HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قرآن مجید کی دو تمثیلیں

رات کی تاریکی کے بعد آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ ساری دنیا روشن ہو جاتی ہے۔ اور کارزار حیات کی سرگرمیاں آغاز کرتی ہیں۔ طلوع آفتاب کی یہ برکت صرف اس شخص کے لیے ہے جو دن کا استقبال کرنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن جو اپنی آنکھیں موند لے، وہ آفتاب کی ضوپاشیوں ہی سے نہیں زندگی کی رنگارنگی سے بھی محروم رہتا ہے۔ یہی محرومی اس آدمی کا مقدر بنتی ہے جو ہدایت کی شمع روشن ہو، لیکن استفادہ کرنے سے انکار کر دے۔

داعی حق الاؤ روشن کرتا ہے۔ روشنی ماحول کو منور کر دیتی ہے۔ داعی حق نے یہ محنت جن لوگوں کے لیے کی تھی وہ قدر نا شناس نکلیں تو قانون فطرت ان سے روشنی ہی چھین لیتا ہے۔ اور ان کو تاریکیوں میں اس طرح دھکیل دیتا ہے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ اندھے ہی نہیں، گونگے اور بہرے بھی ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی واپسی ناممکن ہو جاتی ہے۔

بارش برستی ہے، سیاہ بادل چھا جاتے ہیں، بجلی کڑکتی اور چمکتی ہے، دلوں پر ہول طاری ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات، خوف کے باعث کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی جاتی ہیں۔ چلتا ہوا قافلہ رک جاتا ہے۔ بجلی چمکے، کچھ راستہ سجھائی دے تو قدم اٹھتے ہیں، روشنی معدوم ہو جائے تو رک جاتے ہیں۔

جب قرآن مجید کا ابر رحمت برسا تو یہی حال یہود کا ہوا۔ آسمانی ہدایت، بلاشبہ، ابر رحمت ہے، لیکن اس ابر رحمت سے جہاں ہدایت و شریعت کی رم جھم ہوتی رہی، ایمان و یقین اور فلاح اخروی کی کھیتیاں پروان چڑھتی رہیں، وہیں عذاب و خسران کی وعیدیں رعد و برق کی طرح منکرین رسالت کے اوسان خطا کر رہی تھیں اور ان کی دنیوی اور اخروی تمناؤں کے چمنستان خاکستر بنا رہی تھیں۔

سورۂ بقرہ میں قرآن مجید کی یہ تمثیلیں، جن کی وضاحت ہم نے اوپر کی ہے، جہاں اہل کتاب کے انکار و تردد کی تصویر کشی کرتی ہیں، وہیں ہر اس آدمی کے لیے جس کے سامنے حق رکھا گیا ہو، صحیح رویے کے نشان بھی نمایاں کر دیتی ہیں۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

 

B