نمل سے متعلق’’طلوع اسلام‘‘ کے محققین سے جاری بحث اب ایک نئے اسلوب سے شروع ہوئی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں صرف ایک نکتے پر اپنے دلائل لکھے تھے اور ارباب طلوع اسلام کو اس پر نقد وتبصرے کی دعوت دی تھی۔ میرے اس مضمون کے جواب میں’’طلوع اسلام‘‘ میں دو مضمون شائع ہوئے ہیں۔
ایک مضمون جناب رحمت اللہ طارق صاحب کا ہے اور دوسرا مضمون جناب عبداللہ ثانی صاحب کے قلم سے نکلا ہے۔ یہ دونوں مضامین اعلیٰ علمی تحقیق کا نمونہ قرار دیے جانے کے لائق ہیں۔ بطور خاص عبداللہ ثانی صاحب کی عظمت اور علم و آگہی میں ان کا مقام کچھ زیادہ ہی اعتراف کا متقاضی ہے۔ عبداللہ ثانی صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ عربی زبان کے قواعد کے معاملے میں جس فنی مہارت کا انھوں نے ثبوت دیا ہے۔ اس کے کماحقہ اعتراف کے لیے ایک ابن خلدون کی ضرورت ہے۔ صدیوں پہلے ابن خلدون نے ابن ہشام کو ’انحی من سیبویہ‘ قرار دیا تھا۔ آج اگر اسے زندگی مل جائے تو وہ غالباً محترم ثانی صاحب کو’انحی من النحویین کلھم‘ قرار دیتا۔ ہماری رحمت اللہ طارق صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی ثانی صاحب سے کچھ نحو سیکھ لیں۔ اگر انھوں نے یہ کام مضمون لکھنے سے پہلے کر لیا ہوتا توانھیں ہمارے اٹھائے ہوئے سوال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اتنی محنت نہ کرنا پڑتی۔ طارق صاحب نے زیربحث جملے کو اسم نسبت سے مستثنیٰ کرنے کے لیے بڑی محنت سے مثالیں تخلیق کی ہیں۔ جبکہ ثانی صاحب نے ’یایھا النمل‘ ہی میں یاے نسبت تلاش کر کے اہل نحو کے لیے نئے افق وا کیے ہیں۔ وہ اگر طارق صاحب کی مدد کر دیتے تو ان کی دریافت کردہ مثالیں یوں بے کار نہ جاتیں۔
ثانی صاحب کے استدلال کے جواب میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم یا تو نحو کی تمام کتب کو قابل اصلاح قرار دے دیں اور یا عبداللہ ثانی صاحب سے التماس کریں کہ وہ اپنے آفاقی علم کو تھوڑا سا زمینی حقائق کے قریب کر لیں۔
رحمت اللہ طارق صاحب کا استدلال، البتہ قدرے تفصیلی جائزے کا متقاضی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم ان کے دلائل پر اپنا نقطۂ نظر پیش کریں ایک بنیادی نکتہ واضح کر دینا چاہتے ہیں۔ جب ہم قرآن مجید کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس میں کسی قسم کا کوئی استثنا نہیں رکھتے۔ ہمارا یہ مطالبہ ارباب طلوع اسلام ہی سے نہیں ہے، تمام مسلمانوں سے ہے۔ ہمارے نزدیک، اصحاب پرویز کی غلطی ہی یہ ہے کہ وہ اصل میں قرآن مجید کے الفاظ کی حاکمیت نہیں مانتے اور ہم انھیں اسی وجہ سے قرآن کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس جرم کا ارتکاب اگر کسی اور سے بھی ہو تو وہ بھی اسی دعوت کا مستحق ہے۔ خواہ وہ ہمارا ممدوح بزرگ ہی کیوں نہ ہو۔’’اشراق‘‘ کے فائل ہماری اس روش پر گواہ ہیں۔مولانا مودودی ہوں یا مولانا اصلاحی یا گزرے زمانوں کا کوئی بڑا امام، اگر ہم نے اس کی کسی بات کو خلاف قرآن پایا ہے یا ہم نے محسوس کیا ہے کہ وہ الفاظ قرآنی کو کھینچ تان کر اپنی کسی رائے کے حق میں پیش کر رہا ہے تو ہم نے اس سے بھی یہی گزارش کی ہے کہ وہ قرآن مجید کی حاکمیت کو بے چون وچرا مان لے۔ ہم دین کے ہر خادم کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن یہ احترام احقاق حق اور ابطال باطل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ احترام کا یہ جذبہ حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل قرار دینے کی راہ میں مانع ہو۔
طارق صاحب کے نزدیک نملیہ کے بجائے نملہ ہی درست ہے۔ ہم نے اسے خلاف قاعدہ قرار دیا تھا۔ انھوں نے دلائل سے اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ نملہ گویا علم ہے۔
۲۔ ان الفاظ کے ساتھ بنو کا استعمال ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ تحلیل ہوگیا۔
۳۔ بعض خاندانوں کے نام کے اسم نسبت استعمال نہیں ہوتے، مثلاً قالت سیدہ یا قالت خبازہ وغیرہ۔
۴۔ مدینے میں ایک جوہری کا نام عبد الرحمان النملتہ ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ طارق صاحب نے الفاظ کے استعمال میں اصل حیثیت سماع کو دی ہے۔ گویا ایک بنیاد تو موجود ہے جس کے حوالے سے ہم کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے ساری بحث میں کوئی ایک مثال بھی’’سماع‘‘ سے نہیں دی، بلکہ مثالوں کے سارے کے سارے جملے خود ساختہ ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے اس اصول کے مطابق کلام عرب سے مثالیں دیتے، تاکہ یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو جاتی کہ عربی زبان میں قبیلے کی ایک فرد کا ذکر قبیلے کے نام کے حوالے سے اسم نسبت کے بغیر بھی ہو جاتا ہے۔ عربی زبان کے معاملے میں دوسری زبانوں ہی کی طرح ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس میں اسالیب بیان میں تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ چنانچہ یہ بھی التزام ہونا چاہیے تھا کہ یہ مثال قبل اسلام کے کلام سے ہوتی۔ اہل لغت نے اس اصول کو ہمیشہ ہی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ وہ متنبی جیسے شاعر کو بھی استشہاد میں پیش نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی زبان اس معیار پر پوری نہیں اترتی کہ اسے قبل اسلام کے شعرا کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔ اس کے زمانے تک زبان میں تبدیلیاں آ گئی تھیں اور ظاہر ہے وہ اپنے زمانے کے اسلوب ہی میں شعر کہتا تھا۔ کجا یہ کہ قرآن کے نزول کے پندرہ سو سال بعد کے ایک آدمی کی ساختہ مثالوں کو حجت مان لیا جائے۔
اگرچہ اس اصول کی روشنی ہی میں طارق صاحب کی پیش کردہ مثالیں قابل اعتنا نہیں رہتیں۔ لیکن ہم اس اصول سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نملۃ اسم علم نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پہلے اپنے طویل مضمون میں اس امکان کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ نملۃ کے علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ غیر منصرف ہو۔ یعنی اس کی تاے تانیث پر تنوین (دہری رفع) کے بجائے ایک رفع ہونی چاہیے تھی۔اس لیے کہ قواعد کے مطابق اگر کسی اسم میں علمیت اور تاے تانیث جمع ہو جائیں تو عرب اسے غیر منصرف استعمال کرتے ہیں ۔جبکہ قرآن مجید نے اسے منصرف استعمال کیا ہے۔ قرآن مجید میں نملہ پر تنوین اس بات کی حتمی دلیل ہے کہ یہ لفظ علم کی حیثیت سے استعمال نہیں ہوا۔ ہمیں یقین ہے کہ طارق صاحب اس قاعدے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون میں علم کا لفظ تنبہ کے بغیر استعمال کیا ہے۔ ان جیسے صاحب علم سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ عربی نحو کے ایک عام استعمال ہونے والے قاعدے سے واقف نہ ہوں۔
طارق صاحب نے ایک دلیل یہ دی ہے کہ بنو کا لفظ ان ناموں کے ساتھ آہستہ آہستہ استعمال ہونا بند ہو گیا ہے۔گویا ان کے نزدیک اصل میں یہاں بنو کا لفظ موجود ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’بس قالت ثعلبہ (بنو ثعلب کی ایک عورت نے کہا) کہنا کافی ہوگا۔ ثعلبیہ کہنا ضروری نہیں ہے۔‘‘۱لہٰذا یہاں اسم نسبت استعمال نہیں ہوا۔ ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ قرآن مجید میں’’قالت نملۃ‘‘ اصل میں ’’قالت بنو نملۃ‘‘ ہے اور اس میں’’بنو‘‘ کا لفظ محذوف ہے۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ حذف کے عام طریقے کے مطابق اس میں سے بنو کے معنی کس طرح غائب ہو گئے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں ’واسئل القریۃ‘۲کے ٹکڑے میں قریہ سے پہلے اہل کا لفظ حذف ہے۔ لیکن اس کے معنی یہاں پوری طرح موجود ہیں۔ بعینہٖ قالت نملۃ میں اگر نملۃ قبیلے کا نام ہے اور اس سے پہلے بنو کا لفظ کسی سبب سے حذف ہو گیا ہے تب بھی اس کے معنی مراد ہونے چاہییں۔ ظاہر ہے یہاں پورا قبیلہ مراد لینے کا کوئی موقع نہیں ہے۔طارق صاحب دلیل کی جستجو میں اس بات کو بھی، نظر انداز کر گئے ہیں کہ اسی آیت میں ’یا ایھا النمل‘ کا خطاب بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے، ایک ہی مفروضہ قبیلے کے دو نام نہیں ہو سکتے۔ غرض یہ کہ بنو کے لفظ کو حذف قرار دینے کے لیے معنی ہی کے پہلو سے نہیں لفظ کے پہلو سے بھی آیت میں کوئی موقع نہیں ہے۔
طارق صاحب نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ بعض خاندانوں کے ناموں کے اسم نسبت استعمال نہیں ہوتے۔ مثلاً قالت سیدۃ یا قالت خبازۃ وغیرہ۔ پہلی مثال کے پیش کرنے میں غلطی یہ ہے کہ عربی میں یہ کسی خاندان کا نام نہیں۔ سید اور سیدۃ کا لفظ ان کے ہاں انگریزی کے مسٹر اور مس یا مسز اور اردو کے محترم اور محترمہ کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس بات کے جاننے کے لیے طارق صاحب کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔کسی بھی عربی اخبار یا رسالے میں اس کی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔ بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں کہ عرب بھی ہم اہل برصغیر کی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے لیے سید اور سیدہ کے الفاظ خاندان کے نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال، سیدۃ کی مثال کو قالت نملۃ کے خود ساختہ معنی ثابت کرنے کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ سیدۃ بمنزلۂ لقب ہے اور نملۃ اگر قبیلے کا نام ہو تو بمنزلۂ علم۔ ظاہر ہے، یہ منافات طارق صاحب کے استدلال کے بے حقیقت ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طارق صاحب نے سید اور سیدہ کی نام کی حیثیت سے مثال دے کر علمی دیانت جیسی چیز کو بھی قربان کر دیا ہے۔
یہی معاملہ خبازۃ کی مثال کا ہے۔اس میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ یہ دور جدید کی عربی میں اس طرح مستعمل ہو رہی ہے۔ طارق صاحب نے نہ اس کی مثال دی ہے اور نہ شاید ان کے لیے اس کی مثال دینا ممکن ہے کہ زمانۂ نزول قرآن میں خاندانوں کے نام اس بنیاد پر تھے۔ بہر حال، خباز اور خبازہ کے الفاظ بے شک خاندان کے نام کی حیثیت سے ہیں۔لیکن ان کا قبیلے کے ایک فرد کے لیے استعمال بطور لقب ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبیلے کے جد کے لیے پہلی مرتبہ جب یہ لفظ استعمال کیا گیا تو اس کی حیثیت یہی تھی۔ اس کے برعکس اگر نمل کو قبیلے کا نام مان لیا جائے تو یہ حیثیت اختیار نہیں کر سکتا۔ اگر قبیلے نے یہ نام وادی کے نام کی وجہ سے پایا ہے تو اس صورت میں بھی اسم نسبت ہی استعمال ہونا چاہیے۔ جیسے کہ حجازی اور تہامی وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ نام جد اول کے نام سے پڑا ہے، تب بھی اسم نسبت ہی استعمال ہونا چاہیے، جیسے کہ قریشی اور ہاشمی کے الفاظ لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ ہمارے اس استدلال کے جواب میں طارق صاحب اگر یہ دلیل پیش کریں کہ نملۃ بھی خبازۃ کی طرح ہے تو ہم ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ ان کی بات درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر نملۃ اور نمل کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا باہمی تعلق مذکر اور مونث کا نہیں ہے۔ بلکہ نمل اسم جنس ہے اور اس کے ایک فرد پر اطلاق کے لیے تاے وحدت لگا کر ایک نیا لفظ نملۃ بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ مذکر اور مونث میں سے کوئی بھی فعل آسکتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ نملۃ، خبازۃ کی طرح واحد مونث نہیں ہے۔ مزید براں یہ کوئی اسم صفت بھی نہیں ہے کہ اس پر تذکیر و تانیث کے عام قاعدے کا اطلاق ہو۔ غرض یہ کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں نملۃ کو خبازۃ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ طارق صاحب نے اس ضمن میں جتنی بھی مثالیں دی ہیں، وہ ان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کلام عرب سے مثالیں دیں۔ بطورخاص یہ مثال کہ قریش کی ایک عورت کے لیے’’قریشۃ‘‘کا لفظ اور اوس کی ایک عورت کے لیے ’’اوستہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ہم نے یہ دو نام محض بطور مثال لکھے ہیں۔ اس سے کوئی تحدید مقصود نہیں ہے۔ البتہ یہاں یہ بات واضح رہے کہ کوئی مثال مل جانے سے بھی آیت کی نملۃ عورت نہیں بن جائے گی۔ اس نملۃ کو عورت بنانے کے لیے زیر بحث آیۂ کریمہ سے اسم جنس نمل نکالنا پڑے گا۔ ظاہر ہے، اس کی جسارت کرنا کسی مسلمان کے بس کی بات نہیں ہے اور نمل اور نملۃ کو مذکر اور مونث قرار دینے کے لیے عربی زبان کا خون کرنا پڑے گا۔
ہم یہ بات بہت اصرار کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ جانور کے نام سے نام رکھنا ایک مسلمہ بات ہے۔ ہمارا اختلاف زیربحث مقام پر نملہ کے جانور یا انسان ہونے سے متعلق ہے۔ عبدالرحمان النملہ کی مثال سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عرب میں ایک خاندان کا نام نملۃ بھی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی نملہ بھی نام ہے۔ طارق صاحب کی نظر شاید اس طرف نہیں گئی کہ عربی زبان میں اگر نا م کے آخر پر تاے تانیث ہو تو اس پر تنوین نہیں آسکتی۔ جبکہ قرآن مجید میں نملۃ پر تنوین ہے۔ طارق صاحب کے پیش کردہ دلائل کے اس جائزے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نملۃکے لفظ کو کسی عورت کا نام یا اس کے ذکر کے لیے اس کے قبیلے کے نام سے ماخوذ اسم قرار دینا ممکن نہیں۔یہ چیونٹی ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسے چیونٹی ہی مانا جائے۔
[۱۹۹۷ء]
_________
۱’’طلوع اسلام‘‘، جون ۱۹۹۷، ۱۱۔
۲سورۂ یوسف ۱۲: ۸۲۔
___________________