’نملۃ‘ کے معنی کے ضمن میں ہماری بحث کے جواب میں ،ارباب طلوع اسلام نے دو مضامین شائع کیے ہیں۔ ان مضامین میں کسی اضافے کے بغیر تمام تر پرانا استدلال دہرا دیا گیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ طعن و تشنیع کے تیر برسانے کے لیے ان ارباب علم و دانش کو الفاظ کے دفتر دستیاب تھے، لیکن ہمارے قائم کردہ سوالات کا جواب دینے کے لیے تھوڑی سی زحمت اٹھانا بھی انھیں منظور نہیں ہوا۔
ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہمارے سوالات کا جواب دیا ہوتا تو ہم ان کا پوری علمی دیانت سے مطالعہ کرتے اور ان میں موجود حقیقت کا انھی صفحات میں کھلے دل سے اقرار کرتے۔بہر حال، ان کی طرف سے شائع ہونے والے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد، ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم ان کے جواب میں ایک مبسوط مضمون لکھیں اور ایک مرتبہ پھر پرویز صاحب اور ان کے فکری احباب کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس اندیشے کے تحت کہ طویل مضمون کے جواب میں وہی کچھ پھر سے دہرا دیا جائے گا، ہم نے یہ ارادہ ترک کر دیا ہے ۔
محترم رحمت اللہ صاحب طارق اورجناب عبد اللہ ثانی کے مضامین میں بنیادی استدلال کی حیثیت تین باتوں کو حاصل ہے۔ ایک یہ کہ وادی نمل ایک باقاعدہ وادی ہے اور اسی نام سے اب بھی موسوم ہے۔ دوسری یہ کہ جانوروں کے نام سے انسانوں اور قبیلوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔ لہٰذا آیت میں جانور کا نام آنے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ تیسری یہ کہ واقعے کی نوعیت اور اس میں کہی گئی باتوں ہی سے واضح ہے کہ یہ واقعہ انسانوں سے متعلق تھا۔
یہ تینوں باتیں درست قرار دی جا سکتی تھیں اور ہم انھیں شاید قبول بھی کر لیتے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ انھیں قبول کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر حائل ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارے نزدیک، قرآن مجید پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے لفظ لفظ کے آگے سر تسلیم خم رہے۔ اس کے الفاظ سے انحراف یا ان کی من مانی تاویل، درحقیقت، قرآن مجید کا انکار ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے پاس خدا کی کتاب اپنے اصل الفاظ میں موجود ہے۔ اس لحاظ سے ہم سب سے خوش نصیب امت ہیں۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم الفاظ پر انحصار کرکے یقین کے ساتھ اصل مطلب تک پہنچ سکیں۔الفاظ پر انحصار کا مطلب یہ ہے کہ ان کے معنی و مفہوم کا تعین لغت معروفہ کی روشنی میں کیا جائے۔ لغت معروفہ کسی چیستان کانام نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانۂ نزول کا عرب لفظ کی ایک ہیئت کو جس معنی میں استعمال کرتا یا اس سے جو مفہوم سمجھتا ہے، وہی اس لفظ کا مفہوم ہے۔ اپنے انھی معنی کے ساتھ قرآن مجید، قرآن مجید ہے اور اس کے الفاظ قرآن مجید کے الفاظ ہیں۔ ہمارے کسی عقیدے، خیال اور نقطۂ نظر کو ان الفاظ پر حاکم نہیں بننا چاہیے، بلکہ قرآن مجید کے الفاظ کی حکومت ہمارے فکری، مذہبی اور عقلی مقدمات پر قائم ہے اور قائم ر ہنی چاہیے۔
اس بنیادی اصول کی توضیح کے بعد ہم پھر سے حرف مدعا کی طرف آتے ہیں۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ ارباب طلوع اسلام کے بیان کردہ دلائل کو قبول نہیں کرتے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے، ہم ان سطور میں تفصیلی مباحث نہیں چھیڑیں گے۔ صرف ایک ہی نکتے کا ذکر کریں گے، تاکہ بحث پھیلے بغیر پہلے ایک نکتے پر فیصل ہو جائے۔ پھر دوسرے نکات پر بحث ہو۔ اس طرح توقع ہے کہ یہ تبادلۂ افکار کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔
زیربحث مقام کا ایک لفظ ’نملۃ‘ ہے ۔ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ’نمل‘ کوئی انسانی قبیلہ تھا۔ ان لوگوں نے یہ نام اسی طرح اختیار کیا، جس طرح بنی کلاب اور بنی اسد وغیرہ نے اپنے لیے جانوروں کے ناموں کو پسند کیا تھا۔ لیکن ایک الجھن اب بھی باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان قبیلوں کے ایک فرد کا ذکر کبھی’’ اسد‘‘ یا ’’کلب‘‘ کے لفظ سے نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک نادر بات ہے کہ قرآن مجید میں’’نمل‘‘ قبیلے کی ایک عورت کا ذکر ’نملۃ‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے ۔عربی زبان کا معروف قاعدہ ہے کہ قبیلے کے ایک فرد کا ذکر اسم نسبت سے کیا جائے۔ یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر یہ کسی قبیلے کا تذکرہ ہوتا تو لازماً، اسم نسبت استعمال کیا جاتا۔ چونکہ یہاں اسم نسبت استعمال نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ لفظ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
ہم نے ان محکم دلائل میں سے ایک دلیل کو سادہ الفاظ میں پھر سے پیش کر دیا ہے، جن کی بنیاد پر ہم ’’نمل‘‘ کو کسی قبیلے کا نام نہیں مانتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ طلوع اسلام کے فاضل محققین اس کے جواب میں صرف یہ واضح کریں کہ وہ قرآن مجید کے الفاظ کو وہ معنی کیوں پہناتے ہیں، جنھیں ماننے کی صورت میں (نعوذ باللہ) قادر مطلق کے کلام میں تنقیص ماننا پڑے۔
ارباب طلوع اسلام کے نزدیک، اس طرح کے موضوعات پر بحث محض تضیع اوقات ہے۔ ان کے خیال میں ملک و ملت کو درپیش دیگر مسائل اس سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں بھی نمل کو نمل ثابت کرنے سے زیادہ دل چسپی نہ ہوتی، اگر مسئلہ فہم قرآن کے اصول سے متعلق اور قرآن مجید کے الفاظ کی حرمت کی حفاظت کا متقاضی نہ ہوتا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ سب سے بڑھ کر اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید اس امت کا رہنما ہے۔ اگر اسے سمجھنے اورجاننے ہی میں غلطی ہو گئی تو پھر اس امت کی رہنمائی کون کرے گا۔ ہمارے اس زمانے میں امام تفسیر مولانا حمید الدین صاحب فراہی اور ان کے شاگرد رشید صاحب ’’تدبرقرآن‘‘ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے ایک مرتبہ پھر سلف صالحین(صحابہ و تابعین)کے طریقے پر قرآن مجید کے فہم کو زندہ کیا ہے۔صحابہ اور تابعین کا دور دین اور دین کے فہم کا خیرالقرون تھا۔ ہم اسی کا احیا چاہتے ہیں۔
[۱۹۹۷ء]
___________________