HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ماہ رمضان

بہار کا موسم آتا ہے تو زندگی لہلہا اٹھتی ہے۔ ہر طرف جذبۂ نمو اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ صرف نئے پودے ہی نہیں اگتے، جاں بلب پودے بھی حیات تازہ سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔ قلب مومن کے لیے ماہ رمضان کو یہی حیثیت حاصل ہے۔

ماہ رمضان کشت ایمان کی آب یاری کا موسم ہے۔ جنھیں دل کی زندگی عزیز ہے، ان کے لیے ہلال رمضان، نوید زیست بن جاتا ہے۔

ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زندگی کے ہر ہر معاملے میں احکام الٰہی کی پابندی کرے۔ اس کے شب و روز آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت گزریں۔ اس کا دل اپنے پروردگار کی یاد سے آباد رہے۔ اس کی نمازوں میں غایت اہتمام ہو۔ وہ بے بسوں اور بے آسرا لوگوں کا مددگار ہو۔ اسے روز جزا پر پورا یقین ہو اور وہ اپنے رب کی گرفت سے بچنے کے لیے بے چین رہتا ہو۔ وہ اپنی شرم گاہ کا محافظ ہو اور زنا کے قریب نہ پھٹکے۔ ہر حال میں سچی بات کہے اور غلط بیانی نہ کرے۔ جب وعدہ کرے، اسے پورا کرے اور اپنی بات سے نہ پھرے۔ وہ صادق اور امین ہو اور کسی کے ساتھ خیانت نہ کرے۔ جب ضرورت پڑے، وہ سچی گواہی دے اور اس پر قائم رہے۔ اگر آدمی کا اخلاق اور کردار یہ ہو تو اس سے اس کے پروردگار کا وعدہ ہے کہ اسے جنت کی اعلیٰ زندگی حاصل ہو گی۔

اسلام ہر مسلمان میں یہی اعلیٰ کردار تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس کردار کی تعمیر اور حفاظت کا سب سے بڑا ہتھیار ضبط نفس ہے۔ ضبط نفس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ضروریات و خواہشات کی تکمیل میں حدود سے تجاوز نہ کرے۔ وہ ہوا و ہوس کا غلام نہ ہو۔ دنیا کی ترغیبات اسے اس طرح نہ کھینچ لیں کہ وہ محض انھی کا ہو کر رہ جائے۔ روزہ اسی ضبط نفس کی تربیت کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔

اسلام ہی نہیں، ہر مذہب چاہتا ہے کہ اپنے ماننے والوں میں اعلیٰ کردار پیدا کرے۔ چنانچہ تمام مذاہب میں روزے کی عبادت کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ قرآن مجید نے روزے کے احکام کا آغاز اسی بات کو بیان کر کے کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ .(البقرہ ۲: ۱۸۳)
’’اے اہل ایمان، تم پر روزہ اسی طرح لازم کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے والوں پر لازم کیا گیا۔‘‘

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہم ہی نہیں، یہود و نصاریٰ بھی روزے رکھتے ہیں۔ اور اگر دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کم و بیش ہر مذہب میں روزے کا تصور موجود ہے۔

ہم اگر انسانی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہر گناہ کے پیچھے یا کوئی شدید جذبہ کار فرما ہو گا یا کسی خواہش کی شدت عامل کی حیثیت سے موجود ہو گی۔ تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو انھی دونوں پر قابو پانے میں اصلاح نفس کا راز مضمر ہے۔ تقویٰ کی حقیقت پرغور کریں تو اسے بھی ہم جذبات و خواہشات پر قابو کی صلاحیت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور روزہ اسی صلاحیت کی تربیت کرتا ہے۔ قرآن مجید نے روزوں کا حکم دیتے ہوئے ’لعلکم تتقون‘ ۱؂کے الفاظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

قرآن مجید میں روزوں کا حکم بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس کا مطالعہ کریں، تو جہاں روزے کی شریعت یعنی روزے سے متعلق احکام معلوم ہوتے ہیں، وہاں روزے کی اہمیت اور اس کا خدا کی شریعت میں مقام و مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے۔

روزہ اگرچہ اپنی مخصوص پابندیوں کی وجہ سے نفس پر شاق گزرنے والی عبادت ہے۔ لیکن اپنی برکات و ثمرات کے اعتبار سے یہ عبادت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید نے ’ایاماً معدودات‘ ۲؂کے الفاظ سے ایک طرف ان کی قدرو قیمت واضح کی ہے اور دوسری طرف اس میں اہل ایمان کے لیے تسلی کا مضمون بھی مضمر ہے۔

فرض روزے ماہ رمضان میں رکھے جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ ماہ رمضان کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سامان اس کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نعمت پہلی مرتبہ ماہ رمضان میں نازل ہوئی۔

چنانچہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ماہ رمضان کو اہل ایمان کے خدا کے ساتھ تعلق کے اعتبار سے خصوصی حیثیت حاصل ہو۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کو روزوں کے ساتھ خاص کر دیا تاکہ اس کے بندے اپنے نفس کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اس کے قریب ہو سکیں۔

انسان کو جو نعمتیں دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، ان میں سے ایک عظیم نعمت عقل ہے، لیکن عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن مجید ہے، اس لیے کہ یہ عقل کا رہنما ہے۔ اگر عقل کو قرآن مجید کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو وہ اپنی منزل سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ فکر و فلسفہ کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کی رہنمائی کے بغیر انسان کی حالت اس شخص کی سی ہو جاتی ہے، جو تاریک رات میں اجنبی راہوں پر چل رہا ہو اور اس کے پاس چراغ بھی نہ ہو۔ رمضان وہ مہینا ہے، جس میں غایت اہتمام سے یہ چراغ انسان کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔چنانچہ یہ مہینا اس کا مستحق تھا کہ اسے ہمیشہ کے لیے خدا کی تکبیر اور شکر گزاری کا مہینا بنا دیا جائے۔ ہدایت کی نعمت ایک عظیم نعمت ہے۔ رمضان کے روزے اس نعمت کے ساتھ گہرے تعلق کا ذریعہ بن جائیں۔ خدا کی عظمت و جلالت اور بزرگی و کبریائی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ روزہ دار روزے کے دوران میں بعض کیفیات سے گزرتا ہے، اس طرح وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ یہ حقیقت اس کے لیے ایک تجربی حقیقت بن جائے۔ ماہ رمضان کے یہ ثمرات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۵)
’’اور اس لیے کہ تم اللہ کے ہدایت دینے پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم اس کا شکر ادا کرو۔‘‘

روزہ کیا ہے؟ اپنی ظاہری ہیئت میں روزہ طلوع فجر سے پہلے سحری، غروب آفتاب کے ساتھ افطار اور ان کے بیچ میں، ازدواجی تعلق اور اکل و شرب سے اجتناب کا نام ہے۔ لیکن اس ظاہر کے پیچھے دینی تربیت کا عظیم مقصد موجود ہے۔

انسان کی شخصیت روح و بدن سے مرکب ہے۔ روح کے تقاضے اور ہیں اور بدن کے تقاضے دوسرے۔ روح خدا کے تقرب کی طرف میلان رکھتی ہے اور بدن کی ضرورتیں مادی ہیں۔ بالعموم، انسانی شخصیت میں مادی ضرورتیں پوری کرنے کا رجحان غالب رہتا ہے۔ یہ صورت حال ظاہر ہے، روح کے فطری میلان کے منافی ہے۔ روح کے تقاضے اگر اسی طرح طویل عرصے تک مغلوب رہیں تو اندیشہ ہے کہ اس کی قوت ہی ختم ہوجائے۔ روزہ اس صورت حال میں تبدیلی کا ذریعہ ہے۔ مادی ضرورتوں پر ایک حد تک پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ چنانچہ روح کے میلانات ایک مرتبہ پھر توانا ہو جاتے ہیں۔ روزے میں لذات دنیا کا ترک اور بھوک اور پیاس کی مشقت اس عبادت میں فقر، درویشی، زہد، تجرد، ترک دنیا اور تبتل الی اللہ کی شان نمایاں کر دیتے ہیں۔ رہبانیت ہمارے دین میں جس حد تک جائز ہے، اس کا ایک بڑا مظہر یہ عبادت ہے۔

انسان بہت سے گناہوں کا ارتکاب بطن و فرج کے تقاضوں کی حدود سے متجاوز ہو کر کرتا ہے۔ یہ درحقیقت دو راستے ہیں، جن سے شیطان حملہ آور ہوتا اور انسانوں کو ابدی ہلاکت کی راہ پر دھکیل دیتا ہے۔ اگر کوئی انسان ان راستوں کا نگران رہے اور شیطان کو دراندازیوں کا موقع نہ دے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ کے انجام سے بچا لیا ہے۔ روزہ بندۂ مومن کو انھی دروازوں پر کڑی نگرانی کی طاقت دیتا ہے۔ ایک مہینے کی یہ تربیت اسے اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے داعیات پر اپنی گرفت مضبوط کر لے۔ اتنی مضبوط کہ وہ حد مطلوب سے متجاوز نہ ہوں۔

ہمارے دین نے ہمیں کچھ چیزوں کا پابندکیا ہے اور کچھ چیزوں سے روک دیا ہے۔ دین کے ان مطالبات کی تکمیل کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ قوت ارادی کی مضبوطی کے لیے خاص تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ روزہ یہ ضرورت بحسن و خوبی پوری کرتا ہے۔ خواہشات کا غلبہ، شہوات میں ہیجان اور جذبات کا طوفان ہر اس آدمی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، جس کی قوت ارادی میں دم خم نہ ہو۔ روزوں کی یہ عبادت یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ مشتعل نہ ہو۔ طمع اور حرص اس پر غلبہ نہ پا لیں۔ وہ صبر اور ضبط کے ہتھیاروں سے لیس ہو جاتا ہے اور یہی ہتھیار تقویٰ کے سفرکا زاد راہ ہیں۔

روزہ بھوک کی شدت کا تجربہ کراتا ہے۔ روزہ پیاس کی سختی سے آشنا کرتا ہے۔ جسے صبح و شام روٹی میسر ہو، جسے پیاس بجھانے کے لیے پانی ہی نہیں، مشروبات میسر ہوں، وہ ان بے کسوں کی بے حالی کا پوری طرح اندازہ نہیں کر سکتا، جو تنگ دست ہوں، جو حالات کی سنگینی کے ہاتھوں فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہوں۔ روزے کا تجربہ ایسے لوگوں کے لیے، آدمی کے دل میں گداز پیدا کرتا ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کے معاملے میں آدمی کے دل میں اگر کچھ قساوت پیدا ہو گئی ہو تو روزہ اسے دھو ڈالتا ہے۔ دوسروں کے لیے ایثار اعلیٰ انسانی قدر ہے۔ ایثار کا جذبہ اگر سرد پڑ چکا ہو تو رمضان کا مہینا اس کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے۔

ماہ رمضان قرآن مجید کے ساتھ مناسبت کا مہینا ہے۔ روزوں کی برکت سے دنیوی مشاغل ماند پڑ جاتے ہیں اور آدمی اپنے رب کے قرب کا متمنی ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکرالٰہی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ ہر بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ رمضان کے اس خیر کثیر سے، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ روزوں کا مہینا قرآن مجید کا مہینا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت روزہ دار کے معمولات میں بھی جھلکنی چاہیے۔

رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کا عشرہ ہے۔ اعتکاف کی عبادت اللہ کے ساتھ لو لگانے کی عبادت ہے۔ روزے دنیا سے بے رغبتی کی ایک خاص فضا پیدا کرتے ہیں۔ اگر آدمی آخری عشرے میں اعتکاف کر سکے تو یہ چیز اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔

روزے سے تقویٰ حاصل ہو۔ روزے سے آدمی اپنے اندر ضبط نفس کی صلاحیت پیدا کر لے۔ اس کی قوت ارادی مضبوط و توانا ہو جائے۔ اس کا دل دوسروں کے لیے نرم پڑ جائے۔ وہ خودغرض بننے کے بجائے ایثار کیش ہو جائے۔ اس کی قرآن کے ساتھ مناسبت میں اضافہ ہو جائے۔ وہ صرف اپنے رب کا ہو جائے۔ یہ ساری برکتیں رمضان کی برکتیں ہیں۔ یہ ہر روزہ دار کا نصیب بن سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ صحیح معنوں میں روزہ دار رہا ہو۔

آدمی روزہ رکھ لے، لیکن اس کا سارا دن یا دن کا بیش تر حصہ افطار کے چٹخاروں کی نذر ہو جائے۔ اسے جو وقت تلاوت اور عبادت میں صرف کرنا چاہیے، وہ وہی وقت لذات دنیا کی تیاری میں گنوا دے۔ روزے کی عبادت تعلق باللہ کا ذریعہ نہ رہے، بلکہ سحر و افطار کے کھانے، اصل مقصود بن کر رہ جائیں۔ یہ درست ہے کہ بھوک کی شدت کھانے پینے کے شوق کو اکسا دیتی ہے، لیکن روزے کا مقصد اس کی پرورش کرنا نہیں ہے۔ روزے کا مقصود اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ آدمی زیادہ اہتمام کے درپے نہ ہو۔ معمول میں جو کچھ میسر ہو، اسی پر اکتفا کرے اور اگر اللہ نے رزق میں کچھ کشایش دے رکھی ہے تو اسے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرے۔

روزوں کی ایک بڑی آزمایش طبیعت کا اشتعال ہے۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے آدمی کو اپنے مزاج پر قابو نہیں رہتا۔ اور اگر وہ اپنے اوپر نگران نہ رہے تو وہ بات بے بات مشتعل ہو جاتا ہے۔ یہ بات روزے کے مقاصد کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ آدمی روزے کو اپنے اشتعال پر قابو پانے کا ذریعہ بنائے۔ جب بھی اسے کسی بات پر غصہ آئے تو وہ یاد کرے کہ وہ روزے سے ہے اور اسے غصے میں نہیں آنا ہے۔ روزے کے احترام کا یہ احساس آدمی میں وہ قوت اور جذبہ پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے لیے اشتعال پر قابو بڑی حد تک آسان ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو معمول کی زندگی میں بھی وقت بے وقت غصے میں آجاتے ہیں انھیں رمضان سے خاص فائدہ اٹھانا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو اپنی تربیت کر لینی چاہیے۔

روزوں کی ایک دوسری آزمایش دل بہلانے والی چیزوں کی طرف رغبت ہے۔ بعض لوگ روزہ رکھ لیتے ہیں، لیکن ان کے لیے دن کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا حل قصے کہانیوں کے مطالعے، مختلف کھیلوں اور فلم دیکھنے کی مصروفیات میں نکالا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، ان چیزوں میں اشتغال کسی طرح بھی رمضان اور روزوں سے مناسبت نہیں رکھتا۔ بلکہ ان میں ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جن کا دیکھنا، سننا یا پڑھنا معصیت اور گناہ کا سبب بنے۔ روزہ دار کو لغویات سے مجتنب رہنا چاہیے اور یہی وقت تلاوت، عبادت، قرآن کے معنی سیکھنے، قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں یاد کرنے اور دینی کتب کا مطالعہ کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔

ہماری عام معاشرتی برائیاں جھوٹ، غیبت، بدزبانی وغیرہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ ایک بندۂ مومن کو، ہر حال میں، ان سے بچنا چاہیے۔ لیکن روزے دار کو بطور خاص ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنبیہ یاد رکھنی چاہیے کہ جو شخص جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔

روزہ ان آفات سے محفوظ رہے جواس کی برکات کو کھا جاتی ہیں اور آدمی نے واقعتہً روزے کو تقوے اور تعلق باللہ کا ذریعہ بنا لیا ہو تو آدمی روزہ دار ہے۔

وہ روزہ دار، جس کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔

وہ روزہ دار، جس کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کی خوشی اور دوسری یوم قیامت، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خوشی۔

وہ روزہ دار، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی یہ نوید سنائی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا خاص اجر دوں گا۔

[۱۹۹۷ء]

_________

 

۱؂’’تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۸۳)

۲؂’’گنتی کے چند دن۔‘‘(البقرہ ۲: ۱۸۴)

___________________

B