’’اشراق‘‘ میں ’’پرویز صاحب کی اصل غلطی‘‘ کے عنوان سے، ہمارے رفیق خورشید احمد صاحب ندیم کا ایک مضمون چھپا۔ اس مضمون میں، ان کی سعی یہ ہے کہ وہ اس منہاج کی غلطی واضح کریں جو غلام احمدصاحب پرویز نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اپنے اس مقصد کے پیش نظر، وہ پرویز صاحب کی تفسیر سے چند مثالیں دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک مثال کا تعلق سورۂ نمل کی ایک آیت سے ہے۔ اس میں پرویز صاحب کا ’نمل‘ اور ’نملۃ‘ سے متعلق نقطۂ نظر، ان کے منہاج فکر کی نمائندہ مثال ہے۔
ہمیں توقع تھی کہ ارباب فکر پرویز غور و فکر سے کام لیں گے اور جن امور کی نشان دہی کی گئی ہے، انھیں سمجھ لیا جائے گا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ ندیم صاحب کی کاوش داد طلب تھی،داد طلب ہی رہی۔
تمام ارباب تحقیق ’واد النمل‘ سے ’’چیونٹیوں والی وادی‘‘ اور ’نملۃ‘ سے ’’چیونٹی‘‘ مراد لیتے ہیں۔ زیر بحث آیت میں، اس مفہوم پر الفاظ کی دلالت،بالکل قطعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صاحب تحقیق نے کسی دوسری رائے کا بطور امکان بھی ذکر نہیں کیا، لیکن پرویز صاحب نے اس واضح اور قطعی مفہوم کے برخلاف، ایک دوسری رائے قائم کی ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک’ واد نمل‘ سے نمل قبیلے کا مسکن اور ’نملۃ‘ سے اس قبیلے کی سردار عورت مراد ہے۔ یہ مفہوم اگر درست مان لیا جائے تو لفظ و معنی اپنے اصل رشتے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ گویا،گل کو اس کی اپنی ہی بو سے جدا کر دیا گیا ہے۔
ان الفاظ کی یہ تفسیر، چونکہ موجودہ زمانے ہی میں سامنے آئی ہے،چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی اپنی تفاسیر اور ہمارے رفیق خورشید احمد ندیم نے اپنے مضمون ’’پرویز صاحب کی اصل غلطی‘‘ میں اس پر تنقید کی ہے اور اس کی خامیاں قواعد زبان اور عقل عام کے دلائل سے واضح کر دی ہیں۔ لیکن آج تک پرویز صاحب اور اب ارباب فکر پرویز نے ان محکم دلائل کا جواب نہیں دیا اور اپنی رائے پر بدستور قائم ہیں۔ ان ارباب علم نے اس تفسیر کے لیے کیے گئے استدلال کا تانا بانا بکھیر دیا ہے، لیکن پرویز صاحب اور ان کے فکر کے حاملین مصر ہیں کہ اب بھی ان کی بات ہی درست ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کسی معاملے میں یہی رویہ کوئی اور اختیار کرتا تو ارباب فکر پرویز اسے غیر علمی رویے ہی سے تعبیر کرتے۔
خورشیداحمد صاحب ندیم کے رشحات قلم ستمبر ۱۹۹۰کے ’’اشراق‘‘ کی زینت بنے تھے۔ اس کے جواب میں، ارباب فکر پرویز نے طویل عرصے تک قلم نہیں اٹھایا۔ لیکن حال ہی میں،ان کے جریدے ’’طلوع اسلام‘‘ میں ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی تین اقساط فروری، اپریل اور مئی ۱۹۹۵کے شماروں میں طبع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں، ہمارے پیش نظر اس سلسلے کے ’نمل‘ سے متعلق استدلال کا جائزہ لینا ہے۔
ان تین اقساط اور ستمبر کے شمارے میں چھپنے والے شذرے میں، پرویز صاحب کے اس نقطۂ نظر کے حق میں، جو نکات پیش کیے گئے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ جانوروں کے نام سے انسانوں اور قبیلوں کے نام رکھے جاتے تھے، لہٰذا یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں کہ ’نمل‘ کسی قبیلے کا نام ہو۔
۲۔ ’قالت نملۃ‘ میں ’قالت‘ کا فعل اس بات کی صریح دلیل ہے کہ یہ ذی شعور ہستی ،یعنی انسان ہی کا قول ہے، اس لیے کہ کلام خود متکلم کی شخصیت طے کرتا ہے۔
۳۔ چیونٹی نے کیسے جان لیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر آرہا ہے؟
۴۔ چیونٹیاں اور دوسرے حیوانات اگر ایسے ہی باشعور ہوتے ہیں تو ان کے لیے نبوت و شریعت کیوں نہیں؟
۵۔قواعد زبان کی رو سے، غیر ذوی العقول کے لیے واحد مونث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں ۔چنانچہ، اگر یہاں چیونٹیاں ہی مراد ہوتیں تو آیت میں واحد مونث کے صیغے آتے۔
۶۔ زیر بحث آیت ’وھم لا یشعرون‘ کے جملے پر ختم ہوئی ہے۔ یہ مان لیا جائے کہ معاملہ چیونٹیوں ہی سے متعلق ہے تو یہ جملہ ناموزوں ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے بجائے ’وھم لا یرون‘ یا اس کا ہم معنی جملہ ہونا چاہیے۔
۷۔ یہ ایک عجیب و غریب اور ناقابل فہم واقعہ ہے۔ یہ بات ہی بعید از قیاس ہے کہ راستے میں کہیں اور چیونٹیاں نہیں تھیں اور اگر تھیں تو انھوں نے اپنی حفاظت کا بندو بست نہیں کیا اور لشکرسلیمانی انھیں روندتا ہوا، اس وادی کی سیانی چیونٹیوں تک آپہنچا۔
۸۔ عورت کا سردار ہونا کوئی مستبعد بات نہیں۔ اس زمانے میں عورتیں سربراہ ہوتی تھیں، جیسے کہ ملکۂ سبا۔ اسی لیے ’نملۃ‘ کا لفظ تفخیم شان کے لیے نکرہ آیا ہے۔ اگر ’نملیۃ‘ استعمال ہوتاتو اس سے یہ واضح نہ ہوتا کہ یہ عورت قبیلے کی سردار ہے۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہی رہتا کہ یہ قبیلے کی حقیقی فرد تھی یا محض اس سے متعلق کوئی ہستی۔
۹۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہ کمالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سبب نہیں بن سکتے، جبکہ قرآن مجید میں ان قصص کے سنانے کا مدعا یہی ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان کے دل میں پیدا ہونے والے شکر کے جذبات کا باعث چیونٹی کے قول کا سماع نہیں، بلکہ ایک اور سلطنت کا حق کے آگے ، قتال کے بغیر سرنگوں ہو جانا ہے۔
۱۰۔تاریخی ریکارڈ کے دستیاب نہ ہونے کے سبب سے ، تاریخ سے اس واقعے کی اصل صورت معلوم نہیں کی جا سکتی۔
یہ دس نکات ہیں۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، ان سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ ’نمل‘ سے ایک انسانی گروہ مراد ہے۔ لیکن ان نکات کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ استدلال کی یہ عمارت کسی واقعی بنیاد سے بالکل محروم ہے۔
ہمارے نزدیک، یہ دلیل کہ جانور کے نام سے قبیلہ ہو سکتا ہے، اصل بحث سے غیر متعلق ہے۔ مابہ النزاع مسئلہ یہ نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جدید و قدیم، ہر دور اور ہر سماج میں، انسان نے اپنے آپ کو خوش خصال جانوروں کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ہمارا اعتراض دوسرا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ان الفاظ کا اطلاق کسی انسانی گروہ پر کرنا ممکن نہیں۔ یہ آیت ایک موقع و محل میں آئی ہے۔ الفاظ کا ایک دروبست ہے۔ پھر الفاظ کی اپنی ہیئت ہے۔ جس پہلو سے دیکھیے، یہ آیت مذکورہ معنی قبول نہیں کرتی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جو کچھ بھی لکھا جا رہا ہے، اس میں کوئی چیز بھی نئی نہیں ہے۔ علما سارا استدلال ، بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ حریم لفظ کی پاس داری کی گئی ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، لفظ کی حرمت کوئی درخور اعتنا چیز ہی نہیں ہے۔
زیر بحث آیت میں ایک اہم لفظ ’نمل‘ ہے۔ ’نمل‘ اسم جنس ہے۔ پرویز صاحب کے نزدیک، یہ قبیلے کا نام ہے۔ عرب قبائل کے اسما پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسم جنس سے کسی قبیلے کے موسوم ہونے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ بالعموم، قبیلے کا نام کسی بڑے فرد کے نام پر ہوتا ہے اور ظاہر ہے فرد کا نام اسم جنس سے رکھنا قرین قیاس نہیں۔
ہم مان لیتے ہیں کہ کسی دوسری وجہ سے اس قبیلے نے ’نمل‘ کا نام اختیار کر لیا۔ لیکن ایک سوال پھر بھی قائم رہتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اگر ’نمل‘ کوئی قبیلہ تھاتو کیا اس کی ایک فرد کا ذکر ’نملۃ‘ کے لفظ سے کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے نزدیک، یہ اسلوب قواعد زبان کے خلاف ہے۔ یہاں ’نملۃ‘ کے بجائے، اسم نسبت ’نملیۃ‘ استعمال ہونا چاہیے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔ عرب قبائل میں ایک قبیلے کا نام بنو کلب ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ زیر بحث وادی میں یہی قبیلہ آباد تھا۔ نام کی تبدیلی کے باعث آیت کے الفاظ غالباً اس طرح ہوتے: ’حتی اذا اتوا علی واد الکلب قالت کلبیۃ‘، ’’ یہاں تک کہ جب (یہ لشکر، بنی کلب کی وادی میں پہنچا تو ایک کلبیہ نے کہا‘‘۔ اسی جملے میں ’قالت کلبیۃ‘ کے بجائے ’قالت کلبۃ‘ کر دیا جائے تو جملے کا مفہوم بالکل بدل جائے گا۔ اس صورت میں لازم ہو گا کہ ’واد الکلب‘ سے ایسا علاقہ مراد لیا جائے جو کتوں کا مسکن ہو۔ اس لیے کہ ’کلبیۃ‘ کا لفظ واحد قرینہ تھا، جس کی وجہ سے اسے قبیلے کے معنی میں لیا جا رہا تھا۔ قواعد زبان کی رو سے یہ بات بالکل غلط ہو گی کہ’’ بنی اسد‘‘ کے ایک فردکا ذکر ہو تو اسے ’’اسدی‘‘ کے بجائے’’ اسد‘‘ کہا جائے۔’’ بنی کلب‘‘ کا معاملہ ہو تو ا ن کا ایک فرد’ ’کلبی‘‘ کے بجائے ’’کلب‘‘ قرار پائے اور قبیلۂ ثعلب کا ایک فرد’’ ثعلبی‘‘ کے بجائے’’ ثعلبان‘‘ کے لفظ سے پکارا جائے۔
ادارۂ طلوع اسلام کی دریافت کردہ مثال ’’ بچھو گھر‘‘ (Home of Scorpions)میں مضمر، زبان کے اسلوب کا اطلاق اس آیت پر نہیں ہوتا۔ اس مثال میں استعارے یا مجاز کا اسلوب ہے۔ پرویز صاحب کے نزدیک، قرآن مجید یہاں نمل قبیلے کا ذکر کر رہا ہے۔ اس قبیلے نے یہ نام کسی بھی وجہ سے اختیار کیا ہو، قرآن مجید نے اس کا ذکر بطور استعارہ یا مجاز نہیں کیا۔ استعارے یا مجاز کا یہ اسلوب مدح و ذم کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہے اور قرآن مجید کے اس مقام پر کسی قبیلے کی مدح و ذم کا کوئی موقع نہیں ہے۔ بنی کلب کے ایک فرد کا ذکر کلب کے لفظ سے اور بنی اسد کے ایک فرد کا ذکر اسد کے لفظ سے صرف اسی صورت میں کیا جائے گا، جب ان الفاظ کے معنوی پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہو۔ کوئی بھی سخن شناس یہ بات قبول نہیں کرے گا کہ بنی کلب کا سردار اپنے لوگوں کو ’یا ایھا الکلاب‘ کہہ کر پکارے، جبکہ موقع کلام ’یا معشر الکلب‘ کہنے کا ہو اور واقع نگار ان کے ایک فرد کا ذکر ’’کلب‘‘ کے لفظ سے کرے اور موقع کلام سے اس کی کوئی مناسبت موجود نہ ہو۔ چنانچہ ہمارے نزدیک، قرآن مجید کی اس آیت کو مجاز یا استعارے کا اسلوب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے استعارے یا مجاز کا اسلوب قرار دے کر،ارباب فکر پرویز نے پرویز صاحب کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے اوران کے منہ میں وہ بات ڈال دی ہے جسے کہنا وہ کبھی پسند نہ کرتے۔ اصحاب پرویز نے ایسی تیز گامی دکھائی ہے کہ ان کا محمل فکر، ان کے پیچھے اڑے ہوئے گرد و غبار میں چھپ کر رہ گیا ہے۔
ارباب فکر پرویز کے نزدیک ’قالت‘ کا فعل ’نملۃ‘ سے چیونٹی مراد لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ جو مخلوق انسانوں کی طرح مدعا آفرینی اور پھر اس مدعا کے اظہار کی صلاحیت سے عاری ہے ، اس کی طرف قول یا کلام کی نسبت کسی طرح بھی موزوں نہیں۔
اس دلیل کے دو پہلو ہیں: ایک پہلوان قواعد سے متعلق ہے، جو زبان و بیان کے فنی مطالعے سے اخذ کیے گئے ہیں اور دوسرا پہلو ان حقائق سے متعلق ہے، جوجانوروں کے سائنسی مطالعے سے منکشف ہوئے ہیں۔ قواعد زبان کی رو سے، کسی بھی غیر انسان کی طرف ’قال‘ فعل کا اسناد بالکل درست ہے۔ عربی ادب کی مشہور کتاب ’کلیلہ و دمنہ‘ جانوروں کے ساتھ ’قال‘ فعل کے اسناد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کتاب کی کہانیوں کے کردار، بالعموم جانور ہیں، لیکن ’قال‘ فعل کے اسناد سے ان کے جانور ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا،بلکہ کوئی اس بنیاد پر انکارکرے تو ہم ہی نہیں ارباب فکر پرویز بھی اس کا مذاق اڑا دیں گے۔علامہ اقبال نے اپنے کلام میں بلبل اور جگنو، گائے اور بکری، گھوڑے اور خچر اور مکھی اور مکڑے کے مکالمے نظم کیے ہیں۔ یہ مکالمے گہرے شعور پر مبنی ہیں، لیکن اس سخن فہمی کا مظاہرہ کسی نے بھی نہیں کیا کہ یہ درحقیقت، انسانوں کے نام ہیں یا اقبال نے بطور استعارہ کچھ انسانوں کا ذکر کیا ہے۔ تاہم، اس بحث سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے نزدیک، یہاں قرآن مجید نے بھی، اقبال ہی کی طرح، کوئی فرضی کہانی سنائی ہے۔ مقصود صرف یہ واضح کرنا ہے کہ کسی جانور کے ساتھ محض ’قال‘ فعل کا اسناد، اسے کسی انسان کا نام قرار دینے کے لیے’’قرینۂ صارفہ‘‘ نہیں ہے۔
ممکن ہے، ارباب فکر پرویز اس بات پر اعتراض کریں اور کہیں کہ ان کہانیوں میں’ قال‘ فعل کا اسناد مجاز کے طریقے پر ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک ، یہ اعتراض درست نہیں ہے،بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ بات ہی درست نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کہانی کا جانور ایک خاص کردار کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ کہانی نویس اس کے اسی کردار کی مناسبت سے،اس کے ساتھ مختلف افعال متعلق کرتا ہے۔ کہانی کے درو بست میں کردار کی خصوصیات کو حقیقت نفس الامری کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اسناد مجاز کے اسلوب پر نہیں، بلکہ حقیقت اور واقعے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ غرضیکہ کہانی میں کہانی کا جانور،عملاً کلام کرتا ہے، البتہ،کہانی فرضی ہوتی ہے۔ اور فرضی کہانی،انسانوں کی ہو یا جانوروں کی، زبان کے قواعد کا اطلاق اسی طرح ہو گا، جیسے حقیقی واقعات کے بیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا محض قول کی نسبت سے’نملۃ‘ کو عورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس نکتے پر بحث تمام ہوئی۔ ہماری اس بحث کے باوجود، اگر ارباب فکر پرویز کے نزدیک ’قال‘ کا فعل یہاں موزوں نہیں تو ہم ان سے ایک سوال کرتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ قرآن مجید کو وہی بات کہنی ہے، جو سارے مفسرین سمجھے ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کو ’’چیونٹی نے کہا‘‘ کا مضمون ہی عربی زبان میں ادا کرنا ہے۔ کیا عربی زبان میں اس کے لیے ’قالت نملۃ‘ کے بجائے کوئی دوسرے الفاظ موجود ہیں؟
ارباب فکر پرویز نے بڑے اصرار کے ساتھ فعل ’قالت‘ بطور دلیل پیش کیا ہے۔ وہ اپنے اصرار میں حق بجانب ہیں، بشرطیکہ اپنا یدجستجو آگے بڑھائیں اور ایسے مواقع کے لیے کوئی دوسرا فعل تلاش کرلیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں اور یقیناًممکن نہیں تو انھیں مان لینا چاہیے کہ ان کااصرار دلیل کی بنیاد سے محروم ہے۔ البتہ ، اپنے اصرار پر قائم رہنے کے لیے ، ان کے پاس ایک دوسرا راستہ موجود ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کے اس مقام کو بھی ایک کہانی قرار دے دیں۔ لیکن ایسا کر دکھانا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز صاحب بھی اسے ایک حقیقی واقعہ ہی سمجھتے ہیں، البتہ ایک خود ساختہ مشکل سے نکلنے کے لیے انھوں نے اپنی تفسیر میں الفاظ کے واضح اطلاق ہی کو بدل دیا ہے۔
زیر بحث دلیل کا دوسرا پہلو، چیونٹی کے بارے میں ہمارے علم سے متعلق ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارے علم کے مطابق چیونٹی اس طرح کے کلام کی اہلیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ کوئی درست طریقہ نہیں ہے کہ ہم اپنا علم قرآن مجید پر حاکم بنا دیں۔ یہ پرورد گار ہستی کا کلام ہے، کسی انسان کی بات نہیں کہ ہم اسے اپنے علم کی روشنی میں پرکھیں اور پوری نہ اترے تو ماننے سے انکارکردیں۔ خداوند عالم نے کسی مخلوق کو کیا کچھ ودیعت کیا ہے، اس کا علم سب سے بڑھ کر خود اسی کو حاصل ہے، لہٰذا اس کی بات ہر لحاظ سے حتمی ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت بتاتی ہے کہ چیونٹی یہ اور یہ اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ہمارے خریطۂ علم میں اضافہ ہو اور ہم اپنے نقد علم کی غلطی دور کرلیں۔ قرآن مجید کا مقام یہ ہے ۔ یہ اسی کا کام ہے کہ وہ ہمارے علم کی اصلاح کرے اور ہماری حیثیت، اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس کے سامنے سرافگندہ رہیں۔ہم آگے بڑھیں اور آیات کے معنی ہی بدل ڈالیں، یہ حدود سے تجاوز ہے۔ یہ ناسیہ فرسائی نہیں، سرتابی ہے۔
اس معاملے میں صرف ایک ہی بات قابل لحاظ ہے ۔ ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور وہ خود بتا دے کہ جانور عقل و شعور سے عاری ہیں یا انھیں ابلاغ مدعا کی صلاحیت حاصل نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بات قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی شے کا عدم ذکر اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔
اسی طرح کئی مقامات پر قرآن مجید نے انسان کے فہم و ادراک اور زبان و بیان کی صلاحیت کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کسی طرح بھی درست نہیں کہ باقی جان دار یہ استعداد نہیں رکھتے۔ارباب فکر پرویز نے یہاں بھی غلطی کھائی ہے۔ ان کے نزدیک ، سورۂ رحمن کی آیات: ’خلق الانسان، علمہ البیان‘ ۱سے واضح ہے کہ یہ صلاحیت صرف انسان کو حاصل ہے۔ حالانکہ اس حصر کے لیے ان الفاظ میں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ پھر یہ بات حقیقت واقعہ ہی کے خلاف ہے۔ اسے قبول کر لیں تو ملائکہ بھی اس صلاحیت سے عاری قرار پائیں گے،جبکہ یہ بات، قرآن مجید کی متعدد آیات کے منافی ہے۔
اس ضمن میں ارباب فکر پرویز نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ کلام خود صاحب کلام کی شخصیت پر دلالت کرتا ہے۔ ہمیں اس بات سے پورا اتفاق ہے، لیکن انھوں نے اسے جس طرح یہاں منطبق کیا ہے، اس سے اتفاق ممکن نہیں ۔ یہ اصول اپنے اطلاق میں دو پہلو رکھتا ہے: ایک پہلو یہ ہے کہ کلام سے صاحب کلام کے خصائص متعین کیے جائیں اور دوسرا یہ کہ کلام کی صاحب کلام سے نسبت درست یا حقیقی نہ سمجھی جائے۔ قرآن مجید کے اسلوب سے بالکل واضح ہے کہ یہ ایک حقیقی واقعے کا بیان ہے۔ چنانچہ اس آیت پر دوسرے پہلو کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہل علم نے پہلے ہی پہلو کو اختیار کیا ہے۔ زبان شناسی کی جہت سے دیکھیں تو اس اصول کے ممکن اطلاقات یہی دو ہیں اور ان سے وہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ، جوپرویز صاحب نے اخذ کیا ہے۔
اس نکتے پر بحث کرتے ہوئے،ارباب فکر پرویز نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ایک تفسیری بحث کا حوالہ دیا ہے۔ سورۂ یوسف کی تفسیرمیں ، سید مرحوم نے ایک قول کو حضرت یوسف علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے۔انھوں نے قول کی عظمت، دلیل کے طور پر پیش کی ہے اور زیر بحث اصول کی روشنی میں اسے زلیخا کا قول نہیں مانا۔ لیکن سورۂ یوسف کے اس مقام اور زیر بحث آیت میں ایک بدیہی فرق موجود ہے۔ سورۂ یوسف کے جملے میں قول کے قائل کا نام موجود نہیں، جبکہ زیر بحث آیت میں متکلم کا نام، بالتصریح مذکور ہے، لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’نملۃ‘ کو قول سے مترشح صفات سے متصف مان لیا جائے۔
ایک زمانے میں ، جب یورپ نے مادی علوم میں ترقی کی تو بہت سی مانی ہوئی باتیں زیر بحث آ گئیں۔ سائنس کے طفل نوخیز نے ہر وہ بات پاے انکار سے ٹھکرا دی، جو اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ بات آگے بڑھی۔ مذہبی کتابوں میں موجود حقائق خلاف واقعہ ٹھہرے اور انھیں ماننا بے وقوفی قرار پایا۔ اس فضا سے مسلمان بھی متاثر ہوئے۔ بعض نے انکار محض کی اور بعض نے تاویل باطل کی راہ اختیار کی۔ اسی زمانے میں قرآن مجید کا یہ مقام بھی زیر بحث آیا۔ بعض لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ چیونٹی نہ صرف ایک باشعور مخلوق ہے، بلکہ اسے اظہار مدعا کی قدرت بھی حاصل ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ ایک انسان ، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام اس کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
زمانہ بدل گیا ہے۔ تجربات نے سائنس کے’ ’مرد حر‘‘ کی کمر جھکا دی ہے۔ ہم ارباب فکر پرویز سے درخواست کریں گے کہ وہ بھی اس مخمصے سے نکل آئیں ۔ سائنس دانوں نے انکار محض کی روش چھوڑ دی ہے اوربہت سے حقائق مان لیے ہیں۔ آپ بھی اپنا رویہ بدل لیں اور جو باتیں ماننے کی ہیں، انھیں مان لیں۔ جانوروں کا بولنا، صاحب شعور ہونا اور اپنے ہم جنسوں کو ابلاغ ، اب مانی ہوئی باتیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے تحت، اپنے زمانے کی تحقیقات سے استشہاد بھی کیا ہے۔
ارباب فکر پرویز کے نزدیک یہ بات نا قابل تسلیم ہے کہ ایک چیونٹی نے،نہ صرف دور سے آنے والا ایک لشکر پہچان لیا، بلکہ ہم جنسوں کو سالار لشکر کا نام لے کر خطرے سے آگاہ کیا ۔یہ اعتراض بھی ، درحقیقت چیونٹی سے متعلق ہمارے نقد علم پر مبنی ہے۔ قرآن مجید کا جملہ اس پر دلالت میں بالکل واضح ہے اور ہمارا مبلغ علم یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ماننے میں رکاوٹ بنے۔
انسان کو شعور کی نعمت و دیعت کی گئی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غالباً، اسی استعداد کے پیش نظر، انھیں شریعت سے بھی نوازا گیا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چیونٹیاں اوردوسرے حیوانات بھی باشعور مخلوقات ہیں۔ ارباب فکر پرویز نے اسے بنیاد بناتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ حقیقت ہے تو ان کے لیے نبوت و شریعت کیوں نہیں؟ اصحاب پرویز نے یہاں بھی دو اہم باتیں نظر انداز کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری جانوروں کی دنیا سے متعلق معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ چنانچہ ہم کوئی حتمی حکم لگانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ شریعت کی تعلیم ارادے اور اختیار کی آزادی سے متعلق ہے، اس کا باعث، محض فہم و نطق کی صلاحیت نہیں ہے۔
صیغۂ جمع
زیر بحث آیت میں ’نملۃ‘ نے اپنے ہم جنسوں سے خطاب کے لیے ’’جمع مذکر حاضر‘‘ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، قواعد کی رو سے، یہ اسلوب بیان’ ’ذوی العقول‘‘ کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور’’غیر ذوی العقول‘‘ کے لیے واحد مونث کے صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ، ان کی رائے میں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیر بحث واقعہ انسانوں ہی سے متعلق ہے۔ اپنی بات موکد کرنے کے لیے، انھوں نے قرآن مجید ہی سے’ نحل‘ ۲کی مثال بھی دی ہے۔ ہمارے نزدیک ، یہ استدلال درست نہیں ہے، بلکہ جس بنیاد پر یہ استدلال قائم ہے، وہ بنیاد بھی قواعد نحو کی غلط تفہیم پر استوار ہوئی ہے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت کے لیے مشہور نحوی ابن ہشام کی کتاب ’’شرح شذورالذہب‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں:
ومن النوع الاول... اعنی المؤنث الظا ہر المجازی التانیث... ان یکون الفاعل جمع التکسیر، أو اسم جمع ، تقول: قامت الزیود وقام الزیود، وقامت النساء و قام النساء، قال اللّٰہ تعالیٰ: قالت الاعراب (الحجرات ۴۹:۱۴) وقال نسوۃ (یوسف ۱۲:۳۰) وکذلک اسم الجنس، ک’’اورق الشجر ‘‘، ’’و أورقت الشجر‘‘ فا التأنیث فی ذلک کلہ علی معنی الجماعۃ و التذکیر علی معنی الجمع.(۲۲۵)
’’(تانیث دو صورتوں میں راجح ہے)... پہلی صورت سے میری مراد ایسا اسمِ ظاہر ہے جس کی تانیث مجازی ہے۔ یعنی فاعل جمع مکسر ہو یا اسم جمع، مثلاً تم کہتے ہو: ’قامت الزیود وقام الزیود‘، ’وقامت النساء‘، ’وقام النساء‘۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’قالت الاعراب‘ (الحجرات ۴۹: ۱۴) ’وقال نسوۃ‘ (یوسف ۱۲: ۳۰) ۔ یہی معاملہ اسمِ جنس کا بھی ہے۔ ان تمام مثالوں میں تانیث معنی جماعت کے اعتبار سے ہے اور تذکیر معنی جمع کے پہلو سے ہے۔‘‘
اس اقتباس میں تین نکات ہمارے موضوع سے متعلق ہیں: ایک یہ کہ اسم جنس کے ساتھ جس طرح مونث کے صیغے آتے ہیں، اس طرح مذکر کے صیغے بھی آسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ صیغے کا انتخاب ایک خاص مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اسم جنس میں ذی عقل اور غیر ذی عقل ہونے کا پہلو پیش نظر نہیں ہوتا۔ مثلاً ’اورق الشجر‘ کی مثال میں یہ بات کہنا ممکن نہیں کہ یہاں شجر کسی ذی عقل مخلوق کا نام ہے۔
وہ قاعدہ جس میں عقل کا پہلو زیر بحث آتا ہے، صرف جمع مکسر سے متعلق ہے۔ ’’معجم النحو‘‘ کے مصنف نے اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
یجب ھذا التأنیث فی ثلاث مسائل (احداھا) أن یکون الفاعل ضمیرا متصلا لغائبۃ حقیقیۃ التأنیث او مجازیتہ ...(الثانیۃ) أن یکون الفاعل ظاھرا متصلا حقیقی التأنیث ...(الثالثۃ) ان یکون ضمیر جمع تکسیر لمذکر غیر عاقل نحو الایام بک ابتھجت أو ابتھجن.(۲۶۳)
’’ یہ تانیث تین مسائل میں واجب ہے: ایک یہ کہ فاعل متصل ہو اور فعل کی ضمیر حقیقی یا مجازی مونث کی طرف راجع ہو... دوسرے یہ کہ فاعل متصل ہو اور حقیقی مونث اسم ظاہر ہو...تیسرے یہ کہ فعل کی ضمیر مذکر غیر عاقل کی جمع مکسر کی طرف راجع ہو، جیسے ’الایام بک ابتھجت أوابتھجن.‘‘‘
غیر ذوی العقول سے متعلق اس قاعدے سے، صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ صیغے کی تانیث کالزوم جمع مکسر کے ساتھ مشروط ہے، بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جملے میں فاعل پہلے اور فعل بعد میں آیا ہو۔ قواعد کے اس تجزیے سے واضح ہے کہ زیر بحث آیت میں مذکر کے صیغے سے اصحاب پرویز کا استدلال ، ہر لحاظ سے غلط ہے۔ ’نمل‘ اسم جنس ہے اور اس کے ساتھ نہ تانیث کا صیغہ لانا لازم ہے اور نہ اس میں ذی عقل ہونا زیر بحث آتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ارباب فکر پرویز نحو کے ان مباحث سے پوری طرح واقف ہیں، لیکن یہ واقفیت بروے کار نہیں آئی،طاق نسیاں کی زینت بنی رہی۔
ارباب فکر پرویز اگر تامل سے کام لیتے تو انھیں قرآن مجید ہی میں جمع مکسر غیر ذوی العقول کے ساتھ مذکر کے صیغے کی مثال مل جاتی اور وہ غیرذوی العقول سے متعلق قاعدے کی مثال دینے کی زحمت سے بچ جاتے۔ مثلاً سورۂ اسراء میں: ’تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیھن، و ان من شیئ الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحھم‘۳آیت کا آغاز واحد مونث کے صیغے سے ہوا ہے اور آیت کے آخر میں جمع مذکر کی ضمیر’ ھم‘ استعمال کی گئی ہے۔ اسی طرح سورۂ انبیاء میں حضرت ابراہیم کا ارشاد نقل ہوا ہے: ’اذ قال لابیہ وقومہ ما ھٰذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون‘ ۴۔اس میں مونث اسم اشارہ اور مونث ضمیر استعمال ہوئی ہے۔لیکن آگے چل کر، جہاں حضرت ابراہیم کا ان کو توڑنے کا ذکر ہوا ہے: ’تاللّٰہ لا کیدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرین. فجعلھم جذاذا الا کبیرا لھم ۵‘۔اس میں انھی تماثیل و اصنام کے لیے جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ واقعہ آگے بڑھتا ہے اور حضرت ابراہیم کے معارضے کے جواب میں ان کے مخاطب کہتے ہیں: ’لقد علمت ما ھٰؤلاء ینطقون‘ ۶۔ اس ٹکڑے میں انھی کے لیے فعل کا جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں نہ غیر ذوی العقول سے متعلق قاعدے کے اطلاق کا موقع ہے اور نہ اسم جنس سے متعلق قاعدے کا انطباق یہاں موزوں ہے۔ یہ ایک مکالمہ ہے اور مکالمہ اسی طرح بیان کیا جائے گا،جس طرح مکالمہ فی الواقع ہوتا ہے۔ زمخشری جیسا عظیم نحوی، اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے:
ولما جعلھا قائلۃ والنمل مقولا لھم کما یکون فی اولی العقل اجری خطابھم مجری خطابھم.(الکشاف۳/ ۱۴۲)
’’اور جب ’نملۃ‘ کو قائل بنا دیا اور ’نمل‘ کو مخاطب، جیسا کہ ذوی العقول میں کیا جاتا ہے، توغیر ذوی العقول کے خطاب کو ذوی العقول کا خطاب بنادیا ہے۔‘‘
اس اقتباس سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہاں جمع کے صیغے سیاق و سباق کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا، محض مذکر کے صیغے سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ ’نمل‘کوئی انسانی گروہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود زمخشری نے بھی ’نمل‘ کے لیے جمع مذکر کی ضمیر استعمال کی ہے۔
’نحل‘ اور ’نمل‘ کی مثالوں میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے۔ ’نحل‘ کو مخاطب کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہاں متکلم کے پیش نظر جماعت کا مفہوم ہے، لہٰذا اسی کی مناسبت سے مونث فعل استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ زیر بحث آیت میں چیونٹیوں میں سے ایک چیونٹی اپنے ہم جنسوں سے ہم کلام ہے، چنانچہ اس میں مونث صیغے کا استعمال بالکل ہی موزوں نہ ہوتا۔
اس آیت کا اختتام ’لا یحطمنکم سلیمٰن وجنودہ وھم لا یشعرون‘۷کے ٹکڑے پر ہوا ہے۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، اس میں ’وھم لا یشعرون‘ کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیر بحث معاملہ چیونٹیوں سے متعلق نہیں۔ ان کے خیال میں ’ھم لا یشعرون‘ کا مطلب وہ نہیں ہے، جو عام شارحین نے لیا ہے، بلکہ اس سے ’نملۃ‘ نے سلیمان اور ان کے لشکر کی ، ا پنے قبیلے کے سیاسی موقف سے عدم واقفیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
عربی قواعد کی رو سے دیکھیے تو ’وھم لا یشعرون‘ حال ہے اور اس کا ذوالحال ’سلیمان وجنودہ‘ کا ٹکڑا ہے۔ اس میں ’یشعرون‘ کا مفعول محذوف ہے۔ تمام مفسرین نے اس کا مفعول ’حطم نمل‘ لیا ہے، یعنی وہ نمل کو کچل ڈالیں اور انھیں احساس ہی نہ ہو کہ وہ کسی کو کچل چکے ہیں۔ قرآن مجید کے اس مقام کو سامنے رکھیں تو ’یشعرون‘ کا مقدر مفعول یہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مفعول نہ سیاق و سباق میں موجود ہے اور نہ جملے ہی سے نکالا جا سکتا ہے۔ پرویز صاحب کے سامنے بھی یہ مشکل تھی، چنانچہ انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک کہانی خود فرض کی اور اس کہانی سے ’یشعرون‘ کو متعلق کر دیا۔ ارباب فکر پرویز اگر، بنظر تامل جائزہ لیں تو انھیں قرآن سے یہ تجاوز بآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
ارباب فکر پرویز کے نزدیک، اگر یہاں ’لا یرون‘ یا اس کا ہم معنی فعل استعمال ہوتا تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی کہ زیر بحث معاملہ ’نمل‘ سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’لا یرون‘ سے وہ مضمون ادا ہو سکتا تھا، جو یہاں ادا کرنا پیش نظر ہے؟ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ ’یشعرون‘ کا مقدر مفعول کیا ہے۔ مفعول کی مناسبت سے ’یشعرون‘ کا فعل ہی موزوں تھا۔ باقی رہا یہ سوال کہ معاملہ واضح ہو جاتا تو اس کے لیے لفظ ’نملۃ‘ ہی کافی ہے۔ ’نملۃ‘ اپنے اطلاق میں بالکل واضح ہے۔ کلام میں اس طرح کے قرائن اس صورت میں رکھے جاتے ہیں، جب مشترک المعنی لفظ استعمال کیا جائے۔
اب اس معاملے کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھیے۔ اگر یہ کوئی قبیلہ ہوتا تو اس کا سربراہ اس طرح کا مہلک طریقہ تجویز نہیں کر سکتا۔ اگر حضرت سلیمان کو یہ شبہ ہوتا کہ یہ قبیلہ، اصلاً ان کے دشمنوں کا ساتھی ہے اور ان کے لشکر کو دیکھ کر چھپ گیا ہے تو وہ یا توآگے بڑھ کر اس قبیلے کی طاقت ختم کر دیتے یا اس کے دشمن سے ملنے کے امکانات کو ختم کرنے کی تدبیر کرتے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہوتا کہ قبیلۂ نمل کی سربراہ اس غلط فہمی کے ازالے کی سعی کرتی یا مورچہ بند ہوتی اور اپنے حلیفوں کو ساتھ ملا کر مقابلے کی کوشش کرتی۔
ارباب فکر پرویز کے نزدیک ’نمل‘ سے چیونٹیاں مراد لینے کی صورت میں یہ واقعہ ایک نا قابل فہم واقعہ بن جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک بعید ازقیاس بات ماننی پڑتی ہے کہ راستے میں کہیں اور چیونٹیاں نہیں آئیں اور اگر آئیں تو انھوں نے اپنی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ یہ اعتراض بھی تحریر سے متعلق بعض بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر حضرت سلیمان کو حاصل بعض غیر معمولی صلاحیتوں کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے۔ یہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔ اس کے پیش نظر حضرت سلیمان کی سوانح عمری لکھنا نہیں ہے کہ وہ ان کی زندگی کے تمام واقعات کا احاطہ کرے۔ اگر یہ بات بھی مان لی جائے کہ اس سے پہلے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے اپنی حفاظت کا بندو بست نہیں کیا تھا، تب بھی اس واقعے کے ہونے کی تردید نہیں کی جاسکتی۔
عورت کے سربراہ ہونے کا امکان بھی مابہ النزاع مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں، جیسا کہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں، اگر کوئی عورت مراد ہوتی تو ’نملۃ‘ کے بجائے ’نملیۃ‘ ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر یہ عورت قبیلے کی سربراہ ہو تو ’نملۃ‘ کو اس کا علم ہونا چاہیے، خواہ اس کی حیثیت مستقل لقب کی ہو، جیسے فرعون یا اس عورت کے ذاتی نام کی۔ ان دونوں صورتوں میں لفظ ’نملۃ‘ پر تنوین نہیں ہو سکتی۔ ارباب فکر پرویز نے یہاں ایک دل چسپ نکتہ پیدا کیا ہے۔ ان کے خیال میں ’نملۃ‘ کے نکرہ استعمال ہونے ہی سے یہ واضح ہوا ہے کہ یہ ’ نملۃ‘ اپنے قبیلے کی سردارتھی۔ اس بات کی تائید کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی ہے کہ نکرہ تفخیم شان کے لیے آتا ہے اور یہ نکرہ تفخیم شان کے لیے ہے۔ ارباب فکر پرویز کا یہ استدلال بھی درست نہیں ہے۔ تفخیم شان کا نکرہ ا ن جگہوں پر مانا جاتا ہے، جہاں اسم نکرہ کو غیر معمولی، شان دار، واقعی یا حقیقی جیسی صفات سے متصف قرار دیا جا سکے۔ اس قاعدے کی روشنی میں دیکھیں تو اولاً، اسے تفخیم شان کا نکرہ قرار دینا ہی مشکل ہے اور اگر اسے تفخیم شان کامان ہی لیا جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ’’ایک غیر معمولی چیونٹی نے کہا‘‘۔ ظاہر ہے یہ معنی مراد لینے سے ارباب فکر پرویز کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ یہ بات زبان و بیان کی کوئی اچھی مثال نہیں ہو گی کہ کوئی عرب وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کا ذکر ان الفاظ سے کرے ’زرت الباکستا ن ولقیت امراۃ‘۔۸یہ بات کہنا کہ تفخیم شان کے نکرہ سے اس کا لیڈر ہونا واضح ہوتا ہے، قاعدے سے ایسا تجاوز ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
اس بحث میں یہ ایک دل چسپ نکتہ ہے۔ اصحاب فکر پرویز کے خیال میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہ کمالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سبب نہیں بن سکتے، جبکہ قرآن مجید میں ان قصص کے سنانے کا مدعا یہی ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان کے دل میں پیدا ہونے والے شکر کے جذبات کا باعث چیونٹی کے قول کاسماع نہیں، بلکہ ایک اور سلطنت کا،قتال کے بغیر حق کے آگے سرنگوں ہو جانا ہے۔ اگرچہ یہ دلیل بھی قابل التفات نہیں، اس لیے کہ اس کا تعلق زبان و بیان کے قواعد سے نہیں ہے۔ اس طرح کی قیاسی موشگافیاں صرف ان مقامات پر مفید ہوتی ہیں، جہاں کلام اپنے مفہوم میں واضح نہ ہو۔ جبکہ زیر بحث آیت کا یہ جملہ صرف ایک ہی معنی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ شکر کے جذبات پیدا ہونے کا باعث چیونٹی کا کلام سمجھنا تو نہیں ہو سکتا، البتہ کسی ملک کی فتح اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ جس طرح کسی ملک کی فتح ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی غیر معمولی صلاحیتیں بھی جذبۂ شکر کا موجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا جذبہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے لیے پیدا ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تقابل اس موقعے کی چیز ہی نہیں ہے۔
اس بحث کا ایک پہلو تاریخ سے بھی متعلق ہے۔ اس زمانے کی تاریخ کا ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سابق انبیا کا تذکرہ کرتے ہوئے اسرائیلی روایت میں موجود غلطی کی اصلاح بھی کر دیتا ہے۔ لیکن اس واقعے کے اس جز میں قرآن مجید اور اس روایت میں اتفاق ہے۔ مولانا مودودی ’’تفہیم القرآن‘‘ میں سورۂ نمل کے اس مقام کی تشریح کرتے ہوئے ’’جیوش انسائیکلوپیڈیا‘‘(Jewish Encyclopaedia) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے، مگر اس کا آخری حصہ قرآن کے خلاف ہے اور حضرت سلیمان کی شان کے خلاف بھی ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان جب ایک وادی سے گزر رہے تھے،جس میں چیونٹیاں بہت تھیں، تو انھوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کر دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ورنہ سلیمان کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں گے۔ اس پر حضرت سلیمان نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا: تمھاری حقیقت کیا ہے، ایک حقیر بوند سے تو تم پید ا ہوئے ہو۔‘‘ (۱۱ / ۴۴)
قرآن مجید اور اسرائیلی روایت میں چیونٹی سے متعلق حصے میں مکمل اتفاق ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے بارے میں صحیح بات بیان کر کے، اس بات کی تردید کردی کہ حضرت سلیمان نے چیونٹی کے سامنے تکبر کا اظہار کیا تھا، اسی طرح اس غلطی کی بھی اصلاح ہونی چا ہیے تھی کہ ’نمل‘ سے چیونٹیاں نہیں، انسانی گروہ مراد تھا۔
اس واقعے کی تاریخی تحقیق کئی پہلووں سے کی جا سکتی ہے۔ایک پہلو تو وہ ہے، جو اسرائیلی روایات سے متعلق ہے۔ اس کے بارے میں ہم اپنا نقطۂ نظر بیان کر چکے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو عرب روایات اور قدیم عرب کی تاریخ سے متعلق ہے۔ قدیم عربی روایات اور تاریخ کا بیش تر حصہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ ’نمل‘ نامی کسی سلطنت یا گروہ کا کوئی ذکر اس ریکارڈ میں موجود نہیں۔ اس کا تیسرا پہلو عرب کے قبائل کے ناموں سے متعلق ہے۔ یہاں بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عرب قبائل میں اسم ’نمل‘ سے موسوم کوئی قبیلہ موجود نہیں۔ اس سہ جہتی مطالعے کی روشنی میں یہ بات اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ ارباب فکر پرویز کی بات تاریخی پہلو سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔
اگرچہ ہم نے اپنے نقطۂ نظر کو محکم دلائل سے موکد کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم ،ارباب فکر پرویز سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ درج ذیل سوالات کا جواب ضرور دیں گے:
۱۔قبیلے کا نام ہونے کے باوجود ارباب فکر پرویز کے نزدیک یہ استعارے یا مجاز کا اسلوب ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟
۲۔ قبیلے کے نام کی مناسبت سے، قبیلے کے ایک فرد کا ذکر اسم نسبت سے کیا جاتا ہے۔ یہاں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟
۳۔ اگر ’نملۃ‘ قبیلے کی سردار کا علم ہے تو اس صورت میں عربی قواعد کی رو سے، اسے غیر منصرف ہونا چاہیے۔ یہ منصرف کیوں ہے؟
۴۔ اگر یہ استعارے کا اسلوب ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جملے یا سیاق و سباق میں کوئی ایسی چیز موجود ہو جو استعارہ ہونے کو واضح کرتی ہو۔ مثلاً میرانیس کے مشہور مصرعے’ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ میں رن کالفظ اور استفہام کا اسلوب۔ اگر اس مصرعے کو ان دونوں چیزوں سے عاری کر دیا جائے تو جملہ یہ ہو گا: شیر کی آمد سے جنگل کانپ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جملے کو معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی استعارہ قرار نہیں دے گا۔ ارباب فکر پرویز سے سوال یہ ہے کہ وہ کیاچیز ہے، جس کی بنا پر وہ اس آیت کو استعارے کا اسلوب قرار دیتے ہیں؟
۵۔ یہ بات اب نا قابل فہم نہیں رہی کہ جانور اپنے مدعا کو اصوات سے ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ارباب فکر پرویز کے نزدیک ’نملۃ‘ کے ساتھ ’قالت‘ فعل کا اسناد درست نہیں۔ اب اس کی دلیل کیا ہے؟
۶۔ ’وھم یشعرون‘ کا مفعول، پرویز صاحب کے نزدیک ’حطم نمل‘ نہیں، بلکہ مفروضہ قبیلۂ نمل کی دوستی یا دشمنی ہے۔ اس بات کی اس آیت یا اس کے سیاق و سباق میں کیا دلیل ہے؟
۷۔ اس آیت سے واقعے کی جو صورت، عام طور پر سمجھی گئی ہے، یہود کے ہاں بھی صورت واقعہ وہی ہے۔ ارباب فکر پرویز، اس توافق کے باوجود، عام رائے کو غلط کیوں سمجھتے ہیں؟
۸۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ’نمل‘ واقعی کوئی قبیلہ تھا تو لشکر سلیمان سے بچاؤ کی یہ تدبیر انتہائی ناقص ہے، بلکہ اسے مہلک تدبیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر چیونٹیاں ہوں تو یہ ایک انتہائی موزوں تدبیر ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی تفسیر میں اس پہلو کو بیان کیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ اپنے دفاع میں ارباب فکر پرویز نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا؟
[۱۹۹۶ء]
_________
۱’’اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے گویائی سکھائی۔‘‘(الرحمن ۵۵: ۳۔۴)
۲’ واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا‘، ’ ’تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں گھر بنائے۔‘‘( النحل ۱۶: ۶۸)
۳’’ زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے، وہ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ کوئی شے نہیں جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے ہو۔‘‘(۱۷: ۴۴)
۴’’ جب اس نے اپنے باپ سے کہا: یہ کیا مورتیاں ہیں جن کے تم گرویدہ ہو۔‘‘(۱۷: ۵۲)
۵’’ خدا کی قسم، جب تم یہاں سے رخصت ہو کر لوٹو گے تو میں تمھارے ان بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا۔‘‘(۲۱: ۵۷۔۵۸)
۶’’ تمھیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔‘‘(۲۱: ۶۵)
۷’’ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘(النمل۲۷: ۱۸)
۸’’میں پاکستان گیا اور ایک عورت سے ملا۔‘‘
___________________