حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی پر بحث کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے اگست ۱۹۹۸ کے ’’اشراق‘‘ میں ’’بہ سلسلۂ چیونٹی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ یہ مضمون ’’طلوع اسلام‘‘ میں شائع کیے گئے، عصمت ابوسلیم صاحب کے مضمون ’’چیونٹی‘‘ کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ ابوسلیم صاحب ہمارے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔
ابوسلیم صاحب نے حسب سابق بہت ساری ضمنی بحثیں بھی چھیڑی ہیں۔ ہماری طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ انھوں نے واقعے کا تاریخی پہلو، جانوروں کے نام سے موسوم قبیلوں کا وجود اور نتیجتاً ’نمل‘ کا لازماً قبیلہ ہونا، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ نہ بننا اور چیونٹی کا کلام کی اہلیت سے محروم ہونا، جیسے نکات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اسی طرح انھوں نے جا بجا طنز و تعریض بھی کی ہے، جو کہیں کہیں محض تضحیک بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن میں اپنے اس مضمون میں بھی یہی کوشش کروں گا کہ بحث خالصۃً قواعد زبان تک محدود رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے الفاظ ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وادی نمل کے باسی کوئی انسانی قبیلہ نہیں تھے۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ بحث میں قرآن کے دائرے سے باہر نکلا جائے۔ اسی طرح میری کوشش ہو گی کہ تنقید و تجزیے میں بھی اسلوب بیان خالص علمی رہے۔
ابوسلیم صاحب بحث کے بیچ میں شامل ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ وہ ہمارے قرآن مجید سے استدلال کے طریقے سے واقف نہ ہو سکے ہوں۔ چنانچہ ان کے نئے مضمون میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بطور تمہید کچھ باتیں عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے نزدیک،قرآن مجید ام القری کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے الفاظ، محاورے اور اسالیب کا مفہوم اسی زبان کے عرف کے مطابق متعین ہو گا۔ ہر لغوی اور نحوی بحث درحقیقت اسی بات کے تعین کی کوشش ہے کہ اس زمانے کی زبان کے مطابق قرآن مجید کی کسی آیت کا مفہوم کیا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی بھی کتاب کے سمجھنے کے لیے جن اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، قرآن مجید کے فہم میں بھی وہی اصول کار فرما ہیں۔ یہ طریق کار ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ معنی پہلے طے کر لیے جائیں اور پھر اسے ثابت کرنے کے لیے کبھی معروف معنی کے بجائے بنیادی (یعنی مادے کے معنی) اور کبھی خواہ ان کا اطلاق ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، نحوی قواعد کا سہارا لیا جائے۔غلام احمد صاحب پرویز اور ان کے ہم مسلک دوسرے مصنفین نے ان تمام آیات کے معاملے میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے جن کے اصل معنی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ ہم نے پرویز صاحب کی اسی غلطی کو واضح کرنے کے لیے نمل( چیونٹیوں)کی مثال کو لیا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر ایک ایسی وادی سے گزرا جس میں بہت سی چیونٹیاں رہتی تھیں۔ قرآن مجید نے اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗمِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ. حَتّٰٓی إِذَآ أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗوَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ.فَتَبَسَّمَ ضَاحِکاً مِّنْ قَوْلِہَا...(نمل ۲۷: ۱۷۔۱۹)
’’سلیمان کے لیے اس کے جن و انس اور طیور پر مشتمل لشکروں کو یک جا کیا گیا اور (ملاحظے کے لیے) ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ یہ لشکر جب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو، اپنے گھروں میں گھس جاؤ، مبادا تمھیں سلیمان اور ان کے لشکر کچل دیں اور انھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ سلیمان اس کی بات پر ہنس دیے۔‘‘
ہم نے یہ ترجمہ کرتے ہوئے’’نمل‘‘کا ترجمہ چیونٹیاں اور’’نملۃ‘‘کا ترجمہ چیونٹی کیا ہے۔ یہ ترجمہ معروف لغت کے عین مطابق ہے۔ نحو کے قواعد اور لغت کی روشنی میں یہی ترجمہ موزوں ہے۔ آیت کے درو بست کے لحاظ سے بھی یہی ترجمہ ہونا چاہیے۔لیکن اس ترجمے کو ہمارے اس زمانے کے بعض لوگوں کو ماننے میں تامل ہے۔ ان کی مشکل یہ نہیں ہے کہ یہ ترجمہ لغت کے خلاف ہے۔ ان کا اعتراض یہ بھی نہیں ہے کہ اس ترجمے سے نحو کے کسی قاعدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر اس ترجمے کو مان لیا جائے تو ایک محیر العقول بات ماننا پڑتی ہے۔ گویا ان لوگوں کا اصل مسئلہ قرآن مجید کی آیت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے،بلکہ ان کا اصل مسئلہ وہ مفہوم ہے جو ان کے لیے قابل قبول ہو۔یہ سلسلۂ مضامین اس گروہ کو ان کی اسی غلطی سے آگاہ کرنے کے لیے شروع ہوا تھا۔ لیکن اس کے لیے ہم نے طریق کار یہ اختیار کیا تھا کہ کوئی ایک مثال لے لی جائے اور اس پر بحث کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اس گروہ کا طرز فکر قرآن مجید کوسمجھنا نہیں، بلکہ قرآن مجید سے اپنے تصورات پر پورا اترنے والا دین برآمد کرنا ہے۔
بہر حال اس بحث میں اس گروہ کی طرف سے جو نکات پیش کیے گئے اور اس کے جواب میں ہماری طرف سے جو باتیں لکھی گئیں، ان کے نتیجے میں حسب ذیل نکات طے ہو گئے ہیں:
۱۔ جانوروں کے نام سے بے شک عرب نام رکھتے تھے۔لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ اس آیت میں بھی ’نمل‘ اور ’نملۃ‘ کو نام مان لیا جائے۔
۲۔ اس آیت میں ’نملۃ‘ کے لیے ’قالت‘ کا فعل استعمال ہوا ہے۔ پہلے یہ بات دلیل کے طور پر پیش کی گئی تھی کہ ’قالت‘ فعل کی نسبت ہی سے واضح ہے کہ ’نملۃ‘ جانور نہیں انسان ہے ۔ لیکن اب یہ بات بحث میں اصل نکتے کی حیثیت سے شامل نہیں ہے۔ اس تبدیلی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اب اس دلیل کے بے وزن ہونے کو مان لیا گیا ہے۔
۳۔ یہ بات بڑے اصرار سے کہی گئی تھی کہ جانور غیر عاقل ہیں اور ان کے ساتھ مونث کے صیغے آنے چاہییں۔ چونکہ قرآن مجید میں نمل کے لیے مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے انسان مان لیا جائے۔مگر اس بحث کے نتیجے میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نمل اسم جنس ہے اور غیر عاقل سے متعلق قاعدے کا اسم جنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسم جنس کے ساتھ مذکر و مونث، دونوں طرح کے صیغے آ سکتے ہیں۔
یہ باتیں تو طے ہوگئیں ہیں۔ اب ہم ان نکات کی طرف آتے ہیں جن کے بارے میں ابوسلیم صاحب کا خیال ہے کہ ہماری طرف سے انھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔
۱۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ اگر قبیلے کے نام کے حوالے سے کسی فردِ واحد کا ذکر کیا جائے تو اسم نسبت استعمال ہوتا ہے۔ اس قاعدے کے اطلاق پر ابوسلیم صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر قبیلہ اور قبیلے کا فرد ہم نام ہوں تو پھر اسم نسبت کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے مثال دی تھی کہ قبیلۂ اسد کے کسی فرد کا نام بھی اسد ہو تو اسے اسد ہی کہا جائے گا، اسدی نہیں۔ غور کریں تو یہ مثال زیربحث قاعدے سے استثنا کی مثال ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مثال میں اس فرد کا ذکر قبیلے کے نام کے حوالے سے نہیں، اس کے اپنے نام کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ بہر حال اس کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے، میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر آپ لوگوں کی’’نام‘‘ والی بات مان لی جائے، تب بھی مشکل یہ ہے کہ زیربحث آیت میں دو الگ الگ نام استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا قبیلہ اور فرد کے ہم نام ہونے کی دلیل یہاں قابل قبول نہیں۔اس سوال کے جواب میں ابو سلیم صاحب نے لکھا ہے:
’’ اگر نمل نامی کسی قبیلہ کے کسی فرد (مذکر و مونث)کانام نملہ ہو تو آپ کیا کہیں گے؟‘‘(طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۹۸، ۴۲)
ابوسلیم صاحب کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ رحمت اللہ طارق صاحب کی طرف سے لکھی گئی مثال سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ’’بنوثعلب‘‘کی ایک عورت کا ذکر’’ثعلبہ‘‘کہہ کر کیا جا سکتا ہے۔ گویا اب ان کا موقف یہ ہے کہ’’نمل‘‘الگ سے قبیلے کا نام ہے اور’’نملۃ‘‘الگ سے اس قبیلے کی ملکہ کا نام ہے۔ ہمیں افسوس ہے ہم اس مفروضے کو بھی تسلیم نہیں کر سکے اور اسے ماننے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ قرآن مجید میں ’’نملۃ‘‘کا منصرف ہونا ہے۔
۲۔ لیکن ہماری یہ دلیل ابو سلیم صاحب کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ اپنے سابقہ مضمون میں انھوں نے ان قواعد کا ذکر کیا تھا جن کی رو سے بعض صورتوں میں غیر منصرف اعلام بھی منصرف استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں دو قواعد کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ دونوں قواعد محض بیان کے لیے لکھ دیے گئے ہیں، اصلاً انھوں نے ایک ہی قاعدے کا اطلاق کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس قاعدے کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ قاعدہ ہر لحاظ سے غیرمتعلق ہے۔
ابو سلیم صاحب نے اپنے نئے مضمون میں لکھا ہے کہ ہم نے جس قاعدے کو نظر انداز کیا تھا، ان کے پیش نظر اصلاً وہی قاعدہ تھا۔لکھتے ہیں:
’’اس خاکسار نے غیر منصرف اسماے علم کو نکرہ بنانے کی دو مثالیں دی تھیں۔(۱) یہ کہ اگر معین شخص کی صفات کا حامل کوئی اور بھی ہو یا ہوں(۲) یہ کہ ایسے کسی نام کی جماعت کا ایک فرد مراد ہو۔ میں نے دوسری مثال کے تحت نملہ کا ذکر کیا تھا۔‘‘ (ایضاً)
ابو سلیم صاحب کے مضمون سے لیے گئے اس اقتباس میں قواعد کا ذکر بڑے اجمال سے ہوا ہے۔ پہلا قاعدہ ہمارے سابقہ مضمون میں زیربحث آ چکا ہے۔ لہٰذا اس کی تفصیل یہاں بے محل ہے۔ البتہ قارئین کی سہولت کے لیے ہم دوسرے قاعدے کی وضاحت کرنے کے بعد ہی اس کا تجزیہ کریں گے۔
زمخشری نے اپنی کتاب’’المفصل فی علم العربیہ‘‘میں یہ قاعدہ ان الفاظ میں لکھا ہے:
وقد یتاول العلم بواحد من الامۃ المسماۃ بہ، فلذلک من التاول یجری مجری رجل و فرس.
’’اور کبھی اگر ایک ہی نام سے بہت سے لوگ موسوم ہوں تو ان کے علم کو رجل اور فرس کے طریقے پر (یعنی نکرہ کی حیثیت سے) استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ متکلم اور مخاطب ایک ہی نام کے بہت سے لوگوں سے واقف ہوں اور گفتگو انھی کے بارے میں ہو رہی ہو تو اس موقع پر غیر منصرف علم کو منصرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے سابقہ مضمون میں ابو سلیم صاحب نے’’ہدایۃ النحو‘‘ سے اسی قاعدے کا حوالہ دیا تھا اورصاحب’’ہدایہ‘‘ہی کی دی ہوئی مثالیں بھی لکھی تھیں:
’’اگر ایسے کسی نام کی جماعت میں کا ایک فرد مراد لیں تو’’ہدایۃ النحو‘‘ نے اس کی مثال کے طور پر یہ جملے پیش کیے ہیں ’جاء نی طلحۃ وطلحۃ آخر‘ (میرے پاس طلحہ آیا اور ایک اور طلحہ آیا) ’قام عمرو عمر آخر‘ (عمر کھڑا ہوا اور عمر جیسا ایک اور عمر کھڑا ہوا) ’ضرب احمد و احمد آخر‘ (احمد نے مارا اور ایک دوسرے احمد نے مارا) ’نملۃ‘ بھی ’طلحہ‘ کے وزن پر علم ہے۔ ’نملۃ‘ کو ’طلحہ‘ کی طرح نکرہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم (نمل) کی ملکہ تھی۔ ہو سکتا ہے اس قبیلہ کے جد یا جدہ کا نام بھی ’نملۃ‘ ہو اور یہ ملکہ اسی نام کی حامل ہو ۔‘‘(طلوع اسلام، جنوری۹۹۸ا، ۵۳)
ہمیں افسوس ہے کہ اس قاعدہ کا اطلاق کرنے میں بھی ابو سلیم صاحب سے غلطی ہوئی ہے۔ اس قاعدے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق میں ایک سے زیادہ ہم نام افراد کا ذکر موجود ہو۔ ورنہ محض ہم نام افراد کے دنیا میں موجود ہونے سے وہ نام نکرہ کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ عمر نام کے بہت سارے افراد دنیا میں موجود ہیں، موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں، لیکن ان کی وجہ سے کسی خاص عمر کا نام منصرف استعمال نہیں کیا جاتا۔ مثلاً دیکھیے، جدید و قدیم تمام عربی کتب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ غیرمنصرف استعمال کیا جاتا ہے۔ ابوسلیم صاحب نے اس قاعدے کے اطلاق کی گنجایش ایک’’ہو سکتا ہے‘‘سے پیدا کی تھی۔ اس’’ہو سکتا ہے‘‘کو مان بھی لیا جائے تب بھی قرآن مجید میں ’نملۃ‘ کو ملکہ کے نام کی حیثیت سے غیر منصرف ہی آنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ نہ الفاظ میں کسی دوسری ’نملۃ‘ کا ذکر ہے اور نہ متکلم ہی کے پیش نظر یہ بتانا ہے کہ مسماۃ ’نملۃ‘ فلاں اور فلاں میں سے کسی ایک نے کہا ۔حضرت سلیمان کے مدمقابل سربراہ کی حیثیت سے ’نملۃ‘ کا ذکر ایک متعین شخصیت ہی کی حیثیت سے ہونا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فرعون کانام ایک سے زیادہ مصری بادشاہوں نے اختیار کیا۔ لیکن قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کانام ہمیشہ غیر منصرف ہی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح وادی نمل کی مفروضہ ملکہ ’نملۃ‘ بھی ایک متعین شخصیت ہے، اس کے نکرہ کی حیثیت سے استعمال کی اس آیت میں کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔
جس’’ہو سکتا ہے‘‘ کی وجہ سے میں نے اس دوسرے قاعدے کو اپنے پچھلے مضمون میں نظر انداز کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ابو سلیم صاحب اور ان کے پیش رؤوں کے لیے اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ ان کے استدلال کی ساری عمارت ہی اس طرح کے متعدد’’ ہو سکتا ہے‘‘کی اساس پر استوار ہوئی ہے۔’’ہو سکتا ہے‘‘وادی نمل میں کوئی انسانی قبیلہ آباد ہو۔’’ہو سکتا ہے‘‘اس کا نام نمل ہو۔ ’’ہو سکتا ہے‘‘ اس کی حکمران عورت ہو۔’’ ہو سکتا ہے‘‘ اس عورت کا نام ’نملۃ‘ ہو ۔’’ ہو سکتا ہے ‘‘ اس قبیلے میں اس عورت کے نام کی اور بھی بہت سی عورتیں موجود رہی ہوں، وغیرہ۔ ہم جناب ابو سلیم صاحب سے محض یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے’’ہو سکتا ہے‘‘سے اگر حقائق ثابت ہونے لگیں تو پھر شاید کسی بھی غلط بات کی تردید ممکن نہ رہے گی۔
۳۔ جیسا کہ ہم نے تمہید میں بیان کیا ہے، یہ بات اب زیربحث نہیں رہی کہ جانوروں کے لیے مذکر کے صیغے آ سکتے ہیں۔البتہ ابو سلیم صاحب کو اصرار ہے کہ نمل کے لیے اگر وہ چیونٹیاں ہوں تو جمع مذکر کا صیغہ نہیں آنا چاہیے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں’’کلیلہ و دمنہ‘‘سے جو اقتباس دیا تھا، اس میں بندروں کے لیے جمع کا صیغہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔اس اقتباس میں جمع کا صیغہ آنے کی وجہ ابو سلیم صاحب کے نزدیک یہ ہے:
’’اس میں بندروں کے لیے نہیں، بندروں کے ایک گروہ کے افراد کے لیے جمع مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔‘‘ (طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۹۸، ۴۵)
مزید لکھتے ہیں:
’’ان کہانیوں کو زیادہ دل چسپ اور سنسنی خیز بنانے کے لیے بعض مقامات پر کچھ جانوروں کو آدمیوں کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ان کے لیے جمع مذکر کے صیغے اور ضمائر استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ بات مفسرین کے علم سے باہر نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے علی الرغم انھوں نے چیونٹیوں کے لیے جمع مذکر کے صیغوں اور ضمائر کے استعمال کے لیے یہ خیالی وجہ گھڑی کہ اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کو آدمیوں جیسی عقل سے سرفراز کیا تھا۔‘‘ (ایضاً)
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ جانوروں کے لیے جمع مذکر کے صیغے آنے کا مسئلہ طے ہو گیا ہے۔ البتہ اب یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ جس طرح ایک خاص وجہ سے’’کلیلہ و دمنہ‘‘ میں جمع مذکر کے صیغے آئے ہیں، کیا اس طرح کا کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ قرآن مجید میں چیونٹیوں کے لیے جمع مذکر کے صیغے کیوں آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ زبان و بیان کے قواعد کے فہم میں زمخشری کو امامت کا مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنے زبان دانی کے ذوق کی روشنی میں اس آیت کی توجیہ کی ہے۔ ہم اس کی تفسیر سے یہ اقتباس اپنے ابتدائی مضمون میں بھی درج کر چکے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
ولما جعلہا قائلۃ والنمل مقولا لہم کما یکون فی اولی العقل اجری خطابہم مجری خطابہم. (کشاف ۳/ ۳۵۶)
’’جب نملہ کو متکلم ٹھہرادیا اور نمل کو مخاطب، جیسا کہ اہلِ عقل میں ہوتا ہے تو ان (چیونٹیوں) کے مکالمے کوان (اہلِ عقل) کے مکالمے کے طریقے پر بیان کیا۔‘‘
گویا زمخشری کی رائے میں یہاں صیغوں کا انتخاب صورت واقعہ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک زبان و بیان کے فہم کی روشنی میں یہی بات موزوں ترین ہے۔
۴۔ ابو سلیم صاحب کے مضمون میں واقعے کے تاریخی شواہد کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ہم نے تمہید ہی میں عرض کردیا تھا کہ جب قرآن مجید کے متن میں’نملۃ‘کے چیونٹی ہونے کی حتمی دلیل موجود ہے تو پھر مختلف اور متفاوت معلومات کوجوڑ کر بنائی گئی ایک قیاسی داستان کا تجزیہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آخر میں ہم ابو سلیم صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہ بحث کو صرف ’نملۃ‘ اور ’نمل‘ سے متعلق لغوی اور نحوی قواعد تک محدود رکھیں۔ ہمیں امید ہے ،یہ مکالمہ انھی نکات پر بحث کے نتیجے میں فیصل ہو جائے گا اور اگر نہ ہو سکا تو دوسرے نکات زیر بحث لانے میں کوئی حرج نہیں۔۱
[۱۹۹۸ء]
_________
۱ہمارے اس مضمون کے جواب میں بھی ایک مضمون شائع ہوا تھا، لیکن تکرار استدلال کے باعث ہم نے جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
___________________