HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

روزہ o

لغت کے اعتبار سے ’الصوم‘ کا مطلب ’رک جانا‘ ہے اور شریعت کی رو سے اس سے مراد عبادت ہے جس میں آدمی اللہ کی خوشنودی کے لیے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے اور پینے اور ازدواجی تعلق سے رکا رہتا ہے۔ رمضان کے روزے دو ہجری کو شعبان کے مہینے میں فرض ہوئے تھے۔

امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے روزے اسی طرح فرض کیے ہیں، جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے تھے۔ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۳) 
’’اے اہلِ ایمان،تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں،جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے،تاکہ تم تقویٰ اختیار کر سکو۔‘‘
اب ہم ان احادیث پر ایک نگاہ ڈالیں گے، جن میں روزوں کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں:
الصیام جنۃ من النار لجنۃ احدکم من القتال. (احمد بن حنبل)
’’روزہ جہنم سے تمھاری اسی طرح ڈھال ہے، جس طرح تمھاری یہ ڈھال تمھیں قتال میں بچاتی ہے۔‘‘
من صام یوما فی سبیل اللّٰہ عزوجل زحزح اللّٰہ وجھہ عن النار بذلک الیوم سبعین خریفا.(متفق علیہ) 
’’جس نے اللہ کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ، اس ایک دن کی وجہ سے، اس کا چہرہ آگ سے ستر سال کے لیے دور کر دیں گے۔‘‘
ان للصائم عند فطرہ دعوۃ لاترد. (ابن ماجہ، حاکم)
’’لاریب، افطاری کا وقت ایک ایسا موقع ہے، جب روزے دار کی دعا ٹالی نہیں جاتی۔‘‘
إن فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان، یدخل منہ الصائمون یوم القیامۃ لا یدخل منہ احد غیرہم، یقال این الصائمون، فیقومون لایدخل منہ احد غیرہم، فاذا دخلوا اغلق فلم یدخل منہ احد. (متفق علیہ)
’’جنت کا ایک دروازہ ہے، جسے’ ریان‘ (سیرابی) کا نام دیا گیا ہے۔ روز قیامت اس دروازے سے جنت میں صرف وہی جائیں گے جو دنیا میں روزے رکھا کرتے تھے اور اس دروازے سے کوئی دوسرا جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔ آواز دی جائے گی: روزہ دار کہاں ہیں، وہ کھڑے ہوں گے اور وہی اس دروازے میں داخل ہوں گے۔ پھر جب وہ اندر چلے جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔‘‘

 

پسندیدہ روزے

۱۔ غیرحاجی کے لیے نوذی الحجہ کا روزہ۔

۲۔ محرم کی نو اور دس کے روزے۔

۳۔ شوال کے چھ روزے۔

۴۔ شعبان کے نصف اول میں روزے رکھنا۔

۵۔ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزے رکھنا۔

۶۔ ایام بیض کے روزے (ہر قمری ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ)۔

 

نا پسندیدہ روزے

۱۔حاجی کے لیے نو ذی الحجہ کا روزہ۔

۲۔ صرف جمعے کے دن کا روزہ(روزوں کے تسلسل میں اگر جمعہ آ جائے تو حرج نہیں)۔

۳۔ صرف ہفتے کے دن کا روزہ (اگر تسلسل میں ہفتہ آجائے تو حرج نہیں)۔

۴۔ شعبان کے نصف آخر میں روزے رکھنا۔

 

قطعی ناپسندیدہ روزے

۱۔ بغیر افطار کے دو دن کا مسلسل روزہ۔

۲۔ رمضان کے شک میں۳۰شعبان کا روزہ۔

۳۔ مسلسل روزے رکھنا۔

۴۔ عورت کا شوہر سے پوچھے بغیر نفل روزہ رکھنا، جبکہ وہ موجود ہو۔

 

قطعی ممنوع روزے

۱۔ عیدالفطر کا روزہ۔

۲۔ عیدالاضحی کے تین دنوں میں روزہ۔

۳۔ ایام حیض و نفاس میں روزہ۔

۴۔ ایسے مریض کا روزہ رکھنا،جس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہو۔

 

واجب روزے

قرآن و سنت کی رو سے رمضان کے روزے فرض ہیں۔قرآن مجید میں ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ.(البقرہ ۲: ۱۸۵) 
’’یہ رمضان کا مہینا ہے، جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اور جس میں ہدایت اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو بھی یہ مہینا پائے، اس کے روزے رکھے۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بنی الاسلام علی خمس: شھادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ واقامۃ الصلٰوۃ وایتاء الزکوٰۃ، حج البیت و صوم رمضان.(متفق علیہ) 
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کا اعلان کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی اقامت، زکوٰۃ کی ادائیگی، خانہ کعبہ کا حج اور رمضان کے روزے۔‘‘

 

رمضان کی فضیلت

رمضان کے مہینے میں بڑی برکتیں اور بہت سی فضیلتیں ہیں۔ کوئی دوسرا مہینا یہ شان نہیں رکھتا۔متعدد احادیث میں اس کی برکات وفضائل کا ذکرہوا ہے۔انھی میں سے چند حدیثیں درج ذیل ہیں:

الصلوٰت الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الیرمضان مکفرات لما بینھن، ان اجتنبت الکبائر. (مسلم)
’’پانچ نمازوں کے مابین، دو جمعوں کے مابین، دو رمضانوں کے مابین ہونے والے گناہوں کو روزے اور نمازیں مٹا دیتی ہیں، بشرطیکہ آدمی اس دوران میں کبیرہ گناہوں سے مجتنب رہے۔‘‘
من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ. (متفق علیہ)
’’جس نے ایمان کے تقاضے اور اپنے احتساب کی غرض سے، رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
رایت رجلا من امتی یلھث عطشا کلما ورد حوضا منع فجاء ہ، صیام رمضان فسقاہ وأرواہ. (الطبرانی)
’’میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ پیاس سے سخت بے تاب ہے۔ جب جب حوض پر آتا ہے، روک دیا جاتا ہے۔ تب اس کے پاس رمضان کے روزے آتے ہیں اور اسے پلاتے اور سیراب کر دیتے ہیں۔‘‘
اذا کان اول لیلۃ من رمضان صفدت الشیاطین ومردۃ الجان وعلقت ابواب النار فلم یفتح منہا باب وفتحت ابواب الجنۃ فلم یغلق منھا باب وینادی مناد: یا باغی الخیر اقبل، ویا باغی الشر اَقصر ، وللّٰہ عتقاء من النار وذلک کل لیلۃ. (ترمذی) 
’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے، شیطانوں اور سرکش جنوں کو زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ پھر ایک پکارنے والا آواز دیتا ہے، بھلائی کے چاہنے والے، قدم بڑھاؤ۔ پھر کہتا ہے، برائی کے چاہنے والے، رک جاؤ۔ (آگاہ رہو،) وہ لوگ جو آگ سے بچائے جائیں گے، ان کامعاملہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور ہر رات اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘

 

رمضان میں نیکی اور خوب کاری

یہ رمضان ہی کی ایک فضیلت ہے کہ اس میں ہونے والے نیکی کے کاموں اور صبرو احسان کی نوعیت کے اعمال بھی خصوصی فضیلت کے حامل ہو جاتے ہیں۔انھی میں سے چنداعمال کا ذکر یہاں بطور خاص کیا جاتا ہے۔

خیرات

آپ نے فرمایا:

افضل الصدقۃ صدقۃ فی رمضان. (ترمذی)
’’بہترین خیرات، رمضان میں کی گئی خیرات ہے۔‘‘
من فطر صائما فلہ اجرہ من غیر ان ینقص من اجر الصائم شیءًا. (احمد بن حنبل، ترمذی)
’’جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا،اسے روزے دار کا ثواب ملے گا، لیکن روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔‘‘
من فطر صائما علی طعام او شراب من حلال صلت علیہ الملائکۃ فی ساعات شھر رمضان، وصلی علیہ جبریل لیلۃ القدر. (طبرانی)
’’جو آدمی کسی روزہ دار کا روزہ حلال کھانے یا حلال مشروب سے افطار کراتا ہے، رمضان کی گھڑیوں میں فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور لیلۃ القدر میں جبریل علیہ السلام ا س کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘
و کان اجود الناس بالخیر، وکان اجود ما یکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل. (بخاری)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم، بھلائی کے کاموں میں، لوگوں میں سے سب سے بہترین تھے اور رمضان میں جو کچھ ہوتا ہے، اس میں بھی آپ سب سے بڑھ جاتے، بطور خاص، جب جبریل آپ سے ملنے آتے۔‘‘

قیام لیل (تہجد)

آپ نے فرمایا:

من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ. (متفق علیہ)
’’جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان کے تقاضے اور احتساب کی غرض سے تہجد کا اہتمام کیا۔ اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘
وکان یحی لیالی رمضان واذا کان العشر الاواخر أیقظ اھلہ وکل صغیر وکبیر یطیق الصلاۃ. (مسلم)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم، رمضان کی راتوں کو زندہ رکھتے تھے اور جب آخری عشرہ آتا تو آپ گھر والوں اور ہر اس چھوٹے بڑے کو جگاتے جو نماز پڑھ سکتاتھا۔‘‘

تلاوت قرآن مجید

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں، نہ صرف خود تلاوت قرآن مجید معمول سے بہت بڑھادیتے تھے،بلکہ جبریل علیہ السلام بھی آپ کو قرآن مجید پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ (بخاری) آپ اس مہینے میں قیام کس قدر طویل کر دیتے تھے، اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ایک رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔آپ نے نماز میں پہلے سورۂ بقرہ،پھر آل عمران اور پھر نساء پڑھی اور یہ سورتیں اس اہتمام سے پڑھیں کہ ہر اس آیت پر رکے جس میں ڈرایا گیا تھا اور ابھی دو رکعت ہی پڑھی تھیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے اور بتایا کہ نماز(فجر) کا وقت ہو گیا ہے۔ایک حدیث میں ہے:

الصیام والقیام یشفعان للعبد یوم القیامۃ. یقول الصوم، رب منعتہ الطعام والشراب فی النہار ویقول القرآن، ربِ منعتہ النوم باللیل فشفعنابہ. (احمد بن حنبل،نسائی) 
’’روزہ اور تہجد، دونوں، روز قیامت، بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے رب، میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، قرآن مجید کہے گا:اے میرے آقا، میں نے اسے رات نیند سے روکا۔ اس طرح ان کے ذریعے سے ہماری شفاعت ہو گی۔‘‘

اعتکاف

اعتکاف، درحقیقت،مسجد کے ساتھ اپنے آپ کو خاص کرلینا ہے،تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف فرمایا اور زندگی کے آخری سال تک رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

المسجد بیت کل تقی وتکفل اللّٰہ لمن کان المسجد بیتہ بالروح والرحمۃ والجواز علی الصراط الی رضوان اللّٰہ الی الجنۃ.(الطبرانی،البزاز)
’’مسجد ہر اس شخص کا گھر ہے، جسے تقویٰ کی نعمت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی اپنی رحمت اور امور غیبی سے مدد کرتے ہیں اور اس طرح مدد کرتے ہیں کہ وہ صراط مستقیم پرچلتا ہوا اللہ کی رضا یعنی جنت تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘

عمرہ

عمرہ،دراصل،بیت اللہ کی زیارت اور طواف وسعی کا نام ہے۔رمضان میں عمرے کی خصوصی حیثیت ہے۔آپ کا ارشاد ہے:

عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ معی. (متفق علیہ)
’’رمضان میں عمرے کا وہی اجر ہوگا جو میرے ساتھ حج کرنے کا ہے۔‘‘

ارکان روزہ

۱۔ نیت: نیت سے مراد،درحقیقت،کسی عمل صالح کے لیے دل کا پختہ ارادہ ہے جس میں بندۂ مومن کا مقصود اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور اس کے قرب کا حصول ہوتا ہے۔

۲۔امساک: اس سے مراد ان چیزوں سے رک جانا ہے، جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔جیسے کھانا، پینا، اور صنفی تعلق۔

۳۔ وقت: اس سے مراد دن ہے،یعنی طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک۔

 

روزے میں حضور کے عمل کے بعض اہم پہلو

۱۔افطاری میں جلدی

جلدی سے مراد سورج کے غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا ہے۔آپ کا ارشاد ہے:

لا یزال الناس بخیر. ما عجلوا الفطر. (متفق علیہ)
’’لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے، جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن لیصلی المغرب حتی یفطر ولو علی شربۃ ماء. (ترمذی) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ افطار کیے بغیر مغرب کی نماز پڑھی ہو،خواہ افطار ایک گھونٹ پانی ہی سے کیا ہو۔‘‘

۲۔ سادگی سے افطار

آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض کھجور، چھوہارہ یا پانی سے افطار کر لیا کرتے تھے۔واضح رہے کہ کھجور عرب میں کوئی اہتمام کا کھانا نہ تھا۔ انس بن مالک سے روایت ہے:

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفطر علی رطبات قبل ان یصلی فان لم تکن فعلی تمرات، فان لم تکن حسا حسوات من ماء.(ابوداؤد)
’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے، اگر میسر ہوتا تو تازہ کھجور سے، ورنہ چھوہارے سے اور یہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے گھونٹ سے روزہ کھول لیا کرتے تھے۔‘‘

۳۔افطار کے وقت کی دعا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اللّٰھم لک صمنا وعلی رزقک افطرنا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم.
’’اے اللہ، ہم نے تیرے لیے روزہ رکھا۔ تیرے ہی دیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔ اسے قبول فرما۔بے شک، توسمیع وعلیم ہے۔‘‘
ابن عمر یہ دعا کرتے تھے:
اللّٰھم انی اسالک برحمتک التی وسعت کل شیئ ان تغفر ذنوبی.
’’اے اللہ، میں تجھ سے تیری رحمت کے حوالے سے، جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔‘‘

۴۔سحری

اس سے مراد روزہ رکھنے کی نیت سے رات کے آخری حصے میں کھانا اور پینا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان فصل ما بین صیامنا و صیام اھل الکتاب اکلۃ السحر.
’’ہمارے او ر اہل کتاب کے روزے میں، فرق کرنے والی چیز،سحری کا کھانا ہے۔‘‘

۵۔سحری میں تاخیر

آپ کاارشاد ہے:

لا تزال التی بخیر ما عجلوا الفطر واخروا السحر. (احمد بن حنبل) 
’’میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی، جب تک افطاری میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔‘‘

واضح رہے کہ سحری کے وقت کا آغاز، رات کے نصف آخر سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام طلوع فجر پرہوتا ہے۔

 

روزے میں نا پسندیدہ عمل 

۱۔کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں غلو۔آپ کا ارشاد ہے:

بالغ فی الاستنثاق الا ان تکون صائما. (اصحاب السنن)
’’(وضو میں)ناک میں صفائی کرنے کے لیے پانی اچھی طرح ڈالو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔‘‘

۲۔شہوت انگیز حرکات اور خیالات۔

۳۔ ہنڈیا یا کھانا چکھنا۔

۴۔کسی ضرورت یا وضو کے علاوہ کلی کرنا۔

۵۔جسم کے کسی حصے سے اتنا خون نکالنا یا ایسا آپریشن کرانا کہ روزہ کھول لینے کا اندیشہ پیدا ہو جائے۔

 

جن چیزوں سے روزہ باطل ہو جاتا ہے

۱۔ کلی یا ناک صاف کرتے ہوئے پانی کا پیٹ تک چلے جانا۔

۲۔ خیال یا خواہش کے غلبے سے شہوت پوری ہو جانا ۔

۳۔ عمداً قے کرنا۔

۴۔ کسی جبر کے نتیجے میں کھانا،پینا یا جنسی تعلق قائم کرنا۔

۵۔ اس خیال سے کہ ابھی طلوع فجر نہیں ہوا ،کچھ کھا پی لینا،جبکہ فجر طلوع ہوچکی ہو۔

۶۔ اس گمان میں کچھ کھا پی لینا کہ سورج ڈوب گیا ہے، حالانکہ ابھی نہ ڈوبا ہو۔ان تمام صورتوں میں قضا واجب ہوگی، جبکہ، درج ذیل دو صورتوں میں کفارہ ادا کرنا ہوگا:

۱۔ اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر کے جماع کر بیٹھنا ۔ابو ہریرہ سے روایت ہے:

جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ھلکت یارسول. قال ما اَھلک؟ قال وقعت علی امراتی فی رمضان. فقال ہل تجد ما تعتق رقبۃ. قال: لا. قال: فھل تستطیع اَن تصوم شہرین متتابعین؟ قال: لا. قال: فہل تجد ما تطعم ستین مسکینا؟ قال: لا. ثم جلس فآتی النبی بعرق فیہ تمر. فقال: خذ تصدق بہذا. قال: فہل علی افقر منا؟ فضحک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی بدت نوازجہ. وقال واطعمہ اھلک. (متفق علیہ)
’’ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: میں مارا گیا، یا رسول اللہ۔ آپ نے پوچھا: کس چیز نے تجھے ہلاکت میںڈال دیا۔ اس نے کہا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے ملاقات کر بیٹھا ہوں۔ آپ نے پوچھا: تمھارے پاس غلام آزاد کرنے کی گنجایش ہے۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر بیٹھ گیا۔ (کچھ دیر میں) آپ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا۔ آپ نے اس سے کہا: یہ لے لو اور اسے خیرات کر دو۔ اس نے پوچھا: اپنے سے بھی زیادہ غریب کو دوں؟ آپ ہنس پڑے، یہاں تک کہ پچھلے دانت نظر آنے لگے اور کہا: جاؤ اور اپنے اہل کو کھلاؤ۔‘‘

۲۔ بغیر کسی صحیح عذر کے کھا پی لینا۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:

جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: اَفطرت یوما فی رمضان متعمدا. فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعتق رقبۃ، اَوصم شھرین تتابعین، او اطعم ستین مسکینًا. (مالک)
’’ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رمضان میں ایک دن عمداً روزہ کھول لیا تھا۔آپ نے فرمایا: غلام آزاد کرویا دو ما ہ کے مسلسل روزے رکھویاساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔‘‘

 

روزے دار کے لیے مباح

۱۔ مسواک کرنا(سارے دن میں کسی بھی وقت)۔

۲۔ ٹھنڈک کے لیے نہانا۔

۳۔ رات میں کھانا،پینا اور صنفی تعلق۔

۴۔ سفر اختیار کرنا(خواہ یہ اندیشہ ہی کیوں نہ ہو کہ روزہ افطار کرنا پڑے گا)۔

۵۔ جسم پرکوئی دوالگانا۔

۶۔ بچے کے لیے کھانا چبانا(بشرطیکہ پیٹ میں کچھ جانے نہ دیا جائے)۔

۷۔ خوشبو لگانا، (خوشبودار)دھونی لینا۔

 

جن چیزوں پر کوئی مواخذہ نہیں

۱۔ اپنا تھوک نگلناخواہ کتنی ہی دفعہ نگلا جائے۔

۲۔ قے یا جی متلانا (بشرطیکہ کوئی شے واپس نہ نگل لی جائے)۔

۳۔ مکھی کا منہ میں گرنا اورنگل لینا۔

۴۔ غبار اور دھوئیں کا سانس کے ذریعے سے اندر داخل ہونا۔

۵۔ حالت جنابت میں صبح ہو جانا۔

۶۔ احتلام ہونا۔

۷۔ بھول چوک میں کھا پی لینا۔

حدیث میں ہے:

من نسی وھو صائم فأکل اَو شرب فلیتم صومہ فانما اَطعمہ اللّٰہ وسقاہ. (متفق علیہ) 
’’جو بھول گیا، حالانکہ وہ روزے سے تھا اور اس نے کھاپی لیا۔ تو اسے چاہیے کہ روزہ پورا کرے۔ یہ تو اسے اللہ نے کھلا پلا دیا ہے۔‘‘

ایک دوسری حدیث ہے:

من افطر فی رمضان ناسیا فلا قضاء علیہ ولا کفارۃ. (دار قطنی)
’’جس نے بھول کر رمضان میں روزہ کھول لیا، اس پر کوئی قضا نہیں اور نہ کوئی کفارہ ہے۔‘‘

 

کفارہ

کفارہ وہ چیزہے، جو گناہ کو مٹا دے۔گناہ سے مراد وہ گناہ ہے جو شارع کے حکم سے انحراف کے نتیجے میں ہوتا ہے۔چنانچہ،جس نے شارع کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے، بالارادہ رمضان میں کچھ کھایا،پیا یا، بیوی کے پاس گیا تو اس پر واجب ہوگیا کہ وہ تین میں سے ایک کام کرے: ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے۔

 

کفارے کی حکمت

کفارے کی حکمت یہ ہے کہ شریعت کے ساتھ کھیل نہ کھیلا جا سکے اور اس کی حرمت کی پوری طرح حفاظت ہو۔اس طرح انسان کا نفس ان برائیوں کے آثار سے بالکل محفوظ ہوجاتا ہے جو بغیر کسی عذر کے ہوئی ہوں۔اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ کفارے کے ادا کرنے میں نہ مقدار میں کوئی کمی رہے، نہ کیفیت ہی میں کچھ نقص ہو، تاکہ گناہ کے ازالے کا معاملہ کماحقہ پورا ہو جائے اور نفس آلایش سے پوری طرح دھل جائے۔کفارے کے پیچھے کار فرما یہ اصول ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوا ہے:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّءَاتِ.(ہود ۱۱: ۱۱۴)
’’لاریب، نیکی کے کام برائیوں کا ازالہ کردیتے ہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

إتق اللّٰہ حیثما کنت واتبع السیءۃ الحسنۃ تمحہا خالق الناس بخلق حسن. (ترمذی)
’’تم جہاں اور جیسے کچھ بھی ہو،اللہ سے ڈرو،برائی ہو جائے تو ایسی نیکی کرو،جو اس کا ازالہ کر دے۔لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے معاملہ کرو۔‘‘]ماخوذ[

[۱۹۹۴ء]

_________

 

o یہ مضمون فقہ کی ایک کتاب سے ماخوذ ہے۔ اسے اسی حوالے سے پڑھا جائے۔

___________________

 

B