HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سب سے اعلیٰ گروہ

قرآن مجید میں بیان ہواہے کہ حشر کے دن انسان تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

سورۂ واقعہ میں ہے:

وَّکُنْتُمْ أَزْوَاجاً ثَلَاثَۃً فَأَصْحَابُ الْمَیْْمَنَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَیْْمَنَۃِ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَۃِ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ أُوْلَءِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ.(۵۶ : ۷۔۱۱)
’’اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔ ایک گروہ داہنے والوں کا ہو گا، تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے! اور ایک گروہ بائیں والوں کا، تو کیا حال ہو گا بائیں والوں کا ! رہے سابقون تو وہ سبقت کرنے والے ہی ہیں۔ وہی لوگ مقرب ہوں گے۔‘‘

اس سلسلۂ بیان میں، اس کے بعد ان تین گروہوں کا الگ الگ انجام بیان ہوا ہے، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سب سے اعلیٰ گروہ ’’سابقون‘‘ کا ہے۔ اس کے بعد ’’اصحاب یمین‘‘ ہیں اور تیسرا گروہ ’’اصحاب شمال‘‘ کا ہے۔ ’’اصحاب شمال‘‘ عذاب میں ڈالے جائیں گے، جبکہ پہلے دونوں گروہ جنت کا انعام پائیں گے۔ یہ بھی بتا دیا ہے کہ’’سابقون‘‘ کا مقام حاصل کرنے والے پہلوں میں زیادہ ہوں گے اور پچھلوں میں کم تر۔ البتہ، ’’اصحاب یمین‘‘کا معاملہ پہلوں اور پچھلوں میں برابر سر ابر ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ وہ لوگ جو ’’اصحاب یمین‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہوں گے، ان کی خوش بختی بھی کوئی کم قابل رشک نہیں ہے، لیکن ’سابقون‘ کی عظمت اور ان کو حاصل کرنے والے انعامات، بہرحال، غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ان کا ذکر بہت ہی شان دار الفاظ میں کیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر’’ تدبرقرآن‘ ‘میں ’’سابقون‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھاہے:

’’’سابقون‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے دعوت حق کے قبول کرنے میں سبقت کی اور اس دور میں اپنے جان ومال سے اس کی خدمت کرنے کی توفیق پائی، جب اس کی خدمت کرنے والے تھوڑے تھے اور اس کی مدد کے لیے حوصلہ کرنا جان جوکھوں میں ڈالنا تھا۔ چنانچہ سورۂ حدید، جو اس کی مثنیٰ سورہ ہے، اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالتی ہے: لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولٰٓءِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلّاً وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی. (الحدید۵۷: ۱۰) (تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں انفاق اور جہاد کریں گے اور دوسرے جو اس سعادت سے محروم رہیں گے، یکساں نہیں ہوں گے۔ پہلے انفاق و جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا ہے، ان لوگوں سے جنھوں نے بعد میں انفاق و جہاد کیا۔ اگرچہ اللہ کا وعدہ دونوں سے اچھا ہی ہے)۔‘‘(۸/ ۱۶۰)

جیسا کہ ہم نے بیان کیا یہ ’’سابقون‘‘ پہلوں میں زیادہ اور بعد والوں میں تھوڑے ہوں گے۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں: ’ثلۃ من ا لاولین وقلیل من الاخرین‘۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ’قلیل من الاخرین‘ کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’اسی طرح ’قلیل من الاخرین‘ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس امت کے پچھلوں میں سے بھی ایسے لوگ نکلیں گے جو’سابقون الاولون‘ کے زمرے میں شامل ہونے کا شرف حاصل کریں گے۔ ظاہر ہے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو فتنوں کے زمانے میں بھی حق پر قائم رہیں گے، حق ہی کی دعوت دیں گے اور حالات، خواہ کتنے ہی صبر آزما ہو جائیں اور ان کی تعداد، خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو، لیکن وہ ہمت نہیں ہاریں گے۔ اس قسم کا ایک گروہ اس امت میں، جیسا کہ احادیث میں بشارت ہے، ہر دور میں پیداہوتا رہے گا۔ یہ لوگ زمانے کے اعتبار سے تو آخرین میں ہوں گے۔ لیکن اپنی خدمات کے اعتبار سے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اولین کے زمرے میں جگہ پائیں گے۔اسی حقیقت کی طرف سیدنا مسیح علیہ السلام نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ کتنے پیچھے آنے والے ہیں جو آگے ہو جائیں گے۔
یہاں یہ حقیقت پیش نظررکھنے کی ہے کہ ہر چند ان آیات کا تعلق اسی امت سے ہے، لیکن اصولی طور پر یہ بات ہر نبی و رسول کی امت پر منطبق ہوتی ہے۔ چنانچہ، قرآن مجید میں دوسری جگہ یہی بات ایک عام کلیہ کی حیثیت سے بیان ہوئی ہے۔ فرمایا ہے: ’ثُمَّ اَوْرَثْناَ الکِتابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَینَا مِنْ عِبَادِنَا، فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ، ومِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بِالخَیراتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘ (فاطر ۳۵ : ۳۲) ’’پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا، جن کو اپنے بندوں میں سے اس کار خاص میں سے منتخب کیا تو ان میں سے کچھ ظلم ڈھانے والے نکلے، کچھ میانہ روہوئے اور کچھ اللہ کی تو فیق سے بھلائیوں کی راہ میں سبقت کرنے والے ہوئے۔‘‘ اس آیت پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں، لیکن اس میں بھی انھی تینوں گروہوں کا ذکر ہے، جن کاذکر اوپر ’اصحاب المیمنۃ‘، ’اصحاب المشئمۃ‘ اور ’سابقون‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۱۶۲)

گویا، مولانا کے نزدیک، سبقت کا مقام ان لوگوں کے لیے ہے، جو خواہ کسی بھی زمانے کے ہوں، لیکن دین کی خدمت اور دین پر عمل میں حالات کی سخت جانیوں کے باوجود جمے رہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ بات اپنی جگہ پردرست ہے۔ لیکن ، اگرچہ مولانا نے تصریح نہیں کی، بظاہر یہی لگتا ہے کہ ’’اصحاب یمین‘‘ بھی وہی لوگ ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں دین کے خادم اور دین پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ ہمارے اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا ’’اصحاب یمین‘‘ کو عام مسلمانوں سے الگ ایک گروہ خیال کرتے ہیں اور اس کی وجہ بھی بڑی واضح ہے کہ خود قرآن مجید ہی نے امت مسلمہ کے اولین و آخرین میں سے ان کے ہونے کی خبر دی ہے۔ چنانچہ واضح ہے کہ عام مسلمانوں میں سے یہ ایک ممتاز گروہ ہے اور ظاہر ہے، ان میں سے ممتاز تر ’سابقون‘ قرار پائیں گے۔

وہ چیز جو دین کے ان سچے پیروکاروں کو دو گروہوں میں بانٹتی ہے، وہ، درحقیقت، دین پر عمل میں انداز کا فرق ہے۔سورۂ فاطر کی جس آیت کا حوالہ مولانا نے دیا ہے، وہ اس فرق کو بڑے عمدہ طریقے سے واضح کر دیتی ہے۔ اس آیت میں’’سابقون‘‘ کے لیے ’’ سابق بالخیرات‘‘ اور ’’اصحاب یمین‘‘ کے لیے’’ مقتصد‘‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ ’’ مقتصد‘‘ کا مفہوم اردو میں ’’میانہ رو‘ ‘ کے لفظ سے ادا کیا جاسکتا ہے۔

کسی بھی چیز پر عمل کرنے کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ ہم یہ بات ایک مثال سے واضح کرتے ہیں:

ایک ملازم اپنے ذمے لگائے گئے کام سر انجام دیتا ہے اور اپنی ڈیوٹی ادا کر دینے کے بعد اطمینان سے اپنے گھر چلا جاتا ہے، جبکہ ایک دوسرا ملازم اپنی ڈیوٹی تو ادا کرتا ہی ہے، لیکن اس طرح جیسے یہ اس کا ذاتی کام ہے۔ وہ اپنے ادارے کی فلاح و ترقی کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ ہر وہ کام کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے، جو اس کے ادارے کی بہبود اور ادارے کے سربراہ کی خوشنودی پانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کے لیے نہ وہ دن دیکھتا ہے نہ رات، نہ گرمی دیکھتا ہے نہ سردی، نہ مشکلات کو خاطر میں لاتاہے اور نہ مصائب اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنے ادارے کا وقار بلند کرنے کے لیے، اسے جان ومال کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے تو دریغ نہیں کرتا۔ دین میں اس کی مثال انفاق کے حکم پر عمل میں فرق سے دی جا سکتی ہے۔ ایک شخص اپنی آمدنی میں سے صرف اسی قدر خیرات کرتا ہے، جتنا وہ بہ سہولت زندگی گزارتے ہوئے کر سکتا ہے، جبکہ ایک دوسرا شخص اپنی ضروریات کا دائرہ محدود تر کر دیتا ہے اور باقی جو کچھ بچتاہے، اسے خیرات کر دیتا ہے اور ایک تیسرا شخص اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دیتا ہے اور ضرورت مند کے سامنے آتے ہی، اپنی ضرورت کی چیز اٹھا کر دے دیتا ہے۔ظاہر ہے، یہ تیسرا شخص، بالبداہت، ’’سابق بالخیرات‘‘ کی صف میں شامل ہونے کے لائق ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راہ حق کو اختیار کرنا اور اس پر ثابت قدمی ایک مشکل ترین عمل ہے۔جوں ہی کسی فرد کا یہ فیصلہ سامنے آتاہے، قدرت کا نظام امتحان جاری ہو جاتا ہے اور فرد کے اخلاص اور ہمت کی جانچ شروع ہو جاتی ہے۔ اب اگر یہ فرد ہر کٹھن سے کٹھن منزل پر عظمت کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور اپنے موقف اور طرز عمل سے سرموانحراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو یہ چیز اسے’’سابقون‘‘ کے مقام پر فائز کر دیتی ہے۔ اور اگر یہ رخصت کے طریقے پر عمل کرتا ہے، یعنی دینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس سے اس کی مشکلات کم سے کم ہوں تو یہ چیز اسے ’’مقتصد‘‘ یا ’’اصحاب یمین‘‘ کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے، اس صورت میں اس کی مشکلات تو، بلاشبہ، کم ہو جاتی ہیں، لیکن وہ اپنے مقام و مرتبے میں بھی ایک سیڑھی نیچے اتر آتاہے۔ دین میں دونوں رویوں کی گنجایش ہے۔ اب یہ فرد کی ہمت ہے کہ وہ کس مقام کو اپنا ہدف اور نصب العین قرار دیتا ہے۔

[۱۹۹۲ء]

___________________

B