HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

باہم نصیحت ہر مسلمان کی ذمہ داری

ایک عام مسلمان کا مذہبی زندگی کے بارے میں تصور یہی ہے کہ وہ نماز روزے کا اہتمام کرے، کبائر سے مجتنب رہے اور اگر ممکن ہو تو اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ یہ تینوں چیزیں دینی زندگی کی مبادیات کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن قرآن مجید کی سور ۂ عصر جو نجات کی بنیادی شرائط بیان کرتی ہے، مذہبی زندگی کا بہت مختلف تصور پیش کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ زمانہ گواہ ہے، انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے، جنھوں نے نیک اعمال کیے، اور ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرتے رہے۔‘‘

ایمان محض چند کلمات کو دہرا لینے کا نام نہیں ہے۔ یہ، درحقیقت، اس دنیا کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھنے، ماننے اور یہ ارادہ کرنے کا نام ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ڈگر اسی کے مطابق استوار کرے گا۔

یہ دنیا یونہی وجود میں نہیں آئی، اس کا ایک خالق و مالک ہے، وہ تنہا اسے چلا رہا ہے، اس کی حکومت میں کسی کو ذرہ برابر بھی شراکت حاصل نہیں، کوئی اس کے ارادوں کو تبدیل کرنے یا ان میں ترمیم و اضافہ کی ہمت نہیں رکھتا، وہ جس طرح چاہتا ہے، جو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ لیکن وہ بہت دانا ہے، بہت رحیم ہے، اس کا علم ہر شے پر محیط ہے۔ وہ جو کام بھی کرتا ہے، اس میں اس کی حکمت، رحمت، آگاہی، قدرت اور پروردگاری کی شانیں یکساں طور پر موجود رہتی ہیں۔ اس نے انسان کو آزادی ترک و اختیار تو دی ہے، لیکن اس کے نتائج و عواقب اسی کی گرفت اور نظر میں رہتے ہیں۔

یہ دنیا یونہی ختم نہیں ہو جائے گی۔ ایک یوم حساب منعقد ہو گا۔ کوئی اپنے اعمال شر کی پاداش میں سزا پائے گا اور کسی کو اعمال خیر کی جزا میں انعام سے نوازا جائے گا۔ وہ دن مکمل انصاف کا دن ہو گا۔ اس میں کوئی شفاعت اس طرح موثر نہیں ہو سکتی کہ مجرم چھوٹ جائیں۔ بڑے سے بڑا آدمی اور بڑے سے بڑا فرشتہ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر بول نہ سکے گا اور بات بھی وہی کہے گا جو اللہ کے منشا کے مطابق ہو گی۔

دنیا کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا، اسے خیر و شر میں امتیاز کی سمجھ دی اور اس کی ہدایت کے لیے ایسی برگزیدہ ہستیاں پیدا کیں، جن کے پاس اس کے فرشتے اس کا پیغام لے کر آتے رہے۔

اعمال صالحہ، نیک اعمال کے لیے قرآن مجید کی ایک معنی خیز تعبیر ہے۔ ہر وہ عمل، عمل صالح ہے جو انسان کے لیے زندگی اور نشو و نما کا سبب بن سکے او رجس کے ذریعے سے انسان ترقی کے ان اعلیٰ مدارج تک پہنچ سکے جو اس کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، اگرچہ، ان اعمال صالحہ میں سب سے بلند مقام رکھتے ہیں، لیکن انفرادی زندگی، خاندان، معاشرے، ریاست اور مذہب کے حوالے سے ہر مسلمان کی ذمہ داریوں کا ایک وسیع دائرہ ہے جس کے بارے میں وہ اپنی استعداد اور استطاعت کے مطابق جواب دہ ہے۔ اگرچہ نماز اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ اور معاشرے کے ساتھ تعلق کا سر عنوان ہیں، لیکن اگر نماز سے تعلق باللہ اور زکوٰۃ سے معاشرے کے ساتھ تعلقات کی وسیع دنیا اسلام کی اعلیٰ اقدار کے مطابق آباد نہ ہو تو ان کی حیثیت ایک ایسے درخت کی ہو جاتی ہے جس سے کسی کو پھل پھول تو کیا، سایہ بھی نصیب نہیں ہوا۔

دینی زندگی، اگرچہ، ایک عام آدمی ہی کی کیوں نہ ہو، اس پر ایک زائد ذمہ داری یہ بھی عائد کرتی ہے کہ وہ حق کی نصیحت کا کام بھی کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کی اس ذمہ داری کا دائرۂ کار اس کا گھر، کام کی جگہ اور دوست احباب ہی ہیں۔ لیکن وہ یہ نقطۂ نظر اختیار نہیں کر سکتا کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔‘‘ اسی طرح حق پر عمل کرتے ہوئے ہر حال میں حق پر قائم رہنا ایک مشکل چیز ہے۔ چنانچہ حق کی نصیحت کے ساتھ ساتھ اس پر ثابت قدمی کی نصیحت بھی ضروری ہے۔ اور یہ یک طرفہ عمل نہیں ہے۔ ہر مسلمان اس معاملے میں داعی بھی ہے اور مدعو بھی۔

یہ ساری چیزیں مل کر ہی اس مذہبی زندگی کی تصویر کو مکمل کرتی ہیں جو ایک مسلمان کو، بہرحال، اختیار کرنی چاہییں۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

 

B