اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض تربیت، قرآن مجید کی زبان اور زمانۂ نزول کے حالات سے واقفیت کی بنا پر، قرآن مجید کی تشریح، انتہائی فطری اصولوں پر کرتے تھے۔ چونکہ اس زمانے میں کوئی باقاعدہ تفسیر نہیں لکھی گئی، لہٰذا ان کے کام کا بڑا حصہ ہمارے سامنے نہیں آ سکا اور جو کچھ موجود ہے، وہ بھی آثار او رتفسیری اقوال کی صورت میں، حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں بکھرا ہوا ہے۔
تابعین کے زمانے میں مفسرین کا زیادہ انحصار انھی روایات اور تفسیری اقوال پر رہا۔تھوڑے ہی عرصے میں ایک نیا گروہ نمودار ہوا۔یہ وہ لوگ تھے،جنھوں نے اپنے زمانے کے علوم و فنون سیکھے او رنئے علمی معیارات کی روشنی میں،قرآن مجید کی تعلیمات پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔اس گروہ نے،بالعموم،الفاظ کے معنی اور سیاق و سباق کی دلالتوں کو نظر انداز کیا اور اپنے پسندیدہ معنی ہی قرآن مجید سے ثابت کرنے کی سعی کی۔ان کی انھی من مانی تاویلات کے رد عمل میں،اس اصول پر اصرار بڑھا کہ قرآن مجید کی تفسیر، روایات کی روشنی میں کی جائے۔اس کے نتیجے میں،اگرچہ دین اور تفسیر کے مباحث میں درآنے والی کلامی موشگافیوں سے جان چھڑا لی گئی اور دین کے طالب علم کا رخ اس ذخیرے کی طرف پھیر دیا گیا،جسے ہم احادیث رسول کے نام سے جانتے ہیں،لیکن یہ طریقہ بھی،درحقیقت،براہ راست قرآن مجید سمجھنے کا طریقہ نہیں تھا۔غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس طریقے میں بھی،اصلاً،خارج سے حاصل ہونے والا مدعا ہی قرآن مجید میں داخل کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔اگرچہ،قول رسول پر مدار ہونے کی وجہ سے، یہ لوگ بہت ساری گمراہیوں سے محفوظ ہو گئے،لیکن فہم قرآن کے معاملے میں ان کی خدمات زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں۔قرآن مجید کی شرح کرنے والا تیسرا گروہ،اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے،مفسرین کے گروہ میں شامل ہونے کا مستحق نہیں ہے ،کیونکہ کسی بھی سطح پر،قرآن مجید کے مدعا کی توضیح اس کے پیش نظر نہیں ہوتی،بلکہ یہ لوگ روح قرآنی کے نام پر،غلط یا صحیح،خود ساختہ خیالات قرآن مجید کی کسی آیت کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تفسیر اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی میں کی گئی ہے۔پہلے دونوں گروہ قرآن کے الفاظ کی ،کچھ نہ کچھ رعایت کرتے ہیں،لیکن اس گروہ نے اپنے لیے اس طرح کی کوئی پابندی روا نہیں رکھی،بلکہ اس ضمن میں ہونے والے اعتراضات سے نمٹنے کے لیے’اعتباری تفسیر‘کی اصطلاح و ضع کی اور عام آدمی کو یہ دھوکا دینے میں کامیاب رہے کہ یہ بھی کوئی طریقۂ تفسیر ہے۔
اگر بغور جائز لیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ تینوں گروہ ،بنیادی طورپر،ایک ہی غلطی کا شکار ہیں اور وہ غلطی یہ ہے کہ یہ سب لوگ تفسیرو شرح کے ان فطری اصولوں کو،اصلاً ،ملحوظ نہیں رکھتے،جنھیں کسی بھی کتاب کے بارے میں ہر شارح ملحوظ رکھتا ہے۔چنانچہ مفسرین کا چوتھا گروہ،ایسے ہی اصحاب خیر او رارباب بصیرت پر مشتمل ہے،جس نے یہ اصول ملحوظ رکھنے کی کوشش کی اور قرآن کے طالب علم کی ،صحیح خطوط کی طرف،رہنمائی کی۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ امت مسلمہ کی تاریخ کا کوئی دور اس طرح کے ارباب بصیرت سے خالی نہیں رہا۔
قرآن مجید کا معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔یہ پروردگار دو جہاں کا کلام ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے ابدی فلاح کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے۔معاشرے کی تعمیر پیش نظر ہو،سیاسی نظام کی تشکیل مقصود ہو،معیشت کے نظام کی اصلاح ہدف بنے، نفس کا تزکیہ نصب العین ہو،اخروی نجات کامعاملہ ہو یا دنیا کی زندگی میں راہ صواب کا،ان سارے اجتماعی اور انفرادی امور میں ،قرآن مجید کو اصل اور بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔یہ اپنے زمانے کے اسلوب نگارش کا بہترین نمونہ ہے۔ اسلوب بیان کی بلندی کا عالم یہ ہے کہ چیلنج کے باوجود کوئی عرب اس کی نظیر نہیں لا سکا۔یہ صرف حلتوں اور حرمتو ں کا بیان اور حدودوتعزیرات کی دستاویز نہیں اور نہ اسے محض سبق آموز تاریخی واقعات کا مجموعہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ خدا وند ارض و سما کا وہ فرمان ہے،جس میں روح کے سکون ،دل کی شفا،ذہن کی بالیدگی اور نظر کی بلندی کا سامان ہے۔اس میں آسمان کی بادشاہی زمین پر اتار لانے کا ڈھنگ سکھایا گیا ہے۔یہ انسانوں کو حیات ابدی کا پیغام دیتا اور انھیں اسے پا لینے کے قابل بناتا ہے۔اس میں عام زندگی کے آداب سے لے کر فلسفے کے اعلیٰ ترین مباحث تک ہر چیز زیر بحث آئی ہے۔ یہ فلسفۂ دین کا بیان ،شریعت کا صحیفہ اور تزکیۂ نفس کے سلوک کی تفصیل ہے۔آدم علیہ السلام سے لے کر مسیح علیہ السلام تک،آسمانوں کے بادشاہ کی طرف سے،اہل زمین کی رہنمائی کے لیے،جو کچھ نازل کیا گیا ہے،اس کتاب نے اسے کامل شکل میں اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔اب اسے ہی اس زمین پر پرورد گار کائنات کی ہدایت کے تنہا ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔اس اعتبار سے ،یہ تمام آسمانی مذاہب کی ناسخ اور ان میں موجود حق و ناحق کی کسوٹی ہے۔اس معاملے میں اسے حاکم مطلق کی حیثیت حاصل ہے۔اس سے پہلے جو کچھ بیان ہوا اور اس کے بعد جو کچھ کہا گیا ہے اور کہاجائے گا، وہ اگر اس کے مطابق نہیں ہے تو قبول نہیں کیا جائے گا۔یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کے حق و ناحق کو جاننے کا معیار بھی یہی ہے۔
یہ اس قادر مطلق ہستی کا کلام ہے، جو ہر عیب سے بالا ہے۔لاریب، اس نے انسانوں ہی کی ایک زبان کو،ابلاغ ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے،لیکن اپنی بات ایسے الفاظ میں کہہ دی ہے،جوریب و گمان سے پاک،واضح اور قطعی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں ۔قدرت کاملہ نے اپنے کمال کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ الفاظ کے انتخاب،جملے اور اس کے سیاق و سباق،سورہ اور اس کے درو بست اور قرآن اور اس کی ترتیب میں واضح قرائن رکھ دیے ہیں۔اس طرح اس کتاب کی اپنے مفہوم پر دلالت،ہر لحاظ سے،قطعی ہو جاتی ہے اور ہم اپنے پروردگار کی بات،پورے یقین کے ساتھ،بے کم و کاست جان سکتے ہیں۔
قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت،اس کے مراحل،آپ کے غلبے ا ور نفاذ دین کی مکمل سرگزشت ہے۔اللہ کے رسول کی تکذیب کے بعد قوم پر سزاے موت نافذ کر دی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے رسول تھے۔ان کے مکذبین پرموت کا کوڑا کس طرح برسایا گیا اور اس میں کیا حالات پیش آئے ،یہ کتاب انھیں مرحلہ وار بیان کرتی ہے۔چنانچہ،اس کتاب کا ہر باب، اس جد و جہد کے ساتھ ساتھ چلتا نظر آتا ہے،جو رسول اللہ کی قیادت میں کی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاج دعوت،غلبۂ رسول کے اصول و مبادی اور پیغمبر اسلام کی سرگزشت کا ماخذ بن جاتی ہے۔
چنانچہ،قرآن مجید کی اہمیت اور مقام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تفسیر ان اصولوں کے مطابق کی جائے جو ابتدائی زمانے ہی سے اہل حق نے طے کر دیے ہیں۔ ’’تفسیر فاضلی‘‘ پر تبصرہ کرنے سے پہلے، آیندہ سطور میں ہم انھی اصولوں کی تفصیل کریں گے۔
پہلی اور بنیادی چیزاس کتاب کی زبان ہے۔کسی بھی کتاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے پڑھنے والا،اس کی زبان سے اچھی طرح واقف ہو۔کسی کتاب کی زبان جاننے سے مراد کیا ہے؟ کیا یہ کہ یہ کتاب اگر انگریزی میں ہے تو آدمی انگریزی جانتا ہو اور اردو میں ہے تو اردو سے واقف ہو؟ یہ محض ایک ابتدائی بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ آدمی اس کتاب کے زمانۂ تحریر کے اسالیب اور محاورے سے،کماحقہ، آگاہ ہو۔کتاب ادبی اسلوب میں لکھی گئی ہے تو اس دور کے ادبی معیارات پر اس کی نظر ہو۔
قرآن مجیدعربی زبان میں نازل ہوا ہے او رعربی زبان بھی وہ جو قریش بولتے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہی تھی اور دوسری یہ کہ آپ کے زمانے میں قریش کی زبان،یعنی ان کے اسلوب او رمحاورے کوعرب میں وہی حیثیت حاصل تھی جو ہمارے ہاں ایک زمانے میں دلی کی زبان کو حاصل رہی۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں عربی زبان کا تمام اعلیٰ ادب خاص قریش کے محاورے اور اسلوب میں لکھا گیا ہے۔چنانچہ،ہم دیکھتے ہیں کہ اقصاے عرب کے شاعر،مکہ کے سالانہ میلے عکاظ میں شریک ہوتے اوردادوتحسین پانے کے لیے،قریش کے نقادوں کے سامنے اپنا کلام پیش کرتے تھے۔
اس زبان کی بعض منفرد خصوصیات ہیں۔ یہ خصوصیات الفاظ کے معنی،تشبیہ و استعارے کے رنگ، اسلوب بیان،ترکیب،محاورے اور روزمرہ سے متعلق ہیں۔زمانے کی گردش ان میں بہت کچھ تبدیلیاں لا چکی ہے۔یہ نطق اعرابی ،پرانے برگد کی طرح،صدیوں کے اتار چڑھاؤ دیکھ چکا ہے۔برگد وہی ہے،لیکن مرور زمانہ نے اس کا ظاہری ڈھانچا بالکل بدل ڈالا ہے۔لہٰذا،ایک مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض عربی زبان ہی نہ جانتا ہو،بلکہ خاص اس زمانے کی زبان پر اس کی گہری نظر ہو،وہ اس کے حسن وقبح سے واقف ہو،اسالیب بیان اور محاوروں پر اس کی گرفت ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اعلیٰ ادبی ذوق سے بہرہ یاب کیا ہو۔قرآن مجید جہاں، اپنے مضامین کے اعتبار سے،ایک انتہائی اعلیٰ کتاب ہے، اسی طرح یہ اپنے اسلوب بیان کے پہلو سے بھی،لاریب ،ایک ادبی شاہکار ہے۔
قرآن مجید جس زمانے،جس ماحول اور جس معاشرے میں نازل ہوا،اس میں بسنے والے لوگ ہی اس کے پہلے مخاطب تھے۔چنانچہ اس نے اپنے ماحول میں موجود مذہبی اور سماجی خرابیوں کو اپنا موضوع بنایا۔غلط عقائد او ربے بنیاد مذہبی رسوم پر کڑی تنقیدیں کیں۔پہلے سے موجو د مذہبی گروہوں،بنی اسماعیل اور یہود و نصاریٰ،کے بگاڑ کی نشان دہی کی۔اصل الہامی تعلیمات سے انحراف پر انھیں متنبہ کیا۔وہ چیزیں ازسر نو زندہ کیں،جنھیں یہ فراموش کر چکے تھے اور وہ نئے سرے سے استوار کیں،جنھیں یہ جان بوجھ کر پس پشت ڈالے ہوئے تھے۔چنانچہ،یہ تینوں گروہ ،ان کی تاریخ،عقائد اور رسوم ور واج،قرآن مجید میں جگہ جگہ زیر بحث آتے ہیں،لیکن قرآن مجید کسی شے کو تفصیل کے ساتھ بیان کر کے،اس پر تنقید کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کرتا،بلکہ حسب ضرورت صرف غلط یا صحیح پہلو کی نشان دہی کر دیتا ہے۔ چنانچہ،اس ضمن کی تما م آیات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مفسران گروہوں کی دینی او رسماجی تاریخ سے پوری طرح واقف ہو۔چونکہ،الہامی کتب میں اس کا سب سے بڑا ماخذ بائیبل ہے،لہٰذا اس پر گہری نظر نہایت ضروری ہے۔
بائیبل ایک دوسرے پہلو سے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔قرآن مجید،اسی دین کا علم بردار ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت مسیح علیہ السلام تک،ہر پیغمبرپر نازل ہوا۔بنیادی عقائد میں کوئی فرق نہیں۔حرمت و حلت،نکاح و طلاق او رعبادات وغیرہ کے باب میں کچھ فرق ہے،لیکن یہ فرق جزیات ومظاہر کا فرق ہے،یا پھر وہ چیزیں مختلف ہیں، جو بدعات اور انحرافات کے دروازے سے ان ادیان میں داخل ہو گئی ہیں۔ بنظر غائرجائزہ لیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اصل الاصول اور بنیاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دین کا جو شجر طیبہ حضرت آدم علیہ السلام نے لگایا تھا،تمام انبیا نے اسی کی آب یاری کی ہے۔ غرض یہ کہ تمام الہامی کتب،فلسفہ اور شریعت،دونوں پہلووں سے،فی الجملہ مشترک اساسات پر قائم ہیں۔چنانچہ ان پر نظر،آدمی کو قرآن مجید کے وہ پہلو سمجھنے کے قابل بناتی ہے،جو خدائی کلام کا خاصہ ہیں اور اس طرح دین کی حکمتوں اورمصالح کے بہت سے دوسرے پہلو بھی انسان پر واضح ہوتے ہیں۔
ہمارا دین،ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملا ہے۔آپ کا ہروہ قول اور عمل ،جس کا تعلق دین سے تھا،ہمارے لیے دین قرار پایا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ہمارے لیے دو چیزیں چھوڑ کر گئے ہیں۔
پہلی چیز قرآن مجید ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انھی الفاظ میں نازل ہوا۔ وحی کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتب کتاب کی صورت دی اور یہ بے کم و کاست صحابہ سے ہم تک نسل درنسل منتقل ہوا ہے۔
دوسری چیز آپ کا وہ عمل ہے جو آپ نے خود بھی کیا،اپنی امت میں باقاعدہ جاری فرمایا اور اس زمانے سے اب تک، دینی عمل کی حیثیت سے جاری ہے، اصطلاح میں اسے سنت کہا جاتا ہے۔دین کا ماخذ ہونے کے پہلو سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔قرآن مجید ہی کی طرح یہ بھی دین کی محکم اساس ہے اور جس طرح قرآن مجید کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت میں کوئی شبہ نہیں،اسی طرح اس کے دین ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔عبادات،شعائر ملت اور دستور امارت وغیر ہ میں ہمیں دین کی روشنی اسی سے حاصل ہوتی ہے۔دین کے وہ احکام سمجھنے کے لیے،جن کی شرح خود قرآن نے نہیں کی،سنت ہی کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے۔ایسی چیزوں کا مفہوم،اگر کوئی شخص اپنے خیال سے متعین کرنے کی کوشش کرے گاتو وہ نہ صرف یہ کہ قرآن مجید ہی کو نہیں سمجھ سکے گا،بلکہ اسے دین کی حقیقی معرفت سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔
دین کے بنیادی ماخذ یہی دو ہیں، ان کے علاوہ تیسری چیز روایات ہیں۔روایات سے مراد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال اور احوال ہیں،جنھیں آپ کو دیکھنے اور سننے والوں نے، اپنے مشاہدے کی بنیاد پر، بیان کیا ہے۔تلاش اور تحقیق کے بعد ہمارے محدثین نے یہ روایات اپنی کتابوں میں جمع کر دی ہیں اور ان کا غث و ثمین پرکھنے میں بڑی کد و کاوش سے کام لیا ہے۔ اگرچہ، علما ان کے کام میں کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں اور’زیادہ صحیح‘ کے انتخاب کا کام بھی جاری ہے،لیکن اس سے اس ذخیرے کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔یہ ذخیرہ،بے شک،دین کے معارف اور ربانی حکمتوں کا بے بہا خزانہ ہے۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ روایات دین کے جاننے کا ذریعہ ضرور ہیں،لیکن ان کی حیثیت مستقل بالذات ذریعے کی نہیں ہے۔جو دین قرآن مجید اور سنت ثابتہ میں بیان ہوا ہے،یہ اسی کی شرح کرتی اور اسی کی فروع بیان کرتی ہیں۔
ایسی روایات تعداد میں بہت کم ہیں،جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی شرح روایت ہوئی ہو۔البتہ ایسی روایات،حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں،کافی تعداد میں موجود ہیں،جو کسی آیت کی شان نزول،یعنی اس کے نازل ہونے کا موقع یا سبب بیان کرتی ہوں۔عام طور پر محدثین ان روایات کی صحت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔پھر قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ان کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مدعا واضح کرنے کے لیے، کلام کے دروبست میں، ضروری اشارات رکھ دیے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کا متن سمجھنے کے لیے،احادیث سے کم ہی مدد ملتی ہے۔البتہ، صحیح احادیث قرآن مجید کی ہدایات اور احکام کے اہم پہلووں کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس حوالے سے کوئی مفسران سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔
قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت کے مطابق،جستہ جستہ نازل ہوتا رہا۔پھر اپنی زندگی ہی میں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے،نزولی کے بجائے،ایک دوسری ترتیب پر جمع کردیا۔عام خیال یہ ہے کہ یہ ترتیب،محض ایک اتفاقی امر ہے۔اصلاً،یہ کتاب شریعت کے متفرق احکام اور نصیحت کے متعدد اقوال کا مجموعہ ہے او ریہ چیزیں،محض ظاہری مناسبت کے اعتبار سے جمع کر دی گئی ہیں۔ جبکہ، خود قرآن مجید او رسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے،اس کے برعکس،دوسری حقیقت سامنے آتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ ہی کی رہنمائی میں اس طرح ترتیب دیا گیاہے۔ جب بھی کوئی سورہ یا آیات نازل ہوتیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاتبین وحی کو بلا لیتے۔انھیں قرآن مجید کا متعلقہ حصہ لکھاتے اور بتاتے کہ یہ آیات کس سورہ کا حصہ ہیں اور یہ سورہ کس سورہ کے بعد لکھی جائے گی۔ اس طرح، درحقیقت وہ وعدہ پورا ہوا، جو اللہ تعالیٰ نے ’ان علینا جمعہ وقرآنہ‘ ۱کے الفاظ میں کیا تھا۔ اگر قرآن مجید کی آیتیں اور سورتیں حسب نزول جمع کی جاتیں تو یہ ضروری تھاکہ ہر آیت کا پس منظربھی پوری حفاظت کے ساتھ اس امت کو منتقل کیا جاتا۔اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔تمام آیات و سور ایک معنوی مناسبت سے مرتب کر دی گئی ہیں۔اب قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس کی ہر سورہ ایک مکمل وحدت ہے۔اس کا ایک مرکزی مضمون ہے اور اس کی آیات،ایک وحدت کے اجزا کی طرح،آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔اسی طرح،ہر سورہ،اپنی اگلی اور پچھلی سورہ کے ساتھ،پوری طرح مربوط ہے۔پورا قرآن مجید سات ابواب میں منقسم ہے۔ہر باب مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ہر باب کا ایک مرکزی مضمون اور متعین غایت ہے،جس سے اس باب کی سورتیں اورمباحث جڑے ہوئے ہیں۔
قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے،جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا ہر جملہ ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔یہ چیز اس کے معجزانہ پہلو کی حیثیت سے بیان کی جاتی ہے، دراں حالیکہ، بنظرتامل،دیکھا جائے تو اسے خوبی قرار نہیں دیا جا سکتا۔قرآن مجید ہی نہیں،کسی بھی کتاب کا جملہ سیاق و سباق سے کاٹ دیں تو اس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے۔چنانچہ وہ لوگ جو اپنی مرضی کے معنی قرآن مجید سے اخذ کرنا چاہتے ہیں،انھیں کلام الٰہی سے منسوب،یہ معجزبیانی بڑا سہارا دیتی ہے، اوراس بنیاد پر،اپنی رائے کے مطابق آیات سے،خود ساختہ معنی نکالنا ان کے لیے مشکل نہیں رہتا۔ لیکن یہ کسی ایسی کتاب کی خصوصیت نہیں ہو سکتی جو ایک واضح پیغام، متعین شریعت اور اعلیٰ حقائق کی حامل ہو اور اس کے مخاطب وہ عرب ہوں جو سادہ اور واضح اسلوب نگارش پسند کرتے اور ایسا ادب تخلیق کرتے ہوں جو فطرت کے بالکل قریب ہو اور جس میں مصنوعی خیال آرائی،دوراز کار تشبیہ و استعارے اور محض لفاظی کو کوئی دخل نہ ہو۔
لاریب،قرآن مجید کی ہر آیت ایک واضح اور متعین پیغام کی حامل ہے۔چنانچہ،اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔پوری سورہ کا مضمون، اس باب کا مرکزی خیال،جس میں یہ سورہ رکھی گئی ہے اور زیر بحث آیت کی سابق ولاحق آیات جب تک ایک مفہوم کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو جائیں،کسی مفہوم کو قرآن مجید کا مفہوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چنانچہ،یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کے معنی طے کرتے ہوئے،ایک ہی تاویل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی آیت،ظاہر الفاظ میں، ایک سے زیادہ معنی کا احتمال رکھتی ہو تو نظم کلام، سیاق وسباق اور نظائر کلام کی روشنی میں ،اس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک متعین کر دیا جائے۔ظاہر الفاظ کے تمام احتمال بیان کر دینا قرآن مجید کی کوئی خدمت نہیں ہے۔یوں، اس کے ایک واضح کتاب ہونے کی نفی ہوتی ہے اور دوسرے ہم عام قاری کوسمجھنے میں مدد دینے کے بجائے مزید الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مدعا کو پوری طرح سمجھا دینے کے لیے،ایک ہی مضمون کو مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے۔کہیں ایک بات مجمل انداز میں کہی ہے اور کہیں مفصل انداز میں؛ کہیں بات کا ایک پہلو نمایاں کیا ہے اور کہیں دوسرا؛کہیں دلائل انسان کے ماحول سے دیے ہیں اور کہیں اس کے اپنے نفس سے؛ کہیں دل کی دنیا کو مخاطب بنایا ہے اور کہیں عقل کو آواز دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مختلف اسالیب اختیار کیے، تاکہ قرآن مجید کی بات، اس کے مخاطب پر، ہر طرح سے واضح ہو جائے۔ یہ چیز آج بھی قرآن مجیدکے طالب علم کے لیے بڑی مفید ہے۔وہ اگر ایک جگہ سے بات نہیں سمجھا تو دوسرے مقام سے سمجھ سکتا ہے اور اگر ایک جگہ سے بات کا کوئی پہلو واضح نہیں ہو سکا تو دوسری جگہ سے واضح ہو جائے گا۔چنانچہ ایک مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی شرح کرتے ہوئے وہ مقامات سامنے رکھے، جہاں زیر نظر مضمون دہرایا گیا ہے،تاکہ قرآن مجید کے صحیح مدعا تک پہنچنے میں اسے کوئی دقت نہ ہو۔
قرآن مجید کا مفسر ہو یا عام قاری،ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کا مدعا سمجھنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرے اور اپنا پسندیدہ نقطۂ نظر اس کے منہ میں ڈالنا،اس کے پیش نظر نہ ہو۔کوئی شخص قرآن مجید سے ہدایت کا طالب ہو تو یہ کتاب اس کے لیے سراپا ہدایت ہے اور اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اپنے ہی مزعومات پر قائم رہے اور قرآن،محض، اس کے لیے دلائل فراہم کرنے کا ذریعہ ہو، تو یہی قرآن گمراہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پھر قرآن مجید سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ اس کوبر تر کلام مانا جائے۔یہ اللہ کا کلام ہے۔اس میں ابدی فلاح کا پیغام ہے۔یہ انسان کی رشد و ہدایت کا سامان ہے۔اس نے صدیوں تک ایک عظیم امت کی رہنمائی کی ہے اور اس کے پیغام نے اس زمین پر اس ریاست کو وجود بخشاجس سے بڑھ کر کسی عادلانہ ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔اس میں دی گئی شریعت اسے عبادت کا ڈھنگ سکھاتی،اس کے خاندان کے استحکام کا ذریعہ بنتی،اس کے معاشرے کی اصلاح کرتی اور اس کی ریاست کو سراپا خیر بنا دیتی ہے۔اس کا طرز استدلال اس کے ذہن کو مطمئن اور اس کے دل کو منور کر دیتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ تزکیۂ نفس کا ذریعہ ہے۔خاکی وجود ہو یا اس کے اندر موجود روح،عقل و فہم کی صلاحیت ہو یا دوسرے انسانوں سے متعلق ہونے والے اخلاقی رویے، قرآن مجید میں ان سب کی پاکیزگی،اصلاح اور بالیدگی کاسامان موجود ہے۔غرض یہ کہ اپنے منتہاو مقصود کے اعتبار سے،یہ نفوس انسانی کے تزکیے کا ذریعہ ہے اور جو نفوس اس کتاب کی روشنی میں اپنا تزکیہ کر لیں گے،ان کے لیے خدا وند عالم نے جنت تیار کر رکھی ہے،اس طرح یہ وہ کتاب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کے لیے ابدی جنت کا پیغام ہے۔قرآن کا جو طالب علم اس کتاب کی اس اہمیت کو سمجھتا ہے، وہی اس قلب اور اس ذہن کے ساتھ اس کتاب کی طرف بڑھے گا،جس کے بعد یہ کتاب اس کے لیے اپنی ہدایت کے دروازے کھول دیتی ہے۔
جو لوگ تفسیر سے متعلق علوم و فنون سیکھ لیں اور قرآن مجید پر براہ راست غور کی استعداد پیدا کر لیں،ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے براہ راست مطالعے کی کتاب بنائیں۔ایسے لوگوں کا مفسرین کی آرا پر بے سوچے سمجھے انحصار،فکری جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ چیز امت کی علمی ترقی کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی طرح،اس کے برعکس،بعض لوگ ضروری صلاحیت بہم پہنچائے بغیرقرآن مجید کے مفسربن بیٹھتے ہیں۔ عربی زبان سے معمولی سی شناسائی،چند تفسیروں کا مطالعہ اور کچھ لکھ بول لینے کی صلاحیت کے ساتھ،وہ شرح قرآن کی مسند پر براجمان ہوجاتے ہیں۔یہ لوگ،درحقیقت،تفسیر قرآن کے نام پر گمراہی کے علم بردار ہوتے ہیں۔ان کے لیے یہ توممکن نہیں ہوتا کہ یہ قرآن مجید کے بحر عمیق کی غواصی کر سکیں۔البتہ،حاطب اللیل کی طرح ، جو کچھ ہاتھ آئے اسے لے لیتے ہیں اور پھر اسے اپنی خود ساختہ فکر کی دکان چمکانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعے کے لیے ان علما کو اپنا رہنما بنائیں، جنھوں نے اس کے لیے ضروری صلاحیت پیدا کی ہے۔اگر ان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو انھی سے اس کا جواب لیں،کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو انھی کی مدد سے سمجھیں،اگر کوئی نیا نکتہ یا خیال سمجھ میں آئے تو اس کی تحقیق بھی انھی سے کریں۔جس طرح علما کا یہ طریقہ غلط ہے کہ وہ قرآن مجید پر براہ راست غور نہ کریں،اسی طرح ایک عامی کا یہ طریقہ بھی صحیح نہیں کہ علم کے بغیر علما کی مسند پر جا بیٹھے۔
ایک مفسر کا خداسے تعلق دو پہلووں سے نمایاں ہوتا ہے۔ایک پہلو سے،ایک فرماں بردار بندے کی طرح،وہ اپنے آپ کو ان احکام کے مطابق ڈھالتا چلا جاتا ہے،جن کا فہم اسے خدا کے کلام سے حاصل ہوتا ہے۔وہ ایک عزم صمیم کے ساتھ قرآن مجید کی طرف بڑھتا ہے اور اس کی طرف سے جو تقاضا بھی سامنے آئے،غایت خلوص کے ساتھ،اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔فہم قرآن کے لیے یہ چیز ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ قرآن مجید کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنی ہدایت کا دروازہ صرف اس کے لیے کھولتا ہے،جو اپنے آپ کو قرآن کے مطابق بدل لینے کا ارادہ کر کے اس کا مطالعہ کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دین میں اس عالم کا کوئی مقام نہیں،جس کا عمل اس کے علم کے مطابق نہ ہو۔
دوسرا پہلو قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے،پیش آنے والی مشکلات سے متعلق ہے۔جب قرآن مجید کا کوئی مقام سمجھ میں نہ آرہا ہو،اس وقت بندۂ مومن کا سب سے بڑا رہنما اس کا پروردگار ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مواقع پر خدا کے آگے اپنا سرڈال دے اور اس سے مشکل میں مددکا خواست گار ہو۔فہم قرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ مدد گار تہجد کی نماز ہے۔تہجد کے بارے میں خود قرآن مجید میں یہ بات کہی گئی کہ یہ تلاوت قرآن کا بہترین موقع ہے۔اس سے قرآن مجید نہ صرف یہ کہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے،بلکہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ بنتا اور دل کے نہاں خانے میں اپنی جگہ بناتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید کا تدبر کے ساتھ مطالعہ کرتے ہوئے،تہجد کا التزام اپنے اندر متعدد فوائد رکھتا ہے اور ایک مفسر کے لیے اس کا التزام انتہائی ضروری ہے۔
تفسیر قرآن سے متعلق چند اصولی مباحث کے، اجمالاً ذکر کے بعد، اب ہم زیر نظر کتاب ’’تفسیر فاضلی‘‘کا مختصر جائزہ لیں گے۔اوپر ہم نے تفسیر کرنے کے مختلف طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے، ’’تعبیری تفسیر‘‘ کے طریقے کا ذکر کیا تھا۔’’تفسیر فاضلی‘‘ اسی طریقے پر لکھی گئی تفسیر ہے۔ہم نے اس ضمن میں یہ بھی بیان کیا تھا کہ یہ ،علمی دنیا میں ،درحقیت،کوئی طریقۂ تفسیر ہی نہیں ہے۔تفسیر سے مراد یہ ہے کہ ہم کلام کا مدعا اور معنی واضح کریں۔ یعنی،اس کلام میں موجود لغوی،نحوی اور ادبی قرائن کے دائرے میں رہتے ہوئے،اس کا مفہوم متعین کریں اورسیاق و سباق اور نظم کی دلالتوں کو نظر انداز کیے بغیرکلام میں موجود حقائق تک رسائی حاصل کریں۔کسی کلام کے الفاظ کو نظر انداز کر کے کوئی بڑی سے بڑی بات بھی ،اگر اس سے منسوب کر دی جائے گی تو یہ ہرگز اس کلام کی تفسیر یا شرح نہیں ہو گی۔مضمون آفرینی کے لیے،محض ادنیٰ سی مناسبت کی بنیاد پر،کسی آیت قرآنی کو سرنامہ بنا لینا اور یہ تاثر دینا کہ یہ اس آیت کا مفہوم ہے،درحقیقت قرآن سازی ہے۔ظاہر ہے، اس سے بڑی کوئی جسارت نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کی آیت’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘ کے تحت’’تفسیر فاضلی‘‘ میں لکھا ہے:
’’رب العالمین کی بے حد مہربانی اور بے حد رحم کے اعتراف کے ساتھ،جزا کو اسی کی طرف سے سمجھنا بندے کا حق ہے۔اللہ کا نبی عبدہ اور اس کا حال عبودیت ہوتا ہے۔عبودیت یہ ہے کہ عادتاً کوئی کام نہ ہو،اس لیے ہو کہ اللہ کے محبوب نے ویسے کیا ہے ۔اللہ کی مدد اس لیے چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں شاہدین میں لکھ لے،ہمیں تزکیہ عطا ہو اور فلاح عطا ہو۔‘‘ ( ا /۲)
اب اسی آیت کی ایک اور تفصیل دیکھیے:
’’عبادت کے اصلی معنی،عربی لغت میں ،انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی اور فروتنی کے اظہار کے ہیں۔لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع وخشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہو گیا ہے، جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے۔پھر اطاعت کا مفہوم اس لفظ کے لوازم میں داخل ہو گیا ہے،کیونکہ یہ بات،بالبداہت،غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے،زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے...
اللہ تعالیٰ کا جو حق بندوں پر ہے،وہ بھی اس آیت میں بیان ہو گیا ہے اور بندے کا جو حق اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا ہے،وہ بھی اس میں بیان ہو گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حق بندے پر یہ ہے کہ بندہ تنہا اسی کی بندگی کرے اور اسی سے التجا کرے۔بندے کا حق اس نے اپنے اوپر یہ بتایا ہے کہ وہ اس پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے۔آیت کے پہلے ٹکڑے میں بندہ اس حق کا اقرار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اس کے اوپر ہے اور اس کے دوسرے ٹکڑے میں،اس حق کے لیے درخواست پیش کرتا ہے،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر بندے کابتایا ہے،لیکن پیش کرنے کا انداز انتہائی مودبانہ ہے۔بندہ اپنے کسی حق کی طرف کوئی اشارہ کرنے کے بجائے صرف اپنی احتیاج،اپنے اعتماد اور اپنی تمنا کا اظہارکر دیتا ہے،کیونکہ بندے کے شایان شان یہی ہے... چنانچہ اس سورہ سے متعلق جو مشہور حدیث قدسی ہے،اس میں خاص اس ٹکڑے سے متعلق،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ جب بندہ ’ایاک نعبد وایاک نستعین‘ کے الفاظ پڑھتا ہے،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑا میرے اور میریبندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ دیا جو بندے نے مانگا۔
’’ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘کے الفاظ عام ہیں،اس وجہ سے یہ طلب مدد،خاص عبادت کے معاملے میں بھی ہو سکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی...
اس جملہ میں مفعول کی تقدیم نے حصر کا مضمون پیدا کردیا ہے یعنی عبادت بھی صرف خدا ہی کی اور استعانت بھی تنہا اسی سے۔اس حصر نے شرک کے تمام علائق کا یک قلم خاتمہ کر دیا،کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندہ کے پاس نہ کسی غیر اللہ کو کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے مانگنے کی گنجایش رہی۔‘‘
اس آیۂ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے،تین چیزوں کی وضاحت کی جانی چاہیے۔پہلی چیز یہ کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے،دوسری یہ کہ اس سورہ میں اس کا موقع کیا ہے اور تیسری یہ کہ اس سے متکلم کا منشا کیا ہے۔پہلی چیز کی وضاحت میں آیت کی لغت، دوسری کی وضاحت میں سیاق وسباق اور اسلوب بیان اور تیسری کی وضاحت میں آیت کی دلالتوں اور اطلاقات کی تفصیل کی جاتی ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ آیت کے الفاظ،سیاق و سباق،اسلوب بیان،نظم سورہ اور قواعد زبان کی بنیاد پر بیان کیا جائے۔
اس اصولی توضیح کے بعد جب ہم دونوں تفسیروں کا جائزہ لیتے ہیں،تو بات بآسانی واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی تفسیر اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔اس میں’’عبادت‘‘کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے،اس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ مصنف کا خود ساختہ مفہوم ہے اور اس کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے، اس کا بھی اس استدلال سے کوئی تعلق نہیں،جس کی طرف،ہم نے اوپر کے پیراگراف میں،بالاجمال اشارہ کیا ہے۔اسی طرح’’استعانت‘‘ کی غرض و غایت بھی مصنف نے اپنے جی سے متعین کی ہے۔اس کا بھی سورہ یا اس کے الفاظ سے،کسی طرح کا کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
درحقیقت،تفسیر کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصنف نے جب آیت کو پڑھاتو اسے کچھ اچھی باتیں سوجھ گئیں اوراس نے انھیں سپرد قلم کر دیا ہے اور قرآن کی زبان ،سورہ کا اسلوب اور طرز استدلال اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
آخر میں اب ہم اس اصول کا تجزیہ کریں گے،جس کے مطابق یہ تفسیر لکھی گئی ہے۔یہ اصول،اس تفسیر کے دیباچے میں،ان الفاظ میں لکھا گیا ہے:
’’(تفسیر) لغت اور گرامر کے تابع نہ ہو کہ حادث علم سے علم الٰہی کو جانچنا بے بنیاد ہے۔‘‘
یہ اصول تہ درتہ مغالطوں پر مبنی ہے۔پہلی غلطی یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کو علم الٰہی کا بیان قرار دیا گیا ہے۔یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ قرآن مجیدنے اپنے بارے میں یہ بات نہیں کہی، جبکہ وہ اپنا تعارف خود کراتاہے۔چنانچہ،قرآن مجید کے بارے میں اس طرح کی بات کہنا،صریحاً حدود سے تجاوز ہے۔دوسری غلطی اس میں یہ ہے کہ اس کے انسانوں کی ہدایت کے لیے لکھی گئی کتاب ہونے کے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ جو کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہے،وہ لازماً انسانوں کے کسی کلام کو سمجھنے اور جاننے کے ذرائع کے مطابق ہو گی۔تیسری غلطی اس میں یہ ہے کہ اس کے ایک زبان کے پیرہن میں ہونے کے پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ایک زبان میں انسانوں کو مخاطب بنایا ہے تو اس کے لیے پیرایۂ بیان بھی وہی اختیار کیا ہے،جسے اس کے مخاطب جانتے،بولتے اور سمجھتے تھے۔ چوتھی غلطی اس میں یہ ہے کہ زبان کو لغت اور گرامر کے تابع سمجھ لیا گیا ہے،دراں حالیکہ یہ زبان کو سمجھنے کے ذرائع ہیں اور جو چیز کسی شے کے حصول کا ذریعہ ہو، وہ اس شے کے تابع ہوتی ہے،اس پر فائق نہیں ہوتی۔چنانچہ،ہر زبان کے ماہرین لغت و نحو زبان کا تتبع کرتے اور اپنی لغت و نحو میں طے شدہ آرا میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔پانچویں غلطی اس میں یہ ہے کہ عربی زبان کو قدیم(یعنی جو ہمیشہ سے ہے)اور اس کی لغت ا ور گرامر کو حادث(یعنی جو ایک وقت پر وجود میں آئی)قرار دیا گیا ہے۔حالانکہ جس دلیل کی بنیاد پر زبان کے ان فنون کو حادث قرار دیا جا رہا ہے،اسی دلیل سے خود زبان بھی حادث قرار پاتی ہے۔چھٹی غلطی اس میں یہ ہے کہ لغت اور نحو کی روشنی میں قرآن کے مفہوم کو سمجھنے کی سعی کو علم الٰہی کا جانچنا قرار دیا گیا ہے،جبکہ’’سمجھنے‘‘ اور’’جانچنے‘‘ کے عمل میں کوئی قدرمشترک نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو قرآن کے دائرے میں نہ رہنا چاہتا ہو،اس کے لیے دو راستے ہیں۔ایک راستہ یہ ہے کہ وہ زبان کے قواعد و ضوابط کی شکل بگاڑ کر ان سے چھٹکارا حاصل کر لے اور دوسراراستہ یہ کہ قواعد و ضوابط کی پابندیوں ہی کو ماننے سے انکار کر دے۔یہ دونوں طریقے ناجائز ہیں۔اس تفسیر میں یہ دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ہمارے اس تجزیے کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ یہ کوئی تفسیر نہیں ہے۔اس مضمون میں،اس کے لیے تفسیر کا لفظ محض ابلاغ مدعا کی سہولت کے لیے اختیار کیا گیا۔
[۱۹۹۵ء]
_________
۱’’ ہمارے ذمے ہے، اس کا جمع کرنا اور اسے سنانا۔‘‘(القیامہ ۷۵: ۱۷)
___________________