اجتہاد کی حقیقی غرض صرف پرورد گار عالم کے منشا کی تعیین ہے۔نئے مسائل اور نئے حالات میں اس سے مقصود اس راہ کی تلاش ہے، جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہو۔ کوئی اجتہادی رائے اسلامی شریعت کے مزاج، اس کے پیش نظر اہداف و مقاصد اوراس کی مسلمہ ہیئت کو نظر انداز کرتے ہوئے قائم نہیں کی جا سکتی۔
بعض دانش ور حضرات کی طرف سے، وقتاً فوقتاً، یہ بات سامنے آتی رہتی ہے کہ دین کے احکام و قوانین کا منشا اگر پورا کر دیا جائے تو اتباع قرآن و سنت کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ دینی احکام اوران پر عمل درآمد کی وہ صورتیں بھی اختیار کی جائیں جو قرآن مجید اور سنت ثابتہ سے معین ہوتی ہیں۔
ہمارے نزدیک ان ارباب دانش کا یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔ دین صرف چند اصولوں ہی کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ عقائد سے لے کر منہاج عمل تک فکرو عمل کے ہر پہلو کی صورت گری کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند عقائد اور انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق چند اصولوں ہی کو منوانے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے، بلکہ اپنے ساتھ ایک شریعت بھی لائے تھے، جو عبادات، معاملات، خاندان، معاشرے اور ریاست کو ایک خاص ڈھب پر استوار کرتی ہے۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم دین کے معاملے میں اس کے سارے اجزا سمیت ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ کے آغاز میں طعام و نکاح کے طیب و خبیث کی ابتدا ’یا ایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود‘(اے ایمان والو، اپنے عہد و پیمان پورے کرو) سے کی اور پھر نماز کے لیے طہارت کے مسائل بیان کرتے ہوئے اس سلسلے کو ان الفاظ پر ختم کیا:
وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہِٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.(المائدہ۵: ۷)
’’ اور اپنے اوپر اللہ کے فضل اور اس کے میثاق کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا، جبکہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سینوں کے بھیدوں سے بھی باخبر ہے۔‘‘
اس ترتیب بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ہم شریعت اسلامی سے اعراض کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھے ہوئے میثاق کو توڑنے کے مجرم قرار پائیں گے۔ ریاست کے صاحبان امر کے لیے قرآن مجید کی یہ وعید تو اس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے کہ:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۴)
’’اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں تو یہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
اجتہادی امور کا دائرہ بہت وسیع ہے اورہم اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ ہر تحقیق اور ہر اجتہادی نقطۂ نظر پر نظر ثانی کا اصول تسلیم کیا جائے۔لیکن ارباب دانش کی یہ بات کسی طرح بھی تائید کی مستحق نہیں۔ ان کی بات اگر تسلیم کر لی جائے تو دین اپنی متعین صورت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے، نماز کا مقصود اصلی یاد الٰہی ہے۔ یاد الٰہی کے لیے دوسری صورتیں بھی تجویز کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کیا نماز کی صورت میں موجود عبودیت کا رنگ، اس کی اجتماعی ہیئت، معاشرے اور تمدن پر اس کے ہمہ گیر اثرات اور خود اسلام اور مسلمان کی شناخت کو باقی رکھنا ممکن ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کا ہر حکم اور ہر قانون متعین اصولوں اور اعلیٰ اہداف کے حصول کی حکمت پر مبنی ہے۔ مثلاً، جرم و سزا کے باب میں قرآن و سنت میں موجود ہدایات، بلاشبہ، ریاست میں عدل و انصاف اور امن و سکون کی فضا قائم کرنے کے لیے ہی جاری ہوئی ہیں۔ لیکن دین کے ذر یعے سے فرد کے داخل اور خارج اور اس کے گھر، معاشرے اور ملک میں جو تبدیلیاں آتی ہیں، وہ صرف اصولوں ہی کے ذریعے سے ممکن نہ تھیں۔ اسی طرح فرد کے سامنے چند عمدہ مقاصد کو رکھ دینے سے وہ انقلاب نہیں برپا ہو سکتا، جس کو اسلامی انقلاب قرار دیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ پورے دین کو اختیار کیے بغیر چارۂ کار ہی نہیں۔ البتہ نئے مسائل اور نئے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے خود قرآن و سنت نے بعض معاملات میں قانون سازی کا اختیار دے کر اور بعض کے بارے میں خاموشی اختیار کر کے ہمارے لیے قیاس و اجتہاد کا باب وا رکھا ہے۔
[۱۹۹۱ء]
___________________