’یومنون بالغیب‘ (البقرہ ۲: ۳) کے معنی کی تعیین میں اہل تفسیر نے دو آرا قائم کی ہیں۔ کچھ مفسرین کے نزدیک ’بالغیب‘، ’یومنون ‘ کا مفعول ہے اور بعض کی رائے میں یہ اس فعل کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔
جو اہل تفسیر ’بالغیب‘ کو مفعول قرار دیتے ہیں، انھیں ’الغیب‘ کا مصداق طے کرنے میں مشکلات پیش آئی ہیں۔ چنانچہ، ان کے ہاں، اس کے بارے میں بہت قیل وقال ہے، جس کا اندازہ ابن کثیر کی تفسیر سے بخوبی ہو جاتا ہے:
اما الغیب المراد ھا ھنا. فقد اختلفت عبارات السلف فیہ، کلھا صحیحۃ، ترجع الی الجمیع مراد.
قال ابو جعفر الرازی، عن الربیع بن انس، عن ابی عالیہ فی قولہ تعالٰی: ’یومنون بالغیب‘ قال:’یومنون باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ ورسلہ والیوم الآخر و جنتہ ونارہ ولقاۂ ویومنون بالحیٰوہ بعد الموت و بالبعث‘ فہذا غیب کلّہ وکذا قال قتادہ بن دعامہ.
وقال الذی عن ابی مالک و عن ابی صالح عن ابن عباس و عن مرہ الھمدانی عن ابن مسعود و عن ناس من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اما الغیب فما غاب عن العباد من امر الجنۃ وامر النار وما ذکر فی القرآن وقال محمد بن اسحاق عن محمد بن ابی محمد عن عکرمۃ او عن سعید بن جبیر ’بالغیب‘: قال: ماجاء منہ. یعنی من اللّٰہ تعالیٰ.
وقال سفیان الثوری عن عاصم عن زرقال: الغیب القرآن.
وقال عطاء بن ابی رباح: من آمن باللّٰہ فقد آمن بالغیب.
وقال اسماعیل بن ابی خالد ’یومنون بالغیب‘ قال: بغیب الاسلام.
وقال زید بن اسلم ’الذین یومنون بالغیب‘ قال: بالقدر فکل ھذہ متقاربۃ فی معنی واحد لان جمیع ہذہ المذکورات من الغیب الذی یجب بہ الایمان. (ابن کثیر۱/ ۴۱)
’’جہاں تک ’الغیب‘ کا تعلق ہے توسلف نے اس کی مختلف تعبیریں کی ہیں۔ یہ تمام تعبیریں صحیح ہیں، اس لیے کہ یہاں یہ سبھی مراد ہیں۔
ابو جعفر رازی، ربیع بن انس سے روایت کرتے ہیں: ابو عالیہ ’یومنون بالغیب‘ کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے تھے کہ وہ ایمان لاتے ہیں اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت پر، جنت اور دوزخ پر، اللہ سے ملاقات اور موت کے بعد کی زندگی اور اٹھائے جانے پر۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ غیب میں شامل ہے۔ قتادہ بن دعامہ بھی اس آیت کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔
سدی نے ابو مالک اور ابوصالح سے اور ان دونوں نے ابن عباس اور مرہ ہمدانی سے اور یہ دونوں ابن مسعود اور کچھ صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’الغیب‘ سے مراد جنت دوزخ کے معاملات اور قرآن میں مذکور دوسری وہ تمام چیزیں ہیں جنھیں نگاہیں دیکھ نہیں سکتیں۔ محمد بن اسحاق، محمد بن ابو محمد سے اور وہ عکرمہ یا سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ’ایمان بالغیب‘ سے مراد ہراس چیز پر ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
سفیان ثوری عاصم سے اور وہ زر سے روایت کرتے ہیں کہ ’الغیب‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔
عطا بن ابورباح کہتے ہیں: جو اللہ پر ایمان لایا، وہی غیب پر ایمان لایا۔
اسماعیل بن ابو خالد کہتے ہیں ’یومنون بالغیب‘ سے مراد ان امورپر ایمان ہے جو اسلام میں غیب کی حیثیت سے بیان ہوئے ہیں۔
زید بن اسلم کے نزدیک ’یومنون بالغیب‘ سے مراد تقدیر پر ایمان ہے۔ یہ تمام چیزیں ہم معنی ہیں، کیونکہ غیب کے حوالے سے بیان کی گئی ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔‘‘
’الغیب‘ کے بارے میں ان تفسیری اقوال میں ایمان کے جتنے اجزا بیان کیے گئے ہیں یہ سب، جیسا کہ ابن کثیر نے بھی لکھا ہے، ایک دوسرے سے متعلق ہیں، لیکن ان اقوال سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ لغت و نحو اور کلام کے سیاق و سباق میں وہ کیا قرائن ہیں، جن کی بنیاد پر اس جملے میں ’الغیب‘ کا اطلاق ان سب اجزا پر بے خوف تردید کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف وہ مفسرین بھی جو’بالغیب‘ کو حال لیتے ہیں، اس جملے کے کسی ایک مفہوم پر متفق نہیں۔ ابن کثیر نے لکھا ہے:
قال بعضھم: یومنون بالغیب کما یومنون بالشہادہ: ولیسوا کما قال اللّٰہ تعالٰی عن المنافقین:
واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلوا الی شیاطینہم قالوآ انا معکم انما نحن مستہزون.
وقال:
اذا جاء ک المنافقون قالوا نشہد انک لرسول اللّٰہ واللّٰہ یعلم انک لرسولہ واللّٰہ یشہدان المنافقین لکاذبون.
فعلی ہذا یکون قولہ بالغیب حالا ای فی حال کونہم غیبا عن الناس.
’’کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ (پوری بات یہ ہے): ’یومنون بالغیب کما یومنون بالشھادۃ‘ (یہ چھپے میں بھی اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جیسے سامنے)۔ مطلب یہ کہ یہ مسلمان ان منافقوں کی طرح نہیں ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تمھارے ہی ساتھ ہیں، وہ تو ہم محض مذاق کر رہے تھے۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا:
’’جب یہ منافق تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو۔ اور اللہ گواہ ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں۔‘‘
اس صورت میں ’بالغیب‘ حال ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ غیب میں ہوتے ہوئے، یعنی اہل ایمان کے سامنے ہی نہیں، ان کی عدم موجودگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (ایضاً)
زمخشری نے ’یومنون بالغیب‘ کے مفہوم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:
و یجوز لا یکون بالغیب صلۃ للایمان و ان یکون فی موضع الحال: ای یومنون غائبین عن المؤمن بہ و حقیقتہ ملتبسین بالغیب، کقولہ تعالٰی ’الذین یخشون ربہم بالغیب، ولیعلم انی لم اخنہ بالغیب‘. (الکشاف ۱/ ۱۲۷)
’’یہ بھی درست ہے کہ بالغیب ایمان کا صلہ (مفعول) نہ ہو اور یہ کہ یہ حال کی جگہ پر ہو۔ یعنی جس پر ان کا ایمان ہے، اگرچہ یہ اس سے غائب ہیں، اس کے باوجود اسے مان رہے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ پردۂ غیاب میں ہوتے ہوئے ایمان لانے والے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کی ان آیات میں بھی ’بالغیب‘ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ ’الذین یخشون...‘، ’’وہ جو اپنے رب سے غیب میں رہتے ہوئے ڈرتے ہیں‘‘ اور ’لیعلم...‘، ’ ’تاکہ وہ جان لے کہ میں نے غیاب میں ہوتے اس سے خیانت نہیں کی۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی ’الغیب‘ کو اسی مفہوم میں لیا ہے۔ چنانچہ، وہ لکھتے ہیں:
’’بالغیب کی ’ب‘ کے بارے میں دورائیں ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ اس کو ’ظرف‘ کے معنی میں لیا جائے، یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ اس معنی کی متعدد مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثلاً ’الذین یخشون ربہم بالغیب وہم من الساعۃ مشفقون‘۔ (الانبیاء ۲۱: ۴۹) ’’جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، غیب میں ہوتے ہوئے اور قیامت سے ڈرتے ہیں‘‘۔ ’انما تنذر الذین یخشون ربہم بالغیب و اقاموا الصلٰوۃ‘۔ (فاطر۳۵: ۱۸) ’’تم انھی کو ڈرا سکتے ہو جو غیب میں رہتے ہوئے اپنے رب سے ڈریں اور نماز کا اہتمام کریں‘‘۔ اس صورت میں ’یومنون‘ عام رہے گا اور وہ تمام چیزیں اس کے تحت آ سکیں گی جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایمان لانے کے لیے وہ اس بات کے منتظر نہیں ہیں کہ تمام حقائق کا آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں، بلکہ وہ مشاہدے کے بغیر محض عقل و فطرت کی شہادت اور پیغمبر کی دعوت کی بنا پر ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں...‘‘ (تدبر قرآن ۱ / ۹۰)
اہل تفسیر کے یہ تمام اقوال پیش نظررکھے جائیں تو اس آیت کے تین مختلف مطالب سامنے آتے ہیں:
۱۔ جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔
۲۔ جو چھپے میں بھی ایمان رکھتے ہیں۔
۳۔ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم ان تین میں سے کسی ایک کی ترجیح کے دلائل پیش کریں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ’الغیب‘ اور حرف ’ب‘ کے بارے میں لغوی اور نحوی مباحث پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
لفظ ’غیب‘ کی ساخت پر بحث کرتے ہوئے، زمخشری نے اپنی تفسیر ’’کشاف‘‘ میں لکھا ہے:
إما تسمیۃ بالمصدر من قولک غاب الشئ غیباً... واما أن یکون فیعلا فخفف کما قیل قیل و اصلہ قیل.(الکشاف ۱/ ۱۲۸)
’’یا تو یہ ’غاب الشی غیباً‘ کے مصدر سے بطور ’اسم‘ استعمال کیا جا رہا ہے ...یا یہ اسی مادے سے ’فیعل‘ کے وزن پر بنا ہوا اسم صفت ہے، لیکن تلفظ میں کچھ تخفیف ہو گئی ہے۔ اس کی ایک مثال لفظ ’قیل‘ ہے، دراں حالیکہ، اصلاً، یہ بھی ’قیل‘ ہی ہے۔‘‘
عام اہل لغت کی رائے یہی ہے کہ یہ مصدر ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ، جب ہم کتب لغت کا تتبع کرتے ہیں تو ’’اقرب الموارد‘‘، ’’المنجد‘‘، ابن اثیر کی ’’النھایہ‘‘، امام راغب کی’’المفردات‘‘، ’’مقاییس اللغہ‘‘ اور’’قاموس المحیط‘‘ وغیرہ سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں تک ’الغیب‘ کے معنی کا تعلق ہے تو اس میں اصل ماخذ کی حیثیت اہل زبان کے استعمالات کو حاصل ہے۔ یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتاہے، جن میں سے بیش تر کی مثالیں قرآن مجید سے مل جاتی ہیں:
۱۔ جو نظروں سے اوجھل ہے۔
عَالِمُ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ. (الانعام ۶: ۷۳)
’’کھلے اور چھپے کو جاننے والا۔‘‘
۲۔ نہ معلوم حقائق۔
ذٰلِکَ مِنْ أَنبَآءِ الْغَیْْبِ نُوْحِیْہِ إِلَیْکَ.(آل عمران ۳ : ۴۴)
’’یہ غیب کی باتیں ہیں جو ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں۔‘‘
۳۔ پیش آمدہ حالات۔
وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ.(الاعراف۷ : ۱۸۸)
’’اور اگر میں غیب سے واقف ہوتا تو اپنے لیے بہت سا خیر جمع کر لیتا۔‘‘
۴۔ راز۔
حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْب.(النساء: ۴: ۳۴)
’’رازوں کی حفاظت کرنے والی۔‘‘
۵۔ غیاب۔
اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْْبِ.(الانبیاء ۲۱: ۴۹)
’’وہ جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں۔‘‘
ان کے علاوہ یہ شک، بکری کے پردے کی چربی اور چوپایوں کی بکھیوں ۱کے معنی میں بھی آتا ہے۔
حرف ’ب‘ فعلوں کے ساتھ بطور صلہ اور اسما کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ زیر بحث فعل ’آمن‘ کے ساتھ ’ب‘ بطور صلہ آئے تو فعل کے معنی میں ایک خاص تبدیلی آ جاتی ہے۔ زمخشری نے لکھا ہے:
یقال آمنتہ و آمننیہ غیری. ثم یقال آمنہ اذا صدقہ وحقیقتہ آمنہ التکذیب والمخالفۃ واما تعدیتہ بالباء فلتضمینہ معنی اقر واعترف. (الکشاف ا/ ۱۲۶)
’’کہا جاتا ہے: ’آمنتہ‘، ’’میں نے اسے امن دیا۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’آمننیہ غیری‘، ’’ایک اور آدمی نے مجھے اس سے بچایا۔‘‘ اسی طرح یہ فعل تصدیق کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’آمنہ‘، ’’اس نے اس کی تصدیق کی۔‘‘ اور، فی الحقیقت، اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے اس کو اپنی تکذیب و مخالفت سے مامون رکھا۔ اور اگر اسی فعل کو ’ب‘ سے متعدی بنایا جائے تو اقرار و اعتراف کا مفہوم متضمن ہوتاہے۔‘‘
یہ حرف اسما کے ساتھ متعدد مفاہیم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زمخشری نے اپنی کتاب ’’المفصل‘‘ میں لکھا ہے:
والباء معناھا الصاق کقولک: بہ داء ای التصق بہ وخامرہ ومررت بہ وارد علی الاتساع والمعنی مروری بموضع یقرب منہ.
الصاق
’’اور ’ب‘ الصاق، یعنی چپکا دینے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مثلاًجب تم کہتے ہو: ’بہ داء‘ تو مراد یہ ہوتی ہے کہ بیماری اس سے چپکی اور اس کے وجود میں داخل ہو گئی۔ رہا تمھارا قول: ’مررت بہ‘ تو یہ بھی، درحقیقت، اسی مفہوم کے وسیع دائرے میں داخل ہے۔ یعنی، تم اس جملے میں ایسے مقام سے اپنے گزرنے کا ذکر کر رہے ہو جو اس کے بالکل قریب واقع تھا۔‘‘
ید خلہا معنی الاستعانۃ فی نحو کتبت بالقلم ونجرت بالقدوم و بتوفیق اللّٰہ حججت و بفلان اصبت الغرض.
استعانت
’’اسی طرح ’ب‘ ان اشیا کے ساتھ بھی آتی ہے جو کسی عمل کی انجام دہی یا غرض کو پانے کا ذریعہ بنی ہوں۔ مثلاً جب تم کہتے ہو: ’کتبت بالقلم‘، ’’میں نے قلم کے ساتھ لکھا۔‘‘ ’نجرت بالقدوم‘ ،’’میں نے تیشے کے ساتھ چھیلا‘‘، ’بتوفیق اللّٰہ حججت‘، ’’میں نے اللہ کی توفیق سے حج کیا۔‘‘ اور ’بفلان اصبت الغرض‘، ’’میں نے فلاں کے ذریعے سے مقصود کو پالیا‘‘ وغیرہ۔ تو یہ استعانت، یعنی مدد لینے یا ذریعہ بتانے کے مفہوم کی مثالیں ہیں۔‘‘
ومعنی المصاحبۃ فی نحو خرج بعشیرتہ ودخل علیہ بثیاب السفر واشتری الفرس بسرجہ ولجامہ.
مصاحبت
’خرج بعشیرتہ‘، ’’وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ نکلا‘‘، ’دخل علیہ بثیاب السفر‘، ’’وہ سفر کے لباس میں اس کے پاس آیا‘‘ اور ’اشتری الفرس بسرجہ ولجامہ‘، ’’اس نے کاٹھی اور لگام سمیت گھوڑا خریدا‘‘ وغیرہ میں ’ب‘ مصاحبت یعنی کسی چیز کے کسی چیز کے ساتھ ہونے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے استعمال ہوئی ہے۔‘‘
وتکون مزیدۃ فی المنصوب کقولہ تعالٰی: ’ولا تلقوا بایدیکم الٰی التہلکۃ‘ وقولہ: ’بایکم المفتون‘ وقولہ: ’سودالمھاجر لا یقرآن بالسور‘ و فی المرفوع کقولہ تعالٰی:
’کفی باللّٰہ شھیداً‘ وبجسبک زید وقول إمرأ القیس: الاھل اتاھا والحوادث جمہ بأن إمرأ القیس بن تملک بیقرا. (المفصل ۲۸۵)
زائدہ
’’اسی طرح ’ب‘ زائدہ یعنی بغیر کسی مفہوم کے بھی استعمال ہوتی ہے، خواہ اسم منصوب ہو یا مرفوع۔ منصوب میں ’ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ‘، ’’اور اپنے ہاتھ ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ اور ’بایکم المفتون‘، ’’تم میں سے کون فتنے میں ہے‘‘ قرآن مجید سے اس کی مثالیں ہیں۔ اور اسی کی مثال یہ مصرع بھی ہے: ’سود المہاجر لایقرأن بالسور‘ ،’’کالی آنکھوں والی ہیں کڑے جمع نہیں کرتیں۔‘‘ قرآن مجید کی آیت: ’کفی باللّٰہ شھیدا‘،’ ’اللہ ہی گواہی کے لیے کافی ہے‘‘ مرفوع میں زائدہ کی نظیر ہے۔ اور ’بحسبک زید‘، ’’زید تیرے لیے کافی ہے‘‘ کا جملہ اور امراء القیس کا یہ شعر: الاھل...،’’سنو، کیا وہ قبیلے میں نہیں آیا، جبکہ حوادث کا اژدہام ہے ‘‘ بھی مرفوع ہی میں باے زائدہ ہی کی مثالیں ہیں۔‘‘
’ب‘ کے مفاہیم پر مشہورنحوی ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’مغنی اللبیب‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔ زمخشری کے نزدیک حرف ’ب‘ الصاق، استعانت اور مصاحبت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ ابن ہشام نے اس کے چودہ مفہوم بیان کیے ہیں۔ اس کے نزدیک یہ ان تین کے علاوہ تعدیہ، سبب، ظرف، بدل، مقابلہ، مجاوزت، استعلا، تبعیض، قسم، توکید اور غایت کے مفاہیم بھی رکھتا ہے۔ (ا/ ۱۰۶) زمخشری نے زائدہ کے ذیل میں جو مثالیں دی ہیں ابن ہشام ان کی توجیہ توکید کے مفہوم سے کرتا ہے۔
’غیب‘ اور ’ب‘ کے بارے میں اہم لغوی اور نحوی نکات پر ایک نظر ڈال لینے کے بعد، اب ہم وہ قرائن و شواہد زیر بحث لائیں گے جو اس آیت کے کسی ایک مفہوم کو ترجیح دینے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔
نحوی اعتبار سے ’یومنون بالغیب‘ کی تحلیل دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک یہ کہ ’بالغیب‘ فعل کا صلہ ہے اور دوسری یہ کہ یہ حال ہے۔
’بالغیب‘ کو فعل کا صلہ ماننے کے بعد جب ہم قرآن مجید سے اس کے دوسرے نظائرتلاش کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ غیب پر ایمان کا ذکر پورے قرآن مجید میں سوائے اس مقام کے کہیں بھی موجود نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’الغیب‘ اللہ تعالیٰ یا دوسرے امورغیب کے لیے قرآن و حدیث کی کوئی اصطلاح بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے مفسرین اس کے مصداق کو متعین کرنے میں قرآن وحدیث سے کوئی شاہد پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔پھر اگر لغت کا تتبع کیا جائے تو یہاں اس صورت میں صرف ایک ہی مفہوم مراد ہو سکتا ہے اور وہ ہے: ’ہر وہ چیز جو نظروں سے اوجھل ہو‘۔ چنانچہ ’’اقرب الموارد‘‘ کے مصنف نے غیب کے مذکورہ معنی لکھنے کے بعد قرآن مجید کا یہی ٹکڑا بطور شاہد پیش کیا ہے۔ اسی طرح ’’کشاف‘‘ اور ’’تفسیرکبیر‘‘ میں بھی اس نحوی تحلیل کے ساتھ یہی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر ایمان سے متعلق تمام امور غیب یعنی خدا، رسول، کتابوں، آخرت، جنت و دوزخ اور تقدیر وغیرہ سے کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں یہ سارے اجزا مراد لینا ممکن نہیں، اس لیے کہ اگلی ہی آیات میں ان میں سے بیش تر کا ذکر موجود ہے اور بعض کو مرادلینے کی یہاں کوئی افادیت نہیں۔ اس تفسیر کو درست ماننے کی صورت میں ایک تو کلام میں تکرار کا عیب تسلیم کرنا پڑے گا اور دوسرے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بات غیر واضح الفاظ میں کہی گئی ہے، جس کی وجہ سے قیاس آرائیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مختصر یہ کہ تین وجوہ کی بنیاد پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ تفسیرکسی طرح بھی موزوں نہیں: ایک یہ کہ ’الغیب‘ کالفظ مطلوبہ مفہوم کے لیے قرآن و حدیث کی کوئی اصطلاح نہیں، دوسری یہ کہ لغوی اعتبار سے یہ ایک وسیع الاطلاق لفظ ہے اور یہ موقع کلام اس طرح کے مبہم لفظ کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں اور تیسری یہ کہ سیاق وسباق کے حوالے سے اگر اسے ایمانیات تک محدود بھی کر دیا جائے تو کلام میں تکرار اور بے محل اطناب کا عیب تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
حال کی صورت میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا،مفسرین اس کے دو مفہوم بیان کرتے ہیں۔
۱۔ جو چھپے میں بھی ایمان رکھتے ہیں۔
۲۔ جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔
معنی کوئی بھی ہوں، اس صورت میں ’ب‘ اگر زمخشری کی تقسیم کو مانا جائے تو ’مصاحبت۲‘ اور اگر ابن ہشام کی تصریحات کو ملحوظ رکھیں تو’ ظرف‘ کے مفہوم میں ہے۔ ہم ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس لیے کہ معنی میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ البتہ، ان میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے کے لیے یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ غیب سے کیا مراد ہے۔ ’’غیب عن الناس‘ ،’’لوگوں سے غیب‘‘ مراد لینے کی صورت میں یہ آیت منافقین کے تقابل میں ہو گی۔ اور ’غیب عن المؤمن بہ‘ ،’’جس پر ان کا ایمان ہے اس سے غیب‘‘ کی صورت میں تقابل یہود سے ہو گا۔ اس لیے کہ یہ یہودہی ہیں جو اپنے انبیا سے اللہ کو دکھانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ سورہ مدنی ہے۔اس کے مخاطب یہود ہیں۔اور یہ تخاطب اپنے ثبوت کے لیے قرائن کا محتاج نہیں۔ سورہ میں متعدد مرتبہ ’یابنی اسرائیل‘ کے صریح الفاظ میں یہود کو خطاب کیا گیا ہے۔سورہ کا زیر بحث حصہ تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کے آغاز میں درحدیث دیگراں کے اسلوب میں یہود کو ان مطلوب خصوصیات کی یاد دہانی کی جا رہی ہے، جو ایمان کی شرط ۳اور اس کے ثمرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لیے کہ یہ یہود ہیں جو آخری کتاب کے بارے میں کی گئی پیش گوئیوں کو فراموش کر چکے ہیں اور اللہ کے تمام نبیوں اور تمام کتابوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ یہود ہی ہیں، جو نماز ضائع کر چکے اور صدقات کی اصل روح گم کر چکے ہیں۔ یہ یہودی ہیں جو اپنے مذہبی پندار میں تقویٰ کی اس نعمت سے محروم ہو چکے، جو دین کی اصل روح ہے اور آخرت کے خوف سے نچنت ہیں، اس لیے کہ ان کے نزدیک، یہودی ہونا ہی خدا کے چہیتے ہونے کی دلیل ہے اور یہی وہ قوم ہے جو اپنے انبیا سے ’ارنا اللّٰہ جھرۃ۴‘ کا مطالبہ کر چکی ہے۔ اس پس منظر میں اگر ہم زیرنظر حصے کا ترجمہ کریں تو کچھ یوں ہو گا:
’’یہ الف لام میم ہے۔یہ وہی کتاب ہے جس کا وعدہ ان اہلِ کتاب سے کیا گیا ۔یہ ہدایت بنی ہے ان اہلِ تقویٰ کے لیے جو بن دیکھے اپنے خالق کو مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کر رہے ہیں اور ان کے لیے بھی جو اس کو بھی مان رہے ہیں جو تیری طرف نازل کیا گیا اور اس کو بھی جو اس سے پہلے اتارا گیااور یہ آخرت پر بھی، فی الواقع، یقین رکھتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہوں گے۔‘‘
ان دلائل کی روشنی میں، ہم بے خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت کا وہی مفہوم درست ہو سکتا ہے جو ہم نے اپنے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ پھر یہ کہ اگر اس مفہوم کے اعتبار سے قرآن مجید کے نظائر کا تتبع کیا جائے تو متعدد مثالیں مل جاتی ہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’بالغیب‘ قرآن مجید میں ہر جگہ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً دیکھیے، سورۂ فاطر میں ہے:
إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالغَیْْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ. (۳۵ : ۱۸)
’’تم تو بس انھی کو ڈرا سکتے ہو جو غیب میں رہتے، اپنے رب سے ڈرتے اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔‘‘
اور سورۂ یٰسین میں ہے:
إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْْبِ. (۳۶ :۱۱)
’’تم تو بس انھی کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت پر دھیان دیں اور غیب میں رہتے رحمٰن سے ڈریں۔‘‘
[۱۹۹۲ء]
_________
۱چوپائے کے پیٹ کے دونوں پہلو، جو اگر پیٹ خالی ہو، تو اندر کی طرف دھنسے ہوتے ہیں۔
۲یہ اصطلاح زمخشری کی نحو کی کتاب ’’ المفصل‘‘ کی تقسیم کے مطابق ہے۔ لیکن اگر ’’ کشاف‘‘ میں اس کے الفاظ ملحوظ رکھیں تو مصاحبت کے بجائے ملابست کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔
۳یہ تعبیر اس مقام کی مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘کی روشنی میں اختیار کی گئی ہے۔ اصل حقیت آگے درج ترجمے سے واضح ہے۔
۴ہمیں خدا کو اعلانیہ دکھا دو۔‘‘ (النساء ۴ : ۱۵۳)
___________________