’’طلوع اسلام‘‘ کے جنوری ۱۹۹۸ کے شمارے میں جناب محمد عصمت ابو سلیم کا ’’چیونٹی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں پہلی مرتبہ متوسلین پرویز کی طرف سے میرے استدلال کے اصل نکات کا جائزہ لینے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ قبیلے کا نام بنو کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمل کے ساتھ بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔
۲۔ قرآن مجید میں نملہ منصرف استعمال ہوا ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ کوئی علم نہیں ہے۔ ابو سلیم صاحب نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ بعض اوقات غیر منصرف علم بھی منصرف استعمال کیے جاتے ہیں۔
۳۔ جانوروں کے لیے ہر حال میں مونث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کے مصنف نے بھی مونث کے صیغے ہی استعمال کیے ہیں۔
۴۔ ہم نے اس سلسلے کے اپنے پہلے مضمون میں قرآن مجید سے غیر ذوی العقول کے لیے مذکر ضمائراور صیغوں کی مثالیں دی تھیں۔ ابو سلیم صاحب نے ان کی توجیہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
۵۔ اپنے مضمون کے آخر میں ابو سلیم صاحب نے ’لا تبدیل لخلق اللّٰہ‘ کی آیت سے اپنا نقطۂ نظر موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔
آیندہ سطور میں ہم بالترتیب ان نکات کا جائزہ لیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ قبیلے کا نام بغیر کسی سابقے کے بھی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کا ہماری اس بحث سے کیا تعلق ہے۔ زیر بحث آیت میں اگر کسی قبیلے کا ذکر ہے تو اس کا نام نمل ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی لفظ سے مزعومہ قبیلے کو خطاب کیاگیا ہے۔اس صورت میں’نملۃ‘ کی حیثیت لازماً قبیلے کے کسی فرد یا مزعومہ سردارنی کے اسم علم کی ہے۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے اسم علم کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید میں اس پر تنوین ہے اور عربی زبان میں اس طرح کے اعلام پر تنوین نہیں آتی۔
تنوین کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک اسم نکرہ ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک، اگر نمل کوئی قبیلہ ہوتا اور اسے مخاطب بنانے والی اس کی کوئی فرد ہوتی تو قرآن مجید میں قالت نملۃ کے بجائے قالت نملیۃ کے الفاظ آتے۔ ابو سلیم صاحب نے اس ضمن میں بھی ایک نکتہ پیدا کیا ہے۔کہتے ہیں کہ اگر کسی قبیلے کے فرد کا نام بھی وہی ہو جو قبیلے کا نام ہے تو اس صورت میں بھی اسم نسبت استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ابو سلیم صاحب سے درخواست ہے کہ وہ زیر بحث آیۂ کریمہ کا دوبارہ مطالعہ کریں۔ قبیلے کا نام اگر نمل ہے تو پھر نملہ کیا ہے اور اگر نملہ ہے تو پھر نمل کس بلا کا نام ہے۔ عربی لغات کے مطابق ان میں سے ایک اسم جنس اور دوسرا اسی سے بنا ہوا اسی نوع کے ایک فرد کا نام یعنی اسم نکرہ۔
ابو سلیم صاحب نے اصرار کیا ہے کہ تنوین کے باوجود نملہ علم ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ’ھدایۃ النحو‘ سے اس قاعدے کے ضمن میں دی گئی مثالیں بھی درج کی ہیں۔ یہ قاعدہ درست ہے۔لیکن اس قاعدے کا اس آیۂ کریمہ پر اطلاق کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں نملہ اگرعلم ہے تو اس کو نکرہ استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب کوئی علم نکرہ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے درحقیقت وہ شخص نہیں، اس کی صفات مراد ہوتی ہیں۔ جبکہ اس آیت میں نملہ سے مراد اس لفظ سے موسوم اصل فردکی ذات ہی ہونی چاہیے۔
مزید یہ کہ اس قاعدے کے تحت جو اسماے علم استعمال کیے جاتے ہیں ان کی متعلقہ صفات مخاطب پر پوری طرح واضح ہوتی ہیں۔ جبکہ نملہ نامی کسی ملکہ کی صفات تو کیا اس کا نام بھی عرب قبائل کی تاریخ میں معروف نہیں ہے،بلکہ ایسی ملکہ کو دریافت کر لینا ابھی تک غیر معمولی تحقیقات کا متقاضی ہے۔ چنانچہ کسی بھی پہلو سے دیکھیں ،اسے علم قرار دینا ممکن نہیں۔
ابو سلیم صاحب کو بھی اپنے دوسرے ہم فکر احباب کی طرح اصرار ہے کہ آیۂ کریمہ میں مذکر کے صیغے نمل کے قبیلہ ہونے کی قطعی دلیل ہیں۔ ہم نے اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کیا تھا کہ جانوروں کے لیے مذکر اور مونث، دونوں صیغے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ ابو سلیم صاحب بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود مصر ہیں کہ قرآن مجید میں محض مذکر کے صیغوں کی وجہ سے نمل کو انسانی قبیلہ مان لیا جائے۔ خود انھوں نے مصطفی محمود صاحب کی کتاب سے چیونٹی کے متعلق مضمون کا جو اقتباس درج کیا ہے، اس میں نملہ کے لیے مذکر کے صیغے استعمال کیے گیے ہیں۔
ابو سلیم صاحب نے’’کلیلہ و دمنہ ‘‘۱سے ایک اقتباس بھی درج کیا ہے جس میں جانوروں کے لیے مونث کے صیغے استعمال کیے گیے ہیں۔ دراں حالیکہ اسی ایڈیشن میں وہ مقامات بھی ہیں، جہاں جانوروں کے لیے مذکر کے صیغے بھی آئے ہیں ۔مثلاً:
زعموا ان جماعۃ من القردۃ کانوا سکانا فی جبل، فالستموافی لیلۃ باردۃ ذات ریاح و مطار نارا فلم یجدوا...(۱۹۰)
’’کہتے ہیں کہ بندروں کا ایک گروہ ایک پہاڑ پر رہتا تھا۔ ایک ٹھنڈی رات جس میں ہوائیں چل رہی تھیں اور بہت بارش ہو رہی تھی انھوں نے آگ تلاش کی، مگر انھیں نہیں ملی...۔‘‘
ہمیں حیرت ہے کہ ابو سلیم صاحب نے کتاب کھولی، لیکن ان کی نظر صرف اسی صفحے پر پڑی جس میں مونث کے صیغے استعمال کیے گئے تھے اور وہ مقامات انھیں نظر نہ آسکے جس میں جانوروں ہی کے لیے مذکر کے صیغے درج تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ارباب فکر پرویز کی طرف سے اس معاملے میں اصرار بالکل بے جا ہے۔
ہم نے اپنے مضمون میں قرآن مجید سے غیر ذوی العقول کے لیے مذکر صیغوں کی مثال دی تھی۔ ابو سلیم صاحب نے ہماری اس مثال کو یہ کہہ کر غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ مذکر ضمائر کی وجہ ان کا ’الہ‘ ہونا ہے ۔یہ بات درست ہے، لیکن آخر انھی کے لیے اسی سلسلۂ آیات میں مونث ضمائر بھی موجود ہیں، کیا اس وقت وہ ’الہ‘ نہیں تھے۔ اصل میں غیر ذوی العقول کی اصطلاح ایک نحوی اصطلاح ہے، اس سے کسی معنی کے اثبات کے لیے استشہاد کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
اس ضمن میں ابو سلیم صاحب نے ترجمے کے بعض تسامحات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہم ان کے ممنون ہیں، البتہ ’من فیھن‘ کا ترجمہ کوئی بھی کر لیں، تب بھی ہمارا استدلال اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس لیے کہ ’لا تفقھون تسبیحھم‘ میں ’ھم‘ کی ضمیر انسانوں، جنات یا فرشتوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔
اگرچہ قرآن مجید میں یہ آیۂ کریمہ مادی قوانین کے غیر متبدل ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ لیکن ارباب فکر پرویز اسے اسی معنی میں لیتے ہیں۔ برائے بحث اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ جو قوانین انسانوں نے دریافت کیے ہیں، وہ اپنی حتمی اور آخری شکل میں دریافت ہو چکے ہیں اور اب ان کے خلاف کسی بات کو مان لینا خلاف عقل و علم ہے۔
[۱۹۹۸ء]
_________
۱مطبوعہ، دار نشر الکتب اسلامیہ، شیش محل روڈ، لا ہور۔
___________________