عن انس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: حبب الی النساء والطیب وجعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ.(النسائی، عشرۃ النساء، حب النساء(
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتیں اور خوشبو میری پسند بنا دی گئی ہیں ، اور نماز میں میری آنکھ کا سکون رکھ دیا گیا ہے۔‘‘
ہم نے یہ روایت سنن نسائی سے لی ہے۔ نسائی نے اسے دو طریقوں سے روایت کیا ہے اور ان دونوں میں ’جعلت‘ کی جگہ ’جعل‘ بھی روایت ہوا ہے۔ نسائی کے علاوہ اسے احمد بن حنبل نے اپنی ’’مسند‘‘ اور ابن سعد نے اپنی کتاب’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں مختلف طریقوں سے روایت کیا ہے۔ اور بعض طریقوں میں روایت کے الفاظ کافی مختلف ہیں۔ مثلاً:
عن الحسن قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما احببت من عیش الدنیا الا الطیب والنساء.(الطبقات۱/ ۳۹۸)
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خوشبو اور عورت کے علاوہ دنیوی زندگی کی کسی شے کو پسند نہیں کیا۔‘‘
عن میمون قال: ما نال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:من عیش الدنیا الا الطیب والنساء.(ایضاً)
’’حضرت میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیوی زندگی سے خوشبو اور عورت کے سوا کچھ نہیں پایا۔‘‘
عن سلمۃ ابن کہیل قال: لم یصب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شیئاً من الدنیا احب الیہ من النساء والطیب.)ایضاً(
’’سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی کوئی چیز عورت اور خوشبو سے زیادہ پسند نہیں پائی۔‘‘
ان روایات پر ایک ہی نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہر راوی نے اپنے انداز میں بیان کی ہے۔ اس لیے متعین طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ حضور کے اپنے الفاظ اور لب ولہجہ کیا تھا۔ دوسری طرف کسی بھی روایت سے یہ چیز واضح نہیں ہوتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس سلسلۂ کلام میں کہی تھی۔ وہ کسی چیز کی تردید کر رہے تھے یا آپ نے کسی خاص نکتے کی تائید میں اپنا رویہ بطور مثال پیش کیا تھا؟
کچھ متون اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لذات دنیا میں سے بس انھی دو چیزوں سے تمتع کیا تھا اور کچھ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضور کو یہی دو چیزیں سب سے زیادہ پسند تھیں۔
ظاہر ہے، اس اضطراب کے ہوتے ہوئے یہ ضروی ہے کہ ہم کسی ایک متن کو ترجیح دینے اور اس کے مفہوم کو متعین کرنے میں حضور کی عام زندگی اور قرآن مجید کی ہدایات کو پیش نظر رکھیں۔ تب ہی یہ ممکن ہے کہ ہم کسی صحیح نتیجے پر پہنچیں۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی روایت کے الفاظ کا ظاہری مفہوم یا اس کے جملوں کا دروبست کسی خاص معنی کے حق میں کبھی حتمی حجت نہیں ہوتا۔ اور کسی خاص تاویل کو محقق صرف اسی صورت میں قرار دیا جاتا ہے، جب اس کی تائید میں قرآن مجید اور سنت ثابتہ کی واضح نصوص پیش کی جا سکیں۔
اگر ہم رسول اللہ کے زمانے کے مذہبی تصورات پر ایک نظرڈالیں تو اس میں دوسری خرابیوں کے ساتھ ترک دنیا کو ایک بڑی قدر کی حیثیت حاصل تھی۔ عیسائیوں میں راہب، یہودیوں میں ربی اور ہندووں اور بدھوں میں جوگی، سادھو اور بھکشو اسی سبب سے بڑا مقام رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ قریش اور دوسرے امی عربوں میں بھی ’تحنث‘ یعنی دنیا سے کٹ کر تنہائی میں عبادت کا تصور موجود تھا۔ ترک دنیا کے اس عمل میں زیب و زینت اور عورت سے گریز و احتراز ضروری ہوتا تھا۔ اور انھی کا ترک، ترک دنیا کے بڑے مظاہر کی حیثیت رکھتا تھا۔
قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ رہبانیت کو بدعت قرار دیا ہے۔ سورۂ حدید میں ہے:
وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوْہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْْہِمْ إِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰہِ. (۵۷ :۲۷(
’’ اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی۔ ہم نے ان کے اوپر صرف اللہ کی خوشنودی کی طلب فرض کی تھی۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید کی رو سے ترک زیب و زینت بھی ایک خود ساختہ تصور ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ أَخْرَجَ لِعِبَادِہٖوَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ.(۷: ۳۲)
’’پوچھو، کس نے حرام ٹھہرایا ہے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو۔‘‘
سورۂ اعراف میں یہ آیت جس سلسلۂ کلام میں آئی ہے، اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے:
یٰبَنِیْٓ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِیْ سَوَْٰ اتِکُمْ وَرِیْشاً(. (۷ :۲۶
’’اے بنی آدم، ہم نے تمھارے لیے ایسا لباس اتارا ہے جو ستر پوش بھی ہے اور زینت بھی۔‘‘
اس کی وضاحت میں مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ستر پوشی کے لیے بھگوایا لنگوٹی بھی کافی تھی۔ لیکن قدرت نے اتمام نعمت کے طور پر ہمارے لیے ایسے لباس کا انتظام فرمایاجوستر پوش بھی ہو، سردی اور گرمی سے ہماری حفاظت کرے اور اس سے ہماری شخصیت، ہمارے وقار، ہمارے حسن اور ہماری شان میں بھی اضافہ ہو۔ ان میں سے کوئی مقصد بھی بجائے خود معیوب نہیں ہے۔ البتہ، افراط یا تفریط سے جس طرح ہر چیز میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح اس میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ قرآن نے زینت کو مقاصد لباس میں داخل کر کے اس جوگیانہ تصور کی نفی کر دی جو لباس کو ایک آلایش اور عریانی یا نیم عریانی کو مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے۔‘‘ (۳/ ۲۲۴)
معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، دراصل، اسی طرح کی مذہبیت کی تردید میں یہ بات فرمائی تھی۔ مگر راویوں کے مختلف الفاظ میں روایت کرنے سے حرف مطلب کچھ مبہم رہ گیا ہے۔ چنانچہ، اگر ہم ان روایات کی یہ تعبیر قبول کر لیں تو یہ قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اللہ کی پاکیزہ زندگی سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔
اس بحث کی روشنی میں، اگر ان روایات کو باردگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نسائی کی روایت سب سے بہتر اسلوب اور الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ اسی کا متن قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے مطابقت رکھتا ہے اور اسی طرح کا طرز بیان رسول اللہ کی شخصیت کے اعتبار سے موزوں ہو سکتا ہے۔
ایک تو اس میں ’حُبِّبَ اِلیّ‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی پسند فرمایا ہے۔ دوسری طرف اس میں حضور کی تخصیص بھی نہیں رہتی۔ جیسا کہ بعض دوسرے دینی حقائق بھی آپ نے اسی اسلوب میں بیان فرمائے ہیں۔ مثلاً، آپ کا ارشاد ہے: ’جعلت لی الارض طہورا‘، ’’میرے لیے زمین کو پاک قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضور نے یہ بات بھی اپنی امت کے لیے بحیثیت نبی فرمائی ہے۔
دوسرے اس میں نماز کا ذکر بھی ہے۔ جس سے اسلام میں دین و دنیا کے توازن کی بڑی خوبی سے وضاحت ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ اللہ سے تعلق اور دنیا کے علائق میں ایک توازن ہونا چاہیے۔ اگر زیب وزینت اور گھر در پسندیدہ چیزیں ہیں اور ہونی چاہییں تو نماز میں بھی سکون و اطمینان کی ایک دنیا ہے۔ اس طرح یہ حدیث، درحقیقت، ہمارے دین کے مزاج کو بڑے عمدہ اسلوب میں بیان کر دیتی ہے۔
عورت اور خوشبو، فی الاصل، دنیوی علائق کی نمایاں علامات ہیں۔ عورت کی طرف میلان ایک بڑے محرک کے طور پر آدمی کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اسی طرح خوشبو خوش لباسی کا آخری مظہر ہے۔ جس طرح بیوی بعض جذبات اور معاشرتی عوامل کی تکمیل کا ذریعہ ہے، اسی طرح خوش لباسی بھی شخصی وقار، شان وشوکت اور رہن سہن میں عمدہ انداز کا مظہر ہے اور یہ چیز بھی ایک بڑے جذبۂ محرکہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دین نے ایک میں جائز طریقوں کی نشان دہی کی ہے اور دوسرے میں اسراف و تبذیر سے روکنے کے سوا کوئی مداخلت نہیں کی۔
عورت کو پسندیدہ قرار دینا اور اس کی حضور سے نسبت ذہن میں ایک کھٹک پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مذہبی زندگی کے جس تصور کو بہت اعلیٰ سمجھا جاتا ہے، اس میں بیوی اور اولاد کی رغبت اور اچھا رہن سہن ایک معیوب چیز ہے۔ ہمارا دین اسی ذہنی کھٹک کو ختم کرنا چاہتا ہے اور غالباً یہی چیز حضور کے بہت صریح اسلوب کے اختیار کرنے کا باعث ہوئی ہے۔
[۱۹۹۲ء]
___________________