HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قانون دیت سے متعلق چند مسائل

دیت کے معاملے میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی مقدار کیا ہے؟ اہل علم کا بہت بڑا طبقہ اس نقطۂ نظر کا حامل ہے کہ سنت میں اس کی مقدار معین کر دی گئی ہے۔ چنانچہ ان کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کر کے اسی مقدار کو نافذ کیا جائے۔ حال ہی میں نافذ ہونے والے قصاص و دیت آرڈی نینس میں اسی بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

قرآن مجید کے الفاظ اس کے برعکس دوسری بات کہتے ہیں۔ قرآن مجید کے نزدیک دیت کا معاملہ سرتاسر معاشرے کے دستور پر مبنی ہے۔ معاشرے میں جس مقدار کو قرین انصاف اور قرین مصلحت سمجھا جاتا ہو، وہی مقدار وصول کی جانی چاہیے۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ ہر معاشرہ اپنے اقتصادی اور معاشرتی حالات کے تحت ہی آگے بڑھتا ہے۔ چنانچہ مختلف معاشروں اور مختلف حالات میں اس طرح کے معاملات مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اس معاملے کو کھلا رکھا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے: 

فَمَنْ عُفِیَ لَہٗمِنْ اَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْْہِ بِاِحْسَانٍ.(۲: ۱۷۸)
’’پس جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی گئی ہے تو اس کے لیے معاشرے کے دستور کی پیروی کرنا اور خوبی کے ساتھ ادا کرنا ہے۔‘‘ 

اسی طرح سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلاَّ خَطَءًا وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ اِلاّآ أَنْ یَّصَّدَّقُوْا. (۴ :۹۲)
’’ اور کسی مومن کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے، مگر یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کے ذمہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا او ردیت ہے جو اس کے وارثوں کو دی جائے، الاّ یہ کہ وہ معاف کر دیں۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ اسلام نے (دیت کے) اس معاملے میں عرب کے معروف کو قانون کی حیثیت دے دی تھی اور... جن معاملات کا تعلق معروف سے ہو، وہ زمانہ اور حالات کے تغیر سے اپنے اصل مقصد کو باقی رکھتے ہوئے متغیر ہو جاتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۲ / ۳۶۱)

چنانچہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دیت کی مقدار کو جو عربوں میں رائج تھی، علیٰ حالہ باقی رکھنا ضروری نہیں ہے اور ہم اپنے حالات میں اس کی نئی مقداریں معین کر سکتے ہیں۔

دیت کے معاملے ہی کی ایک دوسری مشکل جس کا حل ہونا بہت ضروری ہے، ان افراد (یعنی عاقلہ) کی تعیین ہے جو مجرم کے دیت ادا نہ کر سکنے کی صورت میں دیت کی ادائیگی میں شریک قرار دیے جائیں گے۔عرب معاشرہ چونکہ مضبوط قبائلی وحدتوں پر مشتمل تھا، چنانچہ پورا قبیلہ یہ بار اٹھا لیتا تھا۔ لیکن اب یہ صورت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مسئلے کو اس کے تمام پہلووں پر غور کر کے حل کیا جائے۔

پبلک ٹرانسپورٹ یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی صورت میں ادارے، تنظیم یا محکمہ کوعاقلہ قرار دے بھی دیا جائے تو بھی انفرادی معاملات لاینحل باقی رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی جماعتوں، تنظیموں یا اداروں کو اس قبائلی عصبیت کے ہم پلہ قرار دینا بھی محل نظر ہے۔

دوسری طرف ٹریفک کے حادثات کو قتل خطا کی روایتی صورتوں پر قیاس کرنے میں بھی کچھ مشکلات ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ غلط ڈرائیونگ بھی حادثات کو جنم دیتی ہے، لیکن ٹریفک کے موثر نظم و نسق کا فقدان، سڑکوں کی حالت، جا بجا اگے ہوئے سپیڈ بریکر اور بسا اوقات خود حادثے کے شکار افراد کی غلطی بھی حادثے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس معاملے میں قرآن مجید کے منشا کی تعیین بھی ضروری ہے۔ یعنی کیا قرآن مجید کسی اقدام میں غلطی کی بنا پر قتل کرنے والے پر دیت واجب کرتا ہے یا اس شخص کو بھی دیت ادا کرنے کے لیے کہتا ہے جس سے کوئی شخص بس کسی وجہ سے قتل ہو جائے؟ 

ہمارے نزدیک دیت کی مقدار اور جرم کی نوعیت اور اس کے شرکا اور عوامل کو طے کرنے کا اختیار یا تو عدالت کو دیا جائے یا مقننہ اس سارے معاملے کا ازسر نو جائزہ لے اور اس کی مختلف صورتیں معین کر کے دیت اور سزائیں تجویز کرے۔ علاوہ ازیں، اس معاملے میں جرم اور اس کی سزا اور مقتول یا زخمی کے ورثا کے لیے مناسب مالی معاونت کو الگ الگ متعین کرنے سے اس معاملے کی بیش تر مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔

[۱۹۹۱ء]

___________________

B