اسلامی قانون کا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے۔ دوسرے ماخذ کی حیثیت حدیث و سنت کو حاصل ہے، تیسرا اجماع اور چوتھا ماخذ قیاس ہے۔ ماخذ قانون کے ضمن میں ہمارے ہاں متداول نقطۂ نظر یہی ہے۔ یہ نقطۂ نظر بنیادی طور پر صحیح ہے۔ لیکن اس میں کچھ خلا ہیں، جن کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب’’ اسلامی قانون کی تدوین‘‘ میں لکھا ہے:
’’کھٹکنے والی باتیں تین ہیں، ایک تویہ کہ اس میں اجماع کو تیسرے ماخذ قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے، حالانکہ کتاب و سنت کے بعد تیسرا ماخذ اسلام میں اجتہاد ہے۔ اجماع اجتہاد کی ایک قسم ہے۔
اس میں دوسری کھٹکنے والی بات یہ ہے کہ قیاس کا ایک چوتھے ماخذ قانون کی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ قیاس بھی اصل ماخذ قانون نہیں، بلکہ اسلام کے تیسرے ماخذ قانون اجتہاد کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔
تیسری کھٹکنے والی بات یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون کے تمام ماخذوں کا احاطہ نہیں کرتی۔ اسلامی قانون کے ماخذوں میں سے ایک ماخذ عرف )رواج( بھی ہے جو ایک مخصوص دائرے میں معتبر ہے اور اس کا معتبر ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور فقہا نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح اسلامی قانون کے ماخذوں میں سے ایک ماخذ ’’مصلحت‘‘ بھی ہے اور اس کا بھی ایک خاص دائرہ ہے اور ہمارے فقہا نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔‘‘(۳۵)
مولانا اصلاحی کے اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اجماع وقیاس، درحقیقت، اجتہاد کی دو قسمیں ہیں۔ اسی طرح اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ یہ چاروں چیزیں یا مولانا اصلاحی کی تصریح کے مطابق یہ تینوں چیزیں اسلامی قانون کے تمام ماخذوں کا احاطہ نہیں کرتیں۔چنانچہ، ان کے نزدیک عرف اور مصلحت کا اضافہ ضروری ہے، اس لیے کہ ’’ان کے بغیر اسلامی قانون کے ماخذوں کا پوراتصور ذہن میں نہیں آتا۔‘‘(۳۷)
اگر بنظر غائر جائزہ لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارا دین، دراصل، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی سے وابستہ ہے۔ان کے اوامر و نواہی، تقاریر اور گفتگوئیں، نصیحتیں اور تادیبات، اعمال اور فیصلے، یہاں تک کہ کسی خاص معاملے میں ان کی خاموشی بھی اسے دین کا حصہ بنا دیتی ہے۔ ۱قرآن مجید بلاشبہ، اللہ کی کتاب ہے، لیکن یہ بھی تو مخبر صادق کے دل پر اتری۔ انھوں نے فرمایا تو زیب قرطاس ہوئی اور انھی کے فرمانے سے یہ آیات، یہ سورتیں اور یہ ترتیب وجود میں آئی۔ لہٰذاہم بلا تامل، یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دین کا ماخذ تنہا رسول اللہ ہی کی ذات ہے ۔ ان سے دین ہم تک قرآن کے الفاظ سے آتا ہے یا اس کے مطابق ان کے عمل سے۔ یہی چیز ہے جسے ہم سنت کہتے ہیں۔ جس طرح قرآن قولی تواترکے ذریعے سے ایک محکم حقیقت ہے، اسی طرح سنت بھی عملی تواتر کی نسبت سے ایک ثابت شدہ امر ہے ۔ جس طرح اس میں کسی ریب و گمان کا شائبہ نہیں، اسی طرح اس میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں۔جس طرح وہ واجب العمل ہے، اسی طرح یہ بھی واجب الاتباع ہے اور جس طرح وہ دین ہے، اسی طرح یہ بھی دین ہے۔
کتاب و سنت ایک ہی حقیقت کے دو روپ ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ جو کچھ دین ہے، وہ کتاب و سنت ہی سے ماخوذہے۔یعنی دین جاننے کا ذریعہ بس یہی دو چیزیں ہیں۔ حدیث کی اصل حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے، سننے اور قریب رہنے والوں کی روداد یا رپورٹ کی ہے۔ ان میں راوی آپ کے اقوال، فیصلوں اور اعمال کی کیفیات، غرض آپ کے شب و روز اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احادیث دین یعنی قرآن و سنت سے متعلق حقائق جاننے اور سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہیں۔ یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ دین کے بنیادی ماخذ قرآن و سنت سے مطابقت، عقل و فطرت کے سادہ حقائق سے عدم مغایرت اور قابل اعتماد ذرائع سے روایت ہی ان کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ انھیں رسول کا قول و عمل قرار دیا جا سکے۔
کتاب و سنت پورے دین پر محیط ہیں۔ ان کا عالم پورے دین کا عالم ہے۔ خدا سے تعلق، انفرادی اور اجتماعی زندگی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل غرض ہر چیز کے بارے میں ضروری ہدایات ان کے اندر موجود ہیں۔ جہاں تفصیل کی ضرورت تھی، وہاں تفصیل کی گئی، جہاں اجمال مفید تھا، وہاں اجمال سے کام لیا گیا اور جہاں عدم تعرض بہتر تھا، وہاں تعرض نہیں کیا گیا۔ زندگی کا کارواں مختلف ادوار اور حالات سے گزرتا ہے۔ احوال و ظروف کی یہ تغیر پذیری مقتضی تھی کہ معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے تفصیل، اجمال اور عدم تعرض کا یہ فرق ملحوظ رکھا جائے۔یہی وہ چیز ہے جو اجتہاد کی ضرورت پیدا کرتی ہے۔ یعنی ان معاملات و مسائل میں خدا کا منشا متعین کرنے کی سعی جن میں قرآن و سنت نے اجمال یا عدم تعرض سے کام لیا ہے اور وہ زمانے کے تغیر کے ساتھ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ جب دین کے ماخذوں کا ذکر کیا جائے گا تو قرآن و سنت کا نام لیا جائے گا اور جب اسلامی قانون کے ماخذ بیان کیے جائیں گے تو ان دونوں کے ساتھ اجتہاد بھی شامل کیا جائے گا۔
ایک مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اجتہاد کرتے ہوئے نصوص کی تصریحات اور دلالتوں، عامۃ الناس کی سہولت اور بھلائی اور معاشرے کی رسوم و اقدار کو بھی ملحوظ رکھے۔ اجماع کی اس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں کہ وہ فقہا کی متفقہ اجتہادی رائے ہے،معاشرے کا عرف اور عامۃالناس کی مصلحت کا لحاظ، درحقیقت، قابل عمل اور حقیقت پسندانہ قانون سازی میں محض مددگار کی حیثیت رکھتا ہے۔
[۱۹۹۲ء]
_________
۱یہ بیان فنی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے۔ صحیح نقطۂ نظر کے لیے استاد محترم کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’اصول و مبادی‘‘ کا مطالعہ مفید ہے۔
___________________