مولانا سید ابوا لا علیٰ مودودی صاحب نے علما کے منفی رویے کے اسباب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماے کرام کی اکثریت یا تو قلت فہم کے باعث، یا کم ہمتی کے سبب سے، یا پھر اپنی نا اہلی کے اندرونی احساس کی وجہ سے دین و دنیا کی اس تقسیم پر راضی ہو چکی ہے جس کا تخیل اب سے مدتوں پہلے عیسائیوں سے مسلمانوں کے ہاں درآمد ہوا تھا۔ انھوں نے چاہے نظری طور پر اسے پوری طرح نہ مانا ہو، مگر عملاً وہ اسے تسلیم کر چکے ہیں کہ سیاسی اقتدار اور دنیوی ریاست و قیادت غیر اہل دین کے ہاتھ میں رہے خواہ وہ فساق و فجار ہوں یا کفار و مشرکین اور مذہب کی محدود دنیا میں ان کا سکہ رواں رہے، چاہے یہ محدود دنیابے دین سیاست و قیادت کی مسلسل تاخت سے روز بروز سکڑ کر کتنی ہی محدود ہوتی چلی جائے۔ اس تقسیم کو قبول کرلینے کے بعد یہ حضرات تمام قوت دو باتوں پر صرف کرتے رہے ہیں: ایک اپنی محدود مذہبی ریاست کی حفاظت، جس کے مسائل اور معاملات میں کسی کی مداخلت انھیں گوارا نہیں ہے۔ دوسرے کسی ایسی بے دین قیادت سے گٹھ جوڑ، جو مذہب کے محدود دائرے میں ان کی اجارہ داری کی بقا کی ضمانت دے اور اس دائرے سے باہر کی دنیا میں جس فسق اور جس ضلالت کو چاہے فروغ دیتی رہے۔ اس طرح کی ضمانت اگر کسی قیادت سے انھیں مل جائے تو یہ دل کھول کر اس کا ساتھ دیتے ہیں اور خود جان لڑا کر اسے قائم کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ کفرو الحاد اورفسق و ضلالت تمام معاشی و سیاسی اور تہذیبی قوتوں پر قابض ہو کر پورے دین کی جڑیں ہلا دے اور اس محدود مذہبیت کے پنپنے کے امکانات بھی باقی نہ رہنے دے، جس کی ریاست اپنے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر یہ لوگ اس قدر پاپڑ بیل رہے ہیں۔‘‘ (رسائل و مسائل ۲/ ۴۵۷)
علما کایہ رویہ شعوری ہو یا غیر شعوری، بہر حال، غلط ہے اور اس کے نتائج، جیسا کہ مولانا مودودی نے نشان دہی کی ہے، ان کے اور دین کے حق میں منفی ہی نکلے ہیں۔ اہل دین کی پسپائی ابھی تک جاری ہے۔ انتہا یہ ہے کہ وہ اہل دین جو نظام اسلامی کے علم بردار بن کر نکلے تھے، وہ مغربی جمہوریت، مغربی اصول سیاست، یہاں تک کہ مغربی معاشرت سے نہ صرف یہ کہ صلح کر چکے ہیں، بلکہ اس کی بقا و صلاح کے حق میں اپنی سیاسی اور معاشرتی اقدار کی قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں۔اگرچہ وہ یہ سارے ہی کام غیر شعوری طور پر کیوں نہ کر رہے ہوں۔
اگر کچھ اہل دین مذہب کے میدان میں اپنی قیادت کی حفاظت میں ایسا کرتے ہیں تو کچھ دوسرے اپنی سیاست کے لیے ملحدوں اور دین کا مذاق اڑانے والے اہل سیاست سے گٹھ جوڑ کے لیے ہمہ وقت راضی ہیں۔
اگر مذہب کے میدان میں کچھ مذہبی تقاضے مسلکی گروہوں میں فصل اور قطع تعلق کا باعث بنے ہوئے ہیں تو وہی مذہب، میدان سیاست میں موجود، مذہب دشمنوں کے بارے میں اس کا متقاضی کیوں نہیں؟
آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ وہاں مصلحت کوشی، کوتاہ بینی سمجھی جائے اور یہاں یہی بات، حکمت عملی قرار پائے اور اسے اعلیٰ سیاسی شعور کا مظہر قرار دیا جائے، جبکہ دین کے لیے اس کی ضرر رسانیاں بھی وہی ہوں؟
[۱۹۹۲ء]
___________________