HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نکاح اور ہماری روایات

ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ ایک توانا تمدن کے سربفلک پیڑ کو دیمک لگ چکی ہے۔ وہ جس کے سایے میں ایک دنیا کو راحت ملتی تھی، اب خود آزمایش کی کڑی دھوپ میں مصائب سے دوچار ہے۔ وہ جس کا پھل سارا سال آتا تھا، اب اس پر پژمردگی طاری ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ اسے دیکھتے اور اسے اپنی منزل ٹھہرا لیتے اور اب خزاں کا یہ عالم ہے کہ کسی کو اس کی ثمرآوری کا یقین نہیں۔یہ صورت احوال ہماری پیدا کردہ ہے۔ میراث عظیم الشان تھی، ہم نااہل ثابت ہوئے ۔قعر مزلت میں ہم گرے ہیں، لیکن اس طرح گرے کہ اپنے ہی دین کے لیے بدنامی کا باعث بن گئے۔ 

ستم یہ ہے کہ ہمارے پاس خداے برتر کی اصل کتاب موجود ہے اور ہم دین کی تعلیمات کے لیے سرگرداں ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ہم تاریخ کے روشن دور کے پیغمبر کے ماننے والے ہیں اور ہماری حالت ایک ایسے گروہ کی سی ہے جس کا کوئی رہنما نہ ہو۔ حیف ہے کہ ہمارا دین عقل و فطرت کا رہنما ہے، لیکن ہم اس کی رہنمائی سے محروم ہیں۔ افسوس کہ جو ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں منجدھار سے نکال سکتا تھا، ہم اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہمیں اس کی مسیحائی کا یقین نہیں، ہمیں اس کی دست گیری پر بھروسا نہیں۔ وہ جو ہمیں کارفرما اور کارساز بنا سکتا تھا، ہم اسی کو بے کار محض سمجھ کر اس سے روگرداں ہیں۔ 

کاش، کوئی نئی صبح کے لیے خورشید کا سامان سفر تازہ کرے۔ کاش، نداے نو بلند ہو، ایسی ندا جو روحوں کو اضطراب کے سوز اور قلوب کو حرارت کے جوش سے آشنا کردے۔ ایمان پر مردنی چھائی ہے، کاش کوئی اسے نئی زندگی دے دے۔ یقین ناپید ہے، کاش کوئی اسے بازیاب کر دے۔عمل ضعف کا شکار ہے، کاش کوئی اسے پھر سے توانا کر دے۔ 

ہمارے اس انحطاط کی ایک بڑی وجہ دین کے صحیح علم سے بے خبری ہے۔ لوگ شریعت کی جزئیات میں الجھے ہوئے ہیں اور دین کی حکمتوں سے ناآشنا ہیں۔ لوگ قواعد پر اصرار کرتے ہیں، لیکن ان کی اصل روح سے ناواقف ہیں۔ دین خود یقین آفریں تھا، مگر لوگ قصہ گوئی کے رسیا ہیں۔ اس کے احکام حکمتوں پر مبنی ہیں، مگر لوگ لفظ پرست بنے ہوئے ہیں ۔

پچھلے دنوں ایک نکاح کا معاملہ عدالت میں زیر بحث آیا تو ہماری یہ پستی اخبارات کے آئینے میں ہویدا ہونے لگی۔ اپنوں کی بے بصیرتی نے اغیار کو ہنسنے کا موقع دیا۔ وہ معاملہ جو گھر میں سلجھ سکتا تھا، بازاروں کا موضوع بن گیا۔ ہر ایک اپنے مقاصد کے حصول میں لگ گیا۔کسی کے لیے یہ عورت کی آزادی کے حصول کا موقع تھا اور کسی کے لیے اسلام کی حفاظت کا معاملہ۔کسی کی نگاہ میں یہ قرون مظلمہ کے مظالم کی صداے بازگشت تھی اور کوئی اسے اسلامی سماج میں نقب قرار دے رہا تھا۔

صورت حال کا نوحہ کب تک پڑھیے اور کہاں تک کہیے۔ بہرحال، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں کو صحیح دین سے آگاہ کر دیں، تا کہ جنھیں کوئی غلط فہمی ہے، ان کی غلط فہمی دور ہو جائے، جو دین کے مقاصد سے واقف نہیں، وہ اس سے واقف ہو جائیں۔ نکاح کیا ہے ؟ کسی سماج کی تعمیر وتخریب میں اس کا کیا حصہ ہے؟ اس معاملے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ وہ کن روایات کو فروغ دینا چاہتا ہے؟ اس باب میں عورت کے حقوق کیا ہیں؟ اس سلسلے میں والدین کا اختیار کہاں تک ہے؟ عدالتیں یا نظم اجتماعی اس میں کب مداخلت کر سکتا ہے۔ یہ تمام سوالات اذہان میں گردش کر رہے ہیں۔ ہم آیندہ سطور میں انھی کا جواب دیں گے۔ 

کچھ لوگوں کے نزدیک، نکاح کا معاملہ بیع وشرا سے مشابہ ہے۔گویا جس طرح خرید و فروخت کے معاہدات ہوتے ہیں، اسی طرح نکاح کا معاہدہ بھی ہے۔بعض دوسرے لوگ اسے نکاح کی ایک غلط تعبیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، نکاح کو بیع و شرا سے مشابہ قرار دینا، نکاح کی حیثیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح اپنی نوعیت کا خاص معاملہ ہے۔ اسے اس کی الگ حیثیت ہی میں سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح ایک مرد کا ایک عورت کے ساتھ زندگی بھر کا سنجوگ ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’ایک مرد ایک عورت کو سنجیدہ ارادے اور زندگی بھر کے سنجوگ کے عزم کے ساتھ اپنی حفاظت و حمایت میں لے اور عورت اسی شعور و ارادے کے ساتھ اس کے حصن حمایت میں داخل ہو۔ اس احصان کے بغیر عورت اور مرد کے تعلق سے وہ مقصد پورانہیں ہوسکتا، جو قدرت نے اس سے پورا کرانا چاہا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت سے ایک وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرتا ہے تو گو اس کے لیے اس نے نکاح کی رسم بھی پوری کی ہو اور اس کو مال بھی دیا ہو، لیکن یہ احصان نہیں ہوا۔‘‘( تدبر قرآن ۲/ ۲۷۸) 

یہ’’احصان‘‘ کیا ہے ؟ قرآن مجید نے محصن( صاحب احصان) کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس کے مقابل میں’غیر مسافح‘اور’لا متخذی اخدان‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اور اس طرح ایک لفظ سے محض شہوت رانی اور دوسرے سے یاری آشنائی کے تعلق کی نفی کر دی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک صنفی تعلق ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ محض لذت کوشی کی ہمارے دین میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ انسان کی فطرت میں موجود حیا کے جذبے کا اظہار سب سے بڑھ کر صنفی میلان کے اظہار و تکمیل میں ہوتا ہے۔ انسانی فطرت یہی ہے۔ اسی فطرت کا ایک مظہر لباس ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے بنی آدم، ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمھارے لیے ستر پوش بھی ہے اور زینت بھی۔‘‘( الاعراف ۷: ۲۶) 

اسی سلسلۂ بیان میں یہ بھی تنبیہ فرما دی کہ اس معاملے میں شیطان تمھیں فتنے میں ڈال سکتا ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ بڑے معنی خیز ہیں:

’’اے بنی آدم، شیطان تمھیں فتنے میں نہ ڈالنے پائے ،جس طرح اس نے تمھارے باپ کو جنت سے نکلوا چھوڑا، ان کے لباس اتروا کر کہ انھیں ان کے سامنے بے پردہ کر دے۔‘‘(الاعراف ۷: ۲۷) 

اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت اور مرد کے تعلق میں حیا کی پاس داری ایک بنیادی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کا طریقہ اس حیا کی پاسبانی کرتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

’’وہ (تمھاری بیویاں) تمھارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو۔‘‘ (۲: ۱۸۷) 

اس آیۂ مبارکہ میں لباس کی تعبیر اختیار کرکے اس حقیقت کی نشان دہی فرمائی ہے کہ انسان کا یہ حیوانی جذبہ اپنی تسکین تو کرے ،لیکن اس پر ازدواجی تعلق کا لباس ہونا چاہیے۔ غرض یہ کہ نکاح محض کسی مرد کے لیے ایک عورت کی ضرورت اور کسی عورت کے لیے ایک مرد کی ضرورت کو پورا کرنے کا قانونی طریقہ نہیں اور نہ محض ان کے تعلق سے پیدا ہونے والی نسل کے معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کرنے کا ذریعہ ہے۔ بلکہ یہ ان سے کہیں گہری اور ارفع ضرورت انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت کا ضامن ہے۔ چنانچہ شادی اور بیاہ کے لیے کی گئی کسی بھی قانون سازی میں اس پہلو کا لحاظ کرنا اشد ضروری ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ سے وابستہ رسوم کا جائزہ لیتے ہوئے بھی نکاح کی اس حیثیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جدید مغربی معاشرت نے سب سے بڑھ کر اس پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ اور ہمارے لوگ اس کا اندازہ کیے بغیر کہ وہ کتنی عظیم چیز کو کھو رہے ہیں، آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ زن و مرد کا بے قید تعلق خاندانی نظام ہی کو تباہ نہیں کرتا، انسان کے اخلاقی وجود کے لیے بھی سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ زنا صرف معاشرتی قانون کی خلاف ورزی کی بنا ہی پر جرم نہیں۔ یہ ایک گناہ ہے۔ انسان کا اپنی فطرت کو پامال کرنے کا گناہ۔ 

اس تفصیل کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نکاح ایک ضابطہ ہے اور یہ ضابطہ صرف ظاہری مصالح ہی کی بنیاد پر مطلوب نہیں ہے۔ اس سے نفس انسانی کی پاکیزگی بھی وابستہ ہے۔ چنانچہ اس کے لیے کسی ایسے طریقۂ کار کی سفارش نہیں کی جا سکتی جو اس پاکیزگی کو پامال کردے۔ 

اسی سبب سے، اللہ کے نبیوں نے نکاح کومعاشرتی تقریب کی صورت دی۔ ایک سادہ سا طریقۂ نکاح، جو دلہا دلہن کے اعزہ و اقربا کی موجودگی میں ان کے ایجاب و قبول پر مشتمل ہے۔ اس تقریب سے پہلے رشتے کے طے کرنے میں بھی یہی روایت قائم کی گئی کہ دلہا دلہن کے بزرگ اس میں اصل کردار ادا کریں۔ اس سارے عمل نے دو افراد کے مابین وجود میں آنے والے جسمانی تعلق کو پاکیزہ معاشرتی تقریب کی صورت دے دی ہے۔ یہ طریقۂ کار نہ صرف انسان کے شرم و حیا کے فطری جذبے کو قائم رکھتا ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں نئے وجود میں آنے والے گھر کو وہ سماجی تائید میسر آتی ہے، جو اس کے فروغ اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ انبیا کا فطرت کی بنیادوں پر اٹھایا ہوا سماج، مرد کو گھر کا ذمہ دار اورکفیل قرار دیتا ہے۔ چنانچہ مہر کے تقرر اور ادائیگی کو نکاح کا حصہ بنا دیا گیا،تاکہ مرد اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز ہی اپنی ذمہ داری کو نباہنے کے اسلوب سے کرے۔ 

نکاح کے یہ مشمولات نکاح کی حیثیت اور نوعیت کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ نکاح محض نکاح نامے کی دستاویز میسر کرنا نہیں ہے۔ جس سے دو مرد و عورت کو جسمانی تعلق قائم کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، بلکہ یہ، علیٰ رؤس الاشہاد ایک نئے گھر کے آغاز کا فیصلہ ہے اور اسے اسی حیثیت میں دیکھنا چاہیے۔ یہ گھر جس ماحول اور صورت احوال میں قائم ہو رہا ہے، اس کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ قائم ہونا چاہیے۔ہم قانون کی سطح پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہم آہنگی لازمی ہے،لیکن سماجی مصالح اسی کا تقاضا کرتے ہیں اور اس سے انحراف غیرمعمولی حالات ہی میں ہونا چاہیے۔ 

ولی کی رضامندی کے متعلق احادیث کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خاندان بنا کر رہتا ہے۔ انسانی سماج، معاشرہ، بلکہ ریاست انھی خاندانوں کے مجموعے کا نام ہے اور ان کی بقا اور ترقی کا انحصار خاندان کی بقا اور ترقی پر ہے۔ ہمارا دین ہم انسانوں کو اسی فطرت پر قائم رکھنا چاہتا ہے، جس پر ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک طرف اس مصلحت پر مبنی ہیں اور دوسری طرف اس پاکیزگی کو قائم رکھنے کا ذریعہ ہیں، جس کی تفصیل اوپر کی سطور میں ہم نے کی ہے۔ ہمارے ہاں، فقہی ذہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے ارشادات کو قانونی مفہوم میں لیا ہے۔ اور اس طرح ایک ایسی چیز نکاح کے وقوع اور عدم وقوع کی شرط بن گئی ہے، جو حقیقت میں اس کی شرط نہیں ہے۔ 

نکاح کے بنیادی فریق دلہا اور دلہن ہیں۔ لہٰذا بغیر کسی جبر و اکراہ کے ان کا رضامند ہونا ہی اصل حیثیت رکھتا ہے۔ والدین اور خاندان کو ان کی رائے اور پسند کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید نے نکاح کے عمل کو معروف پر مبنی کیا ہے۔سورۂ بقرہ میں جہاں مطلقہ کی شادی کا معاملہ زیربحث ہے، وہاں سابقہ شوہر اور والدین کو نصیحت کی ہے۔ارشاد ہے:

’’تم اس بات میں مزاحم نہ بنو کہ وہ اپنے ہونے والے شوہروں سے نکاح کریں، جبکہ وہ آپس میں معاملہ دستور کے مطابق طے کریں۔ یہ نصیحت تم میں سے ان لوگوں کو کی جاتی ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریق ہے، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘(۲: ۲۳۲ )

مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ میں’’دستورکے مطابق‘‘کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’’’دستور کے مطابق‘‘سے مراد یہاں عرب کے شرفا کا وہ رواج و دستور ہے، جس کو اسلام نے برے رواجوں سے پاک کرکے اسلامی شریعت کا جز بنا لیا تھا اور بہت سے معاملات میں لوگوں کو انھی پر عمل کرنے کی یا تو ہدایت کی یا ان پر عمل کی آزادی دے دی۔ یہاں معاملہ طے کرنے کے لیے معروف کی جو شرط لگائی ہے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت اور مرد، دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاملہ طے کرنے میں کوئی ایسی بات نہ کریں، جو شریف خاندانوں کی روایات کے خلاف ہو اور جس سے سابق شوہر یا ہونے والے شوہر یا خود عورت کے خاندان کی عزت و شہرت کو بٹہ لگنے کا اندیشہ ہو۔
فرمایا کہ یہ نصیحتیں ان لوگوں کو کی جارہی ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی جن لوگوں کے اندر خدا اور آخرت پر ایمان موجود ہے۔ ان کے ایمان کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ان نصیحتوں پر عمل کریں۔ پھر فرمایا کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے۔ یعنی اگر عورت کی حسب مرضی نکاح کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو اس سے خاندان اور پھر معاشرے میں بہت سی برائیاں پھیلنے کے اندیشے ہیں۔ یہیں سے خفیہ روابط، پھر زنا، پھر اغوا اور فرار کے بہت سے چور دروازے پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک دن ان سب کی ناک کٹ کے رہتی ہے جو ناک ہی اونچی رکھنے کے زعم میں فطری جذبات کے مقابل میں بے ہودہ رسوم کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ’’اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘ یعنی تمھارا علم اور تمھاری نظر بہت محدود ہے، تمھارے لیے زندگی کے تمام نشیب و فراز کو سمجھ لینا بڑا مشکل ہے۔ اس وجہ سے جو کچھ تمھیں خدا کی طرف سے حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کرو۔‘‘( ۱/ ۵۴۴) 

اس آیۂ کریمہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شادی کے معاملے میں قرآن مجید نے معاشرے کے دستور کی پابندی کو اصل اہمیت دی ہے۔ لڑکے اور لڑکی کو چاہیے کہ وہ شادی کرتے ہوئے اعلیٰ معاشرتی اقدار اور پاکیزہ سماجی روایات کو پامال نہ کریں اور اولیا کو چاہیے کہ وہ ان کی رائے اور پسند و ناپسند کا لحاظ کریں۔ 

اس بحث میں ایک سوال یہ بھی نمایاں ہوا ہے کہ والدین کی اطاعت کی حدود کیا ہیں۔ اس باب میں بنیادی بات یہ ہے کہ تمام اطاعتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تابع ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرماں برداری گناہ قرار پائے گی، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہو۔ چنانچہ والدین ہوں یا کوئی اور بڑا، حتیٰ کہ حکومت بھی یہ حق نہیں رکھتی کہ خداکے مقابلے میں اس کی اطاعت کی جائے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے والدین کے حوالے سے اولاد کی اصل ذمہ داری یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اس کے لیے قرآن مجید نے ’بالوالدین احسانا‘ کی تعبیراختیار کی ہے۔ اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ والدین کی اطاعت کا تقاضا ان کے ساتھ حسن سلوک کے ایک حصے کی حیثیت سے ہے۔ والدین کی اطاعت اپنی مجرد حیثیت میں مطلوب نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اولاد اپنے والدین کے ہر حکم کو بے چون وچرا ماننے کی پابند نہیں ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ اولاد اپنی زندگی کے بارے میں مختلف فیصلے کرنے میں اگرچہ آزاد ہے، لیکن اسے یہ فیصلے کرتے ہوئے ہر آن یہ ملحوظ رکھناہے کہ اس کے والدین کے جذبات جہاں تک ممکن ہو، مجروح نہ ہوں۔ وہ ان کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حتی المقدور کوشاں رہے۔قرآن مجید نے اس معاملے میں ’برابوالدیہ‘کی تعبیر بھی اختیار کی ہے۔ لفظ ’’بر‘‘ کی اصل روح وفاداری ہے ۔اس سے حسن سلوک کے تقاضے کا منتہاے مقصود سامنے آتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو آخری درجے میں والدین کا خیر خواہ،ان کے مفادات کا محافظ اور ان کی خواہشات کا احترام کرنے والا ہونا چاہیے۔ لیکن اس لفظ سے بھی والدین کی اطاعت کے قانونی وجوب کا مفہوم نہیں نکلتا۔ ہمارے نزدیک، شادی کے معاملے میں بھی لڑکا ہو یا لڑکی انھیں والدین کی رائے کا قانوناً پابند نہیں بنایا جا سکتا۔لہٰذا اس بنا پر کسی نکاح کو باطل قرار دینا غلط ہے کہ اس میں والدین کی نافرمانی ہوئی ہے۔ 

ہمارے اس زمانے میں عورت کے حقوق کا بہت غلغلہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عورت کی طبعی کمزوری کی وجہ سے عورتیں مظالم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض گھرانوں میں ان کے ساتھ انتہائی حقارت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ بطور خاص شادی کے معاملے میں ان کی مرضی معلوم کرنا یا ان کی مرضی کو پورا کرنا بے حمیتی کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کا نتیجہ نہیں، بلکہ جاہلی تہذیبوں کے باقی بچ رہنے والے آثار ہیں، جن کا اظہار مختلف رسوم اور اقدار کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گھرانوں میں تعلیم و تربیت عام ہے، وہاں یہ فضا نہیں ہے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا اصل حل صحیح تعلیم و تربیت ہے۔ اس لیے معاشرے کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کی صحیح دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے، تاکہ جاہلیت کی باقیات کا خاتمہ ہو اور معاشرہ درست خطوط پر استوار ہو۔زیر بحث مسئلے کے حوالے سے، یہ بات متعین طور پر معلوم ہے کہ کسی مرد کے ساتھ بیاہے جانے کے لیے عورت کوبلا جبر و اکراہ راضی ہونا چاہیے۔ یہ عورت کا حق ہے اور اگر کسی عورت کو اس حق سے محروم کیا جا رہا ہو تو معاشرے پر لازم ہے کہ وہ اس کے اس حق کی حفاظت کرے اور ظلم ہونے کی صورت میں داد رسی کا اہتمام کرے۔

ہم نے نکاح کے معاملے سے متعلق زیربحث مختلف پہلووں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ دین کی تعلیمات واضح ہو جائیں۔ ہمارے معاشرے میں نکاح بالعموم، دین کی قائم کردہ روایات اور شریعت ہی کے مطابق ہوتا ہے۔لیکن بسا اوقات، دوسرے معاشرتی معاملات کی طرح اس میں بھی نزاع کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔اولاد اور اولیا، دونوں کو چاہیے کہ وہ نزاع سے نکلنے کے لیے دین کی ہدایات کو پیش نظر رکھیں۔ بہتر یہی ہے کہ گھر کا معاملہ گھر ہی میں حل ہو۔ اور اگر خدانخواستہ معاملہ پنچایت یا عدالت تک پہنچتا ہے تو وہ فریقین کا نقطۂ نظر سنے، حالات و واقعات کا جائزہ لے اور جو چیز دین وشریعت اور معاشرتی اقدار کی حفاظت کا ذریعہ بنے اور فریقین کے بہترین مفاد میں ہو، اسے اختیار کرے۔محض سزا دینے سے لے کر میاں بیوی میں تفریق کرانے تک منصفین جو رائے بھی اختیار کریں اس میں فیصلہ کن حیثیت اوپر بیان کردہ اصول کو حاصل ہے۔ 

یہ معاملے کا قانونی پہلو ہے۔ لوگ اس معاملے میں افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ ہماری اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ یہ بات درست ہے کہ اگر اپنی مرضی سے نکاح کر لیں تو عدالت یا معاشرے کے پاس اس غلط عمل( بشرطیکہ یہ غلط ہو) کو روکنے یاختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ یہ بات ہی درست ہے کہ نکاح کے معاملے میں اولیا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح عدالت لڑکے یا لڑکی کو روک سکتی ہے، اسی طرح والدین کو بھی جبر سے روک سکتی ہے۔ 

لیکن معاملہ صرف قانون کی غلط یا صحیح تفہیم تک محدود نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ذرائع ابلاغ اور نام نہاد دانش وروں کا ایک پورا گروہ کچھ نئی اقدار کو روشناس کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے۔ شادی سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو اور لڑکی کا کسی لڑکے کو پسند کر لینا اور والدین کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کرنا، ہمارے نزدیک بھی اگر شایستہ حدود( شرم و حیا) کی پاس داری کرتے ہوئے ہو تو دین کے خلاف نہیں۔ لیکن یہ لوگ ان کی آپس میں ملاقاتیں، اکٹھے سیر کو جانا اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ایک مطلوب عمل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ والدین کو اس سارے عمل میں بخوشی شریک دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے کہانی نویس نے محبت نہیں، محبت کی پینگیں بڑھانے کو انسانیت کی معراج بنا دیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مردوں کی عورتوں کے ساتھ دوستیاں ہوں اور عورتوں کی مردوں کے ساتھ دوستیاں ہوں۔عورتوں اور مردوں کے باہمی خلا ملا پر کوئی پابندی نہ ہو۔کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرلے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کو پسند کر لے، وہ خود ہی ایک دوسرے کو شادی کی دعوت دے دیں۔ والدین اگر بخوشی شریک ہو جائیں تو فبہا اور اگر مخالفت کریں تو ان کے خلاف بغاوت اور گھر سے چوری چھپے نکاح کر لینا، ان کے مطلوبہ سماج کی اعلیٰ اقدار ہیں۔

اس فضا میں جب کوئی لڑکی والدین کو چھوڑ کر شادی کر لیتی ہے تو یہ اسے ایک جہاد سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس کے مفادات ان کے مفادات بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ اس کے تدارک کی ذمہ داری جہاں حکومت پر عائد ہوتی ہے، وہیں اس کے ذمہ دار علماے دین بھی ہیں۔ ان پر سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے دینی شعور کو بیدار کریں۔ انھیں دین کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں۔ ہمارا دین فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنی صالح فطرت کے مطابق عمل کرنا چاہیں اور ہمارا دین ان کے لیے تنگی کا باعث ہو۔

[۱۹۹۷ء]

___________________

B