HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

روزہ اور اعتکاف

روزہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے تعلق باللہ کی اساسات کو مضبوط تر کرنے کے لیے عملی تربیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ احکام الٰہی کی بجا آوری اور مشکلات کے باوجود ان پر عمل کرنے میں ثبات و استحکام کے لیے ماہ رمضان ایک مکمل ماحول مہیا کرتا ہے۔

تعلق باللہ کے ضمن میں اہم ترین بات ذکر الٰہی ہے۔ اپنے پروردگار کی یاد ہر لحظہ اور ہر قدم پر بندۂ مومن کی پاسبانی کرتی ہے۔ کبھی یہ دعا بن جاتی، کبھی تکبیر و تسبیح کا روپ ڈھالتی اورکبھی شکر کا اظہار ہو جاتی ہے۔ دراصل یہی وہ کیفیات ہیں جو ایک فرد کو اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ ’ مسلم‘ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ ماہ رمضان اور بطور خاص اس کا آخری عشرہ یاد الٰہی کی آب یاری اور اسے قائم و دائم رکھنے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق استوار کرنے اور اسی سے لو لگانے کے نتیجے میں دنیا کے معمولات سے کنارہ کشی کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے۔ ’اعتکاف‘ اسی پاکیزہ خواہش کی تکمیل کی حسین صورت ہے۔ قرآن مجید نے اس کا ذکر ملت ابراہیمی کی ایک عام عبادت کے طور پر کیا ہے:

’’ اور ابراہیم اور اسماعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع ، سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۲۵)

’ اعتکاف‘ گیان دھیان اور ذکر و فکر کی عبادت ہے۔ دین اسلام میں مباح رہبانیت بس یہی کچھ ہے۔ اس میں بندہ ہر چیز سے کٹ کر چند روز کے لیے اپنے رب کی یاد کے لیے ایک گوشہ میں محدود ہو جاتا ہے۔ یہ اسی ربانی تلقین پر عمل کی ایک دل نشین صورت ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کار دعوت میں حرز جاں بنایا۔ سورۂ مزمل میں ارشاد ہوا ہے: ’’اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اور اس کی طرف گوشہ گیر ہو جاؤ۔‘‘ چنانچہ غور فرمایے تو اعتکاف کی عظیم عبادت قلب مومن کو یاد الٰہی سے معمور کرنے کے لیے اپنے اندر خاص وصف رکھتی ہے۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

B