علی گڑھ، انڈیا سے شائع ہونے والے سہ ماہی جریدے’’تحقیقات اسلامی‘‘ میں جناب سید جلال الدین عمری کے مضمون ’’مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمت عملی‘‘ کی پہلی قسط طبع ہوئی ہے۔ یہ مضمون ایک اہم موضوع پر ہے۔ ہمارے اس زمانے میں اس کی بہت ضرورت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی کردار اور تذکیری مساعی کے مختلف گوشے لوگوں کے سامنے آئیں، تاکہ وہ ان کی روشنی میں اپنے لیے لا ئحۂ عمل طے کریں اور موجودہ زمانے میں رائج مختلف حکمت عملیوں میں راہ صواب تلاش کر سکیں۔
ان سطور میں ہمارے پیش نظر اسی مضمون کی پہلی وحی سے متعلق بحث ہے۔ عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ پہلی وحی میں سورۂ علق کی یہ پانچ آیات نازل ہوئی تھیں:
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ.( ۹۶: ۱۔۵)
’’پڑھ اپنے اس خداوند کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو خون کے تھکے سے۔پڑھ اور تیرا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے تعلیم دی قلم کے واسطہ سے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو نہیں جانتا تھا۔‘‘
عمری صاحب نے اس موضوع پر لکھتے ہوئے یہی روایتی نقطۂ نظر اختیار کیاہے۔یہ بات درست ہے کہ تمام علما اسی نقطۂ نظر کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً بھارت کے ایک عالم مولانا وحید الدین خان صاحب نے’’ ‘منیمم سے آغاز‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون میں یہی بات ایک مانی ہوئی حقیقت کے طور پر بیان کی ہے۔ ۱اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ نقطۂ نظر متداول روایات پر مبنی ہے۔لیکن اسے پڑھتے ہی ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمری صاحب اپنے مضمون پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ سوالات پیش نظر رکھیں اور اگر ان کو حل کردیں تو ان کی یہ سعی بہت سے لوگوں کا ذہنی خلجان دور کرنے کا باعث ہو گی۔
پہلا سوال یہ ہے کہ آغاز وحی سے متعلق روایت میں جن آیات کو پہلی وحی قرار دیا گیا ہے، ان کو ان کے مفہوم کے لحاظ سے پہلی وحی قرار دینا کسی طرح بھی موزوں نہیں لگتا۔ پھر یہ کہ یہ آیات، پوری سورہ کے ساتھ مل کر، ایک خاص معنی کی حامل ہیں۔ اگر انھیں الگ رکھ کر پڑھا جائے تو ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا پیغام ہے،اسے متعین کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔
دوسرے یہ کہ خود ان آیات ہی میں وہ قرینہ موجود ہے جس سے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ یہ پہلی وحی نہیں ہے ۔ہمارا اشارہ پانچویں آیت کی طرف ہے۔اس آیت میں’علم الانسان مالم یعلم۲‘کے الفاظ سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ قرآن مجید کی دعوت لوگوں تک پہنچ چکی ہے اور انھیں قرآن مجید کا نئی تعلیمات پر مبنی حصہ سنایا جا چکا ہے۔
تیسرے یہ کہ خود سورہ میں اس بات کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس کا ایک حصہ کسی اور موقعے پر اور دوسرا کسی دوسرے موقعے پر نازل ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے:
’’میرے نزدیک یہ پوری سورہ پوری طرح ہم آہنگ و ہم رنگ ہے۔ اس کی ابتدائی پانچ آیتوں کا مزاج بھی بعد کی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ سورہ کا انداز خطاب و کلام اتنا تند و تیز ہے کہ پہلی ہی سورہ میں یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختیار فرمایا گیا۔علاوہ ازیں سورہ کے الفاظ میں کوئی قرینہ یا اشارہ ایسا موجود نہیں ہے، جس سے اس کا دو الگ الگ قسطوں میں نازل ہونا معلوم ہوتا ہو۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۴۶۰)
چوتھے یہ کہ جیسا کہ مولانا اصلاحی نے لکھا ہے کہ سورۂ علق اپنے اسلوب کی تندی و تیزی کے اعتبار سے کسی طرح بھی پہلی وحی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پہلی پانچ آیتوں اور باقی سورہ کے مزاج میں کوئی فرق نہیں۔
پانچویں یہ کہ خود روایت میں بھی ایک خلا موجود ہے ۔حضرت خدیجہ کے ردعمل اور بطور خاص ورقہ بن نوفل کے جواب سے واضح ہے کہ اس پہلی ملاقات میں حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خدا کا پیغمبر ہونے کی خبر دی تھی۔ لیکن ان آیات میں اس تقرر کا تو کوئی ذکر نہیں، البتہ خدا کا کلام پڑھ کر سنانے کا حکم ضرور دیا جا رہا ہے، جوظاہر ہے، اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب تقرر بھی ہو چکا ہو اور دعوت کے لیے ضروری کلام بھی نازل ہوچکا ہو۔
یہ سوالات اگر درست ہیں تو یہی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ پہلی ملاقات کے حوالے سے اس روایت میں دی گئی معلوما ت محل نظر ہیں۔ہماری اس بات کی تصدیق قرآن مجید میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کی پہلی گفتگو کی تفصیلات سے بھی ہوتی ہے۔ ارشادہے:
فَلَمَّآ أَتَاہَا نُوْدِیَ یَا مُوْسٰی. إِنِّیْ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْْکَ إِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی. وَأَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی. إِنَّنِیْٓ أَنَا اللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ. إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی. فَلاَ یَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَتَرْدٰی.(طہٰ ۲۰: ۱۱۔۱۶)
’’تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اس کو آواز آئی: اے موسیٰ، یہ تو میں تمھارا رب ہوں تو تم اپنے جوتے اتار دو، کیونکہ تم طوی کی مقدس وادی میں ہو۔ میں نے تمھیں چن لیا ہے تو جو وحی کیا جا رہا ہے، اسے غور سے سنو۔ بے شک، میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میری ہی عبادت کیجیو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھیو۔ بے شک قیامت شدنی ہے، میں اسے چھپائے رکھوں گا تاکہ ہر جان کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جا سکے تو آخرت سے تمھیں وہ شخص غافل نہ کرنے پائے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشوں کا پیرو ہے کہ تم ہلاک ہو کر رہ جاؤ۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو دعوت کی ذمہ داری دینے سے بھی پہلے خداے واحد کی عبادت اور نماز کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد انھیں معجز ات دیے گئے اور پھر دعوت کی ذمہ داری عائد کی گئی:
اِذْہَبْ إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہٗطَغٰی. (طہٰ۲۰: ۲۴)
’’تم فرعون کی طرف جاؤ، وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۔‘‘
اس پر حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کے لیے درخواست کی، جو قبول ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون سے بات چیت کے حوالے سے بھی حکمت عملی کی توضیح کردی:
اِذْہَبْ أَنْتَ وَأَخُوْکَ بِآیَاتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ.اذْہَبَآ إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہٗطَغٰی. فَقُوْلَا لَہٗقَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہٗیَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشٰی.(طہٰ ۲۰: ۴۲۔۴۴)
’’تم اور تمھارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میرے ذکر پر ڈھیلے نہ پڑنا۔ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۔ پس اسے نرمی کے ساتھ دعوت دو، شاید وہ یاددہانی حاصل کرے یا ڈرے۔‘‘
ان آیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وحی میں کس نوعیت کی ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔ بظاہر یہی بات قرین قیاس لگتی ہے کہ پہلی وحی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے منصب اور ذمہ داری ہی سے آگاہ کیاگیا ہو گا۔
لہٰذایہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ روایت میں جن آیات کو پہلی وحی قرار دیا گیا ہے، وہ پہلی وحی نہ ہوں۔ روایت اور آیات میں’اقراء‘کے لفظی اشتراک سے کسی راوی نے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ یہ آیات پہلی وحی ہیں اور پھر یہ آیات روایت کا حصہ بن گئی ہوں۔
ہمیں امید ہے کہ عمری صاحب ہماری معروضات پر غور کریں گے اور تحقیقی مساعی کو بروے کار لاکر ان الجھنوں کو حل کر دیں گے۔
[۱۹۹۸ء]
_________
۱ماہنامہ ’’الرسالہ‘‘ ، جون ۱۹۹۸۔
۲’’انسان کو سکھایا گیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘(العلق ۹۶: ۵)
___________________