HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

داعی کی زندگی

ہمارا معاشرہ معاشی اعتبار سے ایک ناہموار معاشرہ ہے۔ ان لوگوں کی تعداد بڑی محدود ہے جن کے حالات بہت اچھے ہیں اور وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہیں جو شب و روز کی سعی کے بعد بھی قوت لایموت ہی میسر کر سکتے ہیں۔نہ ان کے پاس رہنے کی مناسب جگہ ہے، نہ پہننے کے لیے مناسب لباس ۔ ان حالات میں جب کوئی شخص دین کے داعی کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کرتاہے تو لوگوں کی نگاہیں اس کے طرز بودوباش کی طرف بھی اٹھتی ہیں۔ اور اگر اس کے لباس، رہن سہن اور دستر خوان پر خوش حالی کے آثار نظر آتے ہیں تو یہ چیز ان کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے۔ چنانچہ وہ سوال کرتے ہیں کہ:

’’اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام و آسایش کا سامان مہیا کریں، اچھی غذائیں کھائیں، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو، غریبی اور بے چارگی ہو، خصوصاً ایک داعی کو یہ زیب دیتاہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے، عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پر تکلف زندگی گزارے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یہی رو ش تھی جب وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے۔‘‘

اس سوال میں، اگرچہ، صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی مثال دی گئی ہے، لیکن ان کے علاوہ علما اور بطور خاص صوفیہ کی ایک پوری جماعت موجود ہے جس نے یہی روش اختیار کی اور اسے تا زندگی نباہتے رہے۔

جہاں کسی داعی سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ وہ اچھا رہن سہن کیوں اختیار کیے ہوئے ہے، وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ اور علما وصوفیہ کے اس عمل کی وجہ ان کی داعیانہ زندگی تھی یا معاشی حالات۔ چنانچہ ایک عالم دین نے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’رہا صحابۂ کرام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیوں کا معاملہ، جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انھوں نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی سعی نہیں فرمائی، اور نہ محض اس غرض سے اپنے لباس ، مکان اور خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری، سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے اور جس اصول کے پابند تھے، وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں۔ مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں، رزق حلال حاصل کریں اور راہ خدا کی جدوجہد میں بہر حال ثابت قدم رہیں۔ خواہ اس میں فقر و فاقہ پیش آئے یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نواز دے۔ جان بوجھ کر برا پہننا، جبکہ اچھا پہننے کو جائز طریقے سے مل سکے اور جان بوجھ کر برا کھانا، جبکہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے، ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہ خدا میں جد و جہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی سے مل جاتی تھی، وہ اچھا کھاتے بھی تھے، اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں بھی رہتے تھے۔ خوش حال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمھارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔‘‘

یہ بات بطور اصول بالکل صحیح ہے ۔ فی الواقع ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اگر پاتے تو انھیں استعمال بھی کرتے تھے۔ لیکن جو چیز فرق کا باعث بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کا اصل مطمح نظرآخرت بن گئی تھی۔ وہ دنیا اور اس کی آسایشوں کی طلب سے بالکل پاک تھے۔ ان کے گھر میں پڑی ہوئی زائد از ضرورت چیزیں، ان کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتی تھیں۔ ان کے پاس ہو تو وہ ماحول میں موجود ضرورت مند تک پہنچ جاتا تھا۔ سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ صرف اس وقت لوٹتا، جب وہ دینے کے لیے اپنے پاس کچھ نہ پاتے اور اس میں، بالعموم اس انتہا پر رہے کہ اپنی ضرورت کی چیزبھی اٹھا کر دے دی۔ یہ رویہ، اگرچہ، ہر مسلمان سے مطلوب ہے۔ لیکن داعی سے بدرجۂ اتم مطلوب ہے۔ داعی اگر اسے واقعتاً اختیار کرے تو اس کا لباس، اس کی خوراک اور اس کا رہن سہن بہت عمدہ نہیں رہ سکتا۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں کے دل دنیا سے پھیرنا چاہے اور اس کا اپنا دل دنیا سے بندھا ہوا ہو۔ وہ لوگوں کو مسافر کی زندگی گزارنے کا وعظ کہے اور خود بنگلے بنائے اور اسے انھی میں رہنا محبوب ہو۔ وہ لوگوں کو اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی تلقین کرے اور اس کا اپنا گھر آسایشیں اور نعمتیں حاصل کر لینے کا عملی نمونہ ہو۔ اسے نمونہ تو سوسائٹی کے ہر طبقے کے لیے بننا ہو اور اس کی اپنی زندگی ان لوگوں کی سی نظر آئے جو ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ہوں۔ وہ ترک دنیا کی باتیں کرے اوراخروی زندگی کو منزل ٹھہرائے اور وہ خود دنیا دار نظر آتا ہو۔ ۱؂ 

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو وہ اپنے قول کی سچی تصویر نظر آتے ہیں۔ داعی اپنی حقیقت میں انھی کا نمائندہ ہے۔ وہ ان سے مختلف ہو تو یہ چیز عامۃ الناس کی سمجھ میں نہیں آتی اور سمجھ میں آنی بھی نہیں چاہیے۔

[۱۹۹۲ء]

_________

 

۱؂اس پیرے سے ایک خاص ڈھب کے افضل ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ دنیا سے بے رغبتی ایک باطنی حالت ہے۔ نہ ظاہری فقر اس کے ہونے کی یقینی علامت ہے اور نہ اچھا رہن سہن اور خوش لباسی سے اس کی نفی ہوتی ہے۔

___________________

B