے میدان میں اور سفر اور اس جیسے دوسرے عوامل کے تحت وجود میں آتے ہیں۔اگرچہ خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ یہ تعلقات محبت اور اعتماد کے خوب صورت رشتے سے مضبوط ہوں اور اس رشتے کو توڑنے یا کمزور کرنے کا کوئی سبب وجود میں نہ آئے ، لیکن ،بالعموم،شکر رنجی،گلے،شکوے اور ناراضی کی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔یہ دنیا جس طرح بنائی گئی ہے،اس میں یہ توممکن نہیں کہ ایسا ہونا ختم ہو جائے۔لیکن یہ،بہر حال ،ممکن ہے کہ ایسا ہونے کے باوجود تعلقات خوش گوار طریقے سے قائم رہیں اور یہ عوارض وقت کی گرد کے نیچے دب جائیں۔

محبت اور اعتماد کے رشتے کو جو چیزیں قوی تر بناتی ہیں،وہ تین ہیں۔ایک ایثار،دوسری عفوو درگزر اور تیسری حسن ظن۔ایثار یہ ہے کہ آپ اپنے مفاد اور ضرورت پر دوسرے کے مفاد اور ضرورت کو ترجیح دیں۔عفو و درگزر یہ ہے کہ دوسرے کی غلطی سے صرف نظر کیا جائے،اسے معاف کر دیا جائے اور اس سے مواخذہ نہ کیا جائے۔اور حسن ظن یہ ہے کہ آپ دوسرے کے قول وفعل کا اچھا پہلو مراد لیں اور اس کی نیت کی خرابی متعین کرنے کے درپے نہ ہوں۔اسی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ دوسرے کی کسی گفتگو یا عمل پر باز پرس کریں تو اس کی وضاحت مان لیں اور جو کچھ آپ نے سمجھ لیا تھا،اس پر اصرار نہ کریں۔

جب ہمیں ایک شخص سے محبت ہوتی ہے تو عام مشاہدہ یہی ہے کہ ہم، بالعموم، اس کی زیادتیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں،اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت بھی بناتے ہیں، اس کی غلط بات ہلکا کر کے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اسے،اکثر،مان بھی لیتے ہیں۔ لیکن، محبت کا یہ تعلق جب کسی سبب سے منقطع ہو جاتا ہے تو، یکایک، ہمارا رویہ بالکل بدل جاتا ہے، حالانکہ یہی تو وہ موقع ہے، جب ہمارے لیے حسن ظن،عفو و در گزر اور ایثار کا رویہ اختیار کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

یہ ایثار ،یہ عفو و درگزر اور یہ حسن ظن، اس وقت اپنے پورے معنی میں ظاہر ہوتے ہیں،جب یہ سب کچھ اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی پانے کے لیے ہو۔جب آدمی اپنے اعزہ،اپنے احباب اور اپنے ہم سایوں کے ساتھ جوکچھ بھی حسن سلوک کررہا ہو تو اس سے اس کا مقصود صرف فلاح اخروی ہو۔وہ ناراض بھی خدا کے لیے ہو اور راضی بھی پروردگار کی خاطر۔اور اگر خدا کی رضا پیش نظر نہیں ہے اور نہ فلاح اخروی مطمح نظر ہے تو پھر نہ ایثار ،ایثار رہتا ہے اور نہ عفو ودرگزر اور حسن ظن کا رویہ اختیار کیے رکھنے کی کوئی وجہ باقی رہتی ہے۔بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ آدمی اسوۂ پیغمبر کے اس بلند مقام کو ہرگز نہیں پا سکتا کہ وہ گالی کا جواب دعا سے دے،دشمنی کا جواب خیر خواہی سے دے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور حسن معاملہ کا رویہ یک طرفہ طور پر جاری رکھے۔

[۱۹۹۳ء]

___________________

 

B