اعلیٰ ترین انسانی قدر خوف خداہے۔ یہی وہ خاصیت ہے جو موجود ہو تو انسان سراپا خیر بن جاتا ہے۔ اس کے جبلی تقاضے حدود آشنا ہو جاتے ہیں اور اس کی فطری امنگیں صحیح راستہ پا لیتی ہیں اور اگر یہ چیز موجود نہ رہے تو انسان ایک ایسا خوف ناک درندہ ہے جو اپنے بھائی بہنوں کو چیر پھاڑ سکتا ہے اور ان کا مال اور ان کی آبرو اس کے دست دراز کی پہنچ میں رہتی ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حیات دنیوی کے دو ہی انجام ہیں۔ اور ہمیں ان میں سے ایک کے ساتھ بہر حال دو چار ہونا ہے۔ ایک انجام، خدا کی رضا اور محبت پانے کا انجام ہے اور دوسرا اس کے غضب اور نفرت کا شکار ہونے کا انجام۔ ایک کا مظہر وہ جنت ہے جس کی نعمتیںیہاں کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو حاصل نعمتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور دوسرے کا مظہر وہ دوزخ ہے جس کی عقوبت کی کوئی انتہا نہیں۔ جل جانا اور جل مرنا، اس کا تصور ہی آدمی کے بدن پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ کجا یہ کہ جلنا اور جلتے رہنا، ابدالآباد تک کے لیے جاری ہو جائے۔
جب صورت حال اتنی سنگین ہو تو سب سے دانا انسان وہی ہے جو خداکی رضا اور محبت پانے کو اپنی منزل بنالے اور دوزخ کے بدترین انجام سے بچنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ وہ سوتے اور جاگتے اور اٹھتے اور بیٹھتے، غرض زندگی کی ہر مصروفیت سے خدا کی رضا پانے کا ڈھنگ سیکھ لے اور ہر اس کام سے پیچھا چھڑالے جو اس کے برعکس انجام کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پیغمبر آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ’رأس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے، یعنی سب سے بڑی دانائی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے۔
خوف خدا یعنی خدا کی رضا طلبی کی یہ خوبی دین کے صحیح شعور اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحیح تعلق کا ذریعہ بنتی ہے۔یہی خوبی آدمی کو اوامر دین کی تعمیل پر ابھارتی اور اس کے مناہی کے ارتکاب سے روکتی ہے۔ یہی اسے چھوٹی سے چھوٹی خطا پر بھی پشیمان کر دیتی اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی حریص بنا دیتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس خصوصیت کو زندہ رکھا جائے اور اس کی آب یاری کی جاتی رہے۔
ماہ رمضان اسی کی آب یاری کا ذریعہ ہے۔ وہ دل مردہ کو پھر سے زندگی بخشتا ہے۔ وہ گرتے پڑتے سوار کو دین کی شاہ راہ پر ایک مرتبہ پھر مضبوطی سے گامزن کر دیتا ہے۔ یہ اطاعت خداوندی کی تربیت کا ایک ہنگامی پروگرام ہے۔ ہر مسلمان پورے ایک مہینے کے لیے چند اضافی احکامات کی پیروی کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک خاص فضا پیدا ہوتی، قرآن مجید کی تلاوت اور عبادت کا ایک خاص جذبہ ابھرتا اور راہ خدا میں خرچ کرنے کا داعیہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہ چیزیں زندگی کے سارے عرصے میں مطلوب ہیں، چنانچہ رمضان انھیں ہر سال نئے سرے سے زندہ و بیدار کر دیتاہے۔
[۱۹۹۲ء]
___________________