ہمارے معاشرے میں عزت کے لیے قتل کو پسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بطور خاص دیہی معاشرے میں ایسے مواقع پر قتل نہ کر سکنے والوں کو غیرت مند نہیں سمجھا جاتا اور انھیں مختلف قسم کے طعنوں کا ہدف بننا پڑتا ہے۔غیرت کے لیے قتل کرنے والے جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو معاشرہ انھیں ہمدردی کی نظر سے دیکھتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ قانون بھی ان کے ساتھ رعایت کا معاملہ کرے گا۔
ہمیں معلوم ہے کہ تقریباً تمام معاشرے قبائلی اور جاگیردارانہ سماج سے موجودہ شکل میں آئے ہیں۔معاشرہ اپنی ان حالتوں میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا رہا ہے۔ مزید یہ کہ ایسے معاشروں میں ان چھوٹی اکائیوں کو جرائم کی سزائیں خود ہی مقرر کرنے اور انھیں نافذ کرنے کا اختیار حاصل رہا ہے۔جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے جرائم پر انتہائی اذیت ناک یا موت کی سزا بھی دی جاتی رہی ہے۔ ہر معاشرہ جرائم سے نمٹنے کے لیے دو سطح پر تدابیر کرتا ہے۔ ایک سطح قانون کی ہے۔ یعنی معاشرہ ایسے قانون، ضابطے اور ادارے بناتا ہے جن کے ذریعے سے وہ مجرمین کو پکڑتا اور سزائیں دیتا ہے۔دوسری سطح اقدار اور روایات کی ہے۔ یعنی معاشرہ اپنی پسند اور ناپسند کو اجتماعی نفسیات بنا دیتا ہے اور اپنے افراد کو اس سے انحراف کرنے پر ہدف طعن و ملامت بناتا ہے۔ ہر انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ساتھ کسی برائی یا کم تر بات کی نسبت گوارا نہیں کرتا۔ انسان کی اس فطرت کے مختلف پہلووں کو حیا، شرم اور غیرت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ جذبہ جہاں معاشرے کو جرائم سے پاک رکھنے میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے، وہاں اس کے بے محل اظہار سے ظلم وستم بھی وجود میں آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال زنا کے بارے میں غیرت کا تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین کی رو سے مرد کے زنا اور عورت کے زنا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جتنا گناہ گار مرد ہو گا، اتنی ہی گناہ گار عورت ہو گی۔ حتیٰ کہ ہمارے دین میں اس جرم کی دنیوی سزا بھی ایک ہی رکھی گئی ہے۔ یعنی مرد کی سزا بھی سو کوڑے ہے اور عورت کی سزا بھی سو کوڑے ہے۔ اگر کسی پاک دامن مرد کو کسی بے کردار عورت سے شادی سے روک دیا گیا ہے تو اسی طرح کسی پاک دامن عورت کو بھی کسی زانی مرد سے شادی سے روک دیا گیا ہے۔ سورۂ نور میں ہے:
اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَآ إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ .(۲۴: ۳)
’’زانی نہ نکاح کرنے پائے ، مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور کسی زانیہ سے نکاح نہ کرے ، مگر کوئی زانی یا مشرک اور اہل ایمان پر یہ چیز حرام ٹھیرائی گئی ہے۔‘‘
لیکن مسلم معاشروں میں بھی قرآن مجید کی اس واضح ہدایت اور قانون سازی کے باوجود عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے اسلامی معاشرے کی قدر سمجھا جاتا اور اسی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ نبوی مذاہب میں اللہ تعالیٰ نے عزت، مال اور جان کے خلاف جرائم کی سزائیں اور اسی طرح حکومت کے حقوق خود مقرر کرکے ہر دور میں انسانی سماج کو ضروری رہنمائی دی ہے، تاکہ اسے اس معاملے میں ا فراط وتفریط سے بچایا جا سکے۔
ان تعلیمات کی روشنی میں غیرت کے قتل کی قباحت کودو زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ایک یہ کہ یہ قتل غیر ریاستی یا ڈھیلے ریاستی سماج کا مظہر ہے ۔ہم ایک منظم اور منضبط معاشرہ ہیں۔ دنیا کا کوئی منظم معاشرہ یہ بات درست قرار نہیں دے گا کہ جب اجتماعی نظام کے تحت کوئی ضابطہ بنا دیا گیا ہے تو اسے غیر موثر کیا جائے یا اس کی خلاف ورزی کی جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی منظم معاشرے میں جب کوئی فرد یا گروہ کسی مجرم کو خود سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اس معاشرے کے نظم کودرہم برہم کردیتا ہے ۔ چنانچہ اس روش کوکسی بھی سطح پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس روش کی حوصلہ افزائی کر نے والے تمام عناصر کی اصلاح ضروری ہے ۔ہمارے ہاں ریاستی نظام پرعدم اطمینان کے اظہار کی یہ صورت بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ ہم نظام سے بالا بالا معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق انجام دینے لگ جاتے ہیں ۔حتیٰ کہ یہ کام وہ بھی کررہے ہوتے ہیں جو کسی نظام کا حصہ یا اس نظام کے خالق ہوں۔ اس پہلوسے دیکھیے تو غیرت کا قتل اسی روش کی انتہائی ناپسندیدہ مثال ہے ۔اسلام نے اس روش کو کس درجہ ناپسندکیا ہے، اس کا بہت واضح اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہوتا ہے :
عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من کرہ من امیرہ شےئا، فلیصبر. فانہ من خرج من السلطان شبرا مات میتۃ جاھلیۃ. (بخاری ، رقم۶۵۳۰)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اپنے حکمران کاکوئی اقدام ناپسندہو، اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے ۔اس لیے کہ جونظام حکومت سے بالشت برابر بھی نکلا وہ ایسے ہی مرا جیسا زمانۂ جاہلیت میں مرجاتا ہے۔‘‘
مسلمانوں میں اس تعلیم کو بہت عام کرنے کی ضرورت ہے۔ قتل کا انتقام خود لینا ،اسلام کے دشمنوں کو ذاتی سطح پر نشانہ بنانا، خلاف اسلام اعمال کے خلاف جتھا بندی کرنا اور اسی طرح غیرت میںآکر قتل کرنا ، یہ سب نظام اجتماعی سے انحراف کی مثالیں ہیں اوریہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عدم ایمان کا مظہر ہیں ۔
سطور بالا میں ہم نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی روش کو گوار ا نہیں کرتا ، بلکہ اس کے نزدیک یہ روش منافی ایمان ہے ۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں اوریہ بات واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک قتل کس جرم کی سز ا ہے اورزنا پر کیا سزا دی جائے گی ۔مزید براں یہ کہ اگر کسی شخص کی بیوی یہ جرم کرے اوراس کے پاس خود اس کی اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو یا ضروری گواہی موجود نہ ہو تو کیا اقدام کیا جائے گا ۔
اسلام میں موت کی سزا صرف دوجرموں پررکھی گئی ہے ۔یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف مقدمات کے فیصلوں سے ماخوذ نہیں ہے ، بلکہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت قرآن مجید کی آیت کی صورت میں مو جودہے۔مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے مجرموں کوسزاے موت دی ہے، قرآن مجید میں بیان کیے گئے اسی ضابطے کے تحت د ی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ إِسْرَآءِیْلَ أَنَّہٗمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی اْلأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَآ أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.(المائدہ ۵: ۳۲)
’’ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لازم کردیا تھا کہ جس کسی نے کسی کوقتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو بچایا تو گویا سب کوبچایا ۔‘‘
مراد یہ ہے کہ کسی جان کولینے کی اجازت خداکی شریعت میں ہمیشہ دوہی صورتوں میں حاصل رہی ہے ۔ایک یہ کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے اوردوسرے یہ کہ ایسے شخص کو سزاے موت دی جائے جوریاست کے نظم اجتماعی کے لیے خطرہ بن گیا ہو ۔ اگر کسی شخص نے یہ جرم نہیں کیے اور اسے قتل کیا گیا تو اس کی سزا اللہ کے نزدیک ابدی جہنم ہے ۔
ارشادہے :
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗجَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗوَأَعَدَّ لَہٗعَذَابًا عَظِیْمًا.(النساء۴: ۹۳)
’’ اور جوکوئی کسی مسلما ن کوعمداً قتل کرے گا تواس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اوراس پر خدا کا غضب اوراس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیارکر رکھا ہے ۔‘‘
ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ زنا پراسلام میں کیا سزا دی گئی ہے ۔یہ سزا ،مرد ہویا عورت، سوکوڑے اورہمیشہ کے لیے کسی پاک دامن سے شادی پرپابندی ہے ۔ اسی طرح کسی پراگرتہمت لگا دی جائے تواس پراسی کوڑے کی سزا رکھی گئی ہے ۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ سب اس صورت میں ہوگا جب مقدمہ دائر کیا جائے گا اور جرم ثابت ہوجائے گا ۔عمومی طور پرمسلمانو ں کویہ اخلاقیات سکھائی گئی ہے کہ وہ پرد ہ پوشی کریں اورتربیت واصلاح کی روش اختیار کر یں ۔ یہ جرم بیٹی نے کیا ہو ، بہن نے کیاہو، بیٹے نے کیا ہو ، بھائی نے کیا ہو، بیو ی نے کیا ہو یاشوہر نے کیا ہو ، سب کی سزایہی ہے ۔یہ سزا بھی نظم اجتماعی کے تحت جرم ثابت ہونے پر دی جائے گی ۔یہ سزا یا کوئی دوسری سزا انفراد ی طور پراگر دی گئی تو یہ بھی ایک جرم ہے ، جس پرقانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے ۔اس معاملے میں یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پرواضح کی ہے ۔ہلا ل بن امیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کے شریک بن سحماء سے ملوث ہونے کا ذکر کیا توآپ نے فرمایا : گواہی لاؤ،ورنہ تمھیں قذف کی سزا بھگتنا ہوگی ۔ہلال نے کہا : آدمی اپنی آنکھ سے دیکھے پھر بھی اسے گواہ لانے ہوں گے ۔اس پرآپ نے لعان کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ ۱اسی طرح سعدبن عبادہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کوایسا کرتے دیکھے تو قتل کردے ۔ آپ نے فرمایا : نہیں۔ ۲
غرض یہ کہ میاں بیوی کے رشتے میں جب یہ صورت پیش آئے تو ان کے لیے اسلامی قانون میں یہ راستہ رکھا گیا ہے کہ وہ لعان کا طریقہ اختیار کریں ۔یہ قانون یہ بات بالکل واضح کردیتا ہے کہ شوہر کے لیے اس کے علاوہ کوئی کارروائی جائز نہیں کہ وہ عدالت میں آئے اورلعان کا طریقہ اختیار کرے ۔حقیقت یہ ہے کہ شادی ایک معاہدہ ہے ۔ معاہدے کے کسی فریق کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کی اس کے علاوہ کوئی اورسزا نہیں ہوسکتی کہ معاہدہ توڑ دیا جائے اوریہ حق صرف مرد ہی کو نہیں عورت کوبھی حاصل ہے ۔
[۲۰۰۴ء]
_________
۱بخاری، رقم ۲۴۷۵۔
۲مسلم، رقم ۲۷۵۲۔
___________________