HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Talib Mohsin

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اہل تشیع سے شادی اور طلاق

سوال: میں اہل سنت میں سے ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے ایک اہل تشیع سے شادی کی تھی۔ شادی کے سات سال بعد میرے شوہر نے کسی وجہ سے مجھے اہل سنت کے طریقے پر بذریعہ عدالت طلاق دے دی۔ میں نے اپنے مسلک کے مطابق یہ طلاق قبول بھی کر لی۔

بہت سے مفتی کہتے ہیں کہ شیعہ سنی شادی جائز ہی نہیں ہے۔ میری ایک بیٹی بھی ہے، کیا وہ ناجائز ہے؟

اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی، کیونکہ میرے مسلک کے مطابق ایسے طلاق نہیں ہوتی۔ اب میرے شوہر رجوع کرنا چاہتے ہیں۔ اہل تشیع ائمہ کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔

اگر میں اپنے شوہر کے پاس واپس جانا چاہوں تو مجھے کیا کرنا ہو گا؟

مزید یہ بھی بتائیے کہ کیا شیعہ مسلمان نہیں ہیں؟ (صبا حیدر)

جواب: یہ درست ہے کہ ہمارے نزدیک بعض شیعہ عقائد قرآن مجید کی صریح تعلیمات کے منافی ہیں، لیکن صدیوں سے انھیں امت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے ان کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق جائز ہی قرار دیا جائے گا۔ اگرچہ دینی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم مشورہ یہی دیتے ہیں کہ ایسی شادی نہ کی جائے، لیکن اگر اس طرح کی شادی ہو چکی ہو تو وہ جائز شادی ہے۔

آپ نے لکھا ہے کہ آپ کو طلاق عدالت کے ذریعے سے دی گئی۔ عدالت کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ ایک ماہ میں ایک طلاق واقع کرتی ہے اور اس دوران میں فریقین کے درمیان موافقت کی سعی کرتی ہے، لیکن اگر موافقت نہ ہو تو تیسرے مہینے تیسری طلاق واقع کر دیتی ہے۔ ہمارے نزدیک بھی یہ طریقۂ کار غلط ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس طریق کار کو اختیار کرنے کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے۔ واضح شعور کے ساتھ تین طلاقیں اگر دے دی گئی ہیں۔ اگرچہ وہ غلط طریقے ہی سے دی گئی ہوں۔ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔

حلالہ ہر لحاظ سے ایک حرام کام ہے۔ اب آپ کے پاس اپنے سابقہ شوہر کے پاس واپس جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ہاں آپ کسی دوسرے آدمی سے باقاعدہ شادی کر لیں، وہاں سے آپ کو طلاق ہو جائے یا وہ شوہر فوت ہو جائے تو آپ کے لیے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے کا موقع پیدا ہو جائے گا، لیکن یہ سرتاسر قدرت پر منحصر ہے۔ ہمارے نزدیک پہلے سے طلاق کا فیصلہ کرکے نکاح کرنا درست نہیں ہے۔ حلالے میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

باقی رہا اہل تشیع حضرات کا فتویٰ تو جب تک ان کے دلائل سامنے نہ ہوں کوئی راے دینا موزوں نہیں ہے۔ آپ اگر اہل تشیع کے فتوے پر عمل کریں گی تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ قرآن مجید میں طلاق دینے کا قانون یہ بتایا گیا ہے کہ طلاق دینے کے بعد شوہر کو تین حیض تک یہ حق حاصل ہے کہ وہ رجوع کر لے۔ تین حیض گزر جائیں تو عورت آزاد ہو جاتی ہے۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے، یعنی اس شوہر کے ساتھ بھی اور کسی اور شخص کے ساتھ بھی۔ اگر شوہر نے تین حیض کے عرصے میں رجوع کر لیا تو رجوع ہو جائے گا اور وہ میاں بیوی کے طور پر رہنے لگیں گے۔ قرآن مجید نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس طرح کی طلاق شوہر اپنی بیوی کو صرف دو بار دے سکتا ہے، یعنی وہ طلاق جس میں عدت کے دوران رجوع ہو سکے اور عدت کے بعد نکاح کی گنجایش ہو۔ پھر قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اگر شوہر تیسری بار طلاق دے دے تو شوہر کے رجوع کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور اب اس شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا، الاّ یہ کہ عورت دوسری شادی کے بعد مطلقہ یا بیوہ ہو جائے۔اس قانون کی روشنی میں آپ شیعہ فتویٰ کا درست یا غلط ہونا سمجھ سکتی ہیں۔ میرے علم کی حد تک ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس کی رو سے اس طلاق کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

آپ کی یہ پریشانی کہ آپ کی بچی اپنے باپ سے بہت پیار کرتی ہے، اس لیے رجوع کی کوئی صورت نکلنی چاہیے۔ آپ کی بیٹی کا اپنے باپ سے جو رشتہ ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، لیکن اس مسئلے کا یہ حل کہ آپ دوبارہ میاں بیوی بن جائیں، قرآن مجید کے بتائے ہوئے قانون کی رو سے ممکن نہیں ہے۔

شیعہ حضرات کو کافر قرار دینا ایک غلط عمل ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم شیعہ کے عقائد کی غلطی واضح کرتے رہیں۔ اللہ جس کو توفیق دے ،وہ راہ راست اختیار کرے۔

____________

B