HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سورۂ یوسف میں ’ تاویل الاحادیث‘ اور ’قد من دیر‘ کے معنی

مولانا وصی مظہر صاحب ندوی، ان ارباب علم میں سے ایک ہیں، جو دین پر غور و فکر اور تحقیق و اجتہاد کی ہر کاوش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خود بھی اس سلسلے میں، گاہے گاہے، قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں، سورۂ یوسف کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کے دو تفسیری مباحث سے انھوں نے اختلاف کیا ہے اور بڑی خوبی کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر مدلل طریقے سے واضح کیا ہے۔

قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی جس صلاحیت کا ذکر ’تاویل الاحادیث‘ کے الفاظ میں ہوا ہے، عام طورپر، مفسرین اس سے خوابوں کی تعبیر کی صلاحیت ہی مراد لیتے ہیں۔ ’’تدبر قرآن‘‘میں، معلوم ہوتا ہے، مولانا اصلاحی نے بھی اسی مفہوم کو ترجیح دی ہے۔ مولانا ندوی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ الفاظ، جس سیاق و سباق میں آئے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سے مراد سیاسی معاملات کا فہم ہے۔

یہ بات تو صحیح ہے کہ ’تاویل الاحادیث‘ کے الفاظ عام ہیں اور ان کے معنی ’’خوابوں کی تعبیر‘‘ کر دینا محل نظر ہے، لیکن ان سے محض ’’سیاسی معاملات کا فہم‘‘ مراد لینے کے حق میں، مولانا کے دلائل بھی ایسے قوی نہیں ہیں کہ حتمی طور پر یہی معنی طے کر دیے جائیں۔ درحقیقت، یہ الفاظ جس مفہوم پر دلالت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو باتوں کی گہرائی میں اترنے کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا تھا۔

تاویل‘ کا لفظ عربی زبان میں بات کی اصل حقیقت یا اس کے اصل مصداق کے معنی میں آتا ہے۔ خود قرآن مجید میں اس کے کئی شواہد موجود ہیں، مثلاً سورۂ کہف ہی میں دیکھ لیجیے:

سَأُنَبِّءُکَ بِتَأْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْْہِ صَبْرًا.(۱۸: ۷۸)
’’اب میں تمھیں اس چیز کی حقیقت بتاؤں گا جس پر تم صبر نہ کر سکے۔‘‘

البتہ، یہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ سورۂ یوسف میں آپ کی اس صلاحیت کے اظہار کا ذکر خوابوں کی تعبیر ہی کے حوالے سے ہوا ہے۔ پور ی سورہ پڑھ جائیے، آپ کی اس صلاحیت کے ساتھ، نہ کہیں سیاسی بصیرت کا معاملہ بیان ہوا ہے اور نہ کسی دوسرے عنوان سے اس صلاحیت کے ظہور کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے تمام مفسرین پیش نظر رکھتے اور ان الفاظ سے ’’خوابوں کی تعبیر‘‘ کے معنی مراد لیتے ہیں۔

مولانا ندوی نے اپنا نقطۂ نظر موکد کرنے کے لیے سورہ کی آیت ۱۰۱کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس آیت میں قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اظہار تشکر کا تذکرہ کیا ہے، جس میں آپ نے اقتدار کے حصول اور اپنی تاویل احادیث کی صلاحیت کا ذکر کیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے آیت ۲۱اور آیت ۶سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے یہ خصوصی اہتمام صرف اس لیے کیا تھا کہ آپ اپنے فرائض نبوت، کماحقہ، سرانجام دے سکیں۔’ ’ تدبر قرآن‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی آیت ۶کے تحت لکھتے ہیں:

’’... رؤیا، چونکہ علوم نبوت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور رؤیا میں حقائق، مجاز کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، جن کو سمجھنا ایک ذہنی مناسبت کا مقتضی ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ حضرات انبیا علیہم السلام کو تعبیررؤیا کا ایک خاص ذوق اور ایک خاص علم بھی عطا فرماتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب محسوس فرمالیا کہ اس رؤیا میں حضرت یوسف کے لیے نبوت کی بشارت ہے تو ساتھ ہی ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اب حضرت یوسف علیہ السلام کو تعبیر رؤیا کاعلم بھی عطا ہو گا، تاکہ رؤیا کی شکل میں جو حقائق ا ن پروارد ہوں، ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر وہ منشاے خدا وندی کی تعمیل کر سکیں۔‘‘(۴ / ۱۹۲)

دوسرا نقطۂ نظر، انھوں نے، اسی سورہ کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ گریبان سے آخر تک پھٹ گیا تھا اور وہیں گر گیا تھا، جہاں زلیخا نے اسے پیچھے سے پکڑ کر آپ کو روکنے کی کوشش کی تھی، جب بھاگتے ہوئے دروازے پر آقا سامنے آیا تو آپ کے جسم پر کرتہ نہیں تھا۔ اس بحث میں مولانا ندوی نے جو دلائل دیے ہیں، ان میں ایک حد تک وزن ہے، لیکن انھیں اتنا واضح اور قطعی قرار دینا مشکل ہے کہ حتمی فیصلہ ممکن ہو۔ ایک مشکل یہ ہے کہ قرآن مجید میں واقعہ بڑے ہی ایجاز سے بیان ہوا ہے اور اس میں داستان کے ضروری حصے ہی بتائے گئے ہیں اور پھر تعیین حقیقت میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ تورات سے بھی اس معاملے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی، بلکہ اس کا بیان دوسرے بہت سے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی قرآن مجید سے مختلف ہے۔ اگر صورت معاملہ، واقعتا وہی رہی ہو، جو مولانا نے بیان کی ہے اور پھر قرآن مجید نے اس میں موجود قباحت کی وجہ سے اسے بیان کرنے سے گریز کیا ہو تو ہمیں بھی اس کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔

[۱۹۹۴ء]

___________________

B