HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

زلبش شنیدہ ایم

یہ ملاقات ’’المورد‘‘ میں ہوئی۔ جب ہم، معز امجد صاحب، محمد بلال صاحب ،نعیم احمد بلوچ صاحب اور میں: طالب محسن کمرے میں داخل ہوئے تو جاوید صاحب پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ المورد کے بعض احباب بھی مجلس میں شریک تھے۔ 

گفتگو کا آغاز معز امجد صاحب نے کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ اہل تصوف سے آپ کا اختلاف کیا ہے۔ کیا ان کی تمام باتیں آپ کے نزدیک غلط ہیں، یا کسی خاص دائرے میں ان کی باتیں آپ کے نزدیک محل نظر ہیں ؟ جاوید صاحب نے اپنی بات کا آغاز اسلام آباد میں اپنی ایک گفتگو کے حوالے سے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مجلس میں اسلام آباد کے اہل علم جمع تھے، ان میں اسلامی یونیورسٹی کے اساتذہ اور کچھ دوسرے اصحاب علم بھی شامل تھے۔کسی نے مجھ سے تصوف کے بارے میں سوال کیا تو میرے جواب پر صاحب زادہ ساجد الرحمن صاحب صدیقی کافی جزبز ہوئے اور بڑی دیر تک تصوف سے متعلق میری تنقید پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہے۔ اس کے کچھ دیر بعد ایک صاحب نے مجھ سے انفرادی اصلاح کے بارے میں کوئی بات پوچھی۔ جب میں نے اس کے جواب میں اپنی گزارشات پیش کیں تو صاحب زادہ صاحب نے فوراً کہا: یہی تو تصوف ہے۔ ان کی اس بات سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں، لوگوں کو تصوف کے فلسفیانہ پہلو اور اصلاح نفس کے مباحث میں فرق کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

معز صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا: کیا تصوف پر ہماری تنقید صرف عقائد کے دائرے میں نہیں ہے ؟ یہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ ہم مباحث کو تقسیم کر کے مخاطب کا لحاظ کرتے ہوئے تنقید کریں۔ جاوید صاحب نے معز صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ایک تصوف کا علم کلام ہے۔ جس میں علماے تصوف مثال کے طور پر، حادث اور قدیم کی بحث کرتے ہیں، آخرت کی حقیقت بیان کرتے ہیں، نبوت ورسالت کے مراتب پربات کرتے ہیں، کائنات کی حقیقت کو زیر بحث لاتے ہیں، انسان کے نصب العین کا تعین کرتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے، جہاں وہ اسلام اور قرآن سے مختلف جگہ پر کھڑے ہیں۔آپ کو معلوم ہے کہ قرآن کے نزدیک اعلیٰ ترین مرتبہ یہ ہے کہ آدمی خوفاً و طمعاً خدا کی بندگی کرے، جبکہ تصوف میں یہ ہے کہ ’’حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر‘‘۔ قرآن کا مخاطب انسان ہے۔ وہ تعینات کے کسی گورکھ دھندے کی کتاب نہیں ہے۔ اصل میں تصوف کے یہی فلسفیانہ مباحث ہیں،جہاں کوئی مداہنت نہیں کی جا سکتی۔ اب رہی یہ بات کہ دین میں مرتبۂ احسان کو پانے کے لیے کچھ زائد ریاضتوں اور مشقوں کی ضرورت ہے تو یہ بات بھی محل نظر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی بتانے آئے تھے کہ دین میں کمال کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے تو یہ بتایا ہے کہ دین مکمل کر دیا گیا ہے۔ پھر یہ کہ اس نے صرف اکمال دین ہی کا ذکر نہیں کیا، اتمام نعمت کا ذکر بھی کیا ہے۔ اتمام نعمت ہو گیا ہے تو پھر دین سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اس کے آخری درجے تک پانے کے لیے جسے آپ مرتبۂ احسان قرار دے سکتے ہیں، قرآن سے باہر جانے کی ہرگز حاجت نہیں، اس لیے کہ قرآن نے دونوں باتیں کہہ دی ہیں۔ لہٰذا اس دوسرے دائرے میں بھی اہل تصوف جو کچھ پیش کرتے ہیں، اس کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔

معز صاحب نے وضاحت چاہی کہ ان مشقوں اور ریاضتوں کو کیا چیز بدعت بناتی ہے۔کیا محض ان کا انجام دینا یا انھیں دین بنانا ؟ دیکھیے، جاوید صاحب نے کہا: جب انھیں مرتبۂ احسان پانے کا ذریعہ قرار دیا جائے گا تو یہ لازماً دین بن جائیں گی۔ چنانچہ ان کے بدعت ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر اہل تصوف ان ریاضتوں کو دین سے الگ کر کے ایک علاج کی حیثیت سے پیش کریں تو ان کی ایک افادیت ہے۔

اس معاملے میں تصوف کی مثال علم نفسیات جیسی ہے۔ نفسیات قدیم زمانے میں فلسفے کا حصہ تھی۔ پھر اسے ایک الگ علم قرار دیا گیا۔ اس باب میں بہت ساعلمی کام ہوا ہے۔ بہت سی نئی چیزیں دریافت ہوئی ہیں۔ تحلیل نفسی کے طریقے ایجاد ہوئے، اب یہ باقاعدہ ایک طریقۂ علاج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔صوفی بھی اگر ایک معالج کی حیثیت سے یہ کام کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ہمارے اطبا دور جدید کے اطبا سے بہت مختلف تھے۔ان کا معاشرے میں خاص کردار اور رویہ ہوتا تھا۔ یہ اگرچہ علاج معالجہ کرتے تھے، لیکن ان کے اخلاق وکردار اور بے نفسی سے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے۔ ایسے ہی معاشرتی معاملات میں صوفیہ اگر ماہرنفسیات کی حیثیت سے لوگوں کی تربیت کریں تو ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی ایک مشکل ہے۔ جیسے ہی وہ ہماری یہ بات مانیں گے ان کو اپنی دینی حیثیت سے دست بردار ہونا پڑے گا۔

بعض اہل علم اس ضمن میں ایک اور بات کہتے ہیں، معز صاحب نے بحث کو ایک دوسرے رخ پر ڈالتے ہوئے کہا: ان کا یہ کہنا ہے کہ اکابر صوفیہ کی کتابوں میں بہت سے اضافے بعد میں کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر ابن عربی کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ کئی باتیں ان کی کتابوں میں الحاقی ہیں ؟ یہ ان کا اپنا بیان نہیں ہیں۔ جاوید صاحب نے معز صاحب کی بات کو آگے بڑھایا۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ ان کتابوں میں بعض اوقات ایسی بات کہہ دی جاتی ہے یا ایسے الفاظ میں کہہ دی جاتی ہے کہ اس کی توجیہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں کو الحاقی قرار دے دیا جاتا ہے۔ درآں حالیکہ وہ بات جس سیاق وسباق میں کہی گئی ہے، اس کے لحاظ سے پوری طرح موزوں ہے اور ایک منطقی نتیجہ کی حیثیت سے موجود ہے۔ میں اس کی مثال پیش کرتا ہوں۔شیعہ مکتب فکر میں امامت اور ولایت کا ایک خاص تصور ہے۔ اب ان کی کسی تصنیف میں اگر اس کو موضوع بنایا گیا ہو اور مصنف اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے منطقی نتیجے کی حیثیت سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ امامت کے اس مرتبے کو کوئی نبی و مرسل بھی نہیں پہنچا تو یہ چیز ہدف تنقید بن جاتی ہے۔ اس طرح کی باتوں کی جہاں اور بہت سی توجیہات کی جاتی ہیں، وہاں ایک توجیہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ چیز الحاقی ہے۔حالانکہ اس قسم کے جملے ان مباحث کا منطقی نتیجہ ہیں جو اس سے پہلے ہو رہی ہوتی ہیں۔یہی معاملہ ولایت اور ختم ولایت کے حوالے سے ابن عربی کے نقطۂ نظر کا ہے۔ بہرحال، اہل علم اگر ان جملوں کو الحاقی سمجھتے ہیں تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جس چیز کو ہم غلط کہہ رہے ہیں، وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ بات غلط ہے۔

میرے ذہن میں کافی دیر سے ایک سوال گردش کر رہا تھا۔چنانچہ گفتگو میں چھوٹا سا وقفہ ہوا تو میں نے پوچھا :اس کی کیا وجہ ہے کہ انبیا اصلاح نفس کے لیے کوئی مشق یا ریاضت تجویزنہیں کرتے؟ جاوید صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ یہ امور دنیا ہیں، یہ دین کا موضوع نہیں ہیں۔ دین ہمیں ورزش کے طریقے بتانے نہیں آیا۔وہ حفظان صحت کے اصول سکھانے نہیں آیا۔ یہ عقل عام کی چیزیں ہیں، انسان انھیں اپنے تجربات اور مشاہدات سے سیکھتا اور اخذ کرتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے یہ موضوع اس لیے نہیں ہیں کہ یہ دین کا موضوع نہیں ہیں۔

معز صاحب نے اس سوال کو ایک دوسرے پہلو سے دہرایا۔کہنے لگے: جاوید صاحب یہ سوال بڑا اہم ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لوگ اس طرح کے سوال کرتے تھے۔ لیکن آپ نے انھیں کبھی کوئی مشق نہیں بتائی۔ مثلاً بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہمیں صبح تہجد پڑھنے میں بہت دقت ہوتی ہے تو آپ نے انھیں کوئی وظیفہ یا ریاضت بتانے کے بجائے انھیں تہجد کی نماز عشا کی نماز کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دے دی ؟ جاوید صاحب نے کہا: میں اسی لیے عرض کر رہا ہوں کہ یہ دین کا موضوع نہیں ہے۔یہ انبیا کا طریقہ نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کو موضوع بنائیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ پیغمبر کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری بڑی اہم ہے۔ وہاں تو یہ صورت حال ہے کہ آپ نے ایک بیوی کی دل داری کے لیے شہد کھانے سے اجتناب کا فیصلہ کیا تو وحی سے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذاتی حیثیت سے عرب میں رائج طبی نسخے بھی اپنے لوگوں کو بتاتے تھے۔ بعض لوگوں نے اسے بھی دینی رنگ دے دیا اور اسے طب نبوی کے نام سے لکھنا اور بیان کرنا شروع کر دیا۔ انبیا کی یہی وہ حیثیت ہے جس کی وجہ سے بالعموم وہ اپنے آپ کو صرف دین کی تعلیمات تک محدود رکھتے ہیں، تاکہ دین کے پہنچانے میں نہ کوئی کمی رہے اور نہ اس میں کوئی اضافہ ہونے پائے۔

’’اشراق‘‘ جولائی ۱۹۹۸میں چھپنے والے غلام سرور صاحب قادری کے انٹرویو کے حوالے سے معز صاحب نے بتایا کہ تصوف کے حامی آپ کی تنقیدوں کا سبب مغالطہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آپ کو اہل تصوف کی بات سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہے۔ چنانچہ ان کی تجویز ہے کہ آپ اپنا نقطۂ نظر ایک فورم میں پیش کریں، تاکہ اہل تصوف آپ کو اس مغالطے سے نکلنے میں مدد دیں ؟ جاوید صاحب نے جواب دیا:یہ تجویز درحقیقت مناظرے کی تجویز ہے۔ میرے نزدیک علمی تبادلۂ خیال کا یہ کوئی موزوں طریقہ نہیں۔ سنجیدہ علمی مکالمے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اہل تصوف میری لکھی ہوئی چیزوں پر لکھ کر تنقید کریں۔ تحریر اس معاملے میں سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ آپ اپنی بات متعین اسلوب میں کہہ سکتے ہیں اور جب آپ کے مخاطب کے سامنے بھی آپ کی تحریر آتی ہے تو اسے اس کا تجزیہ کرنے میں بڑی آسانی رہتی ہے۔ دوسری صورت انفرادی ملاقات کی ہے۔ اگر کوئی صاحب علم مجھے میری غلطی بتانا چاہتے ہیں تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ مگر اس طرح کے’’فورم‘‘ درحقیقت مناظرے کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ چند سال پیش تر دیت کے معاملے میں طاہر القادری صاحب اس طرح کا فورم منعقد کراچکے ہیں۔ اس نوعیت کا مکالمہ کبھی بھی مسئلے کی تفہیم کا ذریعہ نہیں بنتا۔مولانا امین احسن اصلاحی کی’’تزکیۂ نفس‘‘برسوں سے چھپ رہی ہے۔ میرے مضامین مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔ان اہل علم کو چاہیے کہ قلم اٹھائیں اور ہماری غلطی واضح کریں۔ ہم ان شاء اللہ حق کے معاملے میں اپنی غلطی فوراً تسلیم کر لیں گے۔

معز صاحب نے وحدت الوجود کے ضمن میں صوفیہ کے استدلال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک صاحب سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک صاحب فلسفۂ تصوف کے حق میں بات کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اس فلسفے کا قرآن میں کیا ثبوت ہے۔ میرے اس سوال کے جواب میں انھوں نے’ھوالاول وھو الآخر‘والی آیت پڑھی۔ اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے ؟ جاوید صاحب نے ان کی بات سنی۔ تھوڑا سا تامل کیا۔ پھر فرمانے لگے: اس سوال کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا جواب منطق کی زبان میں دیا جائے۔... اصل میں، یہ لوگ جو مقدمہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس کائنات کے اپنے وجود کی کوئی حقیقت نہیں۔ حقیقی وجود صرف خداکا ہے۔ کائنات تنزلات کے نتیجے میں ہمارے سامنے اس صورت میں آتی ہے۔ منطقی لحاظ سے دیکھیں تو وہی چیز اول قرار پائے گی جس کے بعد کچھ ہو۔ وہی چیز آخر قرار پائے گی جس سے پہلے کچھ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت سے وہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا جو اہل تصوف نکالتے ہیں۔ پھر دیکھیے، یہ لوگ یوں تو قرآن مجید کی شرح میں حدیث کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، لیکن اس معاملے میں انھوں نے حدیث کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ اول ہے، اس سے پہلے کوئی نہیں، وہ آخر ہے، اس کے بعد کوئی نہیں، وہ ظاہر ہے، اس کے اوپر کوئی نہیں، وہ باطن ہے،جس کے نیچے کوئی نہیں۔ آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان صفات سے اللہ تعالیٰ کے زمان و مکان کے حدود سے بالاتر ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ان صفات کے بعد ’وہو بکل شیء علیم‘۱؂کا جملہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا علم ہر شے پر محیط ہے۔گویا پوری آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ چونکہ زمان و مکان کی قید میں نہیں ہے، اسی وجہ سے وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ اول وہ ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ اول ہے۔گویا یہ صفات الٰہی ہیں۔ یہ خدا کی صفات کا بیان ہے نہ کہ کائنات اور خدا کے تعلق کا یہی وجہ ہے کہ اکابر صوفیہ نے اس آیت سے استشہاد نہیں کیا۔

نعیم بلوچ صاحب نے پوچھا: اہل تصوف کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں موجود تھے تو ان کی صحبت اور نظر کرم سے دلوں کی اصلاح ہو جاتی تھی۔ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اسی مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہم تصوف سے مدد لیتے ہیں ؟ یہ بنیاد ہی صحیح نہیں ہے۔ جاوید صاحب نے جواب دیا۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو چیز تزکیے کا ذریعہ بنتی ہے وہ خود دین ہے۔ البتہ دین کی طرف رغبت کا ذریعہ صالحین کی صحبت بنتی ہے۔اس چیز کو خود قرآن مجید نے بیان کر دیا ہے کہ آدمی کو صالحین کی معیت اختیار کرنی چاہیے۔ قرآن مجید نے حضور کی دعوت، اس کے اثرات، مخاطب کے رد عمل، ہر چیز کو موضوع بنایا، اس میں نظر کرم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ محض صوفیانہ تصور ہے۔ خدا کے ایک پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال دعوت دیتے ہیں۔ نظر کرم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بیٹا بھی ہدایت سے محروم رہتا ہے۔ اس معاملے میں خدا کا قانون ہدایت و ضلالت کارفرما ہے۔ اور اسی کے تحت ہدایت و ضلالت کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ قرآن اس معاملے میں بہت شدید ہے۔ وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہتا ہے: ’انک لا تھدی من احببت ولکن اللّٰہ یہدی من یشاء‘ ۔۲؂آپ نظر کرم کی بات کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید تمنا کا ذکر کیا ہے کہ فلاں لوگ ایمان لے آئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھی کو ہدایت بخشی جو اس کے حق دار تھے۔ اس سے زیادہ حضور کی تمنا کا کیا ذکر ہو سکتا ہے: ’لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین‘۔ ۳؂لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ ہدایت صرف وہی پائیں گے جو ہمارے قانون کے مطابق ہدایت کے اہل ہوں گے۔گویا نظر کرم کا نظریہ اور ہے اور قرآن کے ہدایت دینے کا اصول اور۔

حضور کی شدید خواہش تھی کہ مکہ کے سربرآوردہ لوگ ایمان لے آئیں۔ یہی خواہش آپ کے ابن ام مکتوم کو نظر انداز کرنے کا باعث بنی۔ اس سے بڑھ کر آپ کی طرف سے نظر کرم کیا ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ گریزاں ہیں تو ان سے اعراض کرو اور جو تربیت پانا چاہتے ہیں، ان کی تربیت کرو۔

آخر میں محمد بلال صاحب نے بات کو تصوف کی طرف لے جاتے ہوئے پوچھا: صوفی حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ ہم انسان کو خدا کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں؟ ان کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ جاوید صاحب نے تائید کی۔ اس لیے میں نے یہ بات نہ کبھی لکھی ہے، نہ کبھی بیان کی ہے۔ صوفی حضرات اسے بدترین شرک کہتے ہیں۔ جو شخص یہ بات کہے گا، وہ اسے جاہل مطلق قرار دیں گے۔ وہ کہیں گے کہ اس شخص نے وحدت الوجود کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ تو حلول و اتحاد کا نظریہ ہے۔ اس میں تو یہ مان لیا گیا ہے کہ خدا کے علاوہ انسان ایک الگ حیثیت سے موجود ہے۔ یہ تو وحدت الوجود کے لفظ ہی کے خلاف ہے۔ تصوف پر میری تنقید قرآن مجید کے تصور توحید کے حوالے سے ہے۔ اس کی روشنی میں دیکھیں تو وحدت الوجود کا نظریہ دین سے بالکل ایک الگ چیز ہے۔

جاوید صاحب کی اس وضاحت پر یہ گفتگو تمام ہو گئی۔

[۱۹۹۸ء]

_________

 

۱؂’’اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘(الحدید ۵۷: ۳)

۲؂’’تم جن کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘(القصص ۲۸: ۵۶)

۳؂’’شاید تم اپنے آپ کو اس فکر میں ہلاک کرتے رہو گے کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں بنتے۔‘‘(الشعراء ۲۶: ۳)

___________________

B