HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

دعوت میں متوازن رویہ

دین کے داعی، بسا اوقات، حمیت دینی ہی کے جذبے کے تحت غیر متوازن رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں دین کے اوامر و نواہی میں موجود وہ توازن مجروح ہو جاتا ہے جو شارع علیہ السلام کے پیش نظر تھا۔

اگرچہ دین کے تمام مطالبات لائق تعمیل ہیں، لیکن ہر چیز لزوم و وجوب کی متقاضی نہیں۔ کچھ چیزیں فرض ہیں اور بعض قطعی حرام۔ کچھ چیزیں آداب و مستحبات ہیں اور بعض مکروہ و نا پسند۔ علاوہ ازیں، اسی طرح بعض امور نوافل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سب کے بارے میں پرسش اور جزا و سزا کی نوعیت بھی ان کی اسی حیثیت کے مطابق ہو گی۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حالات کی تبدیلی بھی دین کے مطالبات کی شدت میں کمی بیشی کا باعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اس کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔

دین کے علم میں دین کے اس پہلو کا صحیح شعور قرآن مجید کے عمیق مطالعے، سنت سے گہری واقفیت اور علماے امت کی تحقیقات پر وسیع نظر ہی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی چیز ایک داعی کو دین کی حکمتوں سے آشنا کرتی ہے۔ چنانچہ وہ نہ صرف دعوت کے میدان میں افراط و تفریط کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے، بلکہ اس کی تبلیغی مساعی دین کے حسین توازن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں موجود مختلف مذہبی گروہوں کا دعوتی سرمایہ بیش تر ایسے ہی معاملات سے متعلق ہے جو فرائض یا قطعی حرمتوں کا درجہ نہیں رکھتے۔ ان میں سے بعض مابہ النزاع معاملات کی اہمیت، اگرچہ دین میں بہت کم ہے، لیکن امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

درود پڑھنا، امام کے پیچھے فاتحہ یا آمین بالجہر کہنا، نماز میں ہاتھ باندھنے یا کھڑے ہونے کی ہیئت اور نمازوں کے اوقات جیسے مسائل بعض گروہوں کے ہاں وہ اہمیت حاصل کیے ہوئے ہیں جو انھیں، فی الحقیقت، حاصل نہیں۔ مثلاً دیکھیے، درود پڑھنے سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایک گروہ نے اس کے التزام کو وہ شکل دے دی ہے جس کا کوئی سراغ قرآن مجید او رسنت نبوی میں موجود نہیں ہے۔ درود، رسول اللہ سے ہمارے تعلق میں زندگی اور ان سے ہماری محبت اور شیفتگی کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی نمازوں اور دعاؤں میں التزام کے ساتھ درود پڑھتے ہیں اور رسول اللہ کا نام آتے ہی زبان پر صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہی درود جو ایمان بالرسالت میں حلاوت کی دلیل ہے، بعض افراد کے بے موقع اصرار کے نتیجے میں تفرقے کی خلیج کو مزید وسعت دے دیتا ہے۔

مغرب کے عالم گیر تسلط کے بعد پیدا ہونے والامغربی تعلیم و افکار سے آراستہ طبقہ اگر دین کے قریب آنا بھی چاہے تو مذہبی گروہوں کے اسی طرح کے مناقشات اس کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔

عام آدمی بھی جب فروعی اختلافات پر علما کو زور بیان صرف کرتے ہوئے دیکھتا اور یکساں قوت کے ساتھ قرآن و حدیث سے استشہاد کرتے ہوئے پاتا ہے تو اس کے لیے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ تذبذب اور ریب و گمان کی یہ کیفیت بسا اوقات اسے مذہب سے دور لے جاتی ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدر کے بعد کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے آپ کو سراپا حق قرار دے۔ بلکہ ہر بندۂ مومن کو او راگر وہ عالم دین ہو تو بطور خاص اپنے اوپر نگران رہنا چاہیے تاکہ اس کے قول و فعل سے غیر شعوری طور پر بھی اس چیز کا اظہار نہ ہو۔

اپنے نقطۂ نظر پر اس قدر اصرار کہ حق صرف وہی ہے اور باقی سب غلط ہے، ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ ہر داعی اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ بیان کر دے، دوسرے نقطۂ نظر کی غلطی بھی واضح کرے، لیکن اپنے مخاطب کے لیے دوسرے علما سے استفادے کو ممنوع قرار نہ دے ۔ اپنے رویے اور عمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کے لیے ہر وقت تیار ہے اور دوسرے علما کی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو منافرت کی اس گرم بازاری کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اسی غیر متوازن رویے کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہے کہ مختلف فرقوں میں آج صرف مابہ الامتیاز آرا زیر بحث رہ گئی ہیں۔ بلکہ اب تو صورت یہ ہو گئی ہے کہ بعض گروہ لباس، وضع قطع، جبہ و دستار اور بعض نفلی یا مستحب عبادات کو باقاعدہ شکل دے کر اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا وہ چیز ایک مستقل دینی شعار کا درجہ رکھتی ہے۔ صرف اپنے مخصوص مسائل کی دعوت کونمایاں کرنا اور اپنے پسندیدہ اعمال کو مذکورہ انداز میں اختیار کرنا ملت ابراہیمی میں رخنہ اندازی ہے، جبکہ ہر داعی کا فرض ہے کہ وہ پورے دین کی دعوت دے اور دین کے مبادی اور فروع کو ان کی جگہ پر رکھے۔ صرف اسی صورت میں دین کی صحیح شان نمایاں ہو گی۔ یہ اختلافات باقی تو رہیں گے، لیکن اپنی جگہ پر ہونے کی وجہ سے طالب حق کے لیے جستجو کا رزق اور سراغ کا زینہ فراہم کرتے رہیں گے۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

B